المیزان

اس نے سامنے ڈریسنگ ٹیبل پر رکھا کاجل اٹھایا اور اسے اپنی آنکھوں کے نچلے سرے پر پھیرنے لگی۔ پھر اس نے کاجل واپس میز پر رکھا اور خود کو آئینے میں دیکھا۔

صبح دس بجے کا وقت

جہاں، سفیر کو ناشتے کے لیے بلا لائیں۔اس نے کچن سے باہر نکلتے ہی سامنے سے آتی جہاں سے کہا۔ اس کا غصہ اب ٹھنڈا ہوچکا تھا۔

باجی وہ تو کمرے میں ہیں ہی نہیں۔جہاں، سفیر کے کمرے سے واپس آکر بولی اور میز پر پلیٹ رکھتے شہمین کے ہاتھ سے پلیٹ چھوٹ گئی۔ اس نے سراٹھا کر سامنے کھڑی جہاں کی جانب دیکھا۔

آپ نے باقی گھر میں دیکھا۔وہ ڈوبتے دل کے ساتھ بولی تھی۔

میں دیکھ لیتی ہوں باجی۔جہاں کہہ کر دوڑتی ہوئی گھر کا جائزہ لینے لگی شہمین اپنا سر دونوں ہاتھوں میں گرائے وہیں میز کے سامنے رکھی کرسی پر بیٹھ گئی۔

نہیںباجی وہ کہیں نہیں ہیں۔جہاں اپنے پھولتے سانس کو بحا ل کرتے ہوئے بولی اور شہمین کا ڈوبتا دل جیسے مکمل ڈوب گیا۔

کیا وہ میرے غصے سے خفا ہوکر چلا گیا؟اس نے خود سے پوچھا تھا، پھر کچھ خیال آتے ہی اس نے سر اٹھایا اور جہاں سے پوچھا۔

کیا کمرے میں اس کا سامان تھا؟

سامان۔ جہاں سوچنے لگی۔ جی باجی تھا۔وہ سوچ کر بولی۔ شہمین کو کچھ سکون آیا۔

مطلب وہ آج پھر کسی واک پر نکل گیا ہے۔ اب خدا معلوم اس کی آج کی واک کا دورانیہ کتنا طویل ہوگا۔وہ بڑبڑاتے ہوئے واپس ٹیبل سیٹ کرنے لگی۔

دوپہر دو بجے کا وقت۔

اکرم چاچا، اکرم چاچا۔اس نے اپنے کمرے سے باہر زینے کے پاس کھڑے تیوری پر بل ڈالے اکرم خان کو آواز دی تھی۔

جی چھوٹی بیٹی۔اکرم خان بوکھلاہٹ کے عالم میں کچن سے دوڑے چلے آئے۔

اکرم چاچا میری چائے کہاں ہے؟ میں نے کب کا کہا تھا آپ سے لانے کو۔وہ شدید جھنجھلائی ہوئی تھی۔ اکرم خان سے کچھ فاصلے پر رکھے صوفے پر بیٹھے مسعود خان نے نگاہ اٹھا کر بہ غور زینے کے سرے پر کھڑی شہمین کو دیکھا، مگر بولے کچھ نہیں۔

چھوٹی بیٹی میں تو لے آیا تھا، لیکن آپ ہی واش روم چلی گئی تھیں۔اکرم خان نے شش و پنج کے عالم میں اسے صفائی دی۔

تو اب تو میں آگئی ہوں نا۔ اب کہاں ہے میری چائے۔وہ مزید جھنجھلا گئی تھی۔

جی بیٹی لایا۔اکرم خان تیزی سے کچن کی جانب دوڑے۔

پرسوں سفیر کے گھر پر نہ ہونے کا علم اسے اس کے لوٹنے سے محض ایک گھنٹے پہلے ہی ہوا تھا اس لیے وہ اس سے دوری پر اپنی کیفیت کو اتنا اچھے سے نہیں سمجھ سکی تھی، مگر آج وہ صبح سے جانتی تھی اور اسے اپنی اس ڈوبتے دل کی کیفیت سے شدید جھنجھلاہٹ ہورہی تھی۔ وہ بات بے بات چڑچڑائے جارہی تھی۔

