اس وقت رات کا آخری پہر چل رہا تھا ۔ اس کے کمرے کی کھلی کھڑکی کے باہر افق گہرا سرمئی تھا اور ہوا بھی بے حد سرد۔ جو کھڑکی کھلی ہونے کے باعث بڑی تیزی سے اندر تک داخل ہورہی تھی۔
کمرے کی تمام روشنیاں بجھی ہوئی تھیں اور وہ بیڈ کے پائنتی والے حصے سے ٹیک لگائے نیچے فرش پر بیٹھا تھا۔ اس کے دائیں ہاتھ میں موبائل تھا اور بائیں ہاتھ میں وائن کی کھلی بوتل۔ جس سے وہ وقتاً فوقتاً گھونٹ بھررہا تھا۔
امل رات تھوڑی دیر بعد ہی اس کے کمرے سے باہر چلی گئی اور اس وقت وہ کمرے میں بالکل تنہا تھا۔
سفیر نے پھر ایک گھونٹ بھرتے ہوئے موبائل پر میسج ٹائپ کیا۔
“Me at home honey!” پھر سینڈ کا بٹن دباکر میسج روانہ کردیا۔ اس نے آتے وقت شہمین سے اس کا نمبر مانگا تھا جو شہمین نے بغیر کوئی اعتراض کیے اسے دے دیا تھا۔ جب اس سے نکاح کا فیصلہ کرلیا تھا، تو نمبر تو ایک بے حد معمولی سی چیز تھی، مگر پھر بھی اس نے سفیر کو یہ جتادیا تھا کہ وہ ہر وقت موبائل پر Available نہیں ہوتی، اسے کم ہی جواب دے سکے گی۔
”کیا Differencesہیں اس کے اور میرے درمیان۔“ اس نے ہاتھ میں پکڑا موبائل فرش پر رکھ کر وائن کے مزید گھونٹ بھرتے ہوئے سوچا۔
اور پھر وہ اسی انداز میں بیٹھا رات دیر تک سوچتا رہا اور شراب پیتا رہا، مگر نہ اُسے کوئی Difference سمجھ آیا نہ ہی شہمین کا جواب آیا۔
٭….٭….٭