دوسرا باب:
وہ اس وقت بھی حسبِ معمول بیڈ کے کنارے بیٹھے ٹکٹکی باندھے اس چوڑی پٹی والے فوٹو فریم میں لگی تصویر کو تک رہے تھے جو ان کے بیڈ کے ساتھ رکھی ایک چھوٹی میز پر دھری تھی۔
یہ ان کا روز روز صبح و شام کا معمول تھا۔ دن شروع بھی اسی چہرے سے ہوتا اور ختم بھی اسی چہرے پر ہوتا تھا اور اس شروع اور ختم ہونے کے درمیان یہ چہرہ ان کے ذہن میں گھومتا رہتا تھا۔
یکدم ہی انہیں کوئی شبہ سا گزرا تھا۔ انہوں نے اپنی پتلی کمانی والی عینک کو درست کرتے ہوئے کچھ اور غور سے اس تصویر کو دیکھا۔
”یہ اکرم کا آج کل کام میں بالکل بھی دل نہیں لگتا۔ کتنی گرد ہے اس تصویر پر…. وہ کوئی خیال ہی نہیں کرتا۔“ وہ زیر لب بڑبڑائے تھے۔ پھر انہوں نے اپنی آستین سے پہلے سے صاف ستھرے فوٹو فریم کے شیشے کو بڑی احتیاط سے رگڑ ا پھر ہاتھ روک کر دوبارہ اس کا جائز ہ لینے لگے اور پھر پتا نہیں کتنی ہی دیر تک بے خیالی میں اسے تکتے رہے تھے۔
”صاحب ۔ کیا میں اند رآجاﺅں؟“ اکرم خان نے کمرے کے دروازے پر دستک دے کر سوال کیا، تو ان کی محویت ٹوٹی تھی۔
”ہاں اکرم میاں آجاﺅ۔ تم سے کون سا ہمارا کوئی پردہ ہے بلکہ تم تو ہمارے مشکل وقتوں کے ساتھی ہو۔تمہیں اجازت کی کیا ضرورت۔“ وہ مسکرا کر بولے۔
”صاحب کیا میں کھانا لگادوں ؟“ اکرم خان نے ان کی بات کا مفہوم سمجھ کر مسکرا کر پوچھا تھا۔ وہ جانتے تھے مسعود خان کا اشارہ ہاتھ میں پکڑی اپنی بیوی کی تصویر کی جانب تھا جسے وہ اپنی بیٹیوں کے سامنے ہاتھ میں نہیں لیتے تھے۔
”کیا وہ آگئی ہیں؟“ انہوں نے پوچھا۔
”نہیں…. لیکن بس پہنچنے والی ہوں گی۔“ اکرم خان نے انہیں بتایا۔
”تو صبر کرو اکرم میاں میری بچیوں کو کیا ٹھنڈا کھانا کھلاﺅگے۔“ مسعود خان نے مسکرا کر اُس کی طرف دیکھا۔
”ارے نہیں صاحب۔“ اکرم خان کھسیائے ہوئے انداز میں بولا۔ پھر وہ ان کے کمرے کا دروازہ بند کرکے واپس پلٹ گیا اور مسعود خان ایک بار پھر اس تصویر کی سمت متوجہ ہوگئے۔
”شاید تھوڑی گرد ابھی اور ہے۔“ وہ پھرزیر لب بڑبڑا کر دوبارہ اپنی آستین سے فریم کے شیشے کو رگڑ رہے تھے جب انہیں اپنے کمرے کی کھڑکی کے باہر سے اپنی گاڑی کے ہارن کی آواز سنائی دی۔ انہوں نے ہاتھ روک کر کھلی کھڑکی کی سمت دیکھا پھر بڑی تیزی سے فریم کو اس کی جگہ پر واپس رکھا کہ کہیں ان کے رکھنے سے قبل وہ دروازہ کھول کر کمرے میں ہی نہ آجائے۔
”بابا جان۔“ وہ کوریڈور سے ہی چلاتی ہوئی ان کے کمرے کی سمت دوڑی۔
”آگئی میرے گھر کی رونق۔“ وہ اب ان کے کمرے کا دروازہ کھول کر اندر آچکی تھی۔
”جی! اور آپ مجھے لینے کیوں نہیں آئے؟“ اس نے آتے ہی باپ کا بازو پکڑ کر اُن کی آستین سے ناک رگڑتے ہوئے شکوہ کیا۔
یہ اس کی بچپن کی عادت تھی، وہ کھیلتے کھیلتے رک کر باپ کے پاس جاتی اور ان کا بازو پکڑ کر جھولتے ہوئے ان کی آستین سے اپنی ناک رگڑنے لگتی پھر جب یاد آتا کہ میں تو کھیل رہی تھی، تو باپ کا بازو چھوڑ کر واپس کھیل میں لگ جاتی اور یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہتا۔
”بھئی یہ جو تمہاری بڑی بہن ہے نا۔ یہ ہم باپ بیٹی کی محبت سے سخت جلتی ہے۔ اس لیے ہمیں بتائے بغیر تمہیں لینے پہنچ گئی۔“ انہوں نے شہمین کو اپنے بازو سے علیحدہ کرکے سینے سے لگاتے ہوئے اس کے پیچھے کھڑی نین کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، تو وہ فوراً خفگی سے بولی۔
”بابا صرف یہ چڑیل آپ کی بیٹی ہے اور میں؟ ٹھیک ہے اب آپ چیس بھی اس کے ساتھ ہی کھیلئے گا۔“ اس کا منہ سخت پھول چکا تھا۔
”اوہو…. بھئی یہ تو بڑی سنگین دھمکی ہے۔ اس پر تو ایکشن لینا ہی پڑے گا۔“ مسعود خان نے نین کو دیکھ کر سوچنے کی اداکاری کی پھر بولے۔
”اچھا ایسا کرو تم بھی میرے گلے لگ جاﺅ۔“ نین نے ان کی بات پر سختی سے نفی میں گردن ہلا کر ان کے سامنے صوفے پر ٹکتے ہوئے کہا ۔
”نہیں بابا جان…. آپ کا جرم بڑا سنگین ہے۔ اس لیے صلاح کی گنجائش صرف ایک شرط پر نکلے گی۔“
”اور وہ کیا؟“ مسعود خان نے مسکرا کر پوچھا حالاں کہ وہ جانتے تھے کہ اب وہ یقینا کوئی پیسوں کی ڈیمانڈ کرے گی۔
”آپ مجھے شاپنگ کے لیے دس ہزار اضافی دیں گے۔“ وہ اس کی بات سن کر قہقہہ لگا کر ہنسے او ر ان کے سینے سے لگی شہمین نے اچک کر ان کے کان میں سرگوشی کی۔
”بابا یہ کتنی لالچی ہے۔“ مسعو د خان نے اسے آنکھوں سے چپ رہنے کا اشارہ کرتے ہوئے سامنے بیٹھی نین سے کہا۔
”ٹھیک ہے جانِ بابا…. پکا ۔ چلو اب تو آجاﺅ بابا کے پاس۔“ انہوں نے اس کے لیے اپنا بازو پھیلایا، تو وہ ماہ نین بھی فوراً ان کے سینے سے لگ گئی۔ جب اکرم خان نے آکر ایک بار پھر دروازے پر دستک دی۔
”آجاﺅ اکرم۔“ مسعود خان بولے تھے۔
”صاحب اب کھانا لگادوں۔“ اکرم خان نے پوچھا۔
”ہاں ۔ ہاں ۔ اکرم میاں کھانا بھی لگادینا پہلے یہ بتاﺅ شہمین سے ملاقات ہوگئی تمہاری اور جہاں آرا کی۔“
”جی بابا میں آتے ہی جہاں آرا اور اکرم چاچا سے مل لی تھی۔“ اکرم خان کے بولنے سے پہلے ہی شہمین بول پڑی۔
”ٹھیک ہے بھئی جب سب مل ملالیے ہیں، تو کھانا لگواﺅ، ہماری شہزادیاں کھانا کھائیں گی۔“
مسعود خان نے ان دونوں کو ساتھ لیے اٹھتے ہوئے اکرم خان سے کہا جو ”جی بہتر“ کہہ کر آگے بڑھ گیا۔
٭….٭….٭