بس عشق ہو — کشاف اقبال (حصّہ اوّل)

ممتحنہ کے گھر والوں کے ساتھ ساتھ باقی تمام اسٹوڈنٹس کے گھر والے بھی فیسٹول میں پہنچ گئے۔ جس انداز اور جس خوب صورتی سے ممتحنہ نے اپنا اسٹال پھولوں سے سجایا تھا ۔ وہ سب کی نظروں کا مرکز بن گیا۔
’’میری بچی۔‘‘ عنایہ بیگم کے منہ سے بے ساختہ اپنی بیٹی کے لیے محبت امڈ آئی۔
’’السلام علیکم!آج میں آپ کو فلورل ہیٹ بنانا سکھاؤں گی۔ فلورل ہیٹ بنانا بالکل بھی مشکل نہیں ہے۔بس اس کے لیے آپ کو کلر وہیل(Color Wheel)کی ضرورت ہو گی۔ــ‘‘ ممتحنہ نے ایک بڑا سا چار ٹ پیپر ٹیبل کے نیچے سے نکالا جو گولائی میں کٹا ہوا تھا۔چارٹ پیپر پر مختلف رنگوں کی فارمک شیٹ چپکی ہوئی تھی۔لال، جامنی، پیلا،نارنجی،ہلکا نیلا،گہرا نیلا،غرض ہر رنگ اس میں موجود تھا، مگر وہ اس چارٹ کے ذریعے ایک فلورل ہیٹ کیسے بنائے گی، کوئی سمجھ نہ پایا۔
’’آپ لوگ سمجھ رہے ہوں گے کہ میں ان رنگوں کی شیٹ کاٹ کر پھولوں کے ساتھ لگاؤں گی لیکن ایسا بالکل نہیں ہے۔آپ دیکھ سکتے ہیں کہ یہاں رنگوں کا ایک پہیہ بنا ہوا ہے جس میں لال رنگ کے بالکل مقابل سبز رنگ کی شیٹ ہے، نارنجی شیٹ کے بالکل سامنے نیلے رنگ کی اور اسی طرح مختلف رنگوں کی ٹیسٹس موجود ہیں۔‘‘
سبھی لوگ اسے غور سے سن رہے تھے جس کا انداز پیشہ ور گل کاروں جیسا تھا۔
’’فلورل ہیٹ کے لیے سب سے اہم چیز ہے پھول اور ہم پھولوں کے چناؤ کے لیے ہی اس وہیل کا سہارا لیں گے۔‘‘
’’ وہ کیسے؟‘‘ سامنے سے کسی نے سوال کیا۔
’’بتاتی ہوں۔ ہمارے پاس کئی طرح کے کامپلی مینٹس ہوتے ہیں۔ اگر ہم ذہنی سکون، خاموشی یا امن ظاہر کرنا چاہتے ہیں تو ہم ان رنگوں کے پھولوں کا انتخاب کریں گے جو اس پہیے میں ایک دوسرے کے بالکل برابر برابر ہیں۔جیسے نیلے رنگ کے بالکل برابر نیلے اور ہرے رنگ کا مرکب ہے اور اس کے برابر ہرا رنگ ہے، تو اگر ہم حالت ِ سکون ظاہر کرنا چاہتے ہیں تو ہم ان رنگوں کے کمبی نیشن کا انتخاب کریں گے جو اس پہیے پر ایک دوسرے کے بالکل برابر ہیں۔ اس کمبی نیشن کو یاد کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ وہیل انٹر نیٹ پر کلر وہیل کے نام سے آپ کو بہ آسانی مل جائے گا۔‘‘اور پھر اس نے نیلے اور سبز رنگ کے پھولوں کو ہیٹ پر سجایا تو واقعی وہ دیکھنے والے کو ذہنی سکون فراہم کرنے لگا۔
’’ارے واہ! یہ ہیٹ تو واقعی سکون کی کیفیت فراہم کر رہا ہے۔‘‘کسی طالب ِعلم کی امی نے بے ساختہ کہا۔
’’جی بالکل۔ اب آتے ہیں دورے کمپلی منٹ کی طرف۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ جب لوگ آپ کو دیکھیں تو ان کی نظر سب سے پہلے آپ کے فلورل ہیٹ پر پڑے تو آپ پھولوں کے رنگوں کا انتخاب اسی پہیے سے کریں گے۔جو رنگ ایک دوسرے کے بالکل مقابل ہوں، ان کا انتخاب کریں گے۔جیسے آپ اس پہیے پر دیکھ سکتے ہیں، لال کے بالکل مقابل سبز رنگ ہے۔جامنی کے بالکل مقابل پیلا رنگ ہے تو اگر ایسے کنٹراسٹ کا انتخاب کیا جائے، تو لوگوں کی نظر سب سے پہلے آپ کے فلورل ہیٹ پر پڑے گی اور اس کی مثال میرے اسٹال کے پھول ہیں، پیلا اور جامنی رنگ ۔ میں نے صرف دو رنگوں کا انتخاب کیا اور دیکھیے سب کی نظر سب سے پہلے میرے اسٹال پر پڑی۔‘‘ وہ شانے اچکا کر اپنی تخلیق کی تعریف کرنے لگی۔
