بس عشق ہو — کشاف اقبال (حصّہ اوّل)

’’سلام! کیسے ہو ہیرو؟‘‘ برہان نرسری سے نکلا ہی تھا کہ راستے میں محمود علی کی کال آ گئی۔
’’وعلیکم السلام! میں بالکل فٹ، آپ سنائیں۔ فلم کی شوٹنگ کب سے شروع کرنے کا ارادہ ہے؟‘‘ وہ گفت گو کرنے کے انداز سے کافی پرجوش نظر آ رہا تھا۔
’’وہ …وہ…میں نے اس فلم کے متعلق ہی بات کرنے کے لیے فون کیا ہے۔‘‘وہ اپنے ایکٹر سے زیادہ اپنے دوست کا دل صاف صاف حیال والی بات بتا کر نہیں توڑنا چاہتا تھا۔ اسی لیے اس نے کوئی دوسرا طریقہ اختیار کرنے کا سوچا۔
’’اگر تم ابھی فارغ ہو تو میرے اسٹوڈیو آ سکتے ہو؟ تمہارا اسکرین ٹیسٹ لیناہے۔‘‘محمود علی کو برہان بہت عزیز تھا لیکن فی الوقت اس سے بھی کہیں زیادہ عزیز حیال کی ہر ڈیمانڈ پوری کرنا تھا۔
’’اسکرین ٹیسٹ؟ اس کی ضرورت کیوں پڑ گئی محمود صاحب؟ آپ نے تو سوچ سمجھ کر ہی مجھے اس فلم میں کاسٹ کرنے کا فیصلہ کیا ہوگا، پھر اسکرین ٹیسٹ کی کیا ضرورت؟‘‘اس سے پہلے کہ محمود علی اس کا جواب دیتا، برہان بول پڑا لیکن ان کی خاموشی بھانپتے ہوئے پھر گویا ہوا:
’’اچھا ٹھیک ہے، میں اسٹوڈیو پہنچتا ہوں آدھے گھنٹے میں۔ ‘‘اس نے فون رکھ دیا ۔برہان کو اچنبھا ہوا۔
’’اسکرین ٹیسٹ تو اس وقت ہوا کرتا ہے جب ڈائریکٹر کو یہ دیکھنا ہو کہ آیا اداکار اس رول پر فٹ ہو رہا ہے یا نہیں۔ لیکن محمود صاحب جیسے ڈائریکٹر نے میرا انتخاب کیا تو اتنا تو سوچ سمجھ کر ہی کیا ہوگا۔ ان کے ساتھ درجنوں پراجیکٹس جو کر چکا ہوں، پھر اسکرین ٹیسٹ کی کیا ضرورت؟‘‘
وہ گہری سوچ میں پڑ گیا ۔پھر سر جھٹک کر اس نے اپنی گاڑی چلانے پر دھیان دیا۔
٭…٭…٭





’’اب مجھے یہ بتاؤ کہ پچھلے ایک گھنٹے میں یہاں کیا ہوا؟وہ یہاں کیسے آئے؟کیا ایک بار پھر اپنے گھٹنوں کے بل بیٹھ گئے تھے؟اسٹوڈنٹس تو پاگل ہو گئی ہوں گی انہیں دیکھ کر۔ کیا انہوں نے تمہارا لیکچر بھی لیا؟‘‘زارا اس سے ہزاروں سوالات پوچھنے لگی۔
’’اس بار گھٹنوں کے بل نہیں بیٹھے مگر میں نے ہاں کر دی، اب خوش؟ اب چلو گھر۔‘‘اتنی بڑی بات اتنے عام سے لہجے میں بتاتے ہوئے ممتحنہ آفس کی طرف اپنا ہینڈ بیگ لینے چلی گئی۔
’’یہ تو بہت خوشی کی بات ہے۔ میری مٹھائی کہاں ہے؟‘‘ممتحنہ نے زارا کا دل خوش کر دیا۔
‘‘ضرور کھلاؤں گی تمہیں مٹھائی۔ بس مجھے امی ابو کویہ بات بتانے دو،پھر ان کی رضامندی کے بعد جتنی کہو گی اتنی مٹھائی کھلاؤں گی۔‘‘وہ زارا کے گال دبوچنے لگی۔
