”چڑیل۔ یہ تمہارے کمرے میں کون یوسف بیٹھا ہے۔“ شہمین سر کے اوپر تکیہ رکھے بستر پر اوندھی لیٹی ہوئی تھی، نین کی آواز پر اس نے تکیے کے نیچے سے منہ نکال کر اسے دیکھا۔ وہ ابھی تھوڑی دیر قبل ہی گھر لوٹی تھی۔
”یوسف کون….؟ وہاں تو سفیر ہے۔“ شہمین نے ابرو اچکاتے ہوئے پوچھا۔
”اچھا اس کا نام سفیر ہے میرا خیال تھا۔ یوسف ہوگا۔“ نین نے دوسرے تکیے کو بیڈ کراﺅن سے لگا کر اس سے ٹیک لگاتے ہوئے کہا۔
”اور تمہارا یہ خیال کیوں تھا۔“
”اس کا حسن دیکھ کر…. قسمے چڑیل اس کا حسن دیکھ کر مجھے مصر کی وہ عورتیں یاد آگئیں جنہوں نے حضرت یوسف علیہ السلام کو دیکھ کر اپنی انگلیاں کاٹ لیں تھیں۔ اُف یار کیا منظر ہوگا۔“ نین نے ڈرامائی انداز میں کہا، شہمین چہرہ واپس تکیے کے نیچے کرتی ہوئی محض ”اچھا“ کہہ کر خاموش ہوگئی۔
”اچھا بتاﺅ تو صحیح وہ کون ہے۔“ نین نے جھک کر اس کے چہرے سے تکیہ کھینچ لیا ۔
”نین کی بچی۔“ شہمین سیدھی ہوتے ہوئے بڑبڑائی۔
”بتاﺅ نا۔“ نین اس کی بڑبڑاہٹ نظر انداز کرکے بولی۔
”بتایا نا سفیر ہے۔“ شہمین چڑ کر بولی۔
”تو سفیر کون یہ بھی تو بتاﺅ۔“ نین نے اپنے بالوں کا جوڑا کھول کر ان میں بل ڈالتے ہوئے پوچھا۔ شہمین نے ایک نگاہ اس کی جانب دیکھا پھر ایک گہری سانس لی اور اسے پوری داستان سناڈالی۔
”کیا وہ پاگل ہے۔“ نین کا بالوں میں بل ڈالتا ہاتھ اب تک دوسرے بل پر ہی تھما ہوا تھا۔
”بقول اس کے وہ Addicted ہے۔“ شہمین نے سائیڈ ٹیبل پر رکھا موبائل اٹھاتے ہوئے کہا۔ اس پر ابھی ابھی میسج بیپ ہوئی تھی ۔ اس نے میسج دیکھا ضوٹی کا تھا۔ اس نے بغیر کوئی رپلائی کیے موبائل واپس رکھ دیا۔
”واﺅ یار۔ ایسی Addictionمجھے کیوں نہیں ہوئی کبھی۔“ نین ہاتھوں کو واپس حرکت دیتے ہوئے افسوس سے بولی۔ شہمین نے ابرو اچکا کر اسے گھور کے دیکھا۔
”اچھا اب پندرہ دن تک وہ یہی رہے گا؟“ نین نے اس کی گھورتی نگاہوں کو نظر انداز کرکے پوچھا۔
”ہاں۔“ شہمین بے تاثر سابولی۔
”اور اگر گھر میں آئے کسی مہمان میں سے کسی نے پوچھا کہ وہ کون ہے تو؟“
”تو بول دوں گی میرا یونیورسٹی فیلو ہے۔ اپنے کسی کام کے سلسلے میں پاکستان آیا ہوا ہے۔ اس ملک سے انجان ہے اس لیے ہم نے اسے یہی رکھ لیا۔“ شہمین اٹھ کر ڈریسنگ ٹیبل سے لوشن لیے واپس بیڈ پر آگئی تھی۔
”اچھا چڑیل ایک بات تو بتاﺅ۔“ نین نے اس کی ہتھیلی پر نکلے لوشن سے تھوڑا لوشن اپنی ہتھیلی پر لیتے ہوئے کہا۔ شہمین نے گھور کر اسے دیکھا اور بولی۔
”تمہاری شادی ہونے والی ہے، لیکن تمیز تمہیں ابھی بھی نہیں آئی۔“
”تمیز کو چھوڑو یہ بتاﺅ …. وہ اتنا عرصہ تمہیں پاگلوں کی طرح تکتا رہا، تم نے کبھی اس سے بات کرنے کی نہیں سوچی۔“ اس نے شہمین کے تپنے کا پھر کوئی نوٹس نہیں لیا تھا۔
”نہیں۔“ وہ اب لوشن کو اپنے ہاتھوں پر مل رہی تھی۔
”کیوں چڑیل…. میں تمہاری جگہ ہوتی تو curiosity ہی سے مرجاتی۔“ نین نے اسے بے حد افسوس سے دیکھ کر کہا۔ شہمین نے ڈبے سے مزید لوشن نکالتے ہوئے اس پر ایک نگاہ ڈالی اور بولی۔
”نین curiosity مجھے بھی ہوئی تھی۔ ایک وقت کو میرا بھی دل چاہا تھا کہ اس سے بات کروں، لیکن اگر میں اس کی سمت قدم بڑھا دیتی، تو پھر کوئی باپ اپنی بیٹی پر بھروسا کرکے اسے باہر جاکر پڑھنے کی اجازت نہیں دے پاتا۔“ وہ دھیمے سے کہہ کر اب اپنے پیروں پر لوشن لگارہی تھی۔
”لیکن چڑیل…. وہاں پر تمہاری اور لڑکوں سے بھی تو بات چیت تھی۔“ نین نے لیپ ٹاپ اٹھاتے ہوئے سادہ سے لہجے میں کہا۔
”بالکل تھی…. مگر فرق یہ تھا کہ وہ ایسی کسی Addiction کا شکار نہیں تھے۔“ شہمین اتنی دیر میں پہلی بار مسکرائی تھی۔
”اوکے چڑیل آﺅ مووی دیکھیں۔ پھرپتا نہیں دوبارہ یہ موقع کب ملے۔“ نین نے بات ختم کرنے والے انداز میں کہہ کر لیپ ٹاپ اپنے اور شہمین کے درمیان بیڈ پر رکھتے ہوئے کہا۔ وہ اب اس پر کوئی مووی پلے کررہی تھی۔
٭….٭….٭