شدید غصے سے اس کا برا حال ہورہا تھا اور وہ کوریڈور میں کبھی دائیں سے بائیں اور کبھی بائیں سے دائیں ٹہل رہی تھی اور پھر بیچ بیچ میں رُک کر گھڑی کی جانب بھی دیکھ لیتی۔ وہ اب بھی رک کر گھڑی کو ہی دیکھ رہی تھی۔
”پونے چار…. ابھی بھی صبح ہونے میں کافی وقت ہے۔“ وہ جھنجھلا کر سوچتے ہوئے واپس ٹہلنے لگی۔ اُسے سفیر پر شدید غصہ آرہا تھا، لیکن وہ اتنی رات کو اس کے کمرے میں نہیں جاسکتی تھی، اسے صبح ہونے کا انتظار تو کرنا ہی تھا۔
اُدھر سفیر احمد کا وقت بہت ہی برا چل رہا تھا جو ہاتھ میں پانی کی بوتل تھامے سیڑھیاں اترتا کوریڈور میں آگیا تھا۔ اس نے رک کر جھولے کے پاس کھڑی شہمین کو دیکھا پھر جیسے ہی اسے رات اس کی ناراضگی یاد آئی، وہ سرجھکا تا کچن کی جانب بڑھ گیا اور شہمین اپنا دوپٹا درست کرتی اس کے سر پر جاکھڑی ہوئی۔ سفیر نے پھر نگاہیں اٹھا کر ایک لمحے کو اس کی جانب دیکھا اور واپس جھکالیں، وہ فلٹر سے بوتل میں پانی بھر رہا تھا۔
”تمہاری ممی آئیں تھیں۔“ سفیر کے ہاتھ سے پانی کی بوتل چھوٹی تھی۔ اس نے چونک کر پھر شہمین کی جانب دیکھا۔
”ممی…. کہاں ہیں وہ؟“ وہ پریشانی سے بولا یا خوشی سے شہمین کو اندازہ نہیں ہوسکا۔
”تم انہیں کہاں کا پتا دے کر آئے تھے؟ کوئی پتا دیا بھی تھا یا نہیں۔“ وہ سینے پر بازو لپیٹے سخت تیوروں سے اسے گھور رہی تھی۔ سفیر خاموش رہا۔
”بولو…. کہاں کا پتا دیا تھا۔“ شہمین نے اپنی بات پر زور دیا۔
”کہیں کا بھی نہیں۔“ وہ گہری سانس لے کر فرش سے بوتل اٹھاتا ہوا دھیمے لہجے میں بولا۔
”اس بے پرواہی کی کوئی خاص وجہ؟“ اس کا لہجہ ہنوز سخت تھا، مگر سرد نہیں تھا۔
”وہ لوگ مجھے آنے نہیں دیتے۔“ اس نے سنک کے قریب آکر وہ بوتل کھنگالی۔
”اور تم جیسے رک جاتے۔“ وہ ترکی بہ ترکی بولی۔
”رکنا ہی تو نہیں چاہتا تھا، اس لیے نہیں بتایا۔“ وہ اب بوتل کو واپس فلٹر سے بھر رہا تھا۔
”تمہیں یہ خیال نہیں آیا کہ وہ پریشان ہوں گے۔“
”اس وقت دماغ اتنا قابو میں نہیں تھا کہ میں یہ سوچتا۔“ شہمین کا غصہ یک دم ہی ٹھنڈا پڑا۔ وہ ایک گہرا سانس لے کر وہیں کچن میں رکھی ٹیبل کے سامنے بچھی کرسی کھینچ کر بیٹھ گئی۔ وہ آج پھر اس کی بے بسی کے آگے خاموش ہوگئی تھی۔ سفیر نے نگاہیں اٹھا کر اس کی جانب دیکھا۔ شہمین نے اپنی دائیں کہنی میز پر ٹکائی اور ہاتھ سر پر رکھا ہوا تھا۔ سفیر نے ایک لمحے کو کچھ سوچا پھر اس نے آگے بڑھ کر برنر کے برابر میں سلیپ پر رکھا ساس پین اٹھایا اور اسے برنر پر رکھ دیا۔ پھر اس نے فریج سے دودھ نکالا اور ساس پین میں ڈالنے لگا۔
