”یہ کون ہے۔“ گہرے سیاہ بالوں والی ماہین کی آواز پر نین اور شہمین نے ٹھٹک کر ایک دوسرے کی جانب دیکھا۔
آج نین کی مہندی تھی جس کا انتظام بھی ان لوگوں نے مایوں کی طرح کوریڈور میں ہی کیا تھا چوں کہ مسعود خان اور زاہدہ مسعو د اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھے۔ اس لیے مایوں کی طرح آج بھی مہمانوں میں محض ان تینوں باپ بیٹیوں کے کلوز فرینڈ اور ان کی فیملیز کو ہی مدعو کیا گیا تھا۔
ماہین بھی مسعو د خان کے ایک دوست کی ہی بیٹی تھی جسے ان تینوں باپ بیٹیوں میں سے کوئی بھی پسند نہیں کرتا تھا جس کی خاص وجہ اس کا لڑکوں سے حد سے زیادہ بے تکلف ہونا تھا اور اس وقت بھی وہ مسعود خان کے ساتھ کھڑے ان کے دوستوں سے باتیں کرتے سفیر کو دیکھ کر بڑے عجیب انداز میں شہمین سے اس کے متعلق سوال کررہی تھی۔
چوں کہ سفیر بے حد وجیہہ لڑکا تھا۔ مہمانوں میں آئی کچھ اور لڑکیوں نے بھی شہمین اور نین سے اس کے متعلق سوال کیا تھا، مگر کسی کا بھی انداز ماہین جیسا عجیب یا دوسرے لفظوں میں کہا جائے تو Flirty نہیں تھا۔
”میرا یونیورسٹی فیلو ہے۔ اپنے کسی کام سے پاکستان آیا ہوا ہے۔“ شہمین سرسری سا کہہ کر ایک دوسری لڑکی سے بات کرنے لگی مگر ماہین نے اس کا بازو پکڑ کر اسے اپنی جانب گھما لیا تھا۔
”اوہ…. مطلب فارنز ہے۔“ اس کی آنکھوں میں چمک ابھری تھی۔
”ہاں۔“ شہمین نے اس کے ہاتھ سے اپنا بازو الگ کرتے ہوئے سپاٹ لہجے میں کہا۔
”تب ہی تو اتنا ہینڈ سم ہے۔“ وہ سفیر کا تنقیدی جائزہ لیتی ہوئی بولی۔ اس نے آج بھی جینز جو وہ پچھلے چار دنوں سے گھس رہا تھا کے ساتھ سرمئی رنگ کی آدھی آستین کی شرٹ پہنی تھی جس سے جھانکتے اس کے ہاتھ پر نسیں آج بھی ابھری ہوئی تھیں اور اس کے کندھوں تک آتے ہلکے براﺅن بال بھی کھلے ہوئے تھے۔
”ارے۔یہ تو ادھر ہی دیکھ رہا ہے۔“ اس کی آنکھوں کی چمک اور زیادہ بڑھ گئی تھی۔ شہمین نے پلٹتے پلٹتے رک کر سفیر کی جانب دیکھا۔ وہ مسعود خان کے برابر کھڑا اسے ہی تک رہا تھا۔ شہمین نے اسے اشارے سے نظریں ہٹانے کو کہا۔ سفیر نے دل مسوستے ہوئے نگاہوں کا زاویہ بدل لیا۔ شہمین نے ایک نگاہ اپنے برابر میں کھڑی ماہین پر ڈالی جو ابھی بھی سفیر کی جانب دیکھ کر اسمائل پاس کررہی تھی۔ پھر وہ سر جھٹک کر آگے بڑھ گئی۔
”کیا کہہ رہی تھی وہ؟“ وہ نین کے قریب آئی تو نین نے پٹاق سے پوچھا۔
”سفیر کے متعلق پوچھ رہی تھی۔“
”تم نے کیا بتایا؟“
”جو حقیقت ہے اور کیا؟“ شہمین نے کندھے اُچکا کر اسے دیکھا۔
”حقیقت تو یہ ہے کہ وہ تمہیں ڈھونڈتا ہوا دیوانوں کی طرح یہاں آیا ہے۔ کیا یہ بتایا تم نے اسے چڑیل۔“ نین نے معصومیت سے پوچھا۔
”بکو مت نین۔“ شہمین جھلائی تھی۔
”اچھا احتیاط کرنا تھوڑی۔“ نین رازداری سے بولی۔
”کس بات کی احتیاط؟“ شہمین نے سنجیدگی سے اسے دیکھا۔
”وہ اس سے کوئی الٹی سیدھی بات نہ کرے۔“
”نین وہ جس ملک سے آیا ہے نا وہاں سب ہی الٹی سیدھی باتیں کرتے ہیں۔ اگر دو چار ماہین بھی اس سے کرلے گی تو کون سی قیامت آ جائے گی۔“ شہمین بے نیازی سے بولی۔
”کچھ زیادہ پیار نہیں آرہا تمہیں ماہین پر۔ اس کی اتنی طرف داری۔“ نین نے مشکوک نگاہوں سے اسے دیکھا۔
”چپ کرو تم۔ ورنہ تمہاری مہندی کا کوئی لحاظ کیے بغیر تمہارا گلا گھونٹ دوں گی ۔“ شہمین اسے کھاجانے والی نظروں سے دیکھتی ہوئی پیر پٹختی اُٹھ کھڑی ہوئی۔
”بھئی اکرم میاں …. میرا خیال ہے اب کھانا شروع کروادیا جائے۔ کافی وقت ہوگیا ہے۔“ مسعود خان نے اپنے عقب میں کھڑے اکرم خان سے مشورہ کیا۔
”جی بہتر صاحب۔ میں ابھی لگواتا ہوں۔“ وہ تابع داری سے کہہ کر انتظام دیکھنے لگے۔ کھانا شروع ہوا، تو کچھ مہمان وہیں کوریڈور میں بیٹھ کر کھانے سے لطف اندوز ہونے لگے اور کچھ کوریڈور کا مرکزی دروازہ عبور کرتے ہوئے کھانے کے ساتھ ساتھ موسم انجوائے کرتے باہر گارڈن میں آگئے۔
جنوری کا وسط چل رہا تھا اور اسلام آباد کے موسم میںکافی خنکی تھی۔ شہمین گارڈن کے ایک کونے میں کھڑی اپنی کسی سہیلی کے ساتھ کھانا کھا رہی تھی جب سفیر اسے ڈھونڈتا ہوا آگیا تھا۔ اس کے ہاتھ میں بھی کھانے کی پلیٹ تھی۔
”تم باہر کیوں آگئیں؟“ سفیر اس کے قریب آکر بولا ۔ شہمین نے ایک نگاہ اس کو دیکھا پھر اس لڑکی سے معذرت کرکے اس کی جانب رخ کرلیا۔
”رامین نے کہا چلو تو میں آگئی۔“ اس نے کچھ فاصلے پر کھڑی اس لڑکی کو دیکھ کر کہا جو ابھی چند لمحے پہلے اس کے ساتھ کھڑی تھی۔
”واﺅ…. ایسے ہی اگر میں بھی ساتھ چلنے کو کہوں تو چلوگی؟“ شہمین کو نوالہ نگلتے ہوئے پھندا لگا تھا۔
”دھیان سے۔“ سفیر نے اس کے ہاتھ سے پلیٹ لیتے ہوئے پاس سے گزرتے ایک بیرے کو پانی لانے کوکہا۔
”یہ لو۔“ اس نے گلاس اس کی جانب بڑھایا۔ شہمین نے دو گھونٹ بھرکر گلاس وہیں منڈیر پر رکھ دیا۔ پھر اس نے سفیر کے ہاتھ سے اپنی پلیٹ واپس لے لی۔
”تم نے جواب نہیں دیا۔“سفیر پہلا نوالہ منہ میں ڈالتے ہوئے بولا۔
”نہیں۔“ شہمین کا لہجہ یک دم ہی سرد ہوگیا۔ سفیر نے ہاتھ روک کر اس کی جانب دیکھا۔ پھر اس نے ناک سکیڑ تے ہوئے دوسرا نوالہ منہ میں ڈالا ، جو تیز مرچوں کے باعث سرخ ہونے لگی تھی۔
”کیوں؟“ وہ نوالہ چباتے ہوئے بولا۔ اس کا لہجہ اب پہلے سے زیادہ دھیما ہوگیا تھا۔
”کیوں کہ یہ میرا گھر ہے اور میں کسی کے بھی کہنے پر اسے چھوڑ کر نہیں جاسکتی۔“ شہمین نوالہ منہ میں رکھتے ہوئے اسی سرد لہجے میں بولی تھی۔ سفیر نے ناک سکیڑتے ہوئے منڈیر پر رکھا گلاس اٹھا کر پانی پیا، مرچوں کے باعث اب اس کی آنکھوں سے بھی پانی نکلنے لگا تھا اور شہمین نے اس کے ہاتھ کے زخم کی طرح جس پر بندھی پٹی وہ صبح ہی کھول چکا تھا اس کی آنکھوں کا پانی بھی یہ سوچ کر نظر انداز کر دیا کہ ”لگی ہوگی کیسے بھی چھوڑو…. مجھے کیا غرض۔“ حالاں کہ وہ دیکھ تو دونوں ہی کو چکی تھی۔
”میں۔“
”پلیز سفیر، تم میرا کھانا خراب کررہے ہو۔“ شہمین اس کی بات کاٹ کر دبے دبے غصے سے بولی تھی۔
سفیر نے ایک پرشکوہ نگاہ اس پر ڈالی پھر سر پلیٹ پر جھکا کر دھیمے سے بولا۔
”سوری۔“
”کس کس بات کے لیے سوری کروگے؟“ ابھی اندر میںنے تمہیں منع کیا کہ مجھے نہ دیکھو، لیکن چند لمحوں بعد ہی میری تم پر نگاہ پڑی، تو تم مجھے ہی دیکھ رہے تھے، تم کسی بات کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کرتے۔“ وہ سخت جھنجھلائی ہوئی تھی۔
”سفیر کی اپنے ہاتھ میں پکڑی پلیٹ پر گرفت یک دم ہی بے حد سخت ہوگئی۔ اس کا جبڑا بھینچ گیا اور کنپٹی کی رگیں بھی تن گئیں تھیں۔
”اسے دیکھنا میری مجبوری ہے مرضی نہیں۔ کیا وہ خود اتنی چھوٹی سی بات نہیں سمجھ سکتی۔“
وہ شدید ضبط سے شہمین کو دور جاتا دیکھتے ہوئے سوچ رہا تھا۔ جو قدرے غصے میں کھانے کی پلیٹ بھی وہیں منڈیر پر چھوڑ کر اندر چلی گئی تھی۔
٭….٭….٭