یہ ایک نائٹ کلب تھا جس کے وسط میں رکھے صوفے پر ایک لڑکی اپنی دو دوستوں کے ساتھ بیٹھی سامنے بنے بار کارنر کے پاس کھڑے لڑکے کو حیرت سے تک رہی تھی۔ اس لڑکے کے ہاتھ میں وائن کا گلاس تھا جس میں ڈلی برف کو وہ وقتاً فوقتاً اپنے ہاتھ کی جنبش سے ہلا رہا تھا۔
”وقت گزرتا جارہا ہے اور میرے ہاتھ اب بھی خالی ہیں…. میں کب اُن Differences کو ڈھونڈ پاﺅں گا۔“ سفیر نے بار کارنر پر گلاس ٹکاتے ہوئے کرب سے سوچاتھا۔ وہ آج اپنے دوستوں کے اصرار پر کلب آ تو گیا تھا، مگر اس کا دل ہر چیز سے اچاٹ تھا۔ اس نے گلاس دوبارہ اٹھا کر لبوں سے لگایا تھا۔ تب ہی ڈانس فلور پر رقص کرتی اس کی ایک دوست تیزی سے اس کی جانب آئی اور اس کا ہاتھ تھامے اسے ڈانس فلور پر لے آئی۔ سفیر بے زار سا اس کے ساتھ وہیں کھڑا ہوگیا۔ وہ لڑکی اب کبھی اس کے گلے میں بانہیں ڈال رہی تھی، تو کبھی اس کی کمر میں۔ سفیر وہاں سے ہٹنا چاہ رہا تھا، لیکن وہ اُسے چھوڑ ہی نہیں رہی تھی۔
کلب کے وسط میں رکھے صوفے پر بیٹھی ضوٹی ابھی بھی عجیب نظروں سے ڈانس فلور پر کھڑے سفیر کو تک رہی تھی۔
٭….٭….٭