شام چھے بجے کا وقت۔

پلیز میرے ساتھ پارلر چلو چڑیل۔نین اس کا ہاتھ پکڑ کر محبت بھرے لہجے میں بولی تھی۔ آج اس کے لیے ایک بڑا دن تھا۔ وہ ہر لمحہ اپنی بہن کو اپنے ساتھ دیکھنا چاہتی تھی۔

نین، جہاں جا تو رہی ہے تمہارے ساتھ۔شہمین اپنا ہاتھ چھڑا کر اپنی چوڑیاں نکالتے ہوئے بے زار سے لہجے میں بولی۔ نین نے دکھ سے اپنی چھوٹی بہن کو دیکھا۔

تم چلوگی تو کیا ہوجائے گا؟وہ بہ ضد ہوئی تھی۔

یار گھر پر اتنے مہمان ہیں اگر میں بھی تمہارے ساتھ چلی جاں گی تو بابا اکیلے رہ جائیں گے۔شہمین نے ایک بے تکا سا جواز دیا۔ مسعود خان اکیلے بھی ہر چیز بہت اچھے سے سنبھال سکتے ہیں، یہ بات وہ دونوں جانتی تھیں۔

ٹھیک ہے مرضی ہے تمہاری۔نین خفا خفا سی کہہ کر بیگ میں اپنا سامان رکھنے لگی۔ شہمین نے نین کی خفگی کا کوئی نوٹس نہیں لیا، وہ ہنوز اپنے کام میں مصروف رہی۔

رات نو بجے کا وقت ۔

ویسے تو میرا چہرہ دیکھے بغیر دس منٹ نہیں رہا جاتا اس سے۔ اب پتا نہیں اتنے گھنٹوں سے کہاں ہے۔وہ کسلمندی سے اب اپنے کپڑے استری کرنے اٹھی اور اپنا جارجٹ کا دوپٹا استری کرتے ہوئے کبھی سفیر پر کبھی استری پر بڑبڑائے جارہی تھی۔

لابیٹا میں کردوں۔اس سے کچھ فاصلے پر کھڑی مہمان خاتون نے محبت سے اسے پیشکش کی تھی۔

نہیں…. چھوڑ دیں ، میں کرلوں گی۔انہوں نے اس کے ہاتھ سے دوپٹا لینے کی کوشش کی تھی۔ شہمین نے جھنجھلاتے ہوئے ہاتھ پرے کھینچ لیا۔ وہ مہمان خاتون یک دم اُسے حیرت سے دیکھنے لگی۔

رات دس بجے کا وقت۔

اس نے سامنے ڈریسنگ ٹیبل پر رکھا کاجل اٹھایا اور اسے اپنی آنکھوں کے نچلے سرے پر پھیرنے لگی۔ پھر اس نے کاجل واپس میز پر رکھا تھا اور خود کو آئینے میں دیکھا جو اب آہستہ آہستہ دھندلا ہونے لگا تھا۔

جان بابا۔مسعود خان نے کمرے کے ادھ کھلے دروازے پر دستک دے کر اسے محبت بھری نرمی سے پکارا تھا۔ شہمین نے مڑے بغیر سامنے آئینے میں عقب میں کھڑے اپنے باپ کا عکس دیکھنے کی سعی کی جواب بھی دھندلا دکھتا تھا۔

وہ قدم قدم چلتے اس کے نزدیک آگئے۔ پھر انہوں نے ا س کا رخ اپنی جانب موڑ لیا۔ شہمین نے باپ کے چہرے کو دیکھا اسے وہ بھی دھندلا دکھ رہا تھا۔

بہت پیاری لگ رہی ہے میری بیٹی۔وہ غیر محسوس انداز میں اپنی آستین سے اس کی آنکھوں کی نمی صاف کرتے ہوئے مسکرا کر بولے۔