’’ میری جان! ‘‘ ممتحنہ کے ابو نے اپنی بیٹی کو گود میں اٹھا کر چوم لیا۔ وہ واقعی کوئی ایکسٹرا آرڈنری لڑکی تھی۔پھولوں کے متعلق اس کی تمام تر معلومات بڑی دل چسپ تھیں، وہ بھی اتنی کم عمری میں۔





’’تمہیں واقعی بڑے ہو کر فلورسٹ بننا چاہیے ممتحنہ۔‘‘ممتحنہ کی استانی اس کے گھر والوں کے سامنے اس کے ہنرکی تعریف کرنے لگیں۔
’’آپ لوگوں نے اپنی بیٹی کی واقعی بہت اچھی تربیت کی ہے۔پڑھائی کے ساتھ ساتھ یہ دوسری سرگرمیوں میں بھی سب سے آگے رہتی ہے ماشا اللہ۔‘‘اس کی استانی نے ممتحنہ کے والدین سے مزید کہا۔
اس دن بہار کے فیسٹول نے واقعی اس کے گھر والوں کو سوچنے پر مجبور کر دیا کہ فلورسٹ بننے کا فیصلہ ممتحنہ کا بچپنا ہرگز نہیں ہے۔وہ پوری طرح الجھ چکی تھی ان پھولوں کے ساتھ۔
٭…٭…٭
دیکھتے ہی دیکھتے بارہ برس گزر گئے۔ ان بارہ برسوں میں کوئی ایسا دن نہیں تھا جس دن ممتحنہ نے پھولوں سے بات نہ کی ہو،ان کا خیال نہ کیا ہو، ان کے متعلق نئی نئی معلومات نہ اکٹھی کی ہوں۔ دادا دادی کا انتقال ہو گیا تھا اور اب وہ اپنے والدین کے ساتھ رہ رہی تھی۔اس کا گھر اب بھی وہی تھا لیکن اب اس میں اس کے دادا دادی نہیں تھے جو اس کے ہر نخرے اٹھاتے،اس کی ہر بات مانتے،اس کو اسکول چھوڑنے جاتے اور … اس سے پھولوں کے متعلق نئی نئی باتیں پوچھتے۔
اکیس سال کی عمر میں وہ امریکا چلی گئی جہاں سے اس نے فلورل ارینجمنٹ کا باقاعدہ کورس کیا۔دو سال کے اس طویل کورس کو مکمل کرنے کے فوراً بعد ہی و ہ پاکستان واپس آ گئی اور اپنی سہیلی زارا کے ساتھ ایک چھوٹی سی فلورل کمپنی کھول لی۔ ’’ممتحناز فلورل کمپنی۔‘‘ لفظ ’ممتحنا‘ خود ممتحنہ کو ظاہر کرتا جو اس کمپنی کی جڑ،اس کی مالک تھی اور ’ز‘ زارا کو ظاہر کرتا جو اس جڑ سے اگنے والی شاخ تھی۔
وہ واقعی ایک بہت چھوٹی سی کمپنی تھی۔صرف ایک نرسری تھی جہاں دنیا جہان کے تمام پھول پودے موجود تھے۔ایک آفس تھا جہاں دو صوفے، ایک ٹیبل، ایک کمپیوٹر اور ایک عدد کچن تھا۔ کمپیوٹر پر وہ روزمرہ کے آرڈرز چیک کرتی۔ اس کا خواب پورا ہو چکا تھا۔وہ باقاعدہ گل کار بن چکی تھی، آفیشلی۔
اس کے کام کی مصروفیت بدل چکی تھی۔ صبح صبح نرسری پہنچنا، کسی خاص پھول کی کمی ہو یا کسی نئے پھول کی اطلاع ملی ہو تو اس پھول کے پودے کو دوسری نرسری سے خرید کر لانا، اپنے پھولوں کی اس طرح سے دیکھ بھال کرنا جس طرح ایک ماں اپنے دودھ پیتے بچے کی کرتی ہے۔اگر اس کے پھولوں کو ذرا سی بھی توجہ نہ ملتی تو وہ اس سے روٹھ جاتے،مرجھانا شروع ہو جاتے۔ وہ ہفتے میں دو دن گل پروری (Floristry) کی کلاسز بھی لیا کرتی جس میں ہر دن ایک پھول کے بارے میں معلومات فراہم کرتی اور ساتھ ساتھ یہ بھی بتاتی کہ اس پھول کا استعمال سجاوٹ میں کس طرح کرنا ہے۔ بہت مصروف ہو گئی تھی وہ اس پھولوں اور خوشبوؤں سے بھری زندگی میں۔ بہت نخرے اٹھانے پڑتے اسے ان پھولوں کے۔
