بس عشق ہو — کشاف اقبال (حصّہ اوّل)

’’میری اس فلم کو کام یاب بنانے میں صرف میرا ہی نہیں، اس فلم میں کام کرنے والے تمام اداکار، ڈی او پی،موسیقار، ہدایت کار، ان سب کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔مجھے بہت خوشی ہوئی کہ آپ سب یہاں تشریف لائے اور میری اس کام یابی کا حصہ بنے۔‘‘ ابتدائی تقریر شروع ہو چکی تھی۔اسٹارٹرز پیش کیے جا چکے تھے۔محمود علی کے ساتھ اس کی نئی فلم کے اداکار بھی موجود تھے۔
وہ دونوں اس چھوٹے سے ہجوم میں ہی کھڑے تھے، لیکن سب بڑے لوگوں سے تھوڑا ہٹ کر۔ وہ پارٹی کافی پرائیویٹ تھی،صرف قریبی لوگوں کو مدعو کیا گیا تھا۔
’’ممتحنہ تم نے حیال طاہر کو دیکھا؟کتنی حسین ہیں یار۔ آج سمجھی، ہر کوئی انہیں اپنے ڈراموں میں کیوں لینا چاہتا ہے۔شخصیت چیک کرو یار ان کی۔ان کا وجود ہی کافی ہے کسی بے جان سی محفل کو انجمن بنانے کے لیے!just look at her sarheeــ۔ ضرور دیپک پروانی کو ہی پہنا ہوگا آج کی رات کے لیے۔ ‘‘زارا اسے کندھے مار مار کر حیال کی تعریف کیے جا رہی تھی لیکن وہ تو کہیں اور ہی گم تھی ۔ اس لان میں گزارے گئے ماضی میں۔
’’ مجھ سے تو ان کا حسن برداشت ہی نہیں ہو تا۔اپنا آپ ان کے آگے کتنا پھیکا لگ رہا ہے،چمکتاہوا ستارہ لگ رہی ہیں وہ۔‘‘ وہ بولے جا رہی تھی اور سننے والی بھی وہ خود ہی تھی۔ممتحنہ تو کہیں اور ہی گم تھی۔شاید حیال کے برابر کھڑے اس ستارے میں جس نے کچھ ہی دیر پہلے اس کو اپنی روشنی کا سہارا دے کر گرنے سے بچایا تھا۔ جو اسے اب بھی اس بھیڑ میں با آسانی دیکھ سکتا تھا اور دیکھ بھی رہا تھا۔
’’اور اسی کے ساتھ اپنی آنے والی فلم کے لیے مسٹر برہان ندیم کو کاسٹ کرنا چاہتا ہوں۔ اب یہ آپ کو برہان صاحب ہی بتائیں گے کہ ان کا جواب کیا ہے۔‘‘محمود علی نے اپنی خواہش کا اظہار کرنے کے بعد مائیک برہان کے حوالے کیا۔
’’محمود علی وہ ہدایت کار ہیں جن کے ساتھ میں نے کافی ڈرامے کیے، تو ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ کوئی فلم بنائیں ،مجھے آفر کریں اور میں منع کر دوں؟میں ضرور کام کروں گا آپ کے ساتھ۔‘‘وہ محمود علی کی دلی خواہش پوری کر کے اس کے گلے لگ گیا۔ تالیوں کی گونج پورے لان میں سنائی دی، مائیک اب بھی برہان کے ہاتھ میں تھا۔
’’Wait Wait Wait!۔ ابھی ان تالیوں کو سنبھال کر رکھیں۔ کیوں کہ تھوڑی ہی دیر بعد آپ نے ان کا استعمال دوبارہ کرنا ہوگا۔‘‘ سب کے سب تجسس میں آ گئے۔آخر ایسا کو ن سا اعلان تھا جو وہ کرنے جا رہا تھا؟ کوئی بھی اس با ت کا اندازہ نہیں لگاپایا سوائے حیال کے۔ وہ تو جیسے تیار کھڑی تھی برہان کو اپنے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھتا دیکھنے کے لیے۔
