”صبح بخیر بیٹا۔“ وہ اپنے عقب سے آئی مسعود خان کی آواز سن کر پلٹا تھا۔ وہ ابھی ابھی اپنے کمرے سے باہر نکلے تھے ۔ سفیر کو کوریڈور میں اکیلا کھڑا دیکھا، تو اس کے نزدیک ہی آگئے۔
”گڈ مارننگ انکل۔“ سفیر بھی مسکرا کر بولا۔ وہ دونوں اس وقت کوریڈور میں بنی قد آدم کھڑکی کے سامنے کھڑے تھے جس کے پار دکھتا باغ کا منظر بالکل واضح تھا۔ جہاں مرکزی دروازے کے ساتھ بنی کیاری میں مالی بابا نئے پودے لگارہے تھے۔
”ناشتا کرلیا آ پ نے۔“
”نہیں۔“
”بتاﺅ کیا لوگے میں بنوادیتا ہوں۔“مسعود خان بول کر متلاشی نظروں سے اکرم خان کو ڈھونڈنے لگے۔
”شہمین۔“ وہ بول کر رکا تھا، مسعود خان نے اچنبھے سے اس کی جانب دیکھا، پھر مسکرا کر سرجھٹکا۔
”آ ااا چھی….“ و ہ چھینکنے کے لیے رکا۔
”شہمین اٹھے گی، تو اس سے لے لوں گا۔“ اس نے اپنی شہادت کی انگلی سے ناک رگڑتے ہوئے کہا۔
”وہ تو شاید دیر سے اٹھے۔“ مسعود خان نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔
”میں انتظار کرلوں گا۔“
”اچھا ٹھیک ۔ پھر ہم مارکیٹ جارہے ہیں۔ تمہیں کچھ چاہیے۔“
”پودے۔“
”پودے؟“ مسعود نے دہرا کر اسے پھر سوالیہ نظروں سے دیکھا۔
”میں بیٹھے بیٹھے بہت بور ہوگیا ہوں۔ کیا میں گارڈن میں ان انکل کے ساتھ کام کرسکتا ہوں۔“ سفیر نے باغ میں کام کرنے والے مالی بابا کی جانب دیکھتے ہوئے کہا۔
”دراصل مجھے بہت اچھا لگتا ہے گارڈننگ کرنا ۔“ وہ مسکرا کر بولا۔
”ہاں بالکل کرسکتے ہو۔ ویسے بھی انسان کو فارغ نہیں بیٹھنا چاہیے اور شہمین کو پہلے ہی ان انکل سے کافی شکایت رہتی ہے۔ شاید اسے تمہاری گارڈننگ پسند آجائے۔“ مسعود خان اس کے مالی بابا کو انکل کہنے پر محظوظ ہوئے تھے۔ پھر انہوں نے خود بھی انکل کہتے ان کا ذکر کیا تھا۔
”تم ملے ہو پہلے ان انکل سے؟“ مسعود خان نے اس کے ساتھ ساتھ باغ میں آتے ہوئے پھر اسی انداز میں انکل کہہ کر اس سے پوچھا۔
”نہیں۔“
”آﺅ میں ملواتا ہوں۔“
”امجد میاں اِن سے ملو یہ ہمارا مہمان۔ امریکا سے آیا ہے۔“ مسعود خان مالی بابا کے قریب پہنچ کر سفیر کے گرد بازو پھیلا کر بولے۔
”السلام علیکم چھوٹے صاحب۔“ امجد خان اپنے صاحب کے ساتھ ایک انگریز کو کھڑا دیکھ کر جلدی سے ہاتھوں کی مٹی صاف کرتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔
”وعلیکم السلام۔“ سفیر نے مصافحے کے لیے ہاتھ آگے بڑھا دیا۔ امجد خان نے بڑی خوشی خوشی اس سے مصافحہ کیا۔
”بھئی امجد ہمارا مہمان بور ہورہا ہے اسے تمہارے ساتھ باغ میں کام کرنا ہے۔ تو بتاﺅ اسے اپنے ساتھ کام کرنے کی اجازت دوگے؟“
”صاحب باغ تو آپ کا ہے اور مہمان بھی آپ کا ہم کیسے روک سکتے ہیں۔“
”نہیں امجد میاں…. باغ تو صرف مالی کا ہوتا ہے۔ہاں اس کو ڈھونڈکر لانے کا کام مالک کا ہوتا ہے۔“ مسعود خان مسکراتے ہوئے کہہ کر آگے بڑھ گئے پھر رک کر پلٹے۔
