
بانجھ — میمونہ صدف
سحر کی بلوریں ضیا میں لہلہاتے کماد کے کھیتوں میں ساربانوں کی آواز بڑی دور تک پھیلتی ایسی دل دوز لے پیدا کرتی کہ دوڑ
![]()

سحر کی بلوریں ضیا میں لہلہاتے کماد کے کھیتوں میں ساربانوں کی آواز بڑی دور تک پھیلتی ایسی دل دوز لے پیدا کرتی کہ دوڑ
![]()

’’ارم ارم میرے کپڑے استری نہیں کیے؟ تم نے میں آفس سے لیٹ ہو رہا ہوں۔‘‘ عامر نے اپنی بیوی ارم کو نیند سے جگاتے
![]()

’’نایاب گوہر علی! یہ نام کتنا مکمل ہے۔‘‘ ’’ہے نا ؟‘‘وہ نڈھال سا دیوار سے لگا کہہ رہا تھا ۔ ’’دیکھو اسد !‘‘ اپنا ہاتھ
![]()

’’سنو! سنو،جان ڈالو نا مجھ میں۔ دیکھو دیکھو یہ ہاتھ نہیں ہل رہے۔ دیکھو یہ آنکھیں، میری آنکھیں۔ جھپکنی ہیں میں نے۔ سنو اٹھو، اٹھو
![]()

وہ تاریک راہداری سے گزرتے ہوئے خوف زدہ ہورہا تھا۔ سامنے چھوٹا سا ہال نما کمرہ تھا۔ وہاں اور بھی بہت سے لوگ بیٹھے تھے۔
![]()

ان دنوں زندگی کی ٹرین بھی کیسے چھکا چھک کرتی گزرتی جارہی تھی۔ عمر رفتہ کے ڈبے بھی تیزی سے آنکھوں کے آگے سے گم
![]()

چودھری افضل اپنے چھوٹے بھائی چودھری انور اور اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ ڈیرے پر بیٹھا تھا۔ جب نذیرا ایک کتے کو لیے اس کے
![]()

میری زندگی میں ’’اچانک‘‘ کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔جو بھی ہوتا ہے اچانک ہی ہوتا ہے۔ میں نے ایم اے بھی اچانک کیا حالاں کہ
![]()

آسمان پہ کالے سیاہ بادلوں نے گھیرا تنگ کر رکھا تھا۔ بجلی کی گرج چمک وقفے وقفے سے مون سون کی بارش کی طرح جاری
![]()

’’اے بنو!‘‘ اماں نے ہاتھ لہرا کر اسے پکارا۔ ’’اب بس بھی کر دو۔ میں تو اس کایا کلپ پر حیران و پریشان ہوں۔ جانے
![]()