’’تمہارے امی ابو کو میں اچھی طرح جانتی ہوں، بہت اوپن مائنڈڈ ہیں۔ان کی طرف سے ہاں ہی سمجھو۔‘‘یہ بات زارا کو بتانے کی ضرورت نہیں تھی،وہ خود اپنے ماں باپ کو اچھی طرح جانتی تھی۔
’’امی ابو سے یاد آیا،زارا پلیز مجھے سچ سچ بتانا،تمہاری امی مجھ سے اتنی اکھڑی اکھڑی کیوں رہتی ہیں؟ آج میں تمہیں پک کرنے تمہارے گھر گئی تو ان کے رویے میں کافی خفگی محسوس کی۔ مجھے بتاؤ کیا میں نے ان کی بیٹی کے ساتھ کچھ غلط کر دیا؟ ‘‘ وہ یہ سوال زارا سے نرسری پہنچتے ہی کرنا چاہتی تھی مگر اس کے ذہن سے یہ بات نکل چکی تھی۔
’’تمہاری کوئی غلطی نہیں ممتحنہ۔ اصل میں وہ یہ سمجھتی ہیں کہ میں تمہاری نوکر ہوں۔ میں انہیں بہت سمجھاتی ہوں کہ ایسا کچھ نہیں لیکن وہ مانتی ہی نہیں۔‘‘
’’ماں جو ٹھہریں، ایک ماں کو اپنی اولاد کی طرف سے کچھ نہ کچھ کھٹکا لگا رہتا ہے،جیسے میری ماں کو ایسا لگتا ہے کہ میں نے اپنی زندگی پھولوں کے ساتھ گزار کر ضائع کر دی۔‘‘وہ اسے سمجھانے لگی۔
’’I understand.، یہ ایک فطری عمل ہے ہر ماں کا، اس لیے میں مزید جواب کبھی نہیں دیتی انہیں۔ اب چلیں؟ دیر نہیں ہو رہی؟‘‘زارا اسے چلنے کا کہنے لگی۔ممتحنہ نے گھر سے ڈرائیور کو کافی دیر سے نرسری بلایا ہوا تھا۔ممتحنہ کے دو ڈرائیور تھے،ایک تو سوزوکی والا ڈرائیور جو ٹھیک ڈیڑھ بجے نرسری آتا اور ان کے ساتھ آرڈرز پہنچانے کے بعد واپس چلا جاتا اور دوسرا ڈرائیور ممتحنہ کے گھر کا تھا جس کا کام اسے نرسری تک چھوڑنا اور واپسی پر نرسری سے پک کرنا تھا۔
٭…٭…٭
’’نہیں حیال صاحبہ! مجھ سے یہ نہیں ہو پائے گا۔ میں جس طرح آپ کو نہ نہیں کہہ سکتا،اسی طرح برہان کو بھی نا نہیں کہنا چاہتا۔‘‘ برہان کا اسکرین ٹیسٹ لیا جا رہا تھا اور محمود علی دل ہی دل میں یہ سوچ رہاتھا کہ وہ اپنے پسندیدہ اداکار بلکہ اپنے دوست کو منع کرے بھی تو کیسے؟
’’آپ کو اس فلم میں برہان کے ساتھ ہی کام کرنا ہوگا حیال صاحبہ۔‘‘ محمود علی نے فیصلہ کر لیا۔وہ برہان کو انکار نہیں کر سکتا تھامگر اب صورتِ حال بہت نازک ہو گئی تھی۔کسی ایک کو تو اس فلم سے جانا ہی تھا۔
’’زبردست! تم پرفیکٹ ہو اس رول کے لیے برہان۔‘‘
اسکرین ٹیسٹ لیا جا چکا تھا اور برہان کام یاب ہو چکا تھا۔محمود علی جو ابھی تک اسے فلم سے نکالنے کے بہانے ڈھونڈ رہا تھا،اب شاید حیال کو منانے کے بہانے سوچنے میں لگ گیا۔
