”ہائے جہاں آرا…. کیسی ہو؟“ گہرے سیاہ بالوں والی ماہین کی آواز پر جہاں نے مڑ کر دیکھا۔ وہ کچن کی دہلیز پر کھڑی اسے ہی دیکھ رہی تھی۔
”السلام علیکم ماہین باجی۔ میں ٹھیک ہوں۔ آپ کیسی ہیں؟“
”میں بھی ٹھیک ہوں۔ یہ سارے گھر والے کد ھر ہیں؟ کوئی نظر نہیں آرہا۔“ ماہین نے اردگرد کا جائزہ لیتے ہوئے کہا۔ وہ ابھی ابھی مسعود خان کے گھر آئی تھی ۔ گو کہ وہ آئی تو سفیر سے ملنے تھی جس کا اسے کل موقع نہیں ملا تھا، مگر اس نے ظاہر یوں کیا تھا کہ وہ شہمین سے ملنے آئی ہے۔
”وہ باجی، نین باجی کو پارلر جانا تھا نا، بڑے صاحب اور شہمین باجی انہیں چھوڑنے گئے ہیں۔“ جہاں نے توے سے پراٹھا اتارتے ہوئے کہا۔
”اوہ۔“ ماہین کی آنکھوں میں چمک ابھری۔
”میرا خیال ہے وہ لوگ جلدی آجائیں گے۔ میں انتظار کرلیتی ہوں۔“
”اچھا وہ لڑکا کہاں ہے؟“ جہاں نے ہاتھ روک کر ابرو اچکا کر اسے دیکھا۔
”وہی شہمین کا دوست۔“
”وہ سفیر بھائی …. وہ شہمین باجی کے کمرے میں ہیں۔ میں ان ہی کے لیے تو ناشتا بنا رہی ہوں۔ شہمین باجی مجھے کہہ کر گئیں تھیں کہ وہ اٹھ جائیں، تو انہیں ہلکی مرچوں کا آملیٹ اور پراٹھا بنادوں۔“ وہ اب انڈا توے پر ڈال رہی تھی۔
”صحیح۔“ ا س نے پرسوچ انداز میں گردن ہلائی۔
”ایسا کرو جہاں میرے لیے ایک کپ چائے بنادو۔ یہ ٹرے میں اوپر دے آتی ہوں۔“ ماہین جہاں کو ٹرے میں سامان رکھتا دیکھ کر تیزی سے بولی۔
”نہیں باجی میں….‘ ‘ جہاں کے کسی احتجاج سے پہلے ہی ماہین ٹرے اٹھائے کچن سے باہر آگئی تھی اور اس نے اوپر آکر بغیر دستک دیے کمرے کا دروازہ کھول دیا۔ سفیر آنکھیں موندے بیڈ پر بیٹھا سگریٹ پی رہا تھا۔ کلک کی آواز پر اس نے فوراً آنکھیں کھولیں اور یک دم ہی اس کی تیوری پر بل پڑگئے۔ ماہین نے بڑی نزاکت سے چلتے ہوئے ٹرے بیڈ پر اس کے سامنے رکھی۔
”ناشتا۔“ اس نے ایسی ہی نزاکت سے اپنے کھلے بالوں کو جو جھکنے سے آگے آگئے تھے۔ پیچھے کیا۔
”کیا میں نے مانگا تھا؟“ وہ تیز نگاہوں سے اسے گھورتا بے لچک لہجے میں بولا ۔ ماہین گڑ بڑا گئی تھی۔
”وہ آپ اُٹھے….“
”اپنی بکواس بند کرو اور دفع ہوجاﺅ یہاں سے…. اور ہاں جب تک میں یہاں ہوں تب تک آئندہ اس کمرے میں اجازت لے کر آنا۔“ اس نے درشتگی سے ماہین کی بات کاٹ کر کہا۔ ہتک کا احساس اتنا شدید تھا کہ ماہین اپنی جگہ سے ہل تک نہ سکی۔ سفیر اسے ہنوز کھڑا دیکھ کر سر جھٹک کر بڑے بڑے ڈگ بھرتا کمرے سے باہر آگیا۔ وہ پہلے ہی صبح سے ماں کی آواز سن کر بے حد ڈسٹرب تھا۔ اب کسی کا بغیر اجازت اپنے کمرے میں منہ اٹھا کر آجانا اسے مزید سلگا گیا تھا۔
”میں باہر جارہاہوں۔ میرے لوٹنے سے پہلے اس لڑکی اور اس ٹرے کو میرے کمرے سے باہر نکال پھینکنا۔“ سفیر کو ریڈور میں کھڑی جہاں آرا کے پاس رک کر بولا۔ اس کا انداز اتنا سخت تھا کہ جہاں آرا کی کچھ کہنے کی ہمت ہی نہیں ہوئی۔
وہ باغ کی سمت بڑھ گیا اور اس کے چند ہی لمحوں بعد ماہین بھی پیر پٹختی سیڑھیاں اتری اور جہاں کی کوئی بات سنے بغیر باہر کی جانب غائب ہوگئی۔
٭….٭….٭