
بس عشق ہو — کشاف اقبال (دوسرا اور آخری حصّہ)
’’تو آج آ رہے ہو نا اپنے بھائی کی منگنی پر؟‘‘برہان نے ناشتے سے فارغ ہوتے ہی ظہیر کو فون کیا۔ ’’مبارک ہو بھائی۔بات منگنی
![]()

’’تو آج آ رہے ہو نا اپنے بھائی کی منگنی پر؟‘‘برہان نے ناشتے سے فارغ ہوتے ہی ظہیر کو فون کیا۔ ’’مبارک ہو بھائی۔بات منگنی
![]()

ـ’’ہمیں پہلی فرصت میں ہی ممتحنہ کا نکاح کر دینا چاہیے تھا، لیکن ہم نے اس وقت سماجی رسم کو تفریحی رسم پر فوقیت دی
![]()

’’غیرت کے نام پر‘‘اس کی زبان سے یہ الفاظ سن کر میرا جسم ساکت ہوگیا۔ ’’کک کیوں؟‘‘میرا چلتا قلم رک گیا تھا۔ ’’آپ کے خیال
![]()

رات کا پچھلا پہر اور درد اور کرب میں ڈوبی بھیانک چیخیں ماحول کو اور بھی وحشت ناک بنا دیتی تھیں۔ دل اتنی زور زور
![]()

مجھے آج تک معلوم نہیں ہو سکا کہ میری زندگی میں اتنا سکون کس وجہ سے ہے۔ میری بیوی کی وجہ سے یامیری ماں کی
![]()

آنکھیں کھولتے ہی اس کا پالا گھپ اندھیرے اور سیلن زدہ بو سے پڑا تھا اور یہ عجیب بات تھی کہ پہلی بار اندھیرے میں
![]()

میں چھے سال کی تھی جب ’’اپنے‘‘گھر کے خواب دیکھنے شروع کیے۔ ’’اپنا‘‘ گھر،ایک خوبصورت، چھوٹا سا ، سرخ اینٹوں والا گھر جس کا صحن
![]()

سونا کسے پسند نہیں ہوتا، خواتین سونے پر جان دیتی ہیں تو بعض حضرات اس کے لیے جان لے بھی لیتے ہیں۔ سونے کے بھاؤ
![]()

’’اُف! تو بہ ہے۔ یہ سالن ہے یا زہر؟ بھابی، تمہیں اتنا عرصہ ہو گیا ہمارے گھر آئے، مگر مجال ہے جو اس گھر کا
![]()

وہ کافی دیر سے آنکھیں بند کیے بانسری بجا رہاتھا جس کی مدھر تان ہولے ہولے میرے دل پر دستک دینے لگی تھی۔ کچھ ہی
![]()