پہلا باب
المیزان
وہ گندمی رنگت اور درمیانے قد کی لڑکی شدید ٹھنڈ کے باعث اپنے لانگ کوٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے ائیر پورٹ کے پارکنگ ایریا میں موجود ایک سیاہ گاڑی سے ٹیک لگائے کھڑی اپنے سامنے عمارت کی چوٹی کو تک رہی تھی جو گزشتہ روز ہوئی برف باری کی وجہ سے ابھی تک برف سے ڈھکی ہوئی تھی۔
اُس لڑکی نے اپنے سر کو حجاب میں لپیٹا ہوا تھا اور اُس کے پتلے ہونٹوں پر ہلکے براﺅن رنگ کی لپ اسٹک نمایاں تھی۔
وہ اپنے باقی دو ساتھیوں کا انتظار کرتی بڑی محویت سے اُس چوٹی کو تک رہی تھی جب اچانک سے وہ اپنے پاس سے آتی وائلن کی آواز پر ٹھٹکی۔ اُس نے چوٹی سے نظریں ہٹا کر اردگرد دیکھا، وہاں اُس سے چند قدموں کے فاصلے پر ایک بوڑھا آدمی وائلن کے تاروں پر اپنی زندگی کا کرب بجاتا اپنی بھوک کا سامان اکٹھا کررہا تھا۔
شہمین مسعود کے چہرے پر ایک دم ہی مسکراہٹ آگئی۔ اُسے اس دیارِ غیر کی سب سے اچھی بات ہی یہ لگی تھی کہ یہاں کا انسان خود کو مظلوم اور مجبور سمجھ کر ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہیں بیٹھا تھا۔ بلکہ سب اپنے لیے محنت کرتے اور ایک سی کرتے تھے۔
شہمین چند قدموں کا فاصلہ طے کرتی اُس بوڑھے کے نزدیک ہی چلی آئی جہاں اُس کے علاوہ چند دو اور لوگ بھی موجود تھے۔
”وہ کافی اچھا بجارہا ہے نا۔“ یہ آواز اُس کے عقب سے آتی اُجلی رنگت والی ضوٹی کی تھی جو شہمین کو پارکنگ ایریا میں کھڑا دیکھ کر اُس کے نزدیک ہی آگئی۔
”ہاں!“ شہمین بغیر اُس کی طرف رخ کیے بولی۔ اُس کا پورا دھیان وائلن پر حرکت کرتے اُس بوڑھے کے ہاتھوں کی جانب تھا جس سے نکلتی دھن میں بے حد اُداسی تھی۔
”تمہیں یاد ہے جب ہم پہلی بار ملے تھے اُس روز بھی کتنی زبردست برف باری ہوئی تھی۔“ ضوٹی نے اپنے سنہری باب کٹ بال کانوں کے پیچھے اڑستے اُس بوڑھے کے نزدیک روڈ پر ہلکی ہلکی برف کو دیکھتے ہوئے کہا، تو اس کے لہجے میں بھی وائلن کے تاروں سے نکلتی دھن کی سی اُداسی تھی۔ جسے شہمین مکمل نظر انداز کرگئی۔
”ہاں۔“ وہ ہنوز بوڑھے کے ہاتھوں کودیکھتی مختصراً بولی۔
”اس روز اگر تم میرا ہاتھ نہ تھا متیں تو ان سیڑھیوں سے گر کر میری موت ضرور واقعہ ہوجاتی۔“ ضوٹی نے اپنا رخ ترچھا کرکے تشکر سے شہمین کی طرف دیکھا۔
”تو تم بھی تو کنارے کی غلط پیمائش کیے ہیل پہن کر چل رہی تھیں۔ تمہار اعمل غلط تھا اس لیے پھر گرنا، تو تمہیں تھا ہی۔“ شہمین نے بھی اس واقعے کو یاد کرکے اسے پیار سے گھر کا تھا۔
”ہاں! صحیح کہہ رہی ہو۔“ ضوٹی کا لہجہ مزید بوجھل ہوا۔ ساتھ ہی وائلن کے تاروں سے نکلتی دھن کی اُداسی میں بھی اضافہ ہوا تھا۔
”کاش ہم ہمیشہ ساتھ رہ سکتے اس طرح میں بے وقوف لڑکی گرنے سے تو بچ جاتی۔“ ضوٹی نے کسی اُمید کے تحت کہا۔ وائلن کے تاروں نے بھی اپنی دھن بدلی تھی، مگر شہمین ایک بار پھر اس کے لہجے کو نظر انداز کرگئی۔
