”یہ کیا کررہی ہو تم۔“
”اپنی چندہ کے لیے مایوں کا جوڑا سی رہی ہوں آپ بھی دیکھیں۔“
”کیا دیوانی ہوگئی ہو؟ ابھی تو اس وقت کے آنے میں بہت دیر ہے۔“
”ہاں! لیکن میں کیا کروں مجھ سے انتظار نہیں ہوتا۔ذرا سوچیں نا، مایوں کے پیلے کاٹن کے جوڑے پر گوٹا کناری والا دوپٹا لیے کتنا حسین لگے گا میرا چندہ، اس کی نازک سی کلائیوں میں کانچ کی ہری پیلی چوڑیاں ہوں گی، آنکھوںمیں گہرا کاجل ، ناک میں ننھی سی لونگ، کانوں میں پھولوں کے جھمکےہوں گے۔ ہاتھوں میں مہندی لگے گی۔ ڈھول کی تھاپ ہوگی، قمقمے روشن ہوں گے، ہر سو خوشی کا رقص ہوگا اور میری چندہ دلہن بن جائے گی۔ اُف مسعود کتنا حسین سما ہوگا نا یہ۔“
مسعود خان کی آنکھوں سے آنسو کے چند قطرے بہ کر اس چوڑی پٹی والے فوٹو فریم پر ٹھہر گئے جسے آج انہوں نے اپنی آستین سے صاف کرنے کی کوشش نہیں کی تھی بلکہ وہ اس فریم کو ایسے ہی واپس اس چھوٹی میز پر رکھ کر اٹھ کھڑے ہوئے پھر انہوں نے کمرے کا دروازہ کھول کر باہر کوریڈور میں جھانکا۔
کوریڈور کے بالکل وسط میں گیندے کے پھولوں سے سجا لکڑی کا جھولا رکھا ہوا تھا جس پر وہ چند ہ بیٹھی ہوئی تھی۔ آج اس کی مایوں کا دن تھا۔ اس نے وہ کاٹن کا پیلا جوڑا بھی پہنا، ساتھ میں گوٹا کناری کا دوپٹا بھی تھا۔ اس کی کلائیوں میں وہ کانچ کی چوڑیاں اور آنکھوں میں کاجل بھی تھا، ناک میں ننھی سی لونگ اور کانوں میں پھولوں کے زیور بھی۔ اس کے ہاتھوں میں مہندی بھی لگ رہی تھی۔ ڈھول کی تھاپ اور قمقمے بھی روشن تھے۔ ہر سو خوشی کا رقص تھا اور وہ چندہ دلہن بھی بن گئی تھی۔ اگر اس سارے منظر میں کچھ نہیں تھا، تو وہ وجود جس نے بے صبری سے اس وقت کا انتظار کیا تھا۔
”بابا دیکھیں نہ نین کتنی پیاری لگ رہی ہے۔“ شہمین کی آواز پر مسعود خان چونکے۔ انہوں نے جلدی سے اپنی آنکھوں کی نمی صاف کی۔
”بھئی اتنے ہینڈ سم باپ کی بیٹی ہے پیارا تو اسے لگنا ہی ہے۔“ مسعود خان اپنے کمرے سے نکلتے ہوئے اس کے نزدیک آکر بشاشت سے فخریہ انداز میں بولے۔
”بالکل۔“ شہمین نے مسکراکر کہا پھر بولی۔
”چلیں بابا ہم بھی نین کی رسم کرتے ہیں۔“
”ضرور چلیں۔“ مسعود خان شہمین کو ساتھ لگائے جھولے کے قریب آگئے۔ باپ کو اپنے قریب پاکر نین کے نین آنسوﺅں سے بھر گئے۔ پھر مسعود خان نے اس کا منہ میٹھا کرا کے اپنے سینے سے لگا کر اس کے ماتھے پر بوسہ دیا اور بے حد رازداری سے کہا۔
”یہ تو بتاﺅ جانِ بابا یہ آنسو غم کے ہیں یا خوشی کے؟“
”بابا۔“ نین جھینپ کر بولی تھی، ساتھ شہمین بھی کھلکھلائی تھی پھر اس نے بھی نین کا منہ میٹھا کرایا اور جھولے سے اٹھ گئی۔
”ہمارا وہ لمبی زلفوں والا مہمان کدھر ہے۔“ مسعود خان نے اردگرد کا جائزہ لے کر اپنے ساتھ کھڑی شہمین سے پوچھا۔
”میں نے اسے کہا تھا وہ کمرے میں ہی رہے۔“ شہمین اپنے سر پر لیا دوپٹا ٹھیک کرتے ہوئے بولی۔ جو ایک پاس سے گزرتی لڑکی کی چوڑیوں سے الجھ کر سرک گیا تھا۔
”کیوں؟“ مسعود خان نے بھی دور کھڑے ایک حضرت کے سلام کا جواب اشارے دیتے ہوئے اس سے پوچھا۔
”پتا نہیں۔“ شہمین کا لہجہ یک دم بجھ گیا۔ مسعود خان نے نگاہ ترچھی کرکے اس کی جانب دیکھا پھر یہ کہہ کر ”اچھا آﺅ شگفتہ سے ملتے ہیں۔“ اسے ساتھ لیتے آگے بڑھ گئے تھے۔
٭….٭….٭