”بات کرنا چاہتی ہوں باہر باغ میں آجاﺅ۔“
کمرے میں آج بھی محض نائٹ بلب کی مدھم سی روشنی تھی اور وہ اپنے دائیں ہاتھ کی ابتدائی دو انگلیوں میں سگریٹ دبائے بائیں ہاتھ سے اپنے گلے میں پڑے لاکٹ کو پکڑے اس کھڑکی کے سامنے کھڑا تھا جو باغ میں کھلتی تھی جہاں سے آج باغ میں پھیلے سبزے سے پھولوں کی مہک اٹھ رہی تھی، مگر آج وہاں اوپر حدِ نگاہ تک پھیلے اُفق پر سفیدی پھیل نہیں رہی تھی بلکہ سمٹ رہی تھی۔
سفیر نے اپنے دائیں ہاتھ اور لبوں کو حرکت دے کر سگریٹ کا ایک گہرا کش لیا تھا، جب پہلے دروازے پر دستک ہوئی تھی پھر وہ کھلا تھا۔
”بات کرنا چاہتی ہوں باہر باغ میں آجاﺅ۔“ شہمین نے ایک گہری نگاہ کمرے کے ماحول پر ڈالی پھر کہہ کر واپس پلٹ گئی تھی۔ سفیر چند لمحے بند دروازے کو تکتا رہا پھر سگریٹ کے آخری حصے کو کھڑکی کے کنارے مسل کر باہر اچھالتا نیچے آگیا۔
”کہو۔“ وہ دونوں باغ میں بچھی سفید رنگ کی کرسیوں کے نزدیک کھڑے ہوگئے جن کے سامنے بچھی میز پر بلیک اور ملک ٹی کے دو کپ رکھے ہوئے تھے۔
”بیٹھ جاﺅ۔“ شہمین نے ایک کرسی سنبھالتے ہوئے دوسری کی طرف اشارہ کیا تھا۔ سفیر خاموشی سے دوسری کرسی پر بیٹھ گیا۔
”تمہار اویزا ختم ہونے والا ہے۔ آگے کے متعلق کیا سوچا ہے تم نے۔“ شہمین نے سامنے پھیلے سبزے پر نظریں جمائے سادہ سے لہجے میں بات کا آغاز کیا۔
”دو راستے ہیں، پہلا تم میرے ساتھ اسٹیٹ چلو۔“ وہ کہہ کر رکا اس نے اپنے بال کان کے پیچھے اڑسے اور مزید بولا۔ ”دوسرا مجھے جیل ہوجائے۔“
”اور جیل جاکے تو تم مجھے بہت دیکھ سکوگے نا؟“ اس نے سرجھٹکا ۔
”نہیں…. ویسے اگر تم روز ملنے آﺅ تو دیکھ بھی سکتا ہوں۔“ وہ مسکرا کر مزے سے بولا۔
”اور اگر میں نہ آﺅں تو۔“
”تو سمپل چند دن لگیں گے پھر میں مرجاﺅں گا۔“ وہ ہنوز مسکرا رہا تھا۔
”اب موت سے ڈر نہیں لگ رہا تمہیں؟“ سفیر کی مسکراہٹ سمٹی تھی۔
”موت سے تو پہلے بھی ڈر نہیں لگ رہا تھا۔ بلکہ اس کے بعد کی زندگی سے لگ رہا تھا۔“ شہمین چونکی۔
”موت کے بعد کی زندگی پر ایمان ہے تمہارا؟“ وہ بے یقینی سے بولی۔
”ہاں۔“ سفیر کا لہجہ سپاٹ تھا۔ شہمین نے فوراً اسے محسوس کیا۔
”پھر اس کے لیے تیاری کیوں نہیں کرتے؟“
”مجھ میں اتنی ہمت نہیںہے۔“
”بہانہ۔“ شہمین نے سرجھٹکا۔
”شاید۔“ اس نے گردن کو اثبات میں جنبش دے کر کہا۔
”ایک اور راستہ ہے۔“ وہ مزید بولا۔
”کیا۔“ شہمین نے ابرو اچکائی۔
”میں تمہیںبھی اپنا Addicted کردوں۔“ وہ دوبارہ مسکرانے لگا تھا۔
”یہ ممکن نہیں ہے۔“ شہمین آرام سے بولی تھی۔
”کیوں۔“ وہ چونکا۔
”کیوں کہ میرا خالق مجھ سے محبت کرتا ہے اور مجھے محبت پر یقین ہے۔“
”تم خو ش قسمت ہو۔“ اس نے کہا، ایک گہرا سانس بھرا پھر دوبارہ بولا۔
”پھر تم محبت کرلو میں Addictionکرلیتا ہوں۔“ وہ اسے مشورہ دے رہا تھا۔
