”کیا میں اب باہر آسکتا ہوں۔“ سفیر نین کے کمرے کی چوکھٹ پر کھڑا شہمین سے پوچھ رہا تھا۔ دروازہ آدھا کھلا ہونے کی وجہ سے اندر بیڈ پر بیٹھی نین اور شہمین واضح نظر آرہی تھیں۔
”تم باہر آچکے ہو۔“ شہمین نے ہاتھ روک کر اسے جتایا اور اپنے ہاتھ سے چوڑیاں اتارنے لگی۔
”پھر کیا میں اندر آسکتا ہوں۔“ سفیر نے ابرو اچکاتے ہوئے سوال کیا۔
”ہاں آجاﺅ۔“ اس بار جواب نین نے دیا تھا۔ سفیر اسے تھینکس کہہ کر اندر آکر دروازہ واپس بھیڑنے لگا، تو وہ دونوں ایک ساتھ ہی بولیں۔
”اسے کھلارہنے دو۔“وہ اوکے کہہ کر بیڈ کے نزدیک بچھی کرسی پر بیٹھ گیا۔
”میں صبح سے کمرے میں بور ہورہا تھا۔ مجھے لگا کہ شاید اب مہمان جاچکے ہیں اس لیے میں باہر آگیا ۔“ سفیر نے مسکرا کر وضاحت دی۔ اس وقت اس کی حالت بہتر تھی۔ وہ کافی سنبھلا ہوا معلوم ہورہا تھا۔
”تو تم صبح سے کمرے میں بیٹھے ہی کیوں تھے۔“ نین نے الجھ کر پوچھا۔
”میں نے کہاتھا اُسے کمرے میں رہنے کو۔“ سفیر کے کچھ کہنے سے پہلے ہی چوڑیاں سمیٹتی شہمین بول پڑی۔
”کیوں۔“ نین کو حیرت ہوئی تھی۔
”ویسے ہی کہہ دیا تھا۔“ وہ اب چوڑیاں کو اخبار کے ٹکڑے میں لپیٹ رہی تھی۔
”واہ چڑیل تمہاری باتیں بھی….“ نین چڑ کر سرجھٹک کر بولی۔ شہمین اس کا کوئی نوٹس لیے بغیر اپنے کام میں مصروف رہی جب کہ سفیر خاموش تھا۔
”پرسوں ایک اور فنکشن ہے تم اس میں آرام سے انجوائے کرنا۔“ نین نے اپنی سائیڈ ٹیبل سے وِکس کی ڈبیا اٹھاتے ہوئے اس سے کہا۔ سفیر نے مسکرا کر اسے دوبارہ تھینکس کہا جب کہ شہمین اب بھی خاموش تھی۔
”میں چائے بناکر لاتی ہوں۔“ وہ اب ان مستقل گھورتی نیلی آنکھوں سے تنگ ہونے لگی تھی اسی لیے بالآخر اس نے کمرے سے باہر جانے کاکوئی بہانہ ڈھونڈ ہی لیا۔
”بلیک ٹی پلیز۔“ اُسے باہر نکلتا دیکھ کر وہ فوراً بولا۔ شہمین ”اچھا“ کہہ کر آگے بڑھ گئی۔
”آپ اس ییلو ڈریس میں پیاری لگ رہی ہیں۔“ وہ اپنے بالوں کا جوڑا بناتے ہوا بولا تھا۔
”شکر یہ بچے۔“ نین مسکرا کر بولی تھی۔ وہ وکس کی ڈبیا سے اپنے ہاتھ پر لگی مہندی پر وکس لگارہی تھی۔
”بچے۔“ سفیر نے تعجب سے دہرایا تھا۔
”ہاں…. بھئی شہمین مجھ سے چھوٹی ہے۔ میرے لیے بچی ہے ، تم اس کے دوست ہو، تو تم بھی میرے لیے بچے ہی ہوئے نہ۔“
”Nice logic۔“ وہ مسکرایا۔ اس نے آنکھیں سکیڑ کر کچھ سوچنے کی اداکاری کی پھر دوبارہ بولا۔
”پھر مجھے آپ کو کیا کہنا چاہیے؟ باجی؟“ اس نے ابرو اچکا کر اسے دیکھا۔
”شہمین مجھے نین کہتی ہے، تم چاہو تو باجی کہہ سکتے ہو۔“ نین نے اسے مشورہ دیا۔
”اوکے…. میں باجی کہتا ہوں۔ ویسے بھی میری کوئی باجی نہیں تھی۔ یہ اچھا ہے۔“ وہ محظوظ ہوکر بولا۔ پھر اس نے سرگھما کر دروازے کی سمت دیکھا۔ وہ شہمین کا منتظر تھا۔
”ایک بات بتاﺅ…. کیا تم واقعی شہمین سے محبت کرتے ہو؟“ نین نے اس کی نگاہوں کا تعاقب کرتے ہوئے پوچھا۔
”محبت۔“ اس نے زیر لب دہراکر نفی میں گردن ہلائی۔
”محبت کوئی حقیقی جذبہ تو نہیں۔ یہ تو محض ایک وہم ہے۔“ اس کی مسکراہٹ یک دم ہی بالکل غائب ہوگئی اور لہجہ بھی سنجیدہ ہوگیا تھا۔
”یہ تم سے کس نے کہا۔“ نین کو اس کا انداز عجیب لگا، لیکن وہ اس کی بات سے محظوظ ہوئی تھی۔
”میرا Self experience ہے۔“ وہ اسی سنجیدگی سے بولا۔
”اور کیسے ملا تمہیں یہ self experience ۔“ نین کی دل چسپی مزید بڑھ گئی تھی۔