’’شکریہ! ویسے مجھے ایک بات سمجھ نہیں آئی۔ہم نے اتنے پراجیکٹس ساتھ کیے ہیں۔آپ کو اندازہ بھی ہو گیا ہوگا میری صلاحیتوں اور میری اداکار ی کا،پھر اسکرین ٹیسٹ کی کیا ضرورت تھی؟‘‘ برہان جو بات سارے راستے سوچتے آ رہا تھا،وہ بات اس نے کہہ ڈالی۔
’’وہ…وہ دراصل یہ تمہاری پہلی فلم ہے نا اس لیے تمہیں فلموں کے بارے میں اتنا نہیں پتا۔ فلموں میں کام کرنے کے لیے اداکاروں کو پہلے اسکرین ٹیسٹنگ کے مرحلے سے گزرنا پڑتا ہے اور اسکرین ٹیسٹنگ کے مراحل سے تو بالی وڈ کے بڑے بڑے اداکار گزرتے ہیں،کچھ کام یاب ہو جاتے ہیں اور کچھ پر فلم کا کریکٹر فٹ نہیں بیٹھتا، پھر کاسٹنگ ڈائریکٹر کسی اور اداکار یا ادکارہ کی تلاش میں نکل پرتا ہے،اس میں کوئی حیران ہونے والی بات نہیں۔‘‘
محمود علی نے اسے اسکرین ٹیسٹنگ کی حقیقت تو بتائی مگر اصل حقیقت نہ بتا سکا۔
’’ہمم! کہہ تو ٹھیک رہے ہیں آپ۔‘‘برہان نے اس کی باتوں کا یقین کر لیا مگر کہیں نہ کہیں اسے ایسا لگ رہا تھا کہ محمود علی اس سے کچھ نہ کچھ چھپا رہا ہے۔
’’فلم کی شوٹنگ اگلے ہفتے سے شروع ہے۔اسکرپٹ اور باقی تمام ضروری تفصیلات میں تمہارے گھر پہنچا دوں گا۔‘‘ محمود علی برہان کو اپنی بگ بجٹ فلم میں کاسٹ کر نے کے لیے مستعد تھا پر وہ حیال کو بھی اس پراجیکٹ سے نکالنا نہیں چاہتا تھا۔
٭…٭…٭
شام کے پانچ بجنے کو تھے۔وہ جب اپنے گھر پہنچی تو اسے کڑاہی کی گرما گرم خوش بو آنا شروع ہو گئی۔
’’جلد ی سے کھانے کی میز پر آ جاؤ،بہت بھوک لگ رہی ہے مجھے۔‘‘ ممتحنہ نے عنایہ بیگم کو کھانے کی میز پر موجود پایا۔
’’آپ نے ابھی تک کھانا نہیں کھایا؟‘‘وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ شام کے پانچ بجنے کو تھے اور اس کی ماں نے ابھی تک کھانا نہیں کھایا۔
’’آج تمہارے ساتھ کھانے کا موڈ ہو رہا تھا۔اسی لیے تھوڑا انتظار کر لیا، مگر اب میری ہمت جواب دے رہی ہے۔ فریش ہونے بعد میں جانا، بس کچن سے ہاتھ منہ دھو کر جلدی سے آ جاوؑ۔‘‘ و ہ ممتحنہ کی پلیٹ میں سالن ڈالنے لگیں۔
’’آپ شروع کیجیے، میں کچن سے ہاتھ دھو کر آتی ہوں۔ ‘‘اس نے اپنا ہینڈ بیگ میز پر رکھا اور کچن میںہاتھ منہ دھونے چلی گئی۔
’’تمہیں پتا ہے بیٹا، اللہ نے ماں باپ کو اولاد کی آنکھیں اور دل کی زبان پڑھنے اور سمجھنے کی حس عطا کی ہے اور میں ابھی تمہاری آنکھیں او رتمہارا دل پڑھ سکتی ہوں۔‘‘وہ کھانا شروع کرنے ہی والی تھی کہ عنایہ بیگم اس کی آنکھوں میں دیکھنے لگیں۔
