اس نے تھکے ہوئے انداز میں نوب پر ہاتھ جما کر کمرے کا لاک کھولا اور اندر آگیا۔ شا م ڈھل چکی اور تاریکی کا راج تھا۔ کھڑکیوں پر پردے استادہ تھے۔
سفیر نے لائٹ آن کی اور دائیں جانب رکھی رائٹنگ میز کے قریب آگیا اور کندھے سے بیگ اتار کر میز پر رکھ دیا۔ جب یک دم ہی اسے شدید خنکی کا احساس ہوا ،تو وہ اپنے ہاتھوں رگڑتا کمرے کے وسط میں بنے آتش دان کے نزدیک آگیا۔ قریب رکھے اسٹینڈ سے چند لکڑیاں اٹھا کر آتش دان میں ڈالیں اور انہیں سلگانے لگا۔ جب وہ اچھی طرح سلگ گئیں تو آتش دان کے سامنے فرش پر بچھے میٹ پر بیٹھ گیا۔
”اب کیا کروں؟“وہ خود سے مخاطب اور کسی گہری سوچ میں گم تھا۔
”کیا میں مذہب کو پڑھ سکتا ہوں؟“
”کیا اس پر عمل کرسکتا ہوں؟“
”اور مذہب کیا ہے۔ ”خدا۔“ وہ خدا جس سے میں بائیس سال سے ہم کلام نہیں ہوا۔ کیا میں اس سے بات کرپاﺅں گا اور بات کرکے حاصل کیا؟ جواب تو اس نے مجھے اس دن بھی نہیں دیا تھا جب شہمین مجھ سے جدا ہوئی تھی۔ تو وہ اب کیوں دے گا؟“
”پھر وہ مجھ سے یہ سب کیوں کروانا چاہتی ہے؟“
”کیا مجھے اسے سمجھانا چاہیے کہ میں یہ نہیں کرسکتا، لیکن اگر وہ خفا ہوگئی اورمیرے ساتھ نکاح سے انکار کردیا، تو؟ نہیں میں اس کے بغیر نہیں رہ سکتا۔“
وہ شدید اضطراب میں اپنے بالوں کو مٹھیوں میں بھینچنے لگا۔ اُسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ اب کیاکرے۔ وہ گلی جس میں اس نے بائیس سال سے قدم نہیں رکھا تھا اس کی جانب اب قدم بڑھائے تو کیسے؟ جب کہ وہ عہد کرچکا تھا کہ اب کبھی اس گلی میں پلٹ کر نہیں جائے گا۔ وہ آتش دان کے بے حد نزدیک بیٹھا تھا، مگر اس کے باوجود اس کے جسم میں واضح کپکپاہٹ تھی۔ اسے شدید ٹھنڈ کا احساس ہورہا تھا جس سے بچنے کے لیے اس نے اپنے ہاتھ بغلوں میں دبا لیے۔
”میں بائیس سال بعد کیسے اس سے بات کروں گا؟ میں کیا کروں۔ وہ مجھے چھوڑ جائے گی۔ میں نہیں کرپاﺅں گا۔“ وہ لرزتی زبان سے مستقل بڑبڑارہا تھا، ٹھنڈ کا احساس بھی لمحہ لمحہ بڑھتا ہی چلا جارہا تھا۔
سفیر نے بیڈ پر پڑے بلینکٹ کو دیکھا۔ وہ محض چند قدموں کے فاصلے پر تھا، مگر سفیر میں اس وقت اتنی بھی ہمت نہیں تھی کہ وہ یہ طے کرپاتا۔ اس نے بیڈ سے نظریں ہٹا کر دروازے کی جانب دیکھا باہر سے امل اور سیف کی باتیں کرنے کی آوازیں آرہی تھیں۔ سفیر نے انہیں آواز دینی چاہی، مگر اپنی ابتر حالت کی وجہ سے اتنی تیز آواز نہیں نکل پارہی تھی کہ وہ کمرے سے باہر جاتی۔ اُس نے آواز دینے کا ارادہ ترک کرکے اٹھنے کی سعی کی، مگر وہ اپنے دہکتے جسم اور چکراتے سر کی بدولت اُٹھ بھی نہیں پارہا تھا۔ اس نے اپنے ڈوبتے حواس اور اپنی آنکھوں کو ایک بار پھر کھول کر بہ مشکل بیڈ کی جانب دیکھا۔ وہ فاصلہ اب بھی محض چند قدموں کا ہی تھا، مگر یک دم ہی سفیر کی آنکھوں سے بیڈ کی رنگین چادر کا منظر نکل کر مکمل اندھیرے میں تبدیل ہوگیا۔
٭….٭….٭