بارہ گھنٹے کی واک کون کرتا ہے بابا؟شہمین بے تاثر لہجے میں بولی۔ مسعود خان کے دل کو کچھ ہوا۔ جب اکرم خان نے دروازے پر دستک دے کر چوکھٹ میں کھڑے کہا۔

صاحب۔ سفیر بابا آگئے۔مسعود خان نے انہیں کہہ رکھا تھا کہ جیسے ہی وہ آئے مجھے بتادینا۔ اسی لیے وہ بتانے آئے تھے۔ شہمین نے بے قراری سے دروازے کی جانب دیکھا۔ پھر وہ مسعود خان سے بغیر کچھ کہے ان کا ہاتھ پرے کرکے باہر کی جانب لپکی۔ مسعود خان اُس کی حرکت پر چونکے اور پھر بہت دیر تک کھڑے اپنے خالی ہاتھ کو تکتے رہے۔

وہ کمرے سے نکل کر اگلے ہی لمحے سینے پر بازو باندھے سفیر کے سر پر کھڑی تھی۔ اب اس کی آنکھیں بالکل خشک اور چہرے پر بلا کی سختی تھی۔

کہاں تھے تم؟سفیر بیڈ پربیٹھا جوتے اتار رہا تھا۔ شہمین کی آواز پر اس نے ہاتھ روک کر سراٹھایا۔ پھر اس نے اپنی جیب سے ایک مخملی ڈبیا نکال کر اس کے سامنے کی تھی۔

یہ کیا ہے۔شہمین ڈبیا کو ہاتھ میں پکڑے سنجیدگی سے بولی۔

بریسلٹ ۔سفیر نے جھک کر دوسرا جوتا پیر سے اتارتے ہوئے کہا۔ شہمین چونکی تھی، اس نے بریسلٹ کی ڈبیا کو غور سے دیکھا۔

تاج جیولر۔یہ اس ہی دکان کا سلوگن تھا جہاں کل مال میں مسعو د خان نے سفیر کو بالیا ں لینے بھیجا تھا۔ شہمین اب حیران سی تیزی سے وہ ڈبیا کھول رہی تھی۔ ڈبیا کے اندر Akoya pearl کا ایک بریسلٹ تھا جسے Platanium کی باریک چین میں پرویا گیا تھا۔ وہ چین ایک طر ف سے زیادہ لمبی تھی۔ لاک سے ذرا باہر کو نکلی ہوئی جس کے اختتام پر ایک ننھا سا ڈائمنڈ جڑا ہوا تھا۔ یہ وہ بریسلٹ تھا جو شہمین کو مسعود خان کے ساتھ مل کر نین کا زیور پسند کرتے وقت تاج جیولر کی دکان پر پسند آیا تھا اور اس نے مسعود خان سے اپنی پسند کا اظہار بھی کیا تھا، تو انہوں نے کہا تھا کہ چند دن بعد لے دیں گے، مگر یہ اس کو کیسے ملا؟ شہمین نے سوچا پھر سفیر سے پوچھا۔

یہ تمہیں کہاں ملا؟وہ حیران تھی۔

کل جب انکل نے مجھے جیولر کی شاپ پر بھیجا تھا، تو اس نے مجھے یہ بریسلٹ دیتے ہوئے کہا تھا کہ 

شہمین بیٹی سے کہنا اچھے سے دیکھ لے بالکل اس کی مرضی کے مطابق بنایا ہے۔“ 

کیا یہ شہمین نے اپنے لیے بنوایا ہے۔سفیر کی آنکھوں میں چمک ابھری تھی، وہ فوراً چہک کر بولا۔

جی۔

اس کی قیمت کیا ہے۔اس نے اپنا والٹ نکالتے ہوئے اس موٹے پیٹ والے آدمی سے پوچھا۔ جو اس دکان کا مالک تھا۔

