وہ پچھلے ایک گھنٹے سے بیٹھا اپنے ہاتھ میں تھامے اس چوڑی پٹی والے فوٹو فریم میں لگی تصویر کو تک رہا تھا۔ پھر اس نے تھکے ہوئے انداز میں ایک گہری سانس بھری اور اس فوٹو فریم کو اپنے بیڈ کے ساتھ رکھی چھوٹی میز پر رکھ دیا۔ بالکل اسی انداز میں جیسے مسعود خان کے کمرے کی چھوٹی میز پر ایک فوٹو فریم رکھا تھا۔ پھر اس نے اپنا موبائل اٹھا کر شہمین کا میسج نکالا۔ جو اسے کافی دیر پہلے موصول ہوا تھا اور اس وقت سے سفیر اسے وقتاً فوقتاً کھولتا، پڑھتا، چومتا اور پھر واپس بند کرتا رہا تھا۔ وہ اس وقت بھی یہی کررہا تھا اس نے اُس یک لفظی جواب “Ok” کو پڑھا، چوما اور پھر موبائل رکھ دیا۔ وہ اب اپنا موبائل جینز کی جیب میں رکھ کر بیگ کندھے پر ڈالے کمرے سے باہر آگیا۔ باہر ذونی احمد عبادت میں مصروف تھیں اور امل ، سیف اور مبشر احمد اپنی اپنی منزل کی جانب روانہ ہوچکے تھے۔ سفیر بھی تیز چلتا گھر سے باہر آگیا۔ اس نے آنکھوں پر سن گلاسز چڑھائے اور پھر کچھ فاصلے پر کھڑی اپنی موٹر سائیکل پر بیٹھ گیا۔ موٹر سائیکل اسٹارٹ کی پھر انتہائی رش ڈرائیو کرتا یونیورسٹی روڈ پر آگیا۔
”ہیلو ۔“ یونیورسٹی پہنچنے کے کچھ دیر بعد وہ اپنے ایک کلاس فیلو کے ساتھ کیفے ٹیریا پہنچا۔ جب ایک میز کے سامنے کھڑے اسے اپنے عقب سے کوئی شناسائی آواز سنائی دی۔ سفیر نے اپنے دوست سے معذرت کرکے مڑکر دیکھا۔ وہ گوری رنگت اور سنہری بالوں والی لڑکی تھی جو مسکراتی ہوئی اس کی جانب دیکھ رہی تھی۔ سفیر اپنے دوست کے پاس سے ہٹ کر اس کے نزدیک آگیا۔
”ہیلو۔“ سفیر نے اپنے مخصوص دھیمے لہجے میں کہا۔ وہ ضوٹی پر پہلی نگاہ پڑتے ہی اسے پہچان گیا تھا اور کیوں نہ پہچانتا وہ اس کی محسن جو تھی۔
”آپ نے پہچانا مجھے؟“ اس کے چہرے پر ابھی بھی دھیمی مسکراہٹ تھی۔
”جی۔“ وہ مختصراً بولا۔ اس کا چہرہ بالکل سپاٹ تھا۔ ضوٹی کی مسکراہٹ سمٹی۔ اس نے فوراً مدعے پر آنا بہتر سمجھا۔
”اصل میں، میں ایم۔ ایس فائنل ائیر کے سفیر احمد کو ڈھونڈ رہی تھی۔“
”سفیر احمد۔“ یہ لفظ ادا کرتے ہوئے اس کے لہجے میں بے حد احترام تھا۔ وہ آگے مزید بول رہی تھی۔
”کوئز کمپٹیشن میں میری اس کے ساتھ پیئرنگ ہوئی ہے۔ وہ شاید آپ ہی کہ بیج کا ہے۔ کیا آپ مجھے اس سے ملواسکتے ہیں؟“ سفیر نے خاموشی سے اس کی ساری بات سنی تھی۔ اس کوئز کمپٹیشن کے متعلق اس کا دوست یونیورسٹی آتے ہی اسے بتا چکا تھا۔ یہ کمپٹیشن کمپلسری تھا۔ اس لیے سفیر اسے چھوڑ نہیں سکتا تھا۔
”میں ہی ہوں ۔ ایم ایس فائنل ائیر کا سفیر احمد۔“
”اوہ۔“ ضوٹی کو خوش گوار حیرت ہوئی تھی۔ ا س نے لاشعوری طور پر اپنے منی اسکرٹ کو کھینچ کر لمبا کرنے کی کوشش کی تھی۔
”میں ضوٹی ہوں ۔ بی ۔ ایس فائنل ائیر کی اسٹوڈنٹ اور شہمین کی بہت اچھی دوست۔“ ضوٹی نے بڑے خوش گوار انداز میں اپنا تعارف کروایا تھا۔ شہمین کا نام سن کر سفیر کے دل کو کچھ ہوا تھا۔
”اُف شہمین۔“ اس نے سوچتے ہوئے سرجھٹکا تھا۔
”آئیں ہم ایک مرتبہ بیٹھ کر ٹاپکس دیکھ لیتے ہیں۔“ سفیر شہمین کے ذکر کو نظر انداز کرکے اس سے کہہ کر اپنے عقب میں رکھی میز کی سمت بڑھ گیا تھا۔ ضوٹی کو تھوڑا عجیب لگا تھا مگر اس نے کوئی ردِعمل نہیں کیا بلکہ وہ خاموشی سے چلتی اس کے سامنے رکھی کرسی پر آکر ٹک گئی تھی۔
”آپ کی ملاقات نہیں ہوئی اس سے؟“ سفیر اپنے ہاتھ میں موجود ٹاپک کی لسٹ کھول رہا تھا جب ضوٹی نے ایک بار پھر کوشش کی تھی۔ سفیر نے ہاتھ روک کر نظریں اٹھا کر اسے دیکھا۔
”ہوگئی۔“ اس کا انداز اتنا نپاتلاتھا کہ ضوٹی چاہ کر بھی مزید کوئی بات نہ کرسکی۔
”پہلے یہ والا ٹاپک دیکھ لیتے ہیں۔“ سفیر نے لسٹ میں موجود ایک ٹاپ کی سمت اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا۔ ضوٹی نے اس بار محض اثبات میں گردن ہلادی تھی۔ سفیر نے بیگ سے اپنا لیپ ٹاپ نکال کر اسے اپنے سامنے میز پر رکھ کر کھولا تھا۔ وہ سرچ بار میں کچھ لکھ رہا تھا جب ضوٹی نے نیچے پیج پر موجود کسی نتیجے کی سمت اشارہ کرنے کے لیے ہاتھ آگے بڑھایا تھا اور بے دھیانی میں اس کا ہاتھ سفیر کے ہاتھ سے ٹکراگیا تھا۔ ضوٹی نے یک دم ہی گھبرا کر اپنا ہاتھ پیچھے کھینچا تھا۔
”اوہ سوری۔“ وہ بے حد شرمندہ دکھ رہی تھی جبکہ سفیر نے ناسمجھی سے ابرو اچکائی تھی۔ وہ کچھ کہتے رکی تھی۔ اُسے سمجھ نا آیا کہ وہ کیا کہے تو وہ ”کچھ نہیں۔“ کہہ کر اپنے دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ کو مسلتی لیپ ٹاپ کی اسکرین دیکھنے لگی تھی۔ سفیر بھی سرجھٹک کر واپس لیپ ٹاپ کی سمت متوجہ ہوگیا تھا۔
٭….٭….٭