”میں جب سات سال کا تھا، تو میں نے ایک مٹی کا مجسمہ بنایا تھا۔ وہ مجسمہ بہت خوب صورت نہیں تھا، لیکن مجھے وہ بہت حسین لگتا تھا۔ مجھے اس سے شدید محبت محسوس ہوئی اور میں اسے اپنے تمام دوستوں کو دکھا کر بڑے فخر سے کہتا : I am the creator of that P ۔ میں اس مجسمے کا خالق ہوں، لیکن میں نے نوٹ کیا کہ میرے دوست اس مجسمے کو اس محبت سے نہیں دیکھتے تھے بلکہ چند ایک کو تو وہ پسند بھی نہیں آیا تھا۔ تب مجھے اس بات کا علم ہوا کہ مجھے اس سے محبت اس لیے محسوس ہوتی ہے کیوں کہ میں اس کا خالق ہوں اور ایک خالق سے بڑھ کر اس کی تخلیق سے کوئی محبت نہیں کرسکتا۔ پھر چند روز بعد میں نے ایک رات کھانے کی میز پر ممی سے پوچھا۔ ممی خدا کون ہے۔
The creator ۔ ممی نے کہا تھا۔
”خالق۔“ میں چونکا تھا۔
”ہاں۔“
”اس نے کس کو تخلیق کیا ہے۔“ میں نے پھر ممی سے پوچھا۔
”ہر شے کو۔“ وہ بولیں۔
”مجھے بھی۔“ میں خوش ہوا۔
”ہاں۔“ وہ مسکرا رہی تھیں۔
”پھر تو وہ مجھ سے سب سے زیادہ محبت کرتا ہوگا۔“ میں نے بے تابی سے پھر پوچھا۔
”ہاں۔“ ممی نے پھر کہا۔
”اور پھر وہ تمام رات میں بہت خوش رہا۔ بہت زیادہ اور اس رات کے بعد سے میں نے اپنی ہر پرابلم میں سے پہلے خدا کو پکارا، اسے آواز دی۔ مگر اس نے کبھی میری پکار کا جواب نہیں دیا۔“ میں نے ممی سے پوچھا۔
”وہ جواب کیوں نہیں دیتا۔“
”تم دل سے پکارو وہ جواب دے گا۔“ ممی نے کہا۔
”میں نے پھر ممی کی بات مان لی اور اسے مزید دل سے پکارنے لگا، لیکن جواب تو اب بھی نہیں آرہا تھا۔ میں نے بہت بار کوشش کی، مگر جواب نہیں آیا۔ پھر ایک روز میں نے کوشش ترک کردی ۔ مجھے یہ شک ہونے لگا کہ یا تو خدا میرا خالق نہیں ہے یا پھر محبت کی کوئی حقیقت نہیں ہے اور اپنے اسی شک کو پرکھنے کے لیے میں نے وہ مجسمہ توڑ ڈالا جس کا خالق میں تھا۔ اور حیرت کی بات یہ تھی کہ اسے توڑ کر مجھے کوئی دکھ نہیں ہوا۔ جب کہ میں تو اس کا خالق تھا، پھر مجھے دکھ کیوں نہیں ہوا؟ اور اس وقت مجھے یہ یقین ہوگیا کہ خدا نے مجھے تخلیق تو کیا ہے، لیکن اب وہ مجھ سے محبت نہیں کرتا۔ جیسے میں نے وہ مجسمہ تخلیق تو کیا تھا، مگر وقت کے ساتھ ساتھ میری اس سے محبت ختم ہوگئی اور پھر جو کام خدا نہیں کرسکتا وہ انسان کیسے کرسکتا ہے؟ اس لیے میرے نزدیک محبت کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔“ وہ اب خاموش بیٹھا نیچے فرش پر بچھے کارپٹ کو تک رہا تھا۔ نین حیرت زدہ تھی اور شہمین کتنی دیر سے چائے کی ٹرے ہاتھ میں پکڑے دروازے پر بت بنی کھڑی تھی۔
”شہمین …. اندر آجاﺅ۔ مجھ سے ٹھنڈی چائے نہیں پی جاتی۔“ وہ ہنوز کارپٹ پر نظر یں جمائے بولا تھا۔ شہمین چونکی پھر سنبھل کر کمرے کے اندر آگئی اور ٹرے بیڈ پر رکھ دی جس کے رکھتے ہوئے اس کی نگاہیں نین کی نگاہوں سے ٹکرائیں تھیں۔ دونوں میں حیرت واضح تھی۔ پھر سفیر نے تھوڑا آگے بڑھ کر ٹرے میں رکھا بلیک ٹی کا کپ اٹھایا اور اسے لبوں سے لگانے لگا۔
”ابھی بہت گرم ہے۔“ شہمین بے ساختہ بولی۔
”میں نے بتایا نا میں گرم ہی پیتا ہوں۔“ اس نے مسکرا کر کہا پھر کپ لبوں سے لگا لیا۔ ساتھ ہی شہمین اور نین نے بھی کپ ہاتھوں میں تھام لیا تھا۔ دس منٹ میں چائے ختم کرکے سفیر خود ہی واپس کمرے میں چلا گیا۔ جب کہ شہمین دروازے کی جانب دیکھتے ہوئے بولی۔
”وہ بہت عجیب ہے نین۔ کبھی تو کہتا ہے۔انسان خدا سے زیادہ رحم دل ہے اور کبھی کہتا ہے اگر خدا انسان سے محبت نہیں کرسکتا، تو کوئی انسان کیسے کرسکتا ہے۔“ وہ خاموش ہوئی تو نین اسی جانب دیکھتے ہوئے بولی۔
”ہاں مجھے بھی لگا۔“
٭….٭….٭