”میں ہمیشہ کے ساتھ کا وعدہ تو نہیں کرتی، لیکن کوشش کروں گی کے رابطے میں رہوں۔“ وہ نرمی سے بولی۔
”کیوں، شہمین وعدہ کیوں نہیں کرسکتیں؟“ ضوٹی نے بے قراری سے اس کا بازو پکڑ کر پوچھا۔ اسے شہمین کے اس انداز سے سخت الجھن ہوتی جب وہ یک دم ہی اجنبی اجنبی سا برتاﺅ کرنے لگتی اور شہمین نے اتنی دیر میں پہلی بار اس کی جانب رخ کیا تھا۔
”کیوں کہ یہ ہمیشہ کے وعدے زیادہ تروفا نہیں ہوتے۔“ شہمین نے پھیکی سی ہنسی ہنس کر کہا۔ پھر وہ کچھ سوچ کر مزید بولی۔
”اور ویسے بھی میرے بابا جان کہتے ہیں کہ ہر انسان کو اپنے اعمال کے حساب کے لیے ترازو خود بننا پڑتا ہے، خود یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ میرا یہ عمل کتنے وزن کے ساتھ ترازو کے کس پلڑے میں بیٹھے گا۔ اس حساب میں کسی بھی دوسرے کے عمل دخل کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ اس لیے تمہیں بھی اپنے اعمال کا حساب خود رکھنا ہوگا۔“ شہمین کہہ کر مسکرائی۔
وہ دونوں اکثر ہی ایسی ذومعنی باتیں کرتی تھیں ، یہ کوئی پہلی بار نہیں ہورہا تھا۔
”اور جو حساب میں کمزور ہو وہ کیا کرے؟“ ضوٹی اُس کے مسکراتے لبوں کو دیکھتے ہوئے کھوئے کھوئے لہجے میںبولی۔
”تو وہ حساب کی مشق کرے۔“ شہمین نے سادگی سے کہا۔ ضوٹی نے خاموشی سے اثبات میں گردن ہلادی۔ پھر ان دونوں نے پلٹ کر اس بوڑھے کو دیکھا جس کا وائلن پر حرکت کرتا ہاتھ اب تھم چکا تھا اور دھن خاموش تھی۔ جب مارک، ان کا تیسرا ساتھی نزدیک آتے ہوئے بولا۔
”شہمین فلائٹ کے لیے دیر ہورہی ہے۔“
یہ کوئی ایک سال قبل کی بات تھی جب شہمین پاکستان سے اور مارک فرانس سے ایک اسکالر شپ پروگرام کے تحت امریکا آئے تھے اور یہاں یونیورسٹی میں ان تینوں کی ملاقات ہوئی تھی، چوں کہ ضوٹی اور مارک ہم مذہب تھے اور پھر ان کے مزاج بھی ایک سے تھے اس لیے ان کی دوستی جلد ہی ہوگئی، مگر شہمین مختلف مذہب اور اس کا مزاج بھی دونوں سے مختلف تھا، اس لیے اسے ان دونوں سے گھلنے ملنے میں وقت لگا، لیکن پھر بھی اس کی دوستی ان دونوں سے ہوگئی جس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ وہ تینوں آپس میں ایک دوسرے کی ترجیحات کو بہت اہمیت دیتے تھے اور اب ایک سال ہوچکا تھا اس لیے آج شہمین اور مارک اپنے اپنے ملک واپس لوٹ رہے تھے اور چوں کہ ضوٹی تو تھی ہی امریکی شہری۔
”ہاں …. بس چلو۔“ شہمین نے اپنے کوٹ کی جیب سے چند ڈالر نکال کر اس بوڑھے کے سامنے بچھے کپڑے پر ڈالتے ہوئے مارک سے کہا تھا جو ضوٹی سے گلے ملتا اسے الوداع کہہ رہا تھا۔ پھر وہ ضوٹی سے الگ ہوا تو شہمین اس کے گلے لگی تھی۔
”میں تم دونوں کو بہت مس کروں گی۔“ ضوٹی نے بھرائی آواز میں شہمین سے علیحدہ ہوتے ہوئے کہا۔
”ہم بھی۔“ وہ دونوں بھی جواباً بولے، مگر اُن کی آواز میں بھرائی ہوئی نہیں تھی۔ پھر مارک اور شہمین ائیرپورٹ کی اندرونی سمت بڑھ گئے جب کہ ضوٹی دیر تک پارکنگ ایریا میں کھڑی ان دونوں کو دور جاتا دیکھتی رہی تھی۔
٭….٭….٭