وہ دوپٹہ سر پر جماتی سیڑھیاں اتر رہی تھی۔ اس کا ارادہ کچن میں جانے کا تھا، مگر باہر باغ میں ہاتھ میں پائپ لیے کھڑے مسعود خان پر نگاہ پڑی، تو وہ کچن کے بجائے باہر باغ میں آگئی۔
”نئے پودے لگائے ہیں مالی بابا نے؟“ اس نے باپ کے قریب آتے ہوئے ، مرکزی دروازے کے ساتھ بنی کیاری میں لگے ننھے ننھے نئے پودو ںکو دیکھ کر پوچھا۔ مسعود خان ان ہی پودوں کے سامنے کھڑے انہیں پانی دے رہے تھے۔
”جی لگائے تو ہیں، لیکن مالی بابا نے نہیں۔ بلکہ ہمارے لمبی زلفوں والے مہمان نے۔“ وہ پائپ کا رخ کیاری کے دوسرے پودوں کی سمت کرتے ہوئے مسکرائے۔
”سفیر نے۔“ اسے حیرت ہوئی تھی۔
”جی۔“
”لیکن کیوں؟“
”بھئی وہ بور ہورہا تھا اس نے ہم سے پوچھا، تو ہم نے اجازت دے دی۔ پھر دیکھو نہ ہمیں اپنے باغ کی دیکھ بھال کے لیے دوبارہ ایک امریکی مالی کہاں سے ملتا۔ یہ ملا تو ہم نے سوچا موقع اچھا ہے کیوں نہ فائدہ اٹھایا جائے۔“
وہ اب مرکزی دروازے کی بائیں جانب والی کیاری کی طرف آگئے تھے، شہمین بھی خاموشی سے چلتی ان کے ساتھ آگئی۔
”کیا بات ہے۔“ چند لمحے شہمین کی جانب سے کسی ردعمل کا انتظار کرنے کے بعد مسعود خان نے مڑکر اسے دیکھا اور کہا، وہ چونکی۔
”وہ اپنے پیرنٹس سے جھوٹ بول کر یہاں آیا ہے، وہ سب بہت پریشان ہیں۔“ اس نے بالآخر وہ بات کہی تھی جسے کہنے کے لیے اس کا لاشعور اسے کچن کے بجائے باغ میں گھسیٹ لایا تھا۔
”کیا یہ اس نے کہا آپ سے۔“ مسعود خان کو سن کر بالکل حیرت نہیں ہوئی تھی۔
”نہیں…. کل ضوٹی سے بات ہوئی تھی، اس نے بتایا۔“
”پھر۔“ مسعود خان نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔
”میں نے اسے سمجھایا ہے کہ ان سے بات کرے۔“
”اور وہ سمجھ گیا۔“
”جی۔“
”پھر مسئلہ کیا ہے۔“
”کچھ نہیں۔“ وہ دھیمی سا بولی پھر ا س نے نگاہیں اٹھا کر باپ کو دیکھا اور ایک گہرا سانس لے کر کہا۔
”وہ بہت زیادہ بےپروا ہے۔“
”یہ اس کا قصور نہیں ہے اس کے ماحول کا قصور ہے۔“ مسعود خان نے وضاحت دی۔
”وہ باشعور انسان ہے اسے خود عقل ہونی چاہیے۔“
”کبھی کبھی باشعور انسان کو بھی خود سے عقل نہیں آتی، اسے عقل دلانی پڑتی ہے۔“ وہ اسے دیکھ کر مسکرائے۔ پھر انہوں نے وہ نل بند کیا جس سے پائپ کا سر اجڑا ہوا تھا۔ وہ اب پائپ کو گول دائرے کی شکل میں لپیٹ رہے تھے۔
”کیا آپ کی بہت دوستی ہوگئی ہے اس سے؟“ اس نے آنکھیں سکیڑ کر مشکوک نظروں سے انہیں دیکھا۔ اسے باپ کا کسی دوسرے کے لیے اتنا محبت بھرا لہجہ بالکل اچھا نہیںلگ رہا تھا۔ مسعود خان نے نگاہیں اٹھا کر بہ غور اسے دیکھا۔
”ہماری تو اب تک ٹھیک سے ملاقات بھی نہیں ہوئی، تو دوستی کیسے ہوگی؟“ وہ مسکرا رہے تھے۔
”پھر اتنی حمایت کیوں کررہے ہیں اس کی؟“ اس نے ناک چڑھا کر پوچھا۔