”کیا کررہے ہو؟“ شہمین نے برنر کی آواز پر ٹھٹک کر اس کی جانب دیکھا۔
”تمہارے لیے چائے بنارہا ہوں۔“ وہ بغیر مڑے بولا۔
”لیکن کیوں….“ شہمین حیران ہوئی۔
”تمہارے سر میں درد ہورہا ہے نا…. اور ممی کہتی ہیں سر درد میں چائے پینے سے ٹھیک ہوجاتا ہے۔“ وہ ہنوز سرجھکائے کھڑا اپنے مخصوص دھیمے لہجے میں بڑی معصومیت سے بولا۔ شہمین نے چونک کر سر پر دھرے اپنے ہاتھ کو دیکھا، پھر سیدھی ہوکر بیٹھ گئی۔
”چائے بنانی آتی ہے؟“ سفیر نے پھر بغیر مڑے نفی میں گردن ہلادی۔
”واہ…. چائے بنانی تو آتی نہیں اور کھڑا ہوگیا بنانے…. خدا معلوم میں نہ دیکھتی تو یہ کیا گھول کر پلاتا مجھے۔“ وہ مسکر اکر سوچتی سرجھٹک کر چولہے کے قریب آگئی۔
”ہٹو…. میں بناتی ہوں۔“ شہمین نے برنر پر سے ساس پین ہٹاتے ہوئے اس سے کہا۔ وہ خاموشی سے شہمین کی جگہ پر جا بیٹھا۔
شہمین نے ساس پین میں موجود دودھ ایک کپ میں نکالا اور پانی ڈال کر ساس پین برنر پر رکھ دیا۔
”مجھے ممی کی بہت یاد آتی ہے۔“ شہمین فریج میں دودھ کا مگ رکھ رہی تھی جب اس نے اپنے عقب سے سفیر کو کہتے سنا، اس نے ایک نگاہ سفیر کو دیکھا پھر دوبارہ اپناکام کرتے ہوئے، نرم لہجے میں بولی۔
”تو چھوڑ کر آئے ہی کیوں تھے انہیں؟“ سرجھکائے بے بس سے بیٹھے سفیر کا چہرہ یک دم ہی بجھ گیا تھا اور کنپٹی کی رگیں تن گئیں۔
”تم کیوں میری بے بسی کو نہیں سمجھ پارہی شہمین…. کیوں بار بار میرے مرض ، میری محتاجی کا ذکر کرکے مجھے شرمندہ کرتی رہتی ہو۔ تمہیں میری بدحالی نظر کیوں نہیں آتی۔“ وہ گلہ آمیز نگاہوں سے شہمین کی پیٹھ کو تکتے ہوئے سوچ رہا تھا، جب شہمین اسے خاموش پاکر بولی۔
”بات کرلو ان سے۔“
”نہیں۔“
”کیوں۔“
”وہ مجھے واپس آنے کو کہیں گی۔“
”تو کیا تم کبھی واپس نہیں جاﺅگے۔“
”جب تک تم ساتھ نہیں چلو گی میں بھی نہیں جاﺅں گا۔“
”خیر…. میں تو تمہارے ساتھ کبھی بھی نہیں جاﺅں گی۔“
”کیوں؟“
”میں اس کیوں کا جواب رات تمہیں دے چکی ہوں۔“
”میں تمہیں وہاں ایک گھر لے دوں گا۔“ سفیر چند لمحے سوچ کر بولا۔ شہمین نے کپ میں چائے نکالتے ہوئے مڑ کر اس کی جانب دیکھا۔
”اتنے پیسے ہیں تمہارے پاس؟“ وہ دوبارہ سیدھی ہوکر مسکرا کر بولی۔
”کمالوں گا۔“ وہ پٹاق سے بولا۔
”کیسے؟ مجھے دیکھ دیکھ کر۔“ شہمین بھی اتنی ہی تیزی سے بولی۔
”پھر وہی ذکر۔“ سفیر نے آنکھیں بھینچ کر کرسی کی پشت سے ٹیک لگالی۔
شہمین چائے کے دونوں کپ لیے اس کے قریب آگئی۔ سفیر کو آنکھیں موند ا دیکھ کر اس نے کپ آواز کے ساتھ میز پر رکھے۔ پھر ایک کرسی کھینچ کر بیٹھ گئی۔ سفیر نے کپ کی آواز پر آنکھیں کھول دیں، وہ سیدھا ہوکر بیٹھا، تو اس کی نگاہ میز پر دھرے دونوں کپوں پر پڑی، اس کا بھینچا چہرہ ڈھیلا پڑگیا۔
”اتنی خفگی کے بعد بھی تمہیں یاد رہا۔“ اس نے بلیک ٹی والا کپ اپنے قریب کرتے ہوئے مسکرا کر کہا۔ دوسرے کپ میں ملک ٹی تھی۔
”ہاں! لیکن خفگی بھی بلاوجہ نہیں تھی…. وہ لوگ بہت پریشان ہیں تمہیں ان سے بات کرلینی چاہیے۔“ شہمین نے اپنے بھاپ اڑاتے کپ کے کنارے پر انگلی پھیرتے ہوئے اسے پھر سمجھانے کی کوشش کی۔
”لیکن ممی۔“ سفیر نے جھنجھلا کر سر ہلاتے ہوئے کچھ بولنا چاہا، لیکن شہمین نے اس کی بات کاٹ دی۔
”کیا ہمیشہ کے لیے ان سے قطع تعلق کرسکتے ہو؟ کیا یہ سوچ کر جی سکتے ہو کہ وہ اب کبھی تمہاری زندگی میں نہیں آئیں گے؟ کیوں کہ میں تو اسٹیٹ واپس جاﺅں گی نہیں اور میرے بغیر تم جانے پر رضا مند نہیں ہو۔“ شہمین اُسے مخمصے کا شکار دیکھ کر بولی۔
”سفیر ماں باپ کے بغیر نہیں رہا جاسکتا اور اگر تم رہ بھی لو، تو وہ تمہارے بغیر نہیں رہ پائیں گے۔ پلیز با ت کر لو ان سے۔“
”اوکے۔“ سفیر نے ایک گہرا سانس بھر کر کہا۔ پھر اپنا بلیک ٹی کا کپ اٹھا کر لبوں سے لگالیا جو اب ہلکی ٹھنڈی ہوچکی تھی۔
”کہاں جارہی ہو؟“ اس نے شہمین کو اٹھتا دیکھ کر پوچھا۔
”لیپ ٹاپ لانے۔“
وہ کچن سے نکل کر کوریڈور میں آئی۔ پھر لیپ ٹاپ لے کر واپس کچن میں آگئی۔ اس نے لیپ ٹاپ وہیں سفیر کے سامنے میز پر رکھ دیا۔
”میں اب نماز کے لیے جارہی ہوں پھر تھوڑی دیر سوﺅں گی۔ تم بات کرلینا۔“ وہ اپنا چائے کا کپ اٹھا کر دروازہ کی جانب بڑھ گئی۔ پھر کچھ سوچ کر پلٹی۔
”صرف اپنی ممی سے بات کرنا، میرے پرسنل ڈاکومنٹس میں مت گھسنا، ویسے بھی میرے پرسنل فولڈرز پر پاس ورڈ لگا ہے۔“ شہمین نے اسے سخت نگاہوں سے دیکھ کر تنبیہ کی اور پھر یہ ممکن ہی کہاں تھا ہر ایک کو اس کی حد میں رکھنے والی ، کسی ایک کے لیے یہ قاعدہ بھول جاتی۔
”جب پاس ورڈ ہے، تو فکر کس بات کی ہے۔“ سفیر اتنی ٹینشن میں بھی اس کے انداز پر دبا دبا سا مسکرا کر بولا۔
”بس یونہی کہہ دیا تھا۔“ وہ بے پرواہی سے کہہ کر باہر چلی گئی۔ سفیر اس کے نظروں سے اوجھل ہونے تک اسے تکتا رہا۔
٭….٭….٭