بس عشق ہو — کشاف اقبال (حصّہ اوّل)

آخر اس نے اپنا سر گھما ہی لیا۔ نتیجہ کیا ہونا تھا؟ اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں،وہ اس کے بہت قریب تھا۔ ایک تو وہ اتنی بڑی شخصیت، دوسرا وہ اس کی اتنی بڑی گرویدہ اور تیسرا وہ اس کے اتنے قریب،پھر تو ممتحنہ کو جھٹکا لگنا ہی تھا اور وہ سیڑھیوں سے اپنا بیلنس کھوتی پھسل گئی اور ایسا کیسے ہو سکتا تھا کہ برہان کے ہوتے ہوئے وہ پھول زمین پر گرتا، اس نے اس پھول کو سنبھال لیا، وہ سیدھا اس کی گود میں جا گری۔
اس کا دوسرا ہاتھ کنٹینر پر تھا،ممتحنہ کے گرنے کے نتیجے میں اس کنٹینر کے اندر موجود تمام سورج مکھی اور گل لہمی بھی ممتحنہ اور برہان پر برسنے لگے۔کنٹینر بھی ان پھولوں کے ساتھ گرنے والا تھا پر وہ اس ستون پر الٹا پڑا رہا اور اس کے بالوں کا کم زورسا جوڑا کھل گیااور اس میں لپٹا ہوا گل لہمی بھی بالوں سے پھسل کر زمین پر جا گرا۔
’’میں نے سوچا بھی نہیں تھا کہ ہماری ملاقات اس طرح ہو گی۔ آپ کے بارے میں کافی سنا ہے محمود علی صاحب سے۔‘‘وہ ابھی تک اس کی حفاظت میں تھی،دم سادھ لیا تھا اس نے اپنا۔بس اپنی آنکھیں پھاڑ کر اسے دیکھے جارہی تھی۔
’’اور…آپ کے یو ٹیوب پر اپ لوڈ ڈ لیکچرز بھی دیکھے۔‘‘برہان اسے اس کا آخری لیکچر یاد دلانے لگا جو اس نے گل لہمی پر دیا تھا۔پر وہ کچھ نہیں سن پا رہی تھی،اگر اس وقت کوئی اس کے کانوں میں شہنائیاں بھی بجا دیتا یا اس کی آنکھوں کے سامنے سورج کی تیز شعاعیں بھی پڑتیں تب بھی وہ کسی کی سنتی نہ اپنی پلکیں جھپکتی۔ وہ مکمل سکتے کی حالت میں تھی۔
’’آپ کچھ بولیں گی بھی یا مجھے اس طرح گھورتی رہیں گی؟‘‘وہ مسکرا کر اپنی حفاظت میں محفوظ اس پھول کو دیکھنے لگا۔
کچھ دیر بعد جب وہ اپنے حال میں آئی تب اسے پتا چلا کہ وہ کتنی دیر سے اس کی حفاظت میں ہے۔اس نے فوراً سے خود کو اس سے دور کیا اور اپنا بچا ہوا کام کرنے لگی۔اس نے ابھی تک برہان سے کوئی بات نہیں کی تھی۔
’’سمجھ سکتا ہوں۔ اپنے پسندیدہ اداکار کو اپنے سامنے اچانک اس طرح دیکھنا اور اس ہی کے سہارے پر گرنا، سکتہ تو لگا ہی ہوگا تمہیں۔ کوئی بات نہیں،کچھ دیر بعد سہی،جب تمہیں یہ یقین آ جائے گا کہ میں واقعی یہاں موجود ہوں،تو میں تمہیں خود سے بات کیے بنا جانے نہیں دوں گا۔‘‘ وہ دل ہی دل میں اس سے کہنے لگا۔فی الحال اس نے اس کے پاس سے رخصت ہونا ضروری سمجھا۔
’’السلام علیکم! بڑی جلدی تشریف لے آئے آپ۔دیکھ کر خوشی ہوئی۔‘‘ وہ اس کے پاس سے جا ہی رہا تھا کہ محمود علی زارا کے ہم راہ اس کے پاس آنے لگا۔