ایک لاکھ تیس ہزار لیکن مسعود صاحب ہمارے پرانے خریدار ہیں۔ اس لیے ان سے کہنا ہمیں پیسوں کی اتنی جلدی نہیں ہے وہ پے منٹ بعد میں آرام سے کردیں۔وہ ہی موٹے پیٹ والا آدمی سفیر کو پیسے گنتا دیکھ کر بو لا تھا۔ سفیر اس کی بات کو نظر انداز کیے نوٹ گنتا رہا۔

ایک لاکھ اٹھائیس ہزار ۔ صرف دو ہزار کم ہیں۔اس نے افسوس سے پیسوں کو دیکھتے ہوئے سوچا۔

کیا کروں۔وہ مزید سوچنے لگا۔ پھر کچھ خیال آنے پر اس نے دکان دار سے کہا۔

آپ اسے رکھیں۔ میں کل آکر یہ لے جاں گا۔وہ اب والٹ واپس جیب میں رکھ چکا تھا اور دکان کے شیشے کے پار کھڑے مسعود خان اس کی ایک ایک حرکت کو غور سے دیکھ رہے تھے۔

بیٹا آپ آج ہی لے جاﺅ…. پیسے بھلے کل دے جانا۔دکان دار نے سہولت سے کہا۔

نہیں میں کل ہی لے کر جاں گا۔وہ یہ کہہ کر بالیوں کی ڈبیا اٹھائے اس سونے سے چمکتی دکان سے باہر نکل گیا تھا۔

تو یہ بریسلٹ کی کیا ضرورت پڑی تھی تمہیں۔وہ اس کی ساری کہانی سن کر واپس غصے سے بولی۔ دو ہزار روپے کا ذکر پس منظر میں چلا گیا۔

میرا دل چاہا تھا کہ تمہارے لیے یہ بریسلٹ میں لوں۔ پھر تم ناراض تھیں مجھ سے میں تمہیں منانا چاہتا تھا۔وہ اس کے باالمقابل کھڑے ہوکر نرم لہجے میں بولا اور ایک بار پھر شہمین نے غصے سے مٹھیاں بھینچی تھیں۔

اور تمہارا خیال تھا میں یہ بریسلٹ دیکھ کر تم سے راضی ہوجاں گی۔شہمین نے ڈبیا سے بریسلٹ نکال کر اسے لہراتے ہوئے سخت لہجے میں پوچھا۔

ہاں۔

سفیر کیا میں بریسلٹ کے لیے ناراض ہوئی تھی جو یہ دیکھ کر مان جاتی؟ تم نے اس وجہ پر تو کوئی توجہ دی ہی نہیں جس سے میں ناراض ہوئی تھی۔ الٹا کسی کو بتائے بغیر سارا دن گھر سے غائب رہ کر تم نے مجھے اور پریشان کیا ہے۔ تم …. تم ایک انتہائی بے پروا اورخود غرض انسان ہو۔اس نے یہ کہتے ہوئے ہاتھ میں پکڑا بریسلٹ پوری قوت سے دیوار پر کھینچ مارا۔ برسلیٹ بے حد نازک تھا دیوار سے ٹکراتے ساتھ ہی اس کی چین ایک سرے سے علیحدہ ہوگئی۔

تمہیں صرف اپنی خواہشات نظر آتی ہیں، اپنا سکون ، اپنا آرام، اپنا دکھ اپنی تکلیف، تم نے اپنے ماں باپ کی تکلیف کا احساس نہیں کیا، تم کسی اور کا کیا احساس کروگے۔شہمین مزید غرائی تھی۔ سفیر ساکت کھڑا اس ٹوٹے بریسلٹ کو تک رہا تھا۔ پھر یک دم ہی اس کا جبڑا بھینچا ا ور و ہ دھیمے سےسوریکہہ کر اپنا بیڈ پر پڑا کرتا اٹھائے واش روم میں گھس گیا۔

٭….٭….٭

Loading

Read Previous

گل موہر اور یوکلپٹس

Read Next

اوپرا ونفرے

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!