”ڈیڈ میرے لیے کل کی Returnٹکٹ بک کروادیں ۔ میں کل واپس آرہا ہوں۔“ اس نے میسج لکھ کر سینڈ کیا اور لیپ ٹاپ پرے دھکیل دیا۔ سگریٹ منہ میں لیے وہ اپنی آنکھوں سے بہتا پانی صاف کررہا تھا۔
”کیسے رہوں گا اُس کے بغیر۔“ اس نے ڈوبتے دل کے ساتھ سوچا۔
٭….٭….٭
”یہ جہاں آرا کہاں ہے جو اتنی صبح صبح میر ی بیٹی کچن میں آگئی۔“ وہ انڈے کے لیے پیاز کاٹ رہی تھی جب مسعود خان کچن میں داخل ہوتے اس کے عقب سے بولے تھے۔ شہمین گیلی آنکھوں سے مسکرائی۔
”جہاں نظر نہیں آئی، تو میں نے سوچا خود ہی ناشتا بنالوں۔“
وہ سڑ سڑ کرتی ناک کے پانی پر قابو پاتے ہوئے بولی۔ مسعود خان نے اس کی پشت پر کھڑکی سے باہر باغ میں جھانکا جہاں آرا کام کرتے، اکرم خان باتیں کررہی تھی۔ وہ نرمی سے مسکرا دیے۔
”صحیح کیا آپ نے۔“ وہ ٹشو لیے اس کے نزدیک آگئے تھے۔ پہلے اس کی آنکھوں کی نمی صا ف کی پھر بقیہ بچے ٹشو سے اس کی ناک رگڑی۔
”بابا۔“ شہمین احتجاجاً بولی تھی۔
”فلائٹ ہے آج اس کی؟“ انہوں نے ٹشو ڈسٹ بن میں ڈالتے ہوئے پوچھا۔
”جی۔“ شہمین مختصراً انداز میں بولی۔ پھر کچھ خیال آنے پر ہاتھ روک کر مسعود خان کی جانب دیکھا۔ جو اس کے پاس ہی کھڑے تھے۔
”بابا۔“ اس نے دھیمے سے کہا، مسعود خان اس کے لہجے پر چونکے۔
”کیا بات ہے جانِ بابا ؟“ وہ فکر مندی سے بولے۔
”آپ پوچھیں گے نہیں کہ میں نے سفیر کے متعلق کیا فیصلہ کیا ہے۔“ اس کی بات سن کر مسعود خان نے مسکرا کر سرجھٹکا ۔
”نہیں۔ یہ سوال میں آپ سے پوچھنا نہیں چاہتا بلکہ اس وقت کا انتظار کرنا چاہتا ہوں جب آپ خود آکر مجھے یہ بتائیں۔“
”میں ابھی بتانا چاہتی ہوں بابا۔“ وہ فوراً بولی۔
”بتائیں میں سن رہا ہوں۔“
”بابا وہ ایک اچھا انسان ہے، لیکن مذہب سے بہت دور ہے۔“ وہ تمہید باندھ رہی تھی، مسعود خان خاموشی سے سن رہے تھے۔
”میں نے اسے ایک سال کا وقت دیا ہے کہ اگر اس ایک سال میں وہ مذہب کے قریب آگیا تو…. تو میں اس سے نکاح کرلوں گی۔“ شہمین نے سرجھکائے جھکائے بات مکمل کردی تھی۔
”اور اگر وہ اس ایک سال میں مذہب کے قریب نہیں آپایا تو؟“ مسعود خان اس کی بات کے اختتام پر بولے۔
”کسی انسان کو اس بنا پر تو مرنے کے لیے نہیں چھوڑا جاسکتا نا کہ وہ مذہب سے دور ہے۔“ وہ مسعو د خان کے پوچھنے پر بولی تھی۔ اب جب سوال پوچھنے والوں میں فرق آیا تھا، تو جواب دینے والے کے جواب اور انداز میں کیسے فرق نہ آتا۔
”لیکن بابا میرا ہر فیصلہ آج بھی آپ کی رضا کا پابند ہے۔“ وہ تیزی سے بولی اور اس بار مسعود خان نے آگے بڑھ کر اسے خو د سے قریب کرلیا۔ شہمین نے چہرہ اٹھا کر اُنہیں دیکھا۔
”بابا آپ کو اپنی رضا مندی اسی شام دے چکے ہیں اور پھر جو حق اللہ اور اس کے رسول نے ایک انسان کو دیا ہے وہ کوئی دوسرا انسان اس سے کیسے چھین سکتا ہے؟ چاہے وہ اس کا باپ ہی کیوں نہ ہو۔‘ ‘ انہوں نے کہہ کر اس کے ماتھے پر بوسا دیا۔ شہمین نے تشکر کے احساس سے آنکھیں بند کرلیں۔
“Thank you baba.” وہ بھیگے لہجے سے مسکرا کر بولی۔
”فلائٹ کتنے بجے کی ہے ؟“ مسعود خان نے اسے خود سے الگ کرتے ہوئے پوچھا۔
”گیارہ بجے کی۔“ مسعود خان نے گھڑی کی سمت دیکھا۔ ابھی کافی وقت تھا۔
”آپ ناشتا بنائیں۔ ہم اسے بلالاتے ہیں۔“ وہ کہہ کر کچن سے باہر آگئے تھے۔ شہمین اب توے پر انڈا ڈال رہی تھی۔
وہ سیڑھیاں چڑھ کر سفیر کے کمرے کی جانب بڑھے۔ پھر دستک دیتے ہوئے ہینڈل گھما کر دروازہ کھولا۔ سفیر سامنے ہی بیڈ پر سر جھکائے بیٹھا تھا۔ مسعود خان نے گلا کھنکارا، مگر اس نے سر نہیں اٹھایا، تو وہ دروازہ بند کرکے اس کے نزدیک ہی آگئے۔
”پلیز انکل اس سے کہیں وہ میرے ساتھ ایسا نہ کرے میں …. میں نہیں رہ پاﺅں گا اس کے بغیر۔“ سفیر یک دم ہی ان کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں تھما کر التجائی لہجے میں بولا۔ دو منٹ تو اس کی سرخ انگارہ آنکھوں کو دیکھ کر مسعود خان بالکل ہی خاموش رہ گئے۔ پھر انہو ں نے اپنے ہاتھوںکو اس کے ہاتھوں سے چھڑا کر کہا۔
”وہ اپنے فیصلوں میں خود مختار ہے۔ میں کچھ نہیں کرسکتا۔“
”وہ آپ کی بات مانتی ہے انکل۔ میں نے دیکھا ہے۔“
”اگر کوئی آپ کی بات کا احترام کرتا ہے، تو آپ کو اس بات کا فائدہ تو نہیں اٹھانا چاہیے نا۔‘ ‘ مسعود خا ن اسے نرمی سے سمجھانے لگے۔
”میں مرجاﺅں گا انکل۔“ وہ نڈھال سا ان کے بازو پر سر ٹکا کر بولا ۔
”وہ جب مجھ سے دور ہوتی تھی، تو مجھے بھی ایسا ہی لگا تھا، لیکن دیکھو میں، بھی تک زندہ ہوں۔“ سفیر نے گردن اٹھا کر ان کی جانب دیکھا ۔ مسعود خان نم آنکھوں سے مسکر ارہے تھے۔ سفیرکو ندامت ہوئی۔
”ان کی اذیت مجھ سے بہت بڑی ہے۔“ ا س نے پہلے سوچا پھر فوراً کہہ دیا۔ مسعود خان اس کے انداز پر ہنس پڑے۔ وہ بغیر کچھ سوچے سمجھے ہر بات کتنی آسانی سے کردیتا تھا۔
”پھر چلیں۔ ناشتا ٹھنڈا ہورہا ہے۔“
”جی۔“ سفیر نے اثبات میں گردن ہلائی۔ کبھی کبھی کسی کے ایک جملے سے بھی صبر آجاتا ہے۔ اس کے لیے اس وقت یہ جملہ مسعود خان کے ہونٹوں سے نکلا تھا۔
اُس نے سائیڈ ٹیبل پر رکھی شہمین کی تصویر اٹھا کر اپنے ہینڈ کیری میں ڈالی اور زپ لگا کے اٹھ کھڑا ہوا۔ مسعود خان خاموش کھڑے اُسے یہ سب کرتا دیکھ رہے تھے، مگر سفیر کے ان کی جانب دیکھنے پر انہوں نے فوراً نظریں پھیرلیں۔
بچوں کی ہر غلطی پر انہیں ٹوکنا ضروری نہیں ہوتا کبھی نظر انداز بھی کردینا چاہیے۔
”چلیں۔“ وہ دونوں نیچے کچن میں آگئے، جہاں شہمین کچن میں رکھی میز پر ناشتا لگا چکی تھی۔ وہ تینوں ایک ایک کرسی کھینچ کر میز کے سامنے بیٹھ گئے۔ ناشتا بے حد خاموشی سے ہوا۔ پھر مسعود خان کسی کام سے باہر کوریڈور میں آگئے اور وہ دونوں کچن میں رہ گئے۔ مسعود خان نے دانستہ انہیں بات کرنے کا موقع دیا تھا۔
”انہوں نے ایک ہفتے بعد آنے کا کہا تھا ۔ تم منگوالینا۔“ سفیر نے دائیں ہاتھ سے اپنے گلے میں ڈلے لاکٹ کو سہلاتے ہوئے بائیں ہاتھ سے تاج جیولر کی رسید نکال کر اس کی جانب بڑھائی۔ شہمین نے خاموشی سے رسید تھام لی۔ پھر ٹیبل پر پڑی چیزیں سمیٹنے لگی۔
کچن کی کھڑکی سے دھوپ سیدھی سنک کے پاس کھڑی شہمین کے چہرے پر پڑ رہی تھی۔ سفیر اپنی جگہ سے اٹھا اور شہمین کے قریب آکر ٹھہر گیا۔ ایسے کہ اب دھوپ سفیر کی پیٹھ پر پڑرہی تھی۔ شہمین نے ہاتھ روک کر سفیر کی جانب دیکھا۔ دونوں کا چہرہ سپاٹ تھا۔ پھر سفیر نے اپنے گلے سے چین اتاری، اسے چوما اور اسے شہمین کے قریب سنک پر ہی رکھ دیا۔
”مجھے ہمیشہ اپنے ذہن میں رکھنا اور …. دل میں بھی۔“ وہ اپنے مخصوص دھیمے لہجے میں بولا۔ شہمین کی آنکھوں سے پانی چھلکنے کو تھا اس نے اپنا سر مزید جھکا لیا۔ سفیر اس کے پاس خاموش کھڑا رہا۔ پھر جب دھوپ نے رُخ بدلا، تو وہ بھی کچن سے باہر آگیا۔
٭….٭….٭