’’برہان ندیم کو صحیح معنوں میں محبت ہوگئی،سچی محبت۔ اور کیا آپ لوگ جانتے ہیں کس سے؟‘‘ اب وہ اس خاص ستون کے پاس آ کر کھڑا ہو گیا جہاں اس کی اور ممتحنہ کی آنکھیں چار ہوئی تھیں۔ادھر پھولوں کی سیج کے اوپر جامنی گل لہمی گرا تھا۔اس نے وہ اٹھا لیا ۔وہی گل لہمی جو کچھ ہی دیر پہلے تک ممتحنہ کے بالوں کی زینت بنا تھا۔
’’اس سے جس نے مجھے ان پھولوں سے ملوایا۔مجھے قدرت کی خوب صورتی سے آشنا کیا۔یہ بتایا کہ اصل سادگی کیا ہوتی ہے۔اصل حسن کیا ہوتا ہے اور کیا آپ جانتے ہیں اصل حسن کیا ہوتا ہے؟ خدا کا عطا کردہ حسن جس کو چھیڑے بغیر کوئی یہ ثابت کر دیتا ہے کہ اللہ کی عطا کردہ نعمتوں میں کوئی جھول نہیں ہے۔ they are just perfect‘‘ وہ چلتے چلتے ممتحنہ کے پاس آنے لگا۔ہاں یہ بات بالکل درست ہے کہ وہ اس ہجوم میں اس کی نظروں سے بہت دور کھڑی تھی۔لیکن وہی بات ہے نا! وہ سادگی کے اس جیتے جاگتے مجسمے کو بھیڑ میں بھی پہچان سکتا تھا۔





’’اس کا ہر انداز، چاہے وہ گفت گو کا ہو، نظروں سے آپ بیتی کہنے کا ہو، چلنے پھرنے کا ہو یا نظریں جھکانے کا ہو،بناوٹ سے بالکل پاک ہے۔ وہ بالکل پاک ہے،اتنی پاک کہ جیسے کسی نامحرم نے اسے چھونے تک کی جرأت بھی نہ کی ہو۔ تو کیوں نہ ہو مجھے ایسی لڑکی سے محبت!‘‘ وہ چلتے چلتے لوگوں کے بیچ و بیچ میں سے گزرتا ہوا بالآخر اس کے سامنے آ کر رک گیا۔حیال کی دھڑکنیں تھم گئیں،وہ اس کے پاس سے دور جو چلا گیا تھا۔ لیکن اس دھڑکن کے رکنے کے سفر میں وہ اکیلی نہیں تھی۔ یہی حال ممتحنہ کا بھی تھا۔ اس نے پوری طرح سے اپنا سر جھکا لیا، اپنی نظروں کے ساتھ ساتھ۔اسے سب کچھ خواب لگ رہا تھا۔برا یا اچھا،اس بات کا اندازہ لگانے کے لیے اس وقت اس کے پاس وقت نہ تھا۔
’’میں نے کچھ ہی دن پہلے اپنے بھائی سے کہا تھا کہ مجھے جس سے محبت ہو گی، میں اسے کروڑوں کی بھیڑ میں بھی پہچان لوں گا۔ ساری دنیا مصنوعی لگ رہی ہوگی اور وہ…وہ اپنی تمام تر سادگی، نفاست اور معصومیت لیے چمک رہی ہوگی، جھلملا رہی ہوگی۔‘‘
ہر سو خاموشی چھا گئی۔ ممتحنہ اور حیال کے لیے تو جیسے ہوا چلنا بھی بند ہو گئی۔ممتحنہ کا سر جھکنے کے باعث اس کے پھولوں نے بھی اپنا سر جھکا لیا،ان کا باغبان جو خاموش ہو گیا تھا۔
’’مجھے تم سے محبت ہو گئی ہے ممتحنہ!I love you‘‘سب کچھ تو وہ کہہ گیا تھا۔اتنا کچھ کہ اب وہ تین الفاظ کہنا اس کے لیے صرف ایک رسم بن چکا تھا۔اس نے وہ گلِ لہمی ،جو وہ ہمیشہ سے اسے دینا چاہتی تھی،جو ماضی میں اس کے بالوں کا حصہ بنا ہوا تھا،حال میں اس کے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھ کر اسے پیش کیا۔
آج تو ممتحنہ نے اپنے حواس کھو دینا تھے۔یہ سب کیا ہو رہا تھا اس کے ساتھ؟ آج کی رات اس کے لیے خوابوں کی رات تھی،برے یا اچھے،وہ یہ نہیں جانتی تھی،گھبرائی ہوئی جو تھی۔
اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔جب اس نے برہان کو اپنے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھے اسے گل ِ لہمی پیش کرتے ہوئے دیکھا،اس کے آنسو بہنے لگے لیکن اس نے سسکیوں کی آوازنہیں نکالی۔ سکتے میں جو تھی اور سکتے میں ایسا ہی ہوا کرتا ہے،دل اور دماغ کی جنگ ہوا کرتی ہے۔ دماغ ہر غم، ہر خوشی کو قبول کر لیتا ہے،لیکن دل…دل تو مانتا ہی نہیں ،ضدی جو ہوتا ہے۔دن لگاتا ہے،ہفتے لگاتا ہے، مہینے لیتا ہے اور کبھی کبھی تو سالوں بھی اسے یقین نہیں آتا کہ وہ کس صورتِ حال سے گزر رہا۔ممتحنہ کو پتا نہیں کتنا وقت درکار تھا اس حقیقت سے آشنا ہونے کے لیے ، لیکن اس وقت وہ پوری طرح سے سکتے کے عالم میں تھی۔
اس نے گھر سے باہر جانے کا راستہ ایک نظر دیکھااور بے ساختہ بھاگنے لگی۔زارا اس کے پیچھے پیچھے جانے لگی۔وہ گاڑی میں جا بیٹھی۔ زارا نے اس سے اس وقت کچھ پوچھناضروری نہیں سمجھا کیوں کہ وہ اس کی حالت سے اچھی طرح واقف تھی،ڈرائیور کو کہہ کر ممتحنہ کے گھر کی طرف نکل پڑی۔
’’وقت لگے گا تمہیں، جانتا ہوں ابھی تمہیں یقین نہیں آئے گا۔ جاؤ! دیا تمہیں وقت۔‘‘ وہ جو اب تک گھٹنوں کے بل بیٹھا تھا،اپنے آپ میں کہتا واپس سے کھڑا ہو گیا ۔اور اس زبردست واقعے کے ساتھ پارٹی بھی ختم ہو گئی۔کچھ زندگیوں کو پوری طرح برباد کر کے اور کچھ کو سکتہ دے کر یہ پارٹی بھی اپنے اختتام کو پہنچی۔وہ پھول اب بھی وہیں تھے، لیکن اب مرجھا چکے تھے۔ان کو سجانے والی کے آنسو جو بہ نکلے تھے۔
٭…٭…٭
پارٹی کا وقت ختم ہو چکا تھا۔ تمام مہمان اپنے اپنے گھر جانا شروع ہو گئے لیکن وہ ابھی تک وہیں کھڑی تھی۔ساکت، دم بہ خود۔ اس نے اپنے خیالوں میں بھی یہ نہیں سوچا ہو گا کہ برہان اس کو چھوڑ کر ایک بالکل عام سی لڑکی کا انتخاب کرے گا۔ جس کی اپنی کوئی پہچان ہی نہیں، جس کا کوئی نام نہیں۔یہ وقت حیال کے لیے سوگ منانے کا نہیں تھا،ہجر کے لمحات میں رونے کا وقت نہیں تھا لیکن صدمے کا وقت تھا۔صدمہ اس بات کا نہیں کہ برہان نے اس کا انتخاب نہیں کیا، اس کو پروپوز نہیں کیا۔اس بات کا صدمہ کہ برہان نے ایک بالکل عام سی لڑکی کا انتخاب کیا۔
’’یہ…یہ کس کا انتخاب کر لیا تم نے برہان؟ ایک بالکل سادہ سی لڑکی؟ کیا نظر آیا تمہیں اس میں؟‘‘جس طرح ممتحنہ کو وقت لگنے والا تھا،اس حقیقت سے آشنا ہونے کے لیے برہان ندیم نے اس سے اظہار محبت کیا، ٹھیک اسی طرح حیال کو بھی وقت لگنا تھا اس حقیقت سے آشنا ہونے کے لیے کہ برہان نے نہ صرف کسی عام سی لڑکی کا انتخاب کیا بلکہ اسے سرعام ٹھکرایا بھی ہے۔
’’کیا ہوا حیال؟میرا انتخاب پسند نہیں آیا تمہیں ؟‘‘ برہان کو اپنے پاس آتا دیکھ کر اس نے خود کو کمپوز کیا۔
’’ہونہہ!‘‘وہ او رکچھ نہ کہہ پائی۔
’’بہت لیٹ ہو گئی ہوں، چلتی ہوں۔‘‘ وہ جانے لگی۔
’’ارے میں چھوڑ دیتا ہوں۔‘‘برہان نے رسما ً کہا۔
’’نہیں میں چلی جاؤں گی، شکریہ۔‘‘اس نے بھی رسما ً جواب دیا۔ یہ پہلی بار تھا جب حیال نے برہان کو انکار کیا تھا۔