وہ صبح صبح نرسری پہنچ کر پھولوں کے ساتھ مفصل گفت گو کرنے کے بعد آفس پہنچتی اور اپنی ای میلز چیک کرتی۔ زیادہ تر اسے چھوٹے موٹے آرڈرز ملا کرتے جن میں پچیس گلدستے، برائیڈل بکے یا سالگرہ پر دینے کے پھول وغیرہ۔لیکن بعض اوقات اسے اسپیشل آرڈر بھی ملا کرتے،جیسے پوری شادی کی تقریب کے پھولوں کی ارینجمنٹ ، تو وہ بہت خوش ہوتی اور ایسے آرڈرز کو تکمیل تک پہنچانے کے لیے اسے باقاعدہ اس جگہ پر خود بھی جانا پڑتا۔
کچھ ایسا ہی آرڈر اسے آخری رات ملا تھا۔ لالی وڈ کے نئے ڈائریکٹر مرتضیٰ حسیب کی فلم نے باکس آفس پر بہت اچھا بزنس کر لیا تھا جس کے نتیجے میں انہوں نے ایک فائیو اسٹار ہوٹل میں ایک شاندار سیکسیس پارٹی(Success Party) منعقد کی تھی اور پارٹی کی تمام فلورل ارینجمنٹ کے لیے انہوں نے ’’ممتحناز فلورل کمپنی‘‘ کا انتخاب کیا۔ ایونٹ تو رات کا تھا پر اسے تمام تیاریا ں شام تک کرنا تھیں۔یہ صرف ایک فلورسٹ ہی جانتی ہے کہ محض ایک پھول کا کنٹینر تیار کرنے میں کتنا وقت لگتا ہے۔تقریباً پندرہ سے بیس منٹ اور پھر اسے تو اس شاہانہ ایونٹ کے لیے کافی سارے کنٹینر تیار کرنا تھے۔
’’تمہاری زندگی تو صرف ان پھولوں میں ہی الجھ کر رہ گئی ہے۔تمہیں محبت نہیں ہوئی کیا کبھی کسی سے؟ہر وقت پھولوں کے ساتھ رہتی ہو۔ کوئی بھی تمہیں دیکھ کر یہ کہہ دے گا کہ تمہیں کسی سے محبت نہیں ہوئی یا تمہارے پاس کسی سے محبت کرنے کا وقت ہی نہیںہے۔‘‘ممتحنہ صبح نو بجے نرسری پہنچی تو زارا نے اسے پھولوں کی دیکھ بھال کرتا دیکھ کر بالآخر وہ سوال پوچھ ہی لیا تھا جووہ بہت عرصے سے اس سے پوچھنا چاہتی تھی۔
’’کرتی تو ہوں ان پھولوں سے محبت۔ مجھے بہت افسوس ہوا یہ جان کر کہ تم میری ان پھولوں کے ساتھ محبت کو سچی محبت نہ سمجھ سکیں۔ اب میں ٹھہری سادہ سی لڑکی۔مجھ سے کہاں کوئی محبت کرے گا؟ تم تو ہنس پڑو گی یہ جان کر کہ ممتحنہ حارث جیسی عام سی لڑکی محبت کے خواب گر سجاتی بھی ہے تو بہت بڑی شخصیت کے ساتھ۔‘‘وہ آرڈرز تیار کرنے کے لیے نرسری سے مختلف پھول توڑ رہی تھی۔زارا نے بھی اس کا ہاتھ بٹانا شروع کر دیا۔
’’کون سی شخصیت؟ ذرا ہمیں بھی تو پتا چلے کہ ممتحنہ حارث جیسی سادہ لڑکی کس شخص کے ساتھ اپنی زندگی گزارنے کے خواب دیکھتی ہے اور خدا کا واسطہ، کسی پھول کا نام مت لینا ورنہ میں نے اس گملے سے تمہارا سر پھوڑ دینا ہے۔‘‘زارا کو بھی تجسس ہوا کہ آخر وہ کون سا شخص ہے جس سے ممتحنہ خاموش محبت کر بیٹھی ہے۔
’’برہان ندیم!‘‘ وہ پھول توڑ کر بڑی بالٹی میں ڈالنے لگی۔