’’برہان ندیم آپ؟ آپ برہان ندیم ہیں نا؟ مجھے تو یقین ہی نہیں آ رہا کہ میں برہان ندیم کے سامنے کھڑی ہوں۔ میں تو آ پ کی اور آ پ کی اداکاری کی بہت بڑی فین ہوں، لیکن مجھ سے بھی بڑی فین تو ممتحنہ ہے آ پ کی۔‘‘وہ برہان کو دیکھتے ہی اپنا ہوش کھو بیٹھی۔اس نے یہ تک سوچنا ضروری نہیں سمجھا کہ دو بڑی شخصیات آپس میں محوِ گفت گو ہیں۔
’’کون ممتحنہ؟‘‘ برہان کو لگ رہا تھا کہ ممتحنہ اس ہی فلورسٹ کا نام ہے جس پر وہ اپنا دل ہار بیٹھا ہے۔
’’زارا ! تم بہت بری ہو۔ تمہیں تو میں گھر جا کر بتاتی ہوں۔کیا ضرورت تھی انہیں یہ بتانے کی کہ میں ان کی بہت بڑی فین ہوں؟‘‘ وہ آنکھوں کے اشاروں سے زارا پر اپنا اشتعال ظاہر کرنے لگی۔
’’جو آپ یہاں پھولوں سے سجی جنت دیکھ رہے ہیں،اس چھوٹی سی خوب صورت سی دنیا سجانے والی کا نام ممتحنہ ہے جو آپ کے عقب میں کھڑی سجاوٹ کر رہی ہے۔‘‘محمود علی کے کہتے ہی برہان اپنی گردن موڑ کر اسے دیکھنے لگا۔
وہ اپنے کام میں مصروف تھی ،اس کی طرف دیکھ ہی نہیں رہی تھی۔ اس لیے کہ وہ سب سن رہی تھی۔





اگر وہ صرف اس کی فین ہوتی تو وہ اس سے باقاعدہ ملتی، اس کے ساتھ سیلفی لیتی پر اس نے ایسا کچھ بھی نہیں کیا۔شاید برہان ندیم اس کے لیے اس سے کچھ بڑھ کر ہی تھا۔
’’ان فیکٹ یہ وہی ہیں جن کے بارے میں تم نے ہمیں بتایا تھا۔تمہارے ہی کہنے پر ہم نے ان کی کمپنی سے رابطہ کیا اور واقعی ممتحنہ صاحبہ! بہت بہترین کام کیا ہے آپ نے۔‘‘اپنے سامنے صرف ممتحنہ کی تعریفیں سن کر زارا اداس ہو گئی۔ وہ بے شک ممتحنہ کا ہاتھ بٹاتی لیکن اس کے ساتھ ہمیشہ ایسا ہی ہوتا،کام یابی کا تمام حصہ ممتحنہ اپنے نام کر لیتی۔
’’تو انہوں نے ہی ہماری کمپنی کے بارے میں محمود علی صاحب کو بتایا، لیکن ایسا کیوں کیا انہوں نے؟ اور انہیں ہماری چھوٹی سی کمپنی کے بارے میں پتا کیسے چلا؟‘‘ وہ اپنے آپ میں ہزاروں سوالات کرنے لگی۔
’’دیکھا آپ نے، میرا انتخاب تو بہترین ہی ہوتا ہے۔واقعی مس ممتحنہ، آپ کی فلورل ارینجمنٹس نے بہت متاثر کیا اور آپ نے بھی۔‘‘آخر کے چار الفاظ اس نے ممتحنہ کو دیکھتے ہوئے اپنے دل میں کہے۔
’’شکریہ!‘‘ وہ زیادہ سے زیادہ صرف ایک لفظ ’شکریہ‘ کا ہی نیم مسکراہٹ لیے استعمال کر پائی۔
’’ویسے میں نے آپ کا وہ گلِ لہمی پر دیا گیا لیکچر بھی دیکھا تھا،بہت اچھا لگا۔‘‘اس نے پہلے بھی اس کا دماغ اس لیکچر کی طرف مائل کرنا چاہا تھا پر اس وقت وہ سکتے کی حالت میں تھی۔لیکن اب، اب وہ سن بھی رہی تھی اور سمجھ بھی رہی تھی۔
’’اف! انہوں نے تو وہ والا لیکچر بھی دیکھ لیا۔کیسے نظریں ملاؤں گی اب ان سے؟‘‘ وہ دل ہی دل میں رونے لگی۔