وہ چلی گئی اور اس کے جانے کے تھوڑی ہی دیر بعد برہان بھی چلا گیا۔ جاتے جاتے اسے محمود علی نے روک لیا۔
’’برہان! دیکھو تم میرے لیے ڈرامے کے ہیرو سے زیادہ میرے دوست ہو، چھوٹے بھائی جیسے ہو، اس لیے مجھے یہ کہنے دو کہ آج تمہارے انتخاب نے نہ جانے کتنوں کو حیران کیا ہو لیکن مجھے سب سے زیادہ کیا ہے ۔اتنی عام سی لڑکی تمہیں یعنی’ برہان ندیم‘ کو پسند آئی؟ میں نے ہمیشہ سے تمہارے ساتھ حیال کو دیکھنا چاہا، ہمیشہ سے تم دونوں کو ایک جوڑی کی نظر سے دیکھا مگر۔۔۔‘‘ اس کا مقصد برہان کا دل دکھانا نہیں تھا۔وہ تو بس اپنے دل کی بات کر رہا تھا کہ برہان کی شادی حیال کے ساتھ ہو۔
’’میں آپ کی رائے کی بہت عزت کرتا ہوں، محمود بھائی لیکن محبت کہا ں اسٹیٹس دیکھ کر کی جاتی ہے؟یہ تو انسانی فطرت ہے کہ وہ محبت سوچ سمجھ کر نہیں کرتا،آپ نے مجھے اداکار سمجھ کر پھر یہ کیسے سوچ لیا کہ میں سوچ سمجھ کر ،جانچ پڑتال کرنے کے بعد، اسٹیٹس دیکھ کر محبت کروں گا؟ میں بھی تو انسان ہی ہوں نا؟ مجھے جو بات ممتحنہ میں نظر آئی میں ہمیشہ سے وہی بات اپنی محبت میں دیکھنا چاہتاتھا، لیکن کسی میں بھی وہ بات نظر آئی ہی نہیں۔ اس لیے مجھے کبھی اس سے پہلے محبت ہوئی ہی نہیں۔‘‘ وہ اس کو ہرگز اپنے انتخاب کی تشریح نہیں دینا چاہتا تھا،بس اسے انسانی فطرت سے آگاہ کرنے لگا۔
’’مجھے تمہاری پسند پر کوئی اعتراض نہیں۔ بس تم نے آج مجھے حیران کیا اپنی پسند بتا کر۔ خیر جو ہونا تھا وہ تو ہو گیا،میری دعا تمہارے ساتھ ہے،اپنا خیال رکھنا۔‘‘محمود علی بے دلی سے اسے الوداع کہنے لگا۔
برہان اسے خیر باد کہہ کر اپنی گاڑی میں جا بیٹھا۔ وہ ممتحنہ کے بالوں سے گرا گل لہمی اپنے ساتھ لانا نہیں بھولا۔اس نے ایک نظر ممتحنہ کے ہاتھوں سے کی گئی پھولوں کی سجاوٹ کو دیکھا اور مسکرا کر چل دیا۔
٭…٭…٭
وہ سارے راستے چپ رہی، زارا نے اس سے بات کرنا چاہی لیکن وہ بالکل چپ تھی، سکتے کی حالت میں۔لان سے نکلتے وقت اور اس وقت اس کی حالت میں بس اتنا فرق آیا تھا کہ اب اس کی آنکھوں سے آنسو بہنا بند ہو گئے تھے۔
’’پانی تو پی لو،ایسا بھی کیا ہوگیا جو تم نے اپنا دم ہی سادھ لیا؟ بھول جاؤ ابھی جو کچھ بھی ہوا۔یہ لو پانی پیو۔‘‘ زارا نے اپنے بیگ سے پانی کی بوتل نکال کر اس کے حوالے کی لیکن اس نے تو جیسے کچھ سنا ہی نہیں۔ کسی قسم کا کوئی ردِعمل ظاہر نہیں کیا۔
’’اف! تم اپنے گھر جا کر ہی ٹھیک ہو گی۔ ڈرائیور پلیز گاڑی تھوڑی تیز چلائیں۔‘‘وہ اپنی سہیلی کے لیے پریشان ہو گئی۔زارا کے ذہن سے لان والا واقعہ فراموش ہو گیا ،بس اس وقت وہ اپنی دوست کے لیے پریشان تھی۔
’’آ گئیں میری گلابو؟ کیسی رہی پارٹی؟مزا آیا؟ کون کون آیا ہوا تھا وہاں؟‘‘ زارا اس کو لے کر جیسے ہی اس کے گھر پہنچی،عنایہ بیگم نے گھر کے دروازے پر ہی اس سے ہزاروں سوالات پوچھنا شروع کردیے جس میں سے وہ ایک کا بھی جواب نہ دے سکی۔
