وہ اپنے گھٹنے پر البم ٹکائے بیڈ پر بیٹھی اسے دیکھ رہی تھی۔ ساتھ ہی اس کی آنکھوں سے پانی جھلک کر اس کے گالوں پر بہ رہا تھا۔ جب دروازے پر دستک ہوئی۔ شہمین نے سر اٹھا کر دیکھا۔ چوکھٹ سے مسعود خان کھڑے تھے۔
”آجائیں بابا۔“ وہ بھرائی ہوئی آواز میں بولی۔ مسعود خان خاموشی سے چلتے ہوئے اس کے نزدیک بیڈ پر ہی بیٹھ گئے۔
”نین کی یاد آرہی ہے؟“ انہوں نے البم پر نظریں دوڑاتے ہوئے کہا۔
”جی۔“ و ہ مختصرا ً بولی تھی۔
نین کی برات کے اگلے روز ہی اس کا ولیمہ بھی ہوگیا تھا۔ پہلے مہمانوں کی وجہ سے خاموشی کا اتنا احساس نہیں ہورہا تھا، مگر اب مہمانوں کے جاتے ہی گھر بالکل خاموش ہوگیا تھا۔ سفیر اس دوسری واک کے بعد اب تک کسی تیسری واک پر نہیں نکلا تھا اور شہمین اس کے باہر نہ جانے پر جیسے شکر کا کلمہ پڑھ رہی تھی۔ البتہ سفیر کی اس پہلی کے بعد فوراً ہی دوسری واک نے شہمین کو اتنا ڈسٹرب کیا تھا کہ وہ ماہین کی عزت افزائی ہی نہیں کرپائی تھی اور اب اتنے دن گزر گئے تھے کہ یہ بات آئی گئی ہوگئی تھی۔ پھر تازہ تازہ نین سے جدائی کے احساس نے ہر دوسرے احساس کو پس پشت ڈال دیا تھا۔
”تو بات کرلیں اس سے۔“ مسعود خان نے اسے مشورہ دیا۔
”کرلی۔“ وہ ناک سکیڑ کر بولی۔
”پھر اب؟“
”وہ اب بھی یاد آرہی ہے۔“ شہمین نے نگاہ اٹھا کر باپ کو دیکھا۔
”دور بیٹھی بہن آپ کو فون کرنے کے بعد بھی یاد آرہی ہے۔ اس لیے آپ نے پاس بیٹھے بابا کو بھی نظر انداز کردیا ہے، کیا یہ حرکت ٹھیک ہے جانِ بابا۔“ مسعود خان نے اس کے ہاتھ سے البم لے کر بند کرتے ہوئے ابرو اچکائی۔
”میں آپ کو نظر انداز نہیں کرسکتی ، آپ یہ جانتے ہیں۔“ شہمین عادتاً ان کے بازو پر چہرہ رگڑتے ہوئے نروٹھے پن سے بولی۔
”لیکن آپ تو یہ کررہی ہیں۔“ مسعود خان نے اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرا تھا۔ شہمین خاموش رہی۔
”اچھا اب اٹھیں اور مجھے ایک کپ چائے بناکر دیں۔ کتنے دن ہوگئے میں نے اپنی بیٹی کے ہاتھ کی چائے نہیں پی۔“
”اچھا۔“ وہ اپنے دوپٹے سے چہرہ صاف کرتی اٹھ گئی۔ پھر وہ دونوں باپ بیٹی کمرے سے نکل کر نیچے کچن میں آگئے۔ جہاں سفیر پہلے سے کچن میں بیٹھا سی سی کررہا تھا اور جہاں ہاتھ میں پانی کی بوتل لیے اس کے سر پر کھڑی تھی۔
”اور دوں سفیر بھائی؟“ جہاں نے گلاس اس سے لیتے ہوئے پوچھا تھا۔
”ہاں۔“ وہ اب بھی اپنی ناک رگڑتا سی سی کررہا تھا۔
”کیا ہوا بچے؟“ مسعود خان شہمین کو ساتھ لیے اس کے نزدیک آتے ہوئے بولے۔
”وہ سفیر بھائی نے آج پھر سالن میں ڈلی ہری مرچ کھالی۔“ سفیر کی سرخ پڑتی ناک اور آنکھوں سے بہتے پانی کو دیکھتے ہوئے جہاں نے خود ہی جواب دیا۔
”اوہو۔“ مسعود خان نے افسوس سے سرہلایا پھر شہمین کی جانب دیکھا۔
”میرا خیال ہے جان بابا اب آپ کو ان مرچوں سے سرخ پڑتی ناک کا کوئی مستقل حل نکال لینا چاہیے۔“ ان کا انداز نرم ضرور تھا مگر تنبیہ کرنے والا۔ شہمین نے چونک کر سفیر کی سرخ پڑتی ناک سے نظریں ہٹا کر باپ کو دیکھا پھر نظریں جھکا کر دھیما سا بولی۔
”جی بابا۔“
٭….٭….٭