”ہم اس کی نہیں صحیح کی حمایت کررہے ہیں، اب اگر وہ صحیح ہے، تو یہ ہمارا قصور تو نہیں۔“
مسعود خان نے کندھے اچکائے تھے، شہمین نے سرجھٹکا ۔” اُنہہ ۔ صحیح۔ “
”صبح سے مجھے دکھا نہیں ہے وہ ، ہے کہاں؟“ مسعود خان پائپ مخصوص جگہ پر رکھ کر محبت سے اس کے گرد بازو جمائے اسے اپنے ساتھ کوریڈور میں لے آئے۔
”سو رہا ہے۔“
شہمین نے کہہ کر ان کا بازو ہٹا کر کچن میں جانا چاہا۔ اسے یاد آیا تھا اسے جہاں سے کچھ کام تھا۔ مسعود خان نے بازو واپس جماتے ہوئے اسے اٹھنے سے روک دیا۔
”کہاں جارہی ہیں۔“
”کچن میں۔“ وہ خفا خفا سا بولی تھی۔
”کیوں؟“
”جہاں سے ایک کام کہنا ہے۔“
”تو جہاں کو یہی بلالیں۔“ مسعود خان نے اس سے کہہ کر خود ہی جہاں کو آواز لگا دی۔
”جی بڑے صاحب۔“ وہ دوپٹے کے پلو سے ہاتھ صاف کرتی فوراً باہر آئی تھی۔ مسعود خان نے شہمین کی جانب سوالیہ انداز سے دیکھا۔
”روز کھانے میں ایک ڈش ہلکی مرچوں کی بنادیا کرو۔“ شہمین کا منہ ابھی بھی پھولا ہوا تھا۔
”کیوں باجی آپ کا پیٹ خراب ہے کیا؟“ جہاں فوراً ہی فکر مندی سے بولی۔ حالاں کہ وہ چند ایک روز سے شہمین سے خفا تھی کیوں کہ اس نے نین کی مایوں میں اس کے ساتھ تصویر جو نہیں بنوائی تھی، البتہ مسعود خان خاموشی سے بیٹھے دونوں کو سن رہے تھے۔
”نہیں جہاں۔“ وہ جھلائی۔
”پھر باجی ۔ کیا کسی اور کا پیٹ خراب ہے؟“ جہاں نے قیاس آرائی کی۔
”اُف جہاں…. جو کہا ہے وہ کردو۔“ شہمین اکتائی۔
”اچھا باجی۔“ جہاں منمناتی ہوئی واپس کچن میں چلی گئی تھی جب کہ مسعود خان نے نرم مسکراہٹ سے جھک کر بیٹی کے ماتھے پر بوسہ دیا تھا۔
”آپ میری شہزادی ہیں آپ کی جگہ کبھی کوئی نہیں لے سکتا ۔“ وہ اسے اطمینان دلا رہے تھے، گوکہ وہ بڑی تھی، مگر کبھی کبھار بڑے بچے بھی ماں باپ کی کسی اور کے لیے اتنی محبت دیکھ کر چھوٹے بچوں کی طرح کم عقلی کا مظاہرہ کرنے لگتے ہیں۔ جیسے ابھی وہ کررہی تھی۔
”کوئی لینے کی کوشش تو کرے۔ میں اُسے اٹھا کر گھر سے باہر نہیں پھینک دوں گی۔“ وہ مزید ناک چڑھا کر پھر خفا خفا سی بولی۔ مسعود خان قہقہہ لگا کر ہنس پڑے۔
”اچھا اب ناراضگی ختم کرو اور جلدی سے جاکر اپنی بہن سے پوچھو۔ اس نے سامان رکھ لیا، تو ہم دونوں چل کر اسے پار لر چھوڑ آئیں۔“
”ٹھیک ہے۔“ شہمین سیڑھیوں تک پہنچی جب مسعو د خان نے اسے دوبارہ آواز دی تھی۔ اس نے مڑ کر دیکھا۔
”وہ کسی اور سے مانگتا نہیں ہے، اس کے ناشتے کھانے کا خیال رکھا کرو۔“
”کون؟“ شہمین نے چونک کر ابرو اچکائی۔
”وہی جس کے کھانے کا خیال کرتے ہوئے آپ ایک کم مرچوں کی ڈش بنوارہی تھیں اور پھر اس کی ہی حمایت کرنے پر ہم سے خفا بھی ہورہی تھیں۔“ وہ مسکرا ے تھے۔ شہمین سرجھکا کر اچھا کہہ کر آگے بڑھ گئی۔
”بابا بغیر کہے ہر بات کیسے جان لیتے ہیں۔“
٭….٭….٭