’’واٹ؟ آر یو سیریس؟ برہان ندیم؟ دی فیمس پاکستانی ایکٹر؟‘‘زارا گلا پھاڑ کر ہنسنے لگی۔ ’’اب یہ مت کہہ دینا کہ ساری زندگی صرف اسی کے خواب دیکھوں گی ورنہ کنواری رہوں گی۔‘‘
’’خواب تو دیکھ ہی سکتی ہوں اس کے۔ہاں مجھے پتا ہے میری قسمت اگر سونے کی بھی ہو تب بھی مجھے وہ ہیرا نہیں مل سکتا۔ مطلب دور دور تک کوئی امید بھی نہیںہے۔اس لیے تو اُس کو صرف اپنے خوابوں میں سجاتی ہوں۔‘‘ وہ کام کرتے کرتے خیالوں میں کھو گئی۔
’’مس فلورسٹ؟ کہاں کھو گئیں؟ برہان ندیم کے خیالوں سے فرصت مل گئی ہو تو کچھ کام بھی کر لیں؟بہت سارے آرڈرز تیار کرنا ہیں۔‘‘زارا اس کی آنکھوں کے سامنے چٹکی بجاتے ہوئے اسے خواب سے جگا کر حقیقت کی دنیا میں لے آئی۔
ــ’’ہاں تو اور کیا کروں؟ شہزادے کے متعلق صرف خواب ہی دیکھے جا سکتے ہیں۔ رہی بات سچی محبت کی تو میرے ساتھ ایسا کچھ ہوا ہی نہیں۔کوئی آیا ہی نہیںزندگی میں،کوئی ایسا شخص جس کے احسا س کو میں گلاب سے تشبیہ دے سکوں، جس کی خوشبو کو میں چنبیلی کی خوشبو سے اور جس کی وفا کو میں گل وفا سے ملا سکوں۔ کوئی بھی نہیں آیا ایسا شخص ۔ میں تو ایسے درخت کی چھاؤں تلے سانسیں لے رہی ہوں جس پر اگر کھلتے تو صرف میپل لیوز(Maple Leaves) یعنی خزاں کے پتے، بے حس، جن کا خوشبوؤں سے دور دور تک کوئی واسطہ نہ ہو۔‘‘
وہ بالٹی اس دن کے تمام آرڈرز میں استعمال ہونے والے پھولوں سے بھر چکی تھی۔ وہ اب بالٹی کو زارا کے ساتھ مل کر اندر لے جانے لگی۔ ان پھولوں کو جو شاخ کے ساتھ نکالے گئے تھے ،کاٹنا تھا، شکل دینا تھی اور سب سے مشکل کام انہیں کنٹینر میں ارینج کرنا تھا۔
’’اُف… اب تشبیہ بھی پھولوں سے دی جائے گی؟ مانو آدمی نہ ہوا کوئی گلاب کا پھول ہو گیا ۔ پھولوں میں نزاکت ہوتی ہے تو کیاتمہیں جس شخص سے محبت ہو گی وہ نازک اور نفیس ہو گا؟ نرم نرم سا؟‘‘ زارا قہقہے مارنے لگی۔اسے تو بس موقع چاہیے ہوتا تھا ممتحنہ سے مذاق کرنے کا اور اسی رشتے کا نام تو دوستی ہے۔ اپنا ہر غم ہر خوشی اپنے سے سب قریب انسان کے ساتھ بانٹنا۔
’’ میں نے کہاں نزاکت اور نفاست جیسی خوبیوں کے ساتھ اپنی ہونے والی محبت کو ملایا؟ تمہیں تو بس مذاق کرنے کی پڑی رہتی ہے۔‘‘ وہ منہ بسورکر کنٹینرز نکالنے لگی جب کہ زہرہ فلورل ٹیپ اور قینچی نکالنے میں مصروف تھی۔
’’ہونے والی محبت ہونہہ!آپ کو کیسے پتا مس فلورسٹ کہ آپ کو محبت ہونے والی ہے؟‘‘
’’ایک بار تو ہوتی ہی ہے نا! ابھی نہیں ہوئی تو اس کا مطلب یہی ہوا نا کہ آگے ہوگی۔ تمہیں میں نے کنٹینر مار دینا ہے اٹھا کر زارا، اب یہاں صرف کام ہوگا، باتیں نہیں۔میری کلاس بھی ہے آج۔دوپہر بارہ بجے تک تمام آرڈرز فائنل کرنا ہوں گے۔‘‘ اب وہ دونوں خاموشی سے کام کرنے لگیں۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

گھٹن — اعتزاز سلیم وصلی

Read Next

بس عشق ہو — کشاف اقبال (دوسرا اور آخری حصّہ)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!