بس عشق ہو — کشاف اقبال (حصّہ اوّل)

ان دونوں نے مل کر پارٹی کے تھیم کا حتمی فیصلہ کر لیا تھا۔آج کا دن ان کے لیے ،خاص کر ممتحنہ کے لیے بہت زیادہ اہم تھا۔ آج اس نے کچھ انوکھا کرنا تھا اور وہ سوچ چکی تھی کہ وہ کیا کرے گی اور کس طرح سے کرے گی۔
اس دن کے تمام آرڈرز اس نے ملتوی کر دیے تھے۔ ایک بھی آرڈر اس نے نہیں لیا کیوں کہ اس نے ایک بہت بڑے ایونٹ کے انتظامات اکیلے صرف اپنی ایک سہیلی کے ساتھ مل کر کرنا تھے۔
اس کی آنکھ صبح فجر میں کھلی اور اس نے وضوکرنے کے بعد نماز فجر اداکی۔ وہ اس پارٹی کی ارینجمنٹس کو بہت سنجیدگی سے لے رہی تھی۔وہ سوچ رہی تھی کہ بس یہی موقع ہے اگر تیر سیدھا نشانے پر جالگا تو اس کی کمپنی مقبولیت کے آسمانوں پر جا پہنچے گی۔ اس کی اسی طرح کی بڑی بڑی آفرز ملنا شروع ہو جائیں گی اور وہ با آسانی اپنا لوہا منوا سکے گی۔ لوگوں کی زبان پر جب جب پھولوں کا نام آئے گا، تب وہ ایک بار تو اس کا نام لینا نہیں بھولیں گے۔
رات کے پچھلے پہر تو اس نے تہجد بھی ادا کی تھی۔انسان کو اللہ اس وقت سب سے زیادہ یاد آتا ہے جب اسے کوئی مقصد مل جاتا ہے،کوئی ایسا مقصد جس کو پانا اس کے لیے جنون بن جاتا ہے۔ پر افسوس کہ اپنے دنیاوی مقصد کے لیے وہ نمازوں کا اصل مقصد فراموش کر بیٹھتا ہے۔اللہ کی خوشنودی نہیں،اپنے مقصد تک پہنچنے کے لیے سوہنے رب کو یاد کرتا ہے اور جیسے ہی مقصد پورا ہو جاتا ہے، اس کی نمازیں دم توڑ دیتی ہیں۔ رب سے رابطہ منقطع ہو جاتا ہے۔مگر وہ ایسی ہرگز نہیں تھی۔وہ نماز پڑھا کرتی تھی اور دل سے ادا کرتی تھی، اللہ کی خوشنودی کے لیے۔
دیکھتے ہی دیکھتے دوپہر کے چار بج چکے تھے۔زارا ممتحنہ کے گھر پہنچی ہوئی تھی۔وہ دونوں اپنے گھر والوں کو بتا چکی تھیں کہ آج انہیں کہاں جانا ہے۔
’’جلدی کرو۔ کتنا تیار ہو گی؟‘‘ زارا اپنے منہ پر شائنر تھوپ رہی تھی کہ ممتحنہ نے اس کو حد سے زیادہ تیار ہوتا دیکھ کر اسے چھیڑتے ہوئے کہا۔
’’اب تمہاری جیسی تو ہوں نہیں کہ ہونٹوں پر صرف ہلکی سی لپ اسٹک اور آنکھوں میں کاجل لگا کر محض سہاگن بیوہ بن کر اتنی شان دار تقریب میں جاؤں۔‘‘ وہ آئینے میں اسے دیکھتے ہوئے کہنے لگی۔
’’ایکس کیوزمی! تقریب میں نہیں، صرف تقریب کے انتظامات کرنے جا رہے ہیں اور یہ کون سالفظ استعمال کیا ہے تم نے؟س…سہاگن بیوہ؟‘‘ جس نئے لفظ کی تخلیق زارا نے کچھ ہی لمحے پہلے کی تھی،اسے سن کر وہ ہنس پڑی۔





آج اس نے سفید ڈیزائنر سوٹ زیب تن کیا ہوا تھا۔ٹخنوں تک آتی سفید فراک جس پر جگہ جگہ جامنی رنگ کا نفیس کام ہوا تھا، اس کے اوپر اس نے جامنی رنگ کا دوپٹا اوڑھ لیا جو ہو بہ ہو گل ِ لہمی کے رنگ کا تھا۔ اس نے اپنے اوپر کوئی خاص محنت نہیں کی۔وہ ویسی ہی تھی جیسی وہ ہمیشہ لگتی تھی،سب سے منفرد،سب سے حسین۔اس نے لبوں پر ہلکے جامنی رنگ کی لپ اسٹک لگائی اور آنکھوں میں کاجل۔آج اس کی خوب صورتی میں اضافہ وہ سلور جھمکے کر رہے تھے ،چار چاند لگا رہے تھے اس کی خوب صورتی میں۔
’’سہاگن اس لیے کہ لپ اسٹک اور کاجل لگایا ہوا ہے اور بیوہ اس لیے کہ ان کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں۔ ‘‘ اس نے دوٹوک الفاظ میں اپنے تخلیق کردہ لفظ کی تشریح کی۔