ــ’’ممتحنہ ! اگر آپ دونوں نے ہماری آج کی پارٹی میں شرکت نہ کی تو میں ناراض ہو جاؤں گا۔آپ دونوں نے اس پارٹی کا حصہ بننا ہی ہو گا۔ ‘‘
محمود علی اُسے پارٹی کا حصہ بننے کا کہہ کر برہان ندیم کے ساتھ اندر چلا گیا۔برہان کی نظریں آخری وقت تک سادگی کے اس جیتے جاگتے مجسمے پر تھیں۔پھولوں کے ساتھ الجھے ہوئے ایک پھول پر تھیں۔
’’زارا کی بچی تمہیں تو میں نہیں چھوڑوں گی۔ کیا ضرورت تھی انہیں یہ بتانے کی کہ میں ان کی بہت بڑی فین ہوں؟‘‘ وہ جیسے ہی اندر گئے تو ممتحنہ سیڑھی سے نیچے اتر کر زارا پر بھڑک اٹھی۔
’’کیا فرق پڑتا ہے؟کون سا انہیں یہ الفاظ یاد رہ جائیں گے۔ کروڑوں لوگ کہہ چکے ہوں گے یہ بات کہ برہان میں آپ کی بہت بڑی فین ہوں، لیکن سب چھوڑو، مجھے یہ بتاؤ کہ کیا میں تمہاری کمپنی کا حصہ نہیں ہوں؟ کیا میں تمہارے شانہ بشانہ کام نہیں کرتی؟‘‘ اس نے منہ بسورتے ہوئے کہا۔ اس بار وہ پہلے سے کافی زیادہ سنجیدہ تھی۔
’’ایسی باتیں کیوں کر رہی ہو؟ میں نے کچھ غلط کیا ہے؟‘‘اس نے زارا کے بازوؤں پر اپنے دونوں ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔
’’نہیں! تم نے کچھ نہیں کہا لیکن ہماری کام یابی کا سارا کریڈٹ تمہارے سر جاتا ہے،میرے حصے میں کبھی نہیں آتا۔‘‘ وہ رونے لگی۔ لیکن جب اسے لگا کہ اس کا میک اپ رونے سے خراب ہو جائے، تو اس نے خو د کو سنبھال لیا۔
’’ایسی بات نہیں ہے ڈئیر! چھوٹی چھوٹی باتوں کو دل پر مت لیا کرو۔ اب اندر چلو میرے ساتھ،مجھے منہ دھونا ہے اور اس شان دار پارٹی کا نا چاہتے ہوئے بھی حصہ بننا ہے۔‘‘وہ اس کے آنسو پونچھتی اسے اندر لے گئی۔
برینڈ نیو کار میں جب دور ِ حاضر کی سب سے مقبول ترین اداکارہ نے دستک دی تو جیسے سارا کا سارا میڈیا ،سارے کے سارے کیمرے صرف اسی پر فوکس کرنے لگے۔وہ جو اپنے ہم راہ باڈی گارڈ لائی تھی،اس نے تمام کیمروں کو دور کیا۔ آج وہ بہت خوش تھی۔ اس لیے سب میڈیا والوں کے جوابات دیتے ہوئے اندر جانے لگی لیکن پھولوں کی سجاوٹ دیکھ کر وہ وہیں ٹھہر گئی اور بے ساختہ اس کے منہ سے نکلا ’’marvellous‘‘
٭…٭…٭
’’رات کے آٹھ بج چکے ہیں، یہ لڑکی ابھی تک نہیں آئی۔لگتا ہے ڈائریکٹر صاحب نے دعوت دے ہی دی ہے پارٹی میں شرکت کی۔‘‘آٹھ بج چکے تھے ۔ہمیشہ کی طرح عنایہ بیگم آٹھ بجے والا ڈراما دیکھنے کے لیے ٹی وی کے آگے بیٹھی ہوئی تھیں کہ انہوں نے اپنے ساتھ بیٹھے حارث سے اپنی بیٹی کی واپسی کے بارے میں پوچھا۔