’’اچھا؟ تو بتائیے میری آنکھوں میں اور میرے دل میں کیا ہے؟‘‘ اسے آج صبح کے متعلق بتانے میں زیادہ محنت نہ کرنا پڑی، وہ خوش تھی کہ اس موضوع پر بحث اس کی امی نے خود چھیڑ دی۔
’’تمہاری آنکھوں میں وہی ہے جو تمہارے دل میں ہے۔آج کچھ خاص ہوا ہے،کچھ بہت بڑا۔‘‘وہ اس کی آنکھوں کو اپنی آنکھوں سے کھنگالنے لگیں۔
’’ہمم! ایسا ہی ہے۔‘‘ وہ غلطی پر نہیں تھی، اس لیے جب عنایہ بیگم نے اس کی آنکھوں سے اپنی آنکھیں ملائیں تو اس نے بھی اپنی آنکھیں دائیں بائیں اوپر نیچے کرنے کی جرأت نہیں کی۔
’’تو بتاؤ پھر، کیا ہوا آج؟ ایسی کون سی خوشی ملی ہے آج جس کا اعلان تمہاری آنکھیں چیخ چیخ کر کر رہی ہیں؟‘‘ عنایہ بیگم نے اپنی معصوم سی بیٹی کو چھیڑنا شروع کر دیا ۔
’’ ضرور بتاؤں گی مگر ابو کو آ جانے دیں، پھر۔ پلیز! یہ بات ایسی ہے کہ آپ دونوں کو ایک ساتھ ہی بتا سکتی ہوں۔‘‘ وہ اپنی امی کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر ان سے التجا کرنے لگی۔
’’ہمم ! سب سمجھ آ رہا ہے۔‘‘ عنایہ بیگم نے اپنی بیٹی کو مزید چھیڑنا شروع کر دیا ۔
’’ابھی تک تو بہت بھوک لگ رہی تھی آپ کو اب کیا ہو گیا؟شروع کریں کھانا؟‘‘عنایہ بیگم نے ابھی تک ایک نوالا بھی گلے سے نہیں اتارا تھا۔ ان کا پیٹ تو اپنی اولاد کی خوشی دیکھ کر ہی بھر گیا تھا۔
’’ہاں ہاں کرتی ہو ں شروع۔ اب تو صرف تمہارے ابو کے انتظار میں ہوں،کھانا زیادہ کھالوں یا نہ بھی کھاوؑں،پیٹ میں ویسے بھی درد رہنا ہے تمہارے ابو کے آجانے تک۔‘‘ دونوں ماں بیٹی قہقہے مارنے لگیں۔
٭…٭…٭
’’سلام نمیر علی! کیا حا ل ہیں جناب آپ کے؟‘‘ برہان کے اسٹوڈیو سے جانے کے بعد محمود علی نے پاکستان کے نام ور اداکاروں میں سے ایک جانے مانے اداکار نمیر علی کو اسٹوڈیو بلا لیا۔اسے فلم کی شوٹنگ کی ابتدا اگلے ہفتے کرنا تھی اسی لیے اس نے ولن کے کردار کا بھی انتخاب اسی دن کرنے کا فیصلہ کیا۔
نمیر علی ، جس کے بارے میں پورے میڈیا میں یہی بات مشہور تھی کہ وہ کام بھلے بہت کم کرتا مگر جب بھی کرتا مشہور و معروف اداکار کے ساتھ ہی کرتا اور اپنے ہر کام میں اپنی پوری جان لگا دیتا۔ وہ پوری پاکستانی میڈیا انڈسٹری میں صرف ایک ہی اداکارہ کا دیوانہ تھا اور وہ تھی حیال طاہر۔ یہ بات اور تھی کہ اسے ابھی تک اپنی پسندیدہ اداکارہ کے ساتھ کام کرنے کا موقع نہیں مل سکا تھا۔
’’میں بالکل ٹھیک ہوں آپ سنائیں کیسے یاد کر لیا ہمیں؟ آپ تو برہان ندیم کے ہی دیوانے ہیں، پھر آ ج یہ محبت مجھ نا چیز کے لیے کیسے؟‘‘ وہ دکھنے میں جتنا شریف لگتا تھا، اتنا ہی منہ پھٹ بھی تھا۔
