نین کی مہندی کے بعد مسعود خان نے دو دن کا وقفہ رکھا تھا تاکہ دور سے آنے والے مہمانوں کو زیادہ تھکن نہ ہو، گوکہ ایک کے بعد ایک فنکشن رکھنے سے آرام کا موقع نہیں ملتا۔ مہندی کے بعد ایک دن گزر چکا تھا اور دوسرا دن آج تھا اور ابھی تک شہمین کے مارکیٹ کے چکر لگ رہے تھے کیوں کہ درزی نے ابھی تک اس کا جوڑا نہیں سیا تھا۔
”شہمین بیٹا…. جلدی کرو۔“ مسعود خان نے گاڑی کی چابی اٹھاتے ہوئے اسے آواز دی۔ شہمین تیزی سے چادر اوڑھے نیچے آگئی۔ سفیر مسعود خان کے ساتھ ہی کھڑا تھا ۔ شہمین کی نگاہ لمحہ بھرکو اس سے ٹکرائی پھر اس نے فوراً ہی نگاہوں کا زاویہ بدلا۔
وہ اس سے ابھی تک خفا تھی۔ سفیر کو بے چینی ہوئی۔
”چلیں بابا۔“ وہ مسعود خان کے قریب پہنچ کر بولی۔
”اکرم ہم تھوڑی دیر میں بچوں کو شاپنگ کروا کر آرہے ہیں۔ تم گھر کا خیال رکھنا۔“
”جی صاحب۔“ اکرم خان اثبات میں سرہلا کر بولے۔ پھر مسعود خان، شہمین اور سفیر کو ساتھ لیے باہر آگئے۔ شہمین سفیر کے ساتھ چلنے کے سبب سے لاعلم تھی اور اس نے مسعود خان سے کچھ پوچھنے کی کوشش بھی نہیں کی تھی۔ وہ رات ہی سے اپنے باپ سے بے حد شرمندہ شرمندہ سی تھی۔
”پہلے آپ کا سوٹ اٹھالیتے ہیں پھر سفیر کے لیے کپڑے لے لیں گے۔“ مسعودخان نے ڈرائیو کرتے ہوئے خاموش بیٹھی شہمین سے مشورہ کیا۔ وہ محض ”جی“ کہہ کر کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی۔ سفیر اور مسعود خان نے بیک وقت بیک ویو مرر میں اُسے دیکھا، اس کا چہرہ بجھا ہوا اور وہ خفا خفا لگ رہی تھی۔ سفیر نے کچھ کہنے کے لیے لب کھولے پھر خاموشی ہی میں عافیت سمجھی۔
وہ لوگ درزی سے شہمین کا جوڑا لے کر اب مال پہنچ چکے تھے۔
”یہ دیکھو…. یہ کیسا ہے۔“ مسعود خان ایک جینٹس وئیر کی شاپ پر کھڑے ایک کرتے کا جائزہ لیتے ہوئے بولے ۔ سفیر نے اپنے بالوں کو جوڑے میں باندھتے ہوئے بے دلی سے ”اچھا ہے۔“ کہہ دیا تھا۔ شہمین کے چہرے کی خفگی دیکھ کر اب اس کا ہر شے سے دل اُکتا رہا تھا۔ البتہ شہمین اس سب سے بالکل لاتعلق کھڑی تھی۔
”ادھر آﺅ۔ ایک دو اور بھی دیکھ لیں۔“ مسعود خان اس دکان میں رکھے دوسرے کرتوں کی جانب متوجہ ہوگئے تب ہی کسی نے انہیں آواز لگائی تھی۔
”مسعود صاحب۔“ مسعود خان نے مڑ کر دیکھا، ان کے ساتھ ہی شہمین اور سفیر بھی اس جانب متوجہ ہوگئے۔
”ارے صادق صاحب۔“ وہ مسعود خان کے کوئی پرانے دوست تھے اور مسعود خا ن ان سے باتوں میں مصروف ہوگئے۔ سفیر نے موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اسے اپنی جانب متوجہ کرنے کی کوشش کی۔
”یہ کُرتا کیسا ہے۔“ سفیر نے پاس ڈمی پر لگے ایک کرتے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اسے دیکھا۔ شہمین نے ایک غصیلی نگاہ اس پر ڈالی پھر چہرے کا رخ موڑ لیا۔ سفیر نے ایک گہرا سانس لیا پھر وہ اس کے نزدیک آگیا۔
”پلیز شہمین تمہیں جو کہنا ہے ایک مرتبہ کہہ دو اور بات ختم کرو۔ اب ایک بات کے لیے کتنی دیر خفا رہوگی؟“ اس کا انداز بتا رہا تھا کہ وہ کتنا جھنجھلایا ہوا ہے۔
