المیزان

اس وقت صبح کے پانچ بج رہے تھے۔ اس نے بڑی احتیاط سے اپنے کمرے کا دروازہ کھولا اور باہر جھانکا۔ مکمل خاموشی تھی۔ سفیر دبے قدموں سیڑھیاں اتر کر کوریڈور میں آگیا۔ اس نے آنکھیں سکیڑ کر ایک مرتبہ پھر پورے گھر پر طائرانہ نگاہ ڈالی، کہیں کوئی حرکت نہیں تھی۔ وہ مطمئن سا آگے بڑھ گیا۔ جب یک د م ہی اس کے عقب سے مسعود خان کی آواز آئی۔

صبح صبح اتنے دبے قدموں کہاں کی تیاری ہے؟سفیر اُنہیں دیکھ کر سٹپٹا گیا۔ یوں جیسے اس کی کوئی چوری پکڑی گئی ہو۔

وہ انکل….“ وہ اپنے بالوں کو کان کے پیچھے اڑستا ہوا ہکلایا۔مسعود خان چلتے ہوئے بالکل اس کے باالمقابل آکر رکے تھے، پھر اس کی جانب جھک کر رازداری سے بولے۔

کیا میرا گھر لوٹ کر بھاگ رہے تھے؟“ 

نہیں….نہیں وہ۔سفیر دوبارہ ہکلایا۔ پھر اس نے ایک گہری سانس بھر کر مسعود خان کو دیکھا اور اُن کے کان میں کھسر پھسر کی۔

اوہ تو یہ ماجرا ہے؟مسعود خان اس کی بات سن کر سنجیدگی سے بولے تھے۔

جی۔

راستہ یاد ہے؟مسعود خان نے اپنی پتلی کمانی والی عینک درست کرتے ہوئے ابرو اچکائی تھی۔

تھوڑا ۔تھوڑا۔سفیر اپنا سرکھجاتا ہوا دھیما سا مسکرایا۔

آ۔ باقی تھوڑا ہم بتادیتے ہیں۔مسعود خان اس کے گرد بازو پھیلائے اس کے ساتھ چلنے لگے۔

٭….٭….٭

Loading

Read Previous

گل موہر اور یوکلپٹس

Read Next

اوپرا ونفرے

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!