”سفیر کوئی خاص پودا منگوانا ہے۔“ وہ اس سے پوچھ رہے تھے۔
”جسے دیکھ کر آپ کو وہ یاد آئیں وہ لے آئیے گا۔“ وہ اپنی جینز اوپر کرکے اکڑوں بیٹھتا ہوا بولا۔
”وہ کون؟“ مسعود خان نے ابرو اچکا کر اسے دیکھا۔
”وہ جن کی تصویر آپ کل رات کو دیکھ رہے تھے۔“ مسعود خان کا چہرہ یک دم ہی سپاٹ ہوا اور ان پر نظریں جمائے بیٹھے سفیر کی مسکراہٹ بھی غائب ہوگئی۔
”سوری…. وہ گزرتے ہوئے میری نگاہ پڑی تھی آپ کے کمرے میں، آپ اتنے پیار سے اس تصویر کو دیکھ رہے تھے۔ میں دو منٹ تک نظریں نہیں ہٹا سکا۔“ اسے مسعود خان کے تاثرات دیکھ کر شرمندگی سی ہونے لگی، شاید مجھے نہیں کہنا چاہیے تھا۔ اس نے سوچا تھا، البتہ مسعود خان اس کی بات کا کوئی جواب دیے بغیر مرکزی دروازے کی جانب پلٹ گئے۔ سفیر خاموشی سے بیٹھا انہیں جاتا دیکھتا رہا۔
”یہ کھر پی ہوتی ہے اور اس سے ہم مٹی ہٹا کر نئے پودے کے لیے جگہ بناتے ہیں۔“ مالی بابا نے کیاری میں کھرپی چلاتے ہوئے اسے سمجھایا، تو اس نے بے دلی سے اپنا رخ ان کی جانب کرلیا۔ وہ اب ان کے ساتھ مل کر کیاری میں پودے لگا رہا تھا۔ جب تقریباً تمام پودے لگنے کے بعد اچانک ہی کھرپی چلاتے ہوئے اس کے بائیں ہاتھ پر چوٹ لگ گئی۔
”سنبھل کر چھوٹے صاحب۔“ امجد خان نے فوراً ہی اس کے ہاتھ سے کھرپی لے کر نیچے رکھی تھی۔ وہ اب اپنے کندھے پر پڑے کپڑے سے سفیر کے ہاتھ پر لگی مٹی صاف کررہے تھے۔
”معمولی سازخم ہے۔“ سفیر دوبارہ کھرپی کی جانب ہاتھ بڑھاتے بے پرواہی سے بولا۔
”اتنا معمولی بھی نہیں ہے۔ دیکھو خون نکل رہا ہے۔“ امجد خان نے اس کا ہاتھ دیکھتے ہوئے اس کے دوسرے ہاتھ میں پکڑی کھرپی لے کر رکھ دی تھی۔
”رکو میں دوائی کا ڈبا لے کرآتا ہوں۔“ امجد خان کہہ کر اندر کی جانب بڑھ گئے اور دو منٹ بعد وہ واپس باغ میں موجود تھے۔
کھرپی اب پھر سفیر کے ہاتھ میں تھی جس سے وہ کیاری میں ایک نیا پودا لگانے کے لیے جگہ بنارہا تھا۔
”چھوٹے صاحب میں آپ سے کہہ رہا ہوں نہ کریں۔ بڑے صاحب دیکھ کر کیا سوچیں گے کہ میں نے ان کے مہمان کا خیال نہیں رکھا۔“ امجد خان نے اس کے ہاتھ سے کھرپی لے لی۔ وہ اب اس کے زخم پر دوا لگا کر پٹی کررہے تھے جب کہ سفیر اب خاموشی سے انہیں پٹی کرتا دیکھ رہا تھا۔
”اب آپ صرف بیٹھ کر دیکھیں یہ آخری پودا میں لگاتا ہوں۔“ پٹی ہوگئی تو امجد خان نے کھرپی اٹھالی۔
”شکریہ انکل۔“ سفیر نے اپنے ہاتھ پر ہوئی پٹی دیکھ کرکہا۔
”انکل۔“ امجد خان دہرا کر مسکرائے۔
”نہیں بیٹا انکل نہیں مجھے مالی بابا کہو۔ میں نے اپنی تمام زندگی پھول پودوں کی دیکھ بھال کرتے ہوئے گزاری ہے اور اب مجھے اس نام سے بھی پھول پودوں کی مہک آتی محسوس ہوتی ہے۔ اس لیے مجھے اچھا لگتا ہے جب کوئی مجھے مالی بابا کہتا ہے۔“ امجد خان اس آخری پودے کو بھی کیاری میں لگاتے ہوئے محبت بھری نرمی سے بولے تھے۔