”ایک بات…. تمہیں اندازہ ہے تمہاری اس حرکت کی وجہ سے میں بابا سے نظریں نہیں ملا پارہی ۔ سفیر تم ایک دن اچانک سے منہ اٹھا کر کہیں سے چلے آئے اور میں نے تمہاری کیفیت کا خیال کرتے ہوئے تمہیں اپنے گھر میں رکھ لیا، میرا باپ ایک لفظ نہیں بولا۔ صرف اس لیے کہ اسے اپنی بیٹی پر یقین ہے اور اب تمہاری یہ حرکتیں دیکھ کر کیا وہ مجھ پر یقین کرپائیں گے؟ کیا انہیں یہ احساس نہیں ہوگا کہ انہوں نے مجھے اتنی آزادی دے کر کوئی غلطی کردی ہے۔ سفیر بہت کم ماں باپ ایسے ہوتے ہیں جو بیٹیوں کو اتنا مان، اتنی عزت دیتے ہیں۔ میرے باپ نے مجھے دی ہے، تو میں اس کا ناجائز فائدہ اٹھا کر انہیں تکلیف نہیں دینا چاہتی ۔“ وہ بے حد غصے میں بغیر رکے ایک ہی سانس میں بولے چلی گئی اور اب رک کر گہرے گہرے سانس لے کر خود کو نارمل کررہی تھی۔
”میں مانتا ہوں میری غلطی ہے، لیکن میں کیا کرتا میں نے تم سے پہلے کبھی کسی کے منہ سے یہ نہیں سنا کہ کسی لڑکی کا ہاتھ پکڑنا غلط ہے۔ اب جو چیز میرے علم میں ہی نہیں تھی اسے میں اپنے عمل میں کیسے لے آتا۔“ سفیر کی جھنجھلا ہٹ مزید بڑھ گئی تھی۔
”یہ اچھا ہے لاعلم رہو تاکہ آپ کو کوئی کچھ کہہ ہی نہ سکے۔“ شہمین نے بڑبڑاتے ہوئے سر جھٹکا اور کچھ فاصلے پر کھڑے مسعود خان جو بہ ظاہر بات تو اپنے دوست سے کررہے تھے، مگر ان کا سارا دھیان اپنے بچوں کی جانب تھا۔ انہوں نے ہلکی سی نگاہ ترچھی کرکے بیٹی کو دیکھا پھر اپنے دوست کو خدا حافظ کہہ کر ان دونوں کے قریب آگئے۔
”کچھ پسند آیا؟“ وہ قریب آکر بولے۔
”انکل شہمین سے پوچھ لیں مجھے تو کچھ سمجھ نہیں آرہا۔“ سفیر نے صلاح کی ایک اور کوشش کی تھی۔ شہمین نے گھور کر اسے دیکھا۔ مسعود خان نے بھی اپنا رخ بیٹی کی جانب کیا۔
”بتائیں جان بابا۔“ وہ باپ کو اپنی جانب متوجہ پاکر فوراً سے بولی۔
”یہ گرے ٹھیک ہے۔“
”ٹھیک ہے بھئی یہ پیک کردو۔“
وہ لوگ سفیر کا جوڑا لے کر دکان سے باہر نکلے، تو مسعود خان نے سفیر کے ہاتھ میں ایک جیولر کا کارڈ تھماکر کہا۔
”تم آگے جاکر سامنے والی دکان پر یہ کارڈ دکھا کر ان سے بالیاں اور بریسلٹ نکلواﺅ ہم آتے ہیں۔“ سفیر ان سے کارڈ لے کر آگے بڑھ گیا، تو مسعود خان بیٹی کے گر دبازو پھیلا کر اسے اپنے نزدیک کرتے ہوئے بولے۔
”ہم آپ سے خفا نہیں ہیں جانِ بابا۔ آپ کل بھی ہمارا مان تھیں ، آج بھی ہیں اور ہمیشہ رہیں گی۔ اس لیے آپ بالکل پریشان نہ ہوں۔“ شہمین بچوں کی طرح ان کے سینے میں منہ چھپا کر بھرائے ہوئے لہجے میں بولی۔
”I am sorry Baba ۔“
”کوئی بات نہیں بیٹا۔“ مسعود خان نے اس کے آنسو صاف کرتے ہوئے اسے خود سے الگ کیا اور ایک نگاہ سامنے دکان میں موجود سفیر پر ڈالی۔ جو اب تک وہی کھڑا تھا۔
”وہ بھی ٹھیک کہہ رہا تھا ا س کی بھی غلطی نہیں تھی۔ اس لیے اب بات ختم کرو۔“ وہ دکان سے باہر نکلتے سفیر کو دیکھ کر بولے، جو اب ان کی طرف آرہا تھا۔
”جی۔“ شہمین نے اپنی ناک باپ کی آستین پر رگڑتے ہوئے اثبات میں گردن ہلادی۔
”یہ لو۔“ سفیر ان تک پہنچ گیا اور اس نے ایک پیکٹ شہمین کی جانب بڑھایا۔ شہمین نے پیکٹ میں موجو د مخملی ڈبیا نکالی پھر اسے کھولا ۔ اندر دو بالیاں رکھی ہوئی تھیں۔
”بس یہ ہی دیا تھا انہوں نے؟“ مسعود خان نے جانچتی نگاہوں سے سفیر کو دیکھا۔
”جی۔“ سفیر یک دم ہی کچھ گڑبڑایا اور مسعود خان فوراً اس کے چہرے کے تاثرات بھانپ گئے۔
”ٹھیک ہے چلو اب گھر چلیں۔“ وہ بہ ظاہر نارمل انداز میں کہہ کر ان دونوں کو لیے لفٹ کی جانب بڑھ گئے، مگر اندر سے وہ کچھ ٹھٹکے تھے۔
٭….٭….٭