’’میں فون کرتا ہوں۔ویسے دعوت دے ہی دی ہوگی ڈائریکٹر صاحب نے ورنہ میری بچی کبھی اتنی لاپروانہیں ہوئی کہ تاخیر سے گھر واپس آئے۔‘‘حارث موبائل کی چمکتی اسکرین پر اپنی انگلیوں سے ممتحنہ کا نمبر ڈائل کرنے لگے کہ اتنے میں اس کے موبائل پر خود ممتحنہ کا فون آ گیا۔
’’السلام علیکم ابو! ابو آئی ایم سوری مجھے آپ لوگوں کو انفارم کرنا یاد ہی نہیں رہا کہ محمود علی صاحب نے ہمیں روک لیا ہے۔کہہ رہے ہیں کہ تھوڑی دیر کے لیے ہی سہی لیکن تقریب کا حصہ ضرور بن کے جانا۔آپ ناراض تو نہیں ہیں نا؟‘‘ حارث بھلے اپنی بیٹی سے بے انتہا پیار کرتا تھا ، اس کی ہر ضد پوری کرتا لیکن ممتحنہ کے اندر ہمیشہ سے ایک ڈر رہتا، وہی ڈر جو ہر فرماں بردار بیٹی کے اندر باپ کی طرف سے چھپا ہوتا ہے۔
’’کیوں ناراض ہوں گا میں اپنی گلابو سے؟ انجوائے کرو تم دونوں لیکن دس بجے تک واپس آجانا، ڈرائیور ساتھ ہے نا تمہارے؟‘‘حارث جانتا تھا کہ وہ اپنی بیٹی کو کتنی ہی چھوٹ کیوں نہ دے دے۔ وہ ان کی عزت پر کبھی کوئی آنچ تک نہیں آنے دے گی۔
’’جی ابو! ڈرائیور ہمارے ساتھ ہی ہے اور ہم دس بجے سے پہلے ہی آ جائیں گے۔اپنا خیال رکھیے گا۔خدا حافظ۔‘‘ وہ محمود علی کے بنگلے کے کمرے نما باتھ روم میں موجود تھی۔زارا بھی اس کے ساتھ تھی۔ممتحنہ نے تو اپنا حلیہ درست کرنے میں زیادہ وقت نہیں لگایا لیکن زارا تو باتھ روم میں اپنا تمام میک اپ کا سامان کھولے شیشے کے سامنے کھڑی تھی۔
’’تمہارے بالوں پر جو آج گلِ لہمی لگا ہوا تھا وہ کہاں گیا؟‘‘ زارا اپنے گالوں پر بلش لگاتے ہوئے بولی۔
وہ جو ان لمحات کو بھلانے کی ناکام کوشش میں وقتی طور پر کام یاب ہو چکی تھی،زارا کے یاد دلانے پر ایک بارپھر اس کا ذہن اسے محمود علی کے بنگلے کے لان کی طرف لے کر چلا گیا۔
’’میرا گل لہمی؟ اوہ…شاید لان میں ہی گر گیا ہوگا۔ ہائے میرے خدا۔ یہ ملاقات اتنی خطرناک کیوں تھی؟ انہوں نے تو گل لہمی والا لیکچر بھی دیکھ لیا۔ تمہاری عزت تو خاک برابر بھی نہ رہی ان کے سامنے کیسے ملا پاؤ گی ان سے اپنی نظریں مس فلورسٹ؟‘‘وہ اپنے آپ میں اس باتھ روم کے آئینے کے سامنے کھڑی ہزاروں سوالات کرنے لگی۔
’’کہاں کھوگئیں مس فلورسٹ؟ چلو ہمیں دیر ہو رہی ہے۔ بے تحاشا شور اس بات کی گواہی دے رہا ہے کہ پارٹی شروع ہو چکی ہے۔‘‘ زارا کے جھنجوڑنے پر وہ حال میں تو آ گئی لیکن اس کا دل اب بھی ماضی میں تھا۔اس نے سر جھٹک کر اپنے بالوں پر کنگھی چلائی اور زارا کے ہم راہ تقریب کا حصہ بننے چلی گئی۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

گھٹن — اعتزاز سلیم وصلی

Read Next

بس عشق ہو — کشاف اقبال (دوسرا اور آخری حصّہ)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!