”شہمین بیٹا سفیر کو بھی بلوالو…. صبح ناشتے پر بھی وہ لڑکا ساتھ نہیں تھا۔“ مسعود خان نے ڈائننگ ٹیبل کے سامنے رکھی کرسی کھینچتے ہوئے شہمین سے کہا جو نین کے ساتھ مل کر ٹیبل لگا رہی تھی۔
مسعود خان اور شہمین جلد ہی واپس آگئے تھے، مگر اتفاقی طور پر جہاں آرا سے ملاقات نہ ہوئی اور سفیر کے کمرے کا دروازہ بند دیکھ کر وہ سمجھے وہ اندر ہی ہوگا، جیسے روز ہوتا ہے۔
”جی بابا۔“ اس نے مسعود خان سے کہہ کر جہاں آرا کو آواز لگائی۔
”جی باجی۔“
”جہاں سفیر کو کھانے کے لیے بلا لاﺅ۔“ وہ دونوں بھی اب کرسی کھینچ کر بیٹھ گئیں تھیں۔
”لیکن باجی…. سفیر بھائی تو ابھی تک لوٹے ہی نہیں ہیں۔“ ان تینوں نے چونک کر سراٹھایا۔
”لوٹے نہیں مطلب؟“ سب سے پہلے شہمین ہی بولی تھی۔
”وہ باجی دوپہر میں….“ جہاں نے ساری کہانی ان لوگوں کو سنا ڈالی۔ ان تینوں کی ہی بھوک یک دم ہی اڑ گئی۔
”تو جہاں تمہیں روکنا چاہیے تھا نا۔“ نین نے شہمین کا بازو تھام کر اسے تسلی دیتے ہوئے جہاں کو گھر کا۔
”باجی وہ اتنے غصے میں تھے میں کیا کہتی؟“ جہاں آرا منمنائی۔
”اگر کچھ کہہ نہیں سکتیں تھیں تو میرے گھر آنے پر مجھے تو بتادیتیں۔“ شہمین بلند آواز میں کہتی یک دم ہی کرسی سے اٹھ کر اوپر چلی گئی۔ مسعود خان اور نین نے ٹھٹک کر ایک دوسرے کی جانب دیکھا۔
”میں دیکھتی ہوں۔“ نین اس کے پیچھے لپکی۔ مسعود خان بھی اکرم خان کو آوازیں دیتے باہر کو چلے گئے اور میز پر رکھا کھانا اب تک یونہی دھرا تھا۔
”شہمین وہ آجائے گا پریشان نہ ہو۔“ شہمین نین کے کمرے میں جانے کے بجائے اس وقت اپنے کمرے میں ہی آگئی، جہاں چند روز سے سفیر ٹھہرا ہوا تھا۔
”کیسے پریشان نہ ہوں نین۔ وہ فارنر ہے۔ پتا نہیں پاسپورٹ بھی لے کر گیا ہے یا نہیں۔ اگر کسی پولیس والے نے روک کر پوچھ تاچھ شروع کردی، تو کیا کرے گا وہ۔“ وہ بے حد پریشان تھی۔
”شہمین وہ بچہ نہیں ہے۔ بلکہ تم بچیوں کا سا برتاﺅ کررہی ہو۔“ نین نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اسے ٹوکا۔
”نین اس میں کتنی عقل ہے یہ تم نہیں جانتی ۔ میں پورے ایک سال سے دیکھ رہی ہوں اس کی عقلمندیاں۔“ وہ نین کا ہاتھ جھٹک کر مزید چڑچڑائی تھی۔ نین نے ایک بھرپور نگاہ اس پر ڈالی پھر دھیرے سے مسکرائی۔
”اس لیے کہا تھا نا احتیاط کرو، مگر تم نے وہ بھی نہیں کی چڑیل۔“
”مجھے تھوڑی پتا تھا میرے پیچھے سے وہ آفت یہاں آجائے گی اور سفیر یوں ری ایکٹ کرے گا۔“
”تم ایک سال سے اس کی عقل مندیاں دیکھ رہی ہو، تمہیں تو پتا ہونا چاہیے تھا۔“ نین نے مسکراہٹ دباتے ہوئے اسے چھیڑا۔
”نین اس وقت میرا تم سے الجھنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ اس لیے خاموش ہوجاﺅ۔“
شہمین نے بیڈ پر بیٹھتے ہوئے اپنا رخ اس کی جانب سے پھیرا، تو اس کی نگاہ دوسرے تکیے کے پاس رکھے لیپ ٹاپ پر پڑی۔
”پتا نہیں اس نے گھر بھی بات کی ہوگی یا نہیں؟“ شہمین نے سوچا پھر سر جھٹکا ، اس کی نم آنکھیں کناروں سے لال ہونے لگیں جس پر وہ ضبط کررہی تھی۔
”اچھا چڑیل بابا گئے ہیں اسے دیکھنے تم پریشان نہ ہو۔ میں بھی ان کے پاس جارہی ہوں۔“ نین اس کے بازو پر تسلی بھرا ہاتھ رکھ کر باہر آگئی۔
”کچھ پتا چلا بابا۔“ مسعود خان گھر کے باہر کھڑے تھے وہ بھی وہیں آگئی۔
”نہیں بیٹا۔ آس پاس بھی کسی نے اسے آتا جاتا نہیں دیکھا۔ تم شہمین کے پاس جاکر بیٹھو، میں اور اکرم اسے دیکھ کر آتے ہیں۔“ مسعود خان بھی کافی پریشان تھے۔
”نہیں بابا ۔ اکرم چاچا اور جہاں رک جائیں شہمین کے پاس میں آپ کے ساتھ چلتی ہوں۔“ نین ان سے گاڑی کی چابی لے کر آگے بڑھ گئی۔
”نین میری بیٹی پریشان ہے۔ تم اس کے پاس رکو۔ اس کا خیال رکھو میں جارہا ہوں اکرم کے ساتھ۔“ مسعود خان نے التجائی لہجے میں کہا۔
”بابا وہ اس وقت بہت چڑچڑی ہورہی ہے۔ میرا خیال ہے ہمیں اسے اکیلا چھوڑ دینا چاہیے۔“ نین باپ سے کہہ کر گاڑی ریورس کرنے لگی۔ مسعود خان نے آگے بڑھ کر اکرم خان سے شہمین کا خیال رکھنے کو کہا اور جلدی سے گاڑی میں بیٹھ گئے۔
نین اب گاڑی روڈ پر لے آئی تھی۔
٭….٭….٭