المیزان

چند روز بعد ضوٹی سے اس کی دوسری ملاقات آڈیٹوریم میں ہوئی تھی۔ کوئز کی تیاری کے لیے انہیں لمبا وقت ملا تھا اس لیے وہ لوگ دن چھوڑ چھوڑ کر تیاری کررہے تھے۔ آڈیٹوریم میں بیٹھے رسمی علیک سلیک کے بعد وہ لوگ کوئی ٹاپک پڑھ رہے تھے جب ضوٹی یک دم ہی بولی تھی۔

کل میری شہمین سے بات ہوئی تھی۔سفیر کا پیج اسکرولنگ کرتا ہاتھ یک دم ہی ٹھہر گیا تھا۔

کافی خوش لگ رہی تھی وہ، اس کی بڑی بہن آئی ہوئی تھی رکنے کے لیے۔ضوٹی اس کو متوجہ دیکھ کر مزید بولی تھی ۔ سفیر کی ہاتھ میں پکڑے ماس پر گرفت مضبوط ہوئی تھی جولیپ ٹاپ کے ساتھ تار جڑا ہوا تھا۔

وہ کل شام سے شہمین کو میسجز اور کال کررہا تھا مگر اس نے دونوں میں سے ایک کا بھی جواب نہیں دیا تھا۔ اس کو اب یک دم ہی غصہ آنے لگاتھا۔

میرے لیے اس کے پاس وقت نہیں ہے اور دوست کے لیے مل گیا اُسے وقت۔وہ من ہی من میں بڑبڑایا تھا پھر اس نے سراٹھائے بغیر ضوٹی سے پوچھا۔

میرے متعلق کوئی بات کی اس نے؟اس کا لہجہ آج بھی سپاٹ تھا۔ ضوٹی اس کے موڈکا اندازہ نہیں لگا سکی۔

نہیں۔وہ بہ غور اس کے چہرے پر نظریں جمائے بولی، جہاں یک دم ہی تکلیف ابھری تھی جسے دیکھ کر ضوٹی کے دل کو کچھ ہوا۔

تم محبت کرتے ہو اس سے۔ضوٹی کا دل لاشعوری طور پر تیز دھڑکنے لگا تھا۔ اسے سفیر کی اس شام کی حالت بھی یاد آرہی تھی۔

نہیں۔وہ کہہ کر ٹھہرا تھا۔ ضوٹی کی آنکھوں میں چمک ابھر آئی تھی۔

وہ Addiction ہے میری۔اس کی آنکھوں کی چمک واپس معدوم ہوگئی تھی۔

”Addiction؟‘ ‘ اس نے سوالیہ ابرو اچکائی تھی۔

ہاں۔سفیر محض ہاں کہہ کر خاموش ہوگیا جب اُن دونوں کو ان کے عقب سے کسی کی پکار سنائی دی تھی۔

“Hello sweet heart.” وہ بے حد بولڈ ڈریسنگ کیے لال بالوں والی ایک لڑکی تھی جو ان کی جانب ہی چلی آرہی تھی۔ قریب پہنچنے پر اس نے جھک کر سفیر کے گال پر بوسا دیا اور بڑی ادا سے بولی۔

تم اتنے دن سے کہاں ہو۔ کلب بھی نہیں آئے۔ضوٹی بھونچکاسی اسے دیکھتی رہ گئی۔ سفیر نے بھی اپنے سپاٹ چہرے کے ساتھ نگاہ اٹھا کر اس کی جانب دیکھا۔ پھر اپنی شرٹ کی اوپری جیب سے رومال نکال کر اپنے گال کے اس حصے کو جہاں کرسٹی نے بوسا دیا تھا۔ صاف کرتے ہوئے دوٹوک لہجے میں بولا۔

مجھے اب تمہاری ضرورت نہیں ہے۔ اس لیے بہتر ہوگا آئندہ تم مجھے پریشان نہ کرو۔کرسٹی سفیر کی ایکس گرل فرینڈ تھی جو اس وقت ہتک کے احساس سے سرخ پڑنے لگی تھی۔

کیا؟شدید حیرت سے بے ساختہ اس کے منہ سے نکلا۔ سفیر اسے دوبارہ کوئی وضاحت دینے کے بجائے بے نیاز سا نیچے اسکرین پر نظریں جمائے اپنے رُکے ہوئے ہاتھ کو واپس حرکت میں لے آیا تھا۔

کرسٹی دو ایک منٹ تو وہیں کھڑی رہی پھر سفیر کو دو چار باتیں سناکر پیر پٹختی ہوئی آگے بڑھ گئی۔ ضوٹی کی حیرت ابھی تک ختم نہیں ہوئی تھی وہ بت بنی سفیر کو تک رہی تھی۔

٭….٭….٭

Loading

Read Previous

گل موہر اور یوکلپٹس

Read Next

اوپرا ونفرے

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!