’’حد ہوتی ہے زارا! سدھر جاؤ۔ میں نیچے جا رہی ہوں۔اگر پانچ منٹ میں تم نیچے نہیں اتریں تو میں اکیلی چلی جاوؑں گی۔سمجھیں تم؟‘‘وہ زارا کو الٹی میٹم دیتی اپنے لان کی طرف چلی گئی۔
آج اس نے اپنے لان میں سے گل لہمی توڑ کر اپنے بالوں میں لگا لیا۔ اس کے سوٹ کے ساتھ وہ جامنی گل لہمی کنٹراسٹ کر رہا تھا۔وہ اپنے ساتھ کچھ صفحات بھی لائی تھی جس پر اس نے لکھا ہوا تھا کہ اس نے کس طرح ارینجمنٹس کرنی ہیں۔ وہ صفحات پر نظر ڈالتی ہوئی گاڑی کی طرف بڑھنے لگی۔
’’فائنلی تم آ گئیں! اب جلدی کرو ویسے بھی آج ہمیں لائن ماس ارینجمنٹ(line-mass arrangement) کرنی ہے۔ اس میں بہت وقت لگتا ہے۔‘‘دونوں گاڑی میں جا بیٹھیں۔
’’لائن ماس ارینجمنٹ؟یہ کیا ہے؟خیر جو بھی ہے تمہیں ہی کرنی ہے،تخلیق کرنا تمہارا کام ہے،میرا کام تو صرف ہاتھ بٹانا ہے۔‘‘وہ اپنے بیگ سے فیس پاؤڈر نکالتے ہوئے اس کے مرر میں اپنے آپ کو دیکھنے میں محو ہو گئی۔
’’ہاں ہاں سب میں ہی کروں گی،بس جو جو کہوں گی تم سے، وہ وہ کرتی رہنا۔‘‘ گاڑی محمود علی کے گھر کی جانب روانہ ہو گئی۔
٭…٭…٭
وہ پچھلے دو گھنٹوں سے پارلر میں بیٹھی تھی۔آج تو وہ ایسی دکھنا چاہتی تھی کہ برہان اپنی نظریں اس پر اس طرح سے جمالے کہ اسے اپنے آس پاس اس کے علاوہ کچھ بھی دکھائی نہ دے۔ اتنا اندھا ہو جائے وہ اس کی محبت میں کہ اس کو دیکھتے ہی وہ اپنی پلیں بھی جھپک نہ پائے اور اظہارِ محبت کر کے اس کے اندر کی بے چینی ،اس کا انتظار ختم کر دے۔
’’میرا ایسا میک اپ کرنا کہ وہ بس مجھے ہی دیکھتا رہے۔‘‘وہ بیوٹیشن سے کہنے لگی۔
’’ہیلو ڈئیر! آ رہے ہو نا آج؟‘‘ اس نے برہان کو تصدیق کرنے کے لیے فون کیا کہ آیا وہ پارٹی میں آ بھی رہا ہے کہ نہیں۔
’’ہاں ہاں آ رہا ہوں۔ آج تو میرا وہاں آنا بہت ضروری ہے۔ــ‘‘ وہ بہت پر جوش تھا۔ جس پھول سے وہ محبت کر بیٹھا تھا،آج وہ اس پھول سے ملنے والا تھا، اس کا وجود اپنے آس پاس محسوس کرنے والا تھا۔ آج اس کا اس پارٹی میں جانا جیسے ناگزیر تھا۔
’’ہمم! ٹھیک ہے پھر۔ وہیں ملاقات ہوتی ہے۔ٹیک کئیر!‘‘ ایک بار پھر اس نے برہان کی باتوں کا غلط مطلب لے لیا۔خوش فہمی اور غلط فہمی کی انتہا تھی۔
’’مجھ سے ملو گی نا؟ ٹھکرا تو نہیں دو گی میری محبت کو؟تمہاری یہ ویڈیو پتا نہیں اب تک کتنی بار دیکھ چکا ہوں، لیکن اب تمہارا سامنا کرنا چاہتا ہوں،میری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں۔‘‘ وہ اپنے کہے آخری جملے پر مسکرانے لگا۔ اس کی آنکھوں کی سامنے ممتحنہ کی ویڈیو چل رہی تھی۔
٭…٭…٭
لان سے سیدھا گھر کے مرکزی دروازے کی طرف جانے والا رستہ اس نے اپنی فلورل ارینجمنٹس کے لیے منتخب کیا۔صفائی کا خاص خیال رکھا گیا تھا۔ یہ اچھا تھا کہ اسے لان کی تھوڑی بہت بھی صفائی نہیں کرنا پڑی۔اس نے لان کے مرکزی دروازے تک کا راستہ جوڑنے والی راہ گزر کو ریمپ منتخب کیا اور اب اپنا کارنامہ سرانجام دینا شروع ہو گئی۔