”یہ Addiction تم نے خود کی تھی؟“ شہمین نے پھر ابرو اچکائی تھی۔
”نہیں۔“
”میں بھی محبت خود نہیں کرسکتی۔“
”پھر مجھے جیل جانا پڑے گا۔“ اس نے کچھ افسوس سے گردن ہلا کر کہا۔
”آج تم کچھ زیادہ ہی پرسکون دکھ رہے ہو۔ پہلی شام تو ایسے نہیں تھے۔“ وہ مسکرایا۔
”کیوں کہ آج میں پرسکون ہوں۔“ اس نے کہا۔
”وجہ۔“ وہ بولی۔
”میں دس دن سے تمہارے ساتھ ہوں، تمہیں دیکھ رہا ہوں، تم سے باتیں کررہا ہوں، تمہارے ساتھ اٹھ بیٹھ رہا ہوں اور میں بہت پرسکون ہوں۔“
”مطلب بات کرکے تمہاری Addiction کم ہوگئی۔“ شہمین نے بہ غور اس کے تاثرات دیکھتے ہوئے پوچھا۔
”نہیں…. مگر مجھے سکون ملا ہے۔“ وہ اپنی نیلی آنکھوں سے براہ راست اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے بولا۔
”اگر یہ مجھے Addicted کرنے کی کوشش تھی، تو بہترین تھی۔“ وہ زور سے ہنسا۔
”یہ حقیقت ہے اور بہترین ہے۔“
”سفیر میں یہ مسئلہ حل کرنا چاہتی ہوں، بڑھانا نہیں۔“ شہمین نے اپنے اعصاب ڈھیلے چھوڑتے ہوئے کرسی کی پشت سے ٹیک لگالی۔
”چلو میرے ساتھ ہوجائے گا مسئلہ حل۔“ وہ اس کے تھکے ہوئے چہرے کو دیکھ کر نرم لہجے میں بولا۔
”تمہیں یہ سب اتنا آسان لگتا ہے کہ ایک دن اچانک سے کوئی آکر کہے کہ چلو بی بی میرے ساتھ اور میں منہ اٹھا کر چل پڑوں۔ میں تمہیں یا تمہاری فیملی کو جانتی ہی کتنا ہوں اور پھر ساتھ چلنے کے بعد کیا ہوگا؟“
”ہم ساتھ رہیں گے اور کیا ہوگا؟“ اس نے ساری بات میں صرف اپنی مطلب کی بات پر غور کیا تھا۔
”کیسے؟“
”جیسے سب Girl friend, Boy friend رہتے ہیں۔“ سفیر اب کچھ جھلایا تھا۔
”تم سے مجھے ایسی ہی کسی حماقت کی اُمید تھی۔“ شہمین نے ناگواری سے اسے دیکھا۔
”تو اس میں غلط کیا ہے؟“
”سفیر ہمارے درمیان سب سے بڑا مسئلہ ہی یہ ہے کہ جو میرے لیے غلط ہے وہ تمہارے لیے غلط نہیں ہے اور جو تمہارے لیے صحیح ہے وہ میرے لیے صحیح نہیں ہے۔“ وہ اکتاہٹ کا شکار ہورہی تھی۔
”سفیر ہم کرسچن نہیں مسلمان ہیں۔ ہم اس طرح ساتھ نہیں رہ سکتے۔“ شہمین نے سرجھٹک کر اسے سمجھانے کی کوشش کی تھی۔
”تو کس طرح رہ سکتے ہیں؟“ سفیر کی تیوری پر آج پہلی بار بل ابھرے تھے۔
”نکاح کرکے۔“ وہ بہ مشکل بول پائی تھی۔
”ٹھیک ہے تو کرلیتے ہیں نا نکاح۔“ وہ تیوری کے بل سمیٹتا ہوا بولا۔
”تم سے نکاح کرلوں جو آج منہ اٹھا کر میرے گھر پہنچ گیا ہے اور کل کسی اور کے گھر پہنچ جائے گا۔‘ ‘ شہمین جھلائی تھی۔
”نہیں پہنچتا یار۔“
”کیاگارنٹی ہے؟“
”کیا گارنٹی چاہیے؟“
”وقت۔“
”مطلب؟“
”مطلب یہ کہ ابھی میری پڑھائی ختم ہونے میں ایک سال کا باقی ہے اور اس سے پہلے نکاح کرنے پر بابا بھی رضا مند نہیں ہوں گے۔“ اس نے سفیر کے چہرے سے نظریں پھیرتے ہوئے ساری ٹوپی مسعود خان کے سر کردی تھی حالاں کہ وہ کوئی اعتراض نہیں کرتے۔ وہ ابھی مزید بول رہی تھی۔
”اور پھر ہمارے درمیان اتنے Differences ہیں۔ ہم کیسے ایک دوسرے کے ساتھ نبھا کرسکیں گے۔“
”شہمین میں ہر بات پر Compromise کرنے کے لیے تیار ہوں۔“وہ بے ساختہ بولا۔
”لیکن میں نہیں ہوں سفیر۔“ شہمین بھی اتنا ہی فوری بولی تھی۔
”ٹھیک ہے تم مت کرنا سارے Compromise میں کرلوں گا۔ تم محض ایک مرتبہ مجھے بتادو کس چیز کو کیسے کرنا ہے۔“ شہمین نے نظریں گھما کر سفیر کی جانب دیکھا۔ وہ اسے اب پھر بے بس لگ رہا تھا۔ پہلی شام کی طرح۔
”سفیر میں انسان ہوں۔ مجھے اپنے جیسے انسان ہی اچھے لگتے ہیں روبوٹ نہیں اور پھر تم کوئی بچے ہو جسے میں انگلی پکڑ کر چلاﺅں گی۔“ وہ دوٹوک انداز میں بولی۔
”تو پھر یار میں کروں کیا؟“ وہ اپنا سر دونوں ہاتھوں میں گرا کر انتہائی کرب سے بولا۔
”واپس چلے جاﺅ۔“ وہ آرام سے بولی تھی۔
”اگر میرے لیے یہ کرنا تمہارے کہنے جتنا ہی آسان ہوتا، تو میں بھی فوراً کرلیتا۔“ اس نے گلہ آمیز نگاہوں سے اسے دیکھا۔
”بالکل اتنا ہی مشکل میرے لیے بھی تم سے نکاح کرنا ہے۔“ شہمین بھی اس کی نگاہوں میں دیکھتے ہوئے جتا کر بولی۔ سفیر چونکا پھر کرب سے مسکرایا تھا۔
’اوہ، پھر بات یہ ہے کہ کون اس مشکل سے گزرے؟ میں یا تم؟ “ شہمین یک دم ہی پورے دل سے مسکرائی تھی۔
”بالکل۔“ اس نے کہا تھا۔ سفیر نے سرخ پڑتی نگاہیں اٹھا کر اس کے مسکراتے چہرے کو دیکھا پھر بولا۔
”ایک سال بعد میں تمہاری کوئی بات نہیں سنوں گا۔ سیدھا تمہیں ساتھ لے کر کہیں غائب ہوجاﺅں گا۔“
”میں نے صرف ایک سال دور رہنے کو تو نہیں کہا۔“ شہمین نے اس کی نگاہوں کی سرخی کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا۔
”مطلب کوئی اور بھی مطالبہ ہے؟“ سفیر کے اعصاب ایک بار پھر تن گئے تھے۔
”ہاں۔“
”کیا؟“
”ہمارے درمیان کے differences ان کے ساتھ ساتھ رہنا ناممکن ہے۔“
”اب یہ تو بتا سکتی ہو نہ differencesکیا ہیں؟“
”دس دن سے میرے ساتھ ہو۔ مجھے دیکھ رہے ہو، مجھ سے باتیں کررہے ہو ، میرے ساتھ اٹھ بیٹھ رہے ہو۔ تمہیں نظر نہیں آئے differences؟“ شہمین نے مسکراتے ہوئے اسے اس کا جملہ لوٹایا۔ سفیر نے سرجھٹکا۔
”تمہیں بات بات پر خفا ہونے کی عادت ہے اور مجھے نہیں…. میرے مطابق یہ ایک واحد difference ہے۔“ سفیر کا انداز تپا ہو اتھا۔ شہمین کھلکھلائی۔
”ایک سال لمبا عرصہ ہوتا ہے۔ سوچتے رہنا تمہیں سمجھ آجائے گا۔“ اُس نے مطمئن انداز میں کہا۔ سفیر نے ا س کی جانب دیکھا۔
”اگر میں انہیں نہیں ڈھونڈ سکا یا نہ مٹا سکا تو؟“ سفیر کے لہجے میں خوف تھا، شہمین کی مسکراہٹ سمٹی۔
”تو پھر میں کچھ نہیں کرسکتی۔ میں تمہیں ایک بار تو موقع دے سکتی ہوں۔ بار بار نہیں۔“ شہمین نے کہا اور کسی کام میں مصروف ہوگئی۔ سفیر بے جان سا بیٹھا اسے تکتا رہ گیا ۔ میز پر دھری چائے ٹھنڈی ہوچکی تھی۔
٭….٭….٭