المیزان

”Tell me about any suitable time when we talk.“ 

شہمین کے ہاتھ میں پکڑے موبائل میں سفیر کے نام سے انباکس کھلا تھا۔ اس نے میسج پڑھ کر مسکراتے ہوئے write new کے آپشن پر کلک کیا اور ایک نیا صفحہ اس کے سامنے کھل گیا۔ وہ اب کی پیڈ پر انگلیاں چلاتی میسج ٹائپ کررہی تھی۔

“At Night.” اس نے میسج لکھ کر سینڈ کا بٹن دبایا پھر موبائل سائیڈ ٹیبل پر رکھ دیا۔ وہ اس وقت اپنے کمرے میں موجود تھی جس کا نقشہ ڈیڑھ ماہ قبل (جب سفیر یہاں تھا) کے نقشے سے بالکل مختلف تھا۔ وہ اب بیڈ پر اپنے برابر میں کھلی رکھی کتاب کی جانب متوجہ ہوچکی تھی، مگر اس کا دھیان کتاب میں نہیں لگ رہا تھا۔ اس نے گردن موڑ کر موبائل کو دیکھا اس کی اسکرین اب بھی تاریک تھی۔

یہ میں کیا کررہی ہوں؟

کیا کرنا چاہتی ہوں؟

کیا مجھ سے ہورہا ہے۔

اور مجھے کیا نہیں کرنا چاہیے؟ مجھے کسی بات کی کچھ سمجھ نہیں آرہی؟وہ یک دم ہی کتاب بند کرکے اپنا سر دونوں ہاتھوں میں تھامے بڑبڑائی تھی۔ وہ بے حد مضطرب لگ رہی تھی۔

پھر اچانک ہی اُسے کچھ خیال آیا اور اُس نے اپنی گردن پر ہاتھ پھیرا۔ سفیر کی دی ہوئی چین اُس کے گلے میں نہیں تھی جو گزشتہ ڈیڑھ ماہ سے اس کے گلے میں ہی رہتی تھی۔ البتہ وہ اس کے دیے ہوئے بریسلٹ کو نہیں پہنتی تھی کیوں کہ وہ بے حد نازک تھا اور پہلے ہی ایک بار ٹوٹ چکا تھا۔

وہ پریشانی کے عالم میں بیڈ سے اٹھی اور ڈریسنگ ٹیبل کی درازوں میں چین ڈھونڈنے لگی۔

کہاں چلی گئی؟وہ ساتھ ہی ساتھ بڑبڑا بھی رہی تھی۔ پھر وہ اپنے بالوں کو لپیٹ کر جوڑے میں کرتی الماری کے قریب آگئی۔ اس نے الماری کی ساری درازیں چھان ماریں، مگر چین کہیں نہیں ملی تھی۔ اس نے ایک ایک کرکے کمرے کی ہر چیز کھنگال لی، مگر اُسے وہ چین کہیں نہیں ملی، تو بالآخر وہ نڈھال سی بستر پر گرگئی اور گھٹنوں کے گرد بازو جمائے سرگھٹنوں میں دیے سسکنے لگی جب اسے اپنے کمرے کے باہر سے مسعود خان کی آتی آواز سنائی دی۔

جانِ بابا ۔ کیا آج رات کا کھانا نہیں دوگی ہمیں؟دروازہ کھلا ہونے کے باعث وہ کمرے میں ہی آگئے تھے۔ شہمین نے ان کی آواز سن کر بھی نہ تو خاموش ہونے کی کوشش کی تھی نہ ہی اپنا چہرہ چھپانے کی۔ وہ اس کا باپ تھا اس دنیا میں اس کا سب سے بڑا مسیحا۔ وہ اُن سے اپنی تکلیف کیوں چھپاتی اور اگر اُن سے چھپاتی تو بتاتی کس کو؟ باہر کے اجنبی لوگوں کو جو انسان کے چوکنے پر گھات لگائے بیٹھے ہوتے ہیں کہ وہ چوکے اور ہم اُسے دبوچیں ۔

کیا ہوا جان بابا۔وہ دوڑتی ہوئی ان کے سینے سے آلگی۔ مسعود خان اس کے آنسو دیکھ کر متفکر ہوکے بولے۔

بابا میری چین کھوگئی ہے؟اس نے ان کے سینے سے لگے سسکتے ہوئے کہا۔ مسعود خان اس کے بالوں پر نرمی سے ہاتھ پھیرتے ہوئے سرجھٹک کر مسکرائے۔

مجھے اُسے ڈھونڈ کردیں؟وہ ان کے سینے سے الگ ہوکر ان کا چہرہ دیکھتے ہوئے بے حد مان سے بولی۔

یہ اولاد بھی نہ ماں باپ سے کیا کیا کروالیتی ہے۔مسعود خان نے من ہی من سوچتے ہوئے اپنی آستین سے بیٹی کے آنسو صاف کیے پھر اس کے ماتھے پر بوسا دے کر بولے۔

آپ یہاں بیٹھیں ہم ابھی ڈھونڈ دیتے ہیں۔مسعود اسے بیڈ پر بیٹھا کر کمرے کی بکھری چیزیں سمیٹتے ہوئے ، وہ چین ڈھونڈنے لگے جو انہیں چند لمحوں بعد ہی ڈریسنگ ٹیبل کی سائیڈ میں گری مل گئی۔ وہ اُسے اٹھا کر شہمین کے قریب آگئے۔

یہ تھی جانِ بابا۔انہوں نے چین شہمین کی جانب بڑھائی۔ جسے دیکھ کر شہمین کی آنکھوں میں یک دم ہی وہ چمک ابھری تھی جس نے لمحہ بھرکے لیے مسعود خا ن کی آنکھوں کو چندھیا دیا تھا ۔ وہ اچانک ہی بے حد مضطرب سے ہوگئے۔

جی یہ ہی ہے۔ تھینکس بابا۔وہ ان کے ہاتھ سے چین لے کر دوبارہ ان کے سینے سے جالگی اور مسعود خان اب بھی شدید اضطراب کا شکار تھے۔

٭….٭….٭

Loading

Read Previous

گل موہر اور یوکلپٹس

Read Next

اوپرا ونفرے

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!