’’یہ کوئی جواب کیوں نہیں دے رہی؟میری کھلکھلاتی ہوئی پھول جیسی بچی کو کیا ہوا ہے مجھے بتاؤ پلیز۔‘‘وہ دونوں ممتحنہ کو سہارا دے کر صوفے پر بٹھانے لگیں۔
’’ یہ تو آپ اسی سے پوچھیے گا لیکن اتنا کہوں گی کہ وہاں ایسا کچھ بھی نہیں ہوا جس کے نتیجے میں یہ ایسی حالت بنالے،بلکہ میں تو کہوں گی کہ اسے خوش ہونا چاہیے۔ہو جائے گی خوش جب اسے ہوش آئے گا۔میں چلتی ہوں،میرے گھر والے میری راہ دیکھ رہے ہوں گے، خدا حافظ۔‘‘وہ عنایہ بیگم کے دل میں مزید تجسس پیدا کرتی وہاں سے چلی گئی۔
’’کیا ہوا ہے اسے؟یہ مجسمہ بنی کیوں بیٹھی ہے؟‘‘ حارث کی نظر جب اپنی بیٹی پر پڑی تو وہ پریشان ہی ہو گیا۔
’’زارا نے کوشش کر لی،میں نے اتنے جتن کر لیے لیکن یہ اپنا منہ کھولے تو سہی۔‘‘عنایہ بیگم اسے جھنجھوڑنے لگیں۔
’’تم رہنے دو۔میرا بیٹا مجھے بتائے گا کہ کیا ہوا ہے۔اپنی ہربات صرف مجھ سے شیئر کرتی ہے میری بچی۔ بیٹا! مجھے بتاؤ، کیا ہوا تھا وہاں؟میں ہوں نا تمہارے ساتھ،چلو مجھے بتاؤ۔‘‘ ممتحنہ کی موجود ہ حالت کو حارث نے بڑے اطمینان سے سنبھالا۔
پہلے تو وہ کچھ نہ بولی لیکن جب دونوں با پ ماں نے مل کر اس سے محبت سے پوچھا اور بار بار پوچھا، تو اس نے بالآخر اپنا منہ کھو ل ہی لیا۔
’’مج…مجھ…مجھے ب…بر…برہان… برہان ندیم نے… آج پر…پروپوز کیا۔ سب کے سامنے۔‘‘ اس کے منہ سے یہ جملہ سن کر عنایہ بیگم کو بھی سکتہ لگ گیا ۔وہ رات خوابوں کی رات سے زیادہ سکتہ اور صدمہ لگنے والی رات تھی۔
’’ک…کیا واقعی؟‘‘ عنایہ بیگم حیران رہ گئیں، لیکن خوشی کے عالم میں۔ان کے سوال پوچھنے پر ممتحنہ ان کا چہرہ دیکھتی رہ گئی۔
’’آپ کو خوشی ہوئی یہ جان کر؟‘‘اس کا سکتہ آہستہ آہستہ ختم ہونے لگا۔
’’اگر یہ واقعی سچ ہے تو اس وقت اس دنیا میں مجھ سے زیادہ خوش کوئی اور نہیں،برہان ندیم نے تمہیں پروپوز کیا؟مجھے تو اب بھی یقین نہیں آ رہا۔‘‘عنایہ بیگم کو یقین آ کر نہیں دے رہا تھا۔
’’تم اسے چھوڑو، مجھے بتاؤ بیٹا! کیا تم اسے پسند کرتی ہو؟ اگر ہاں تو ہمیں اس رشتے سے کوئی اعتراض نہیں۔‘‘عنایہ بیگم کو چپ کروا کے حار ث نے خود اپنی بیٹی سے بات کی۔
’’مجھے نیند آ رہی ہے،میں سونے جا رہی ہوں۔‘‘اس نے حارث صاحب کی بات کا جواب نہیں دیا اور اپنے کمرے میں بھاگ کر جانے لگی۔
’’ارے کچھ کھا تو لو۔‘‘عنایہ بیگم اس کو اپنی نظروں کے سامنے سے جاتا دیکھ کر چیخنے لگیں۔
’’رہنے دو ابھی، ابھی اسے یقین آنے میں تھوڑا وقت لگے گا کہ کسی بڑی شخصیت نے اس سے اظہار ِ محبت کیا ہے۔‘‘حارث جانتا تھا کہ اس کی بیٹی اس وقت نہ کچھ کھائے گی نہ پیئے گی۔ اسی لیے اس وقت اس نے اسے اس کے حال پر چھوڑنا ہی مناسب سمجھا۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

گھٹن — اعتزاز سلیم وصلی

Read Next

بس عشق ہو — کشاف اقبال (دوسرا اور آخری حصّہ)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!