”ٹھیک ہے مالی بابا۔“ سفیر بھی مسکرا دیا۔ پھر وہ وہیں گھاس پر ہاتھ جمائے کمر کے بل جھک کر بیٹھ گیا اور اوپر آسمان کو تکنے لگا۔ دھوپ اس وقت تیز تھی سفیر نے اگلے ہی لمحے نگاہیں جھکالیں وہ اب اپنے اردگرد لان میں پھیلے سبزے کو دیکھ رہا تھا۔
”یہ گارڈن بے حد خوب صورت ہے آپ اس کا بہت خیال رکھتے ہوں گے۔“ وہ مالی بابا کو دیکھ کربولا۔ جو اب پائپ لگا کر پودوں کو پانی دے رہے تھے۔
”ہاں بیٹا بڑے صاحب کا حکم ہے کہ باغ کا خاص خیال رکھا جائے۔ یہاں تک کہ یہاں لگے تمام پودے بھی وہ خود خرید کر لاتے ہیں۔“
”انکل کو بھی باغبانی بہت پسند ہے؟“ پانی کھاد پر پڑتے ہی مٹی کی سوندھی سوندھی خوشبو اٹھنے لگی تھی۔
”پھول پودے تو ہر ایک کو ہی پسند ہوتے ہیں، لیکن صاحب نے یہ باغ شہمین بیٹی کے لیے بنوایا تھا۔ وہ جب چھوٹی تھیں تو انہوں نے صاحب سے کہا تھا۔بابا میرا دل چاہتا ہے میں جب صبح اٹھوں، تو میرے سامنے ڈھیر سارے رنگ برنگی پودے ہوں اور اسی دن بڑے صاحب مجھے اس گھر میں لے آئے تھے اور انہوں نے مجھ سے کہا تھا۔ امجد اس باغ میں دنیا جہان کے سارے رنگ برنگی پھول پودے جمع کردو۔ میری گڑیا کو صبح اٹھ کر پھول پودے دیکھنا اچھا لگتا ہے۔“
”وہ بہت محبت کرتے ہیں شہمین سے۔“ سفیر نے مسکرا کر تبصرہ کیا۔
”کل تک جو کہہ رہا تھا محبت کوئی حقیقی جذبہ تو نہیں۔ وہ آج خود محبت کا ذکر کررہا ہے۔“ وہ مسعود خان کی آواز سن کر چونکا۔ اس کی دروازے کی جانب پشت تھی، اس نے انہیں گھر داخل ہوتے نہیں دیکھا تھا۔ پھر اس کا خیال تھا انہیں آنے میں وقت لگے گا۔
”وہ میرا self experience تھا، میں نے محض اپنے لیے کہا تھا۔ دنیا کے تمام انسانوں کی بات نہیں کی تھی، لیکن آپ نے….“
”جسے اللہ نے دو شہزادیوں کی ذمہ داری دی ہو، وہ نہ تو ان سے غافل رہتا ہے۔ نہ ان کے محل میں ہوئی حرکات و سکنات سے۔“ مسعود خان نے مسکرا کر کہتے ہوئے اپنے ہاتھ میں پکڑا کارٹن اکرم خان کی سمت بڑھایاتھا جو صاحب گھر داخل ہوتا دیکھ کر ابھی ابھی باغ میں آئے تھے۔ پھر وہ سفیر کی جانب واپس پلٹے تھے۔
”ناشتا کیا؟“
”وہ ابھی تک اٹھی نہیں ہے۔“ سفیر نے دائیں ہاتھ کا چھجا بناکر آنکھوں پر رکھتے ہوئے اپنے عقب میں کھڑے مسعود خان کو بہ غور دیکھ کر کہا۔ اس کا دایاں ہاتھ پیچھے تھا اور چوٹ بھی ہتھیلی پر لگی تھی اس لیے مسعود خان دیکھ نہیں پائے۔ البتہ وہ اندازہ نہیں کرپایا تھا کہ وہ خفا ہیں یا راضی۔
”گاڑی میں وہ پودا رکھا ہے جسے دیکھ کر مجھے وہ یاد آئی تھی۔ اسے کیاری میں اتار کر اندر آجاﺅ میں اکرم خان سے تمہارے لیے ناشتا بنوارہا ہوں۔“ مسعود خان نے ان کی جانب چابی اچھال کر کہا پھر وہ خود اندر کی جانب بڑھ گئے۔
”My Pleasure sir۔“ وہ مدھم سا کہہ کر مسکراتا ہوا گاڑی کی چابی کو شہادت کی انگلی میں گھماتا مرکزی دروازے کی جانب آگیا۔
٭….٭….٭