المیزان

اس وقت رات کا آخری پہر چل رہا تھا، جب شہمین ہاتھ میں لیپ ٹاپ تھامے کمرے سے نکل کر کوریڈور میں آگئی۔ مہندی کا فنکشن رات ایک بجے تک ختم ہوگیا تھا اور چوں کہ سارے مہمان اس ہی شہر سے تھے اس لیے سب ہی اپنے اپنے گھر واپس لوٹ چکے تھے اور گھر میں اب محض گھر والے ہی رہ گئے تھے۔

وہ کوریڈور میں آکر اس جھولے پر بیٹھ گئی جو نین کی مایوں کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔

جھولے پر گیندے کے پھول اب بھی لپٹے ہوئے تھے لیکن، اب وہ قدرے مرجھا گئے تھے، مگر ان سے اٹھتی خوشبو اب بھی تازہ تھی۔

شہمین نے لیپ ٹاپ گود میں رکھا ۔ اس کی اسکرین اوپر کی اور پاور بٹن دباکر آن کردیا پھر اس نے اپنا Skype account آن کرتے ہوئے اپنے سر پر لیا دوپٹا مزید درست کیا۔

Account log in ہوگیا، تو اس نے تیزی سے ضوٹی کو سرچ کیا اور اسے کال ملائی، کیوں کہ وہ پہلے ہی ضوٹی کو اپنے کال کرنے کا بتا چکی تھی۔ اسی لیے رابطہ محض چند لمحوں میں ہو گیا تھا۔

ہیلو شہمین…. کیسی ہو تم؟لیپ ٹاپ کی چمکتی اسکرین پر ضوٹی کا دو دھیا چہرہ واضح نظر آرہا تھا، وہ ہمیشہ کی طرح بے حد پرجوش لگ رہی تھی۔

میں ٹھیک…. تم کیسی ہو؟شہمین دھیمی مسکراہٹ سے بولی۔ وہ آج بھی ضوٹی جتنی پرجوش نہیں تھی۔

تم نے واپس جاکر میسج کا جواب دینا ہی چھوڑ دیا۔ نہ ہی کال ریسیو کرتی ہو۔ضوٹی نے اس کا سوال نظر انداز کرکے فوراً ہی شکوہ کیا۔

سوری…. بس نین کی شادی میں بہت مصروف ہوگئی ہوں…. ٹائم ہی نہیں ملتا۔وہ جھوٹ بول رہی تھی، مگر کیوں؟

نہیں شہمین تم مجھے بھول گئی ہو۔ضوٹی مطمئن نہیں ہوئی تھی۔

ایسا نہیں ہے۔ اچھا بتااور مارک سے بات ہوتی ہے تمہاری؟شہمین نے موضوع بدلنے کی سعی کی۔

ہاں اس سے تو ہوتی رہتی ہے بس تم سے نہیں ہوتی۔ضوٹی پھر اس ہی موضوع پر آگئی۔

اچھا یہ دیکھوں…. نین نے مجھے رنگ گفٹ کی ہے۔شہمین نے اپنے دائیں ہاتھ کو کیمرے کے لینز کے سامنے کرتے ہوئے ایک بار پھر موضوع بدلنے کی کوشش کی اور اس بار وہ کامیاب بھی ہوگئی تھی۔

واﺅ…. بہت پیاری ہے۔ضوٹی چہک کر بولی تھی۔ پھر یک دم اس کا دودھیا چہرہ مرجھا سا گیا۔

کیا ہوا ضوٹی؟“ 

مارک سے میرا بریک اپ ہوگیا ۔ضوٹی نے اپنے بوائے فرینڈ کا ذکر کیا تھا جو اب بوائے فرینڈ کی لسٹ سے خارج ہوگیا تھا۔

کیوں۔شہمین نے سادہ لہجے میں پوچھاتھا۔

ضوٹی ایک آزاد خیال کرسچن لڑکی تھی اور اس کے نزدیک B.F رکھنا کوئی بری بات نہیں تھی پھر شہمین کو مسعود خان نے یہ سکھایا تھا کہ 

ہر انسان کو اپنی زندگی اپنے مطابق گزارنے کا حق ہے۔ ہمیں اپنے نظریات کی بنیاد پر دوسروں پر تنقید نہیں کرنی چاہیے۔

اور پھر آج کل تو یہ رواج مسلمانوں میں بھی پایا جارہا تھا، تو وہ اسے کہتی بھی کیا۔

وہ لیرا کو بھی ڈیٹ کررہا تھا۔ضوٹی نے ناک سکیڑتے ہوئے وجہ بتائی ، اس کی چھوٹی کُول آنکھوں میں نمی آگئی تھی۔

کوئی بات نہیں تمہیں اس سے بہتر مل جائے گا۔شہمین نے اسے پچھلی بار جون کے ساتھ بریک اپ ہونے پر بھی یہی کہا تھا۔

اور بتایونیورسٹی میں سب ٹھیک ہے۔شہمین نے اس کا موڈ تبدیل کرنے کے لیے ہلکے پھلکے اندا ز میںبات بدلی۔

ہاں۔وہ کہہ کر رکی اس نے کچھ سوچا پھر دوبارہ بولی۔یونیورسٹی سے یاد آیا۔ چند دن پہلے وہ لڑکا آیا تھا تمہارا پوچھتے ہوئے ۔

اور تم نے اُسے میرا اَتا پتا تھمادیا۔شہمین پٹاق سے اس کی بات کاٹ کر سنجیدگی سے بولی۔

یہ آٹھ ماہ اپنی آنکھوں دیکھی سفیر کی دیوانگی کا اثر تھا جو اس نے کبھی سفیر کی بات کی تصدیق کرنے کی کوشش ہی نہیں کی تھی۔ ورنہ وہ کسی پر اندھا اعتماد کرنے کی قائل نہیں تھی۔

سوری یار…. وہ میرے پیروں میں گرگیا تھا، میں اور کیا کرتی؟ میں نے کوشش بھی کی تھی کہ تم سے کوئی رابطہ کروں، لیکن تم فون ہی نہیں اٹھا رہی تھیں۔ اچھا کیا وہ پہنچا تمہاری طرف، پتا ہے وہ کئی دن سے لاپتا ہے، اس کے گھر والے سخت پریشان ہیں اور اس کی ممی کی حالت بہت خراب ہے۔ اس کے دوست بتارہے تھے کہ گھر سے کہہ کر نکلا تھا کام سے جارہا ہوں پھر لوٹا ہی نہیں۔

شہمین ہکا بکا سی ضوٹی کو سن رہی تھی، اس کے ذہن میں کبھی یہ بات نہیںآئی تھی کہ سفیر ایسی کوئی حرکت کرسکتا ہے، وہ اسے سمجھ دار تو بالکل بھی نہیں لگتاتھا لیکن اس حد تک بے وقوف بھی نہیں لگا تھا۔

ہیلو….شہمین۔ضوٹی کی پکار پر وہ چونکی تھی۔

ضوٹی مجھے کچھ ضروری کام کرنا ہے۔ میں تم سے بعد میں بات کرتی ہوں۔اس نے یہ کہہ کر ضوٹی کی کوئی بات سنے بغیر لیب ٹاپ کی اسکرین نیچے کردی۔ وہ یک دم ہی بے حد ڈسٹرب ہوگئی تھی۔

٭….٭….٭

Loading

Read Previous

گل موہر اور یوکلپٹس

Read Next

اوپرا ونفرے

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!