’’برہان ندیم پہلے ہی فائنلائز ہے مرکزی کردار کے لیے لیکن اس فلم میں مجھے ایک اور بہت ہی قابل اداکار کی ضرورت ہے جو ولن کا کرداد ادا کر سکے، اس لیے میں نے تمہارے بارے میں سوچا۔‘‘پہلے تو نمیر کو دھچکا لگا کہ اسے فلم میں مرکزی کردار نہیں دیا جانے والا مگر بعد میں اسے خوشی ہوئی کہ وہ برہان ندیم جیسے ریٹڈ اداکار کے ساتھ کام کرنے والا ہے۔
’’ہمم!پہلے اسکرین ٹیسٹ کر لیں؟ جس کام کے لیے بلایا ہے پہلے وہ ہو جائے،باقی باتیں تو بعد میں بھی ہوتی رہیں گی۔‘‘ نمیر علی دیوانہ ہوا جا رہا تھا پاکستان کے نام ور ہدایت کار اور ٹاپ ریٹڈ اداکار کے ساتھ کام کرنے کے لیے، اسے ابھی تک یہ نہیں پتا تھا کہ اداکارہ کون ہے فلم کی۔ اسے تو گولڈن چانس مل گیا تھا محمود علی کے ساتھ کام کرنے کا،اس کے ذہن میں اور کوئی بات آئی ہی نہیں ۔
’’ارے اسکرین ٹیسٹنگ بھی ہو جائے گی پہلے آپ مجھے یہ بتائیے کہ ہماری پارٹی میں کیوں نہیں آئے؟‘‘ محمود علی نے پروفیشنل ماحول سے ہٹ کر باتیں کرنا شروع کردیں۔
’’بس! اسکرپٹس پڑھنے میں مصروف تھا ۔ پتا نہیں کیوں یہ پروڈیوسرز میرے بارے میں جاننے کے باوجود بھی مجھے نئے اور خام رائٹرز کا لکھا اسکرپٹ کیوں پکڑا دیتے ہیں جب کہ انہیں پتا ہے کہ میں نام ور رائٹرز کے لکھے اسکرپٹ پر کام کرتا ہوں۔‘‘ اس میں غرور نہیں تھا،وہ ایسا ہی تھا۔
’’آپ بے فکر رہیں نمیر صاحب! یہاں رائٹر بھی کافی تجربہ کار ہے اور ساتھ ساتھ اداکارہ بھی۔‘‘ محمود علی جانتا تھا کہ نمیر، حیال طاہر کا کتنا بڑا دل دادہ ہے،وہ اس کا تجسس دیکھنا چاہ رہا تھا۔
’’ارے آپ پر مجھے پورا بھروسا ہے۔ آپ تو محمود علی ہیں، دی محمود علی! کون آپ کے ساتھ کام نہیں کرنا چاہے گا بھلا؟ ویسے اداکار ہ ہیں کون؟‘‘محمود علی کی تعریف کرتے کرتے اس نے وہ سوال پوچھ لیا جو اس کے دل میں تھا۔
’’ حیال طاہر۔‘‘ اور وہ جواب نمیر کو مسرور کر گیا۔
’’تو چلیے نا پھر،اسکرین ٹیسٹنگ کر لیں۔نیک کام میں دیر کیسی؟ ‘‘ وہ ہمیشہ سے حیال طاہر کے ساتھ کام کرنا چاہتا تھا اور اب اسے یہ موقع بھی ملنے والا تھا۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

گھٹن — اعتزاز سلیم وصلی

Read Next

بس عشق ہو — کشاف اقبال (دوسرا اور آخری حصّہ)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!