سب سے پہلے تو اس نے پوری ریمپ پر سفید گلاب کی پتیاں، جو اس نے بہت دھیان سے دھاگوں کے ذریعے جوڑی تھیں، پوری ریمپ پر اس سفید گلاب کی پتیوں کی ہزاروں لڑیاں بچھا دیں۔ ہر لڑی میں صرف اور صرف پھول کی پتیاں تھیں۔ یوں لگتا کہ کوئی سفید چاندنی بچھ گئی ہو۔ اس نے تمام پتیوں کو دھاگوں کے ذریعے اس لیے جوڑا تھا کہ وہ ہوا سے اڑ نہ سکیں۔ اس سفید پھول کی چاندنی کی مختلف جگہوں پر اس نے فلورل ٹیپ کے ذریعے لال گلاب کے پھو ل چسپاں کر دیے۔
اب باری تھی اس ریمپ کے اطراف کی۔اس نے سب سے پہلے چھوٹے سائز کے تیس سے چالیس ستون ریمپ کے اطراف میں تھوڑے تھوڑے فاصلے پر کھڑے کر دیے۔ ستون کا رنگ کالا تھا۔ زارا نے ہر لمحہ اس کا ساتھ دیا۔ اگر وہ ستون کھڑا کرتی تو زارا ان ستونوں کے اوپر کنٹینر ز رکھتی۔
اب وقت تھا کنٹینرز کو اپنی مہارت سے سجانے کا۔ اس نے کنٹینرز کے اندر لائن ماس ارینجمنٹ کرنا تھی۔اس خاص ارینجمنٹ کے لیے اس نے صرف دو پھولوں کا انتخاب کیا، سورج مکھی اور جامنی رنگ کے گل ِ لہمی۔اور اپنی مہارت سے ان دو پھولوں کے ذریعے کنٹینر پر چاند کی صورت نمونہ تیار کر دیا۔ اس چاند کا حصہ سورج مکھی اور گل لہمی بنے ہوئے تھے۔ گل لہمی کی ٹہنیاں سورج مکھی کے اوپر اس طرح چھائی ہوئی تھیں کہ گویا وہ سورج مکھی پر چھاؤں کر رہی ہوں۔
اس نے کنٹینر کی ایک طرف پانچ سے چھے سورج مکھی اکٹھے رکھ دیے۔ پھر اسی کنٹینر کی سائیڈ سے گل لہمی کو اس طرح سے ترتیب دیا کہ ان کی ٹہنیاں سورج مکھی پر اپنا سایہ کی ہوئی ہوں۔یہ خاص ارینجمنٹ جو کہ لائن ماس ارینجمنٹ کہلاتی ہے،اسے کرنے میں اسے پندرہ منٹ لگے تھے،وہ بھی صرف ایک کنٹینر میں۔ ابھی تو اس نے پینتیس چھتیس اور کنٹینرز تیار کرنا تھے۔ زارا نے اس کا بھرپور ساتھ دیا۔ جب اس نے زارا کو سمجھا دیا کہ کس طرح کرنا ہے تو زارا نے بھی لائن ماس ارینجمنٹ کرنا شروع کر دی۔ ریمپ کی ایک طرف کا کام ممتحنہ کر رہی تھی تو دوسری طرف زارا شروع ہو گئی۔
شام کے ساڑھے چھے ہو چکے تھے اور ارینجمنٹس اپنے اختتام کو پہنچنے ہی والی تھی۔
’’زارا اب تم چھوڑ دو اسے،میں کر دوں گی۔تم بس جا کر محمود علی صاحب کو بلا لاؤ اور ان سے کہہ دو کہ ایک نظر دیکھ لیں۔‘‘ جیسے ہی پھولوں کے انتظامات اپنے اختتام کو پہنچے ممتحنہ نے محمود علی کی رضامندی ضروری سمجھا۔
’’ہاں میں ان کو بلا کر لاتی ہوں،واش روم جا کر اپنا حلیہ بھی درست کر لوں گی۔تم نے بہت تھکا دیا آج اس صنف ِ نازک کو میں آتی ہوں۔‘‘
جب زارا اند ر گئی تو اس نے زارا سے ہونے والی چھوٹی چھوٹی غلطیوں کو درست کرنا ضروری سمجھا۔زارا نے گل لہمی ٹھیک طرح سے ترتیب نہیں دیے تھے۔وہ مصنوعی سیڑھی پر چڑھ کر ان ستونوں پر لگے کنٹینرز کو درست کرنے لگی۔وہ اس قدر اپنے کام میں محو ہو گئی تھی کہ اسے محمود علی کے گھر تشریف لانے والا وہ پہلا مہمان دکھائی ہی نہیں دیا۔
اسے اپنی نظریں اِدھر اُدھر دوڑانے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ وہ پہلے ہی اپنے بھائی ظہیر سے یہ بات کہہ چکا تھا کہ وہ جسے پسند کرے گا اُسے کروڑوں کی بھیڑ میں بھی پہچان لے گا۔ساری دنیا مصنوعی لگ رہی ہوگی اور وہ ،و ہ اپنی تمام تر سادگی،نزاکت اور معصومیت کے ساتھ سب سے منفرد سب سے جدا نظر آ رہی ہوگی اور اس شام بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔
وہ اسے پھولوں کی سجاوