تیسرا باب:
وہ دائیں ہاتھ سے اپنی آنکھوں پر سن گلاسز چڑھاتا ائیرپورٹ سے باہر نکلا۔ موسم میں ہلکی خنکی تھی اس نے اپنا ایک ہاتھ جینز کی جیب میں ڈالا اور دوسرے ہاتھ سے ہینڈ کیری Revolve کرتا آگے بڑھا۔ کچھ فاصلے پر ہی اسے مبشر احمد کھڑے نظر آگئے تھے۔ وہ متوازن چال چلتا ان کے نزدیک آگیا۔
”Welcome back my son.“ مبشر احمد بازو پھیلا کر گرم جوشی سے بولے۔
”Thanks dad.“سفیر ان کے گلے لگ کر دھیما سا بولا تھا، ا س کے لہجے میں تھکن اتنی نمایاں تھی کہ دوسرے کسی جذبے کا کوئی احساس ہی نہیں ہو پارہا تھا جسے سن کر مبشر احمد کو شدید دکھ ہوا۔ وہ ان کی پہلی اولاد تھی اس کا دکھ انہیں ویسے بھی زیادہ محسوس ہوتا تھا۔ چند لمحوں بعد وہ ان سے الگ ہوا اور وہ دونوں خاموشی سے چلتے پارکنگ ایریا میں کھڑی اپنی گاڑی کی جانب آگئے۔
”سفر کیسا رہا تمہارا؟“ اگنیشن میں چابی گھما تے ہوئے مبشر احمد نے ہلکے پھلکے اندا ز میں بات کا آغاز کیا۔
”بے حد حسین۔“ وہ گزرے دنوں کو یاد کرکے گاڑی کے دروازے پر کہنی ٹکائے بولا۔ لہجہ اس کا اب بھی تھکن سے چور تھا۔
”تم تو کہہ رہے تھے اسے ساتھ لے کر لوٹو گے؟ پھر کیا ہوا؟“
”اس نے مجھ سے ایک سال کا وقت مانگا ہے۔ وہ ایک سال بعد مجھے اپنا فیصلہ سنائے گی۔“
”کیسا فیصلہ۔“
”یہ ہی کہ وہ مجھ سے نکاح کرے گی یا نہیں؟“
”نکاح!“ مبشر احمد کو حیرت ہوئی۔ وہ اپنے بیٹے کو جتنا جانتے تھے انہیں یقین نہیں تھا کہ وہ کبھی نکاح جیسے پیچیدہ تعلق قائم کرنے پر بھی رضا مند ہوگا اور یہاں تو وہ خود اتنی جلدی نکاح کی بات کررہا تھا۔
”جی۔“
”اتنا لمبا انتظار کرلوگے تم؟“ مبشر احمد نے بیٹے کی گزشتہ حالات کو یاد کرتے ہوئے پوچھا۔
”اور کوئی آپشن نہیں ہے میرے پاس۔“ وہ بے بس دکھائی دے رہا تھا۔ اس نے بات کرتے ہوئے عادتاً اپنے گلے کی طرف ہاتھ بڑھایا پھر یاد آنے پر کہ چین تو وہ اسے دے آیا ہے۔ اس نے ہاتھ واپس نیچے کرلیا۔ مبشر احمد نے ایک ترحم بھری نگاہ بیٹے پر ڈالی اور پھر بقیہ راستہ خاموشی سے طے کیا تھا۔ گھر پہنچ کر مبشر احمد نے گاڑی گیٹ کے ایک طرف پارک کی اور وہ دونوں آگے پیچھے چلتے ہوئے گھر کے مرکزی دروازے تک آگئے۔
وہ دروازہ گہرے سیاہ رنگ کا تھا جس کے برابر میں لگی تختی پر لکھا تھا۔
“Mubashir Ahmed Apartment”
مبشر احمد نے اپنی ڈریس پینٹ کی جیب سے چابی نکال کر دروازے کے لاک میں گھمائی اور کلک کی آواز کے ساتھ دروازہ کھلتا چلا گیا۔
بالکل سامنے ایک چھوٹا سا لاﺅنج تھا جس کے وسط میں ایک چھوٹا سا ہی اوپن کچن تھا جس کے دائیں سلیپ کے سامنے کوئی خاتون کھڑی سبزی کاٹ رہی تھیں۔ اور سامنے کے سلیپ کے آگے ایک بچی بیٹھی ان سے باتوں میں مصروف تھی۔ اس بچی کے بال بالکل سفیر جیسے ہی تھے۔ ہلکے براﺅن اور اب اس کے گیٹ کی جانب رخ کرنے پر اندازہ ہورہا تھا کہ اس کی آنکھیں بھی سفیر جیسی ہی تھیں، نیلی۔
”بھائی۔“ وہ چلا کر دوڑتی ہوئی اس کی جانب لپکی۔ سفیر اس سے ملنے کے لیے اپنے ہاتھ میں پکڑا ہینڈ کیری سائیڈ میں رکھتا اپنی جینز کو اونچا کرتا نیچے جھک گیا تھا۔
”کیسا ہے میرا بیٹا۔“ وہ امل کو بازوﺅں میں بھینچے پوچھ رہا تھا۔ امل سسکیاں بھرنے لگی۔ سلیپ کے پاس کھڑی ذونی احمد ابھی تک بھیگی پلکوں اور بے جان ہوتے وجود کے ساتھ وہیں کھڑی تھیں۔ البتہ مبشر احمد گھر کے اندر آکر دروازہ لاک کرچکے تھے۔
”بھائی تمہیں پتا ہے میں نے تمہیں کتنا مس کیا۔“ امل ہمیشہ کی طرح اس کی بات کو نظر انداز کرکے اپنی کہہ رہی تھی ۔ مبشر احمد ان دونوں کے پاس سے گزر کر بیوی کے نزدیک آگئے۔ وہ جانتے تھے اس وقت اُنہیں ان کی ضرورت تھی۔
”میں جانتا ہوں آپ نے بہت یاد کیا ہوگا۔“ وہ اس سے الگ ہوکر اس کا ماتھا چوم کر بولا۔
”پھر بھی تم چلے گئے تھے بغیر ملے ؟“ امل اس کے چہرے کو اپنے ننھے ننھے ہاتھوں میں لے کر خفا خفا سا بولی۔
”میرا جانا بہت ضروری تھا۔“ سفیر نے اس کے ماتھے پر پڑے بال سمیٹتے ہوئے کہا۔
”کیوں؟“
”بھائی بیمار تھا، اس لیے ڈاکٹر کے پا س گیا تھا۔“
”کسی نے مجھے کیوں نہیں بتایا تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔“ امل اپنی سرخ پڑتی نا ک چڑھا کر مزید خفا ہوئی تھی۔
”آپ پریشان ہوجاتی اس لیے۔“
”اب تمہاری طبیعت ٹھیک ہے؟“
”نہیں…. ابھی ڈاکٹر نے چیک اپ کرکے ایک دوا لکھ کر دی ہے کہا ہے ایک سال تک یہ ہی کھاﺅ پھر وہ دوبارہ چیک کرے گی۔“
”ایک سال یہ تو بہت لمبا عرصہ ہے بھائی۔“ امل اپنی نیلی آنکھوں کو حیرت سے پھیلائے بولی تھی۔
”میں نے بھی اس سے یہ ہی کہا تھا، مگر وہ بولی ایک سال کا انتظار لازم ہے۔“
”پھر تو تم ٹھیک ہوجاﺅگے نا؟“
”پتا نہیں۔ وہ تو ڈاکٹر چیک اپ کرکے بتائے گی۔“ سفیر کندھے اچکا کر بولا۔
”میں خد اسے دعا کروں گی تم ٹھیک ہوجاﺅگے بھائی۔“ وہ بے حد معصومیت سے کہتے ہوئے پھر اس کے گلے لگ گئی۔ سفیر نے خاموشی سے اثبات میں گردن ہلادی۔ وہ اس ایک لفظ ”خدا“ پر ایسے ہی خاموش ہوجایا کرتا تھا۔پھر اس نے امل کو خود سے الگ کرتے ہوئے کچن کاﺅنٹر کی سمت دیکھا، جہاں وہ دونوں اس کے منتظر کھڑے تھے۔ سفیر سپاٹ سے انداز میں واپس رخ موڑ کر امل کی انگلی تھامے اپنے کمرے کی سمت بڑھنے لگا۔ جب ذونی احمد عجلت میں آگے بڑھی تھیں۔
”بیٹا کھانا….“ وہ اپنے گلے میں اٹکتے گولے کوپیچھے دھکیل کر بہ مشکل بولی تھیں۔
”مجھے بھوک لگے گی تو خود لے لوں گا۔“ وہ بھی اپنے گلے میں اٹکتے گولے کو پیچھے دھکیل کر آگے بڑھنے لگا تھا، مگر پھر پتا نہیں کیا خیال آیا۔ وہ رُکا، پلٹا ماں کے نزدیک آیا اور جزبز سا ہوتے ہوئے ان کے ماتھے پر ایک بوسا دے کر تیزی سے اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا۔ ذونی احمد اور مبشر احمد دم بہ خود سے اسے دیکھ رہے تھے۔
”کیا یہ جو ہوا تھا یہ حقیقت میں ہوا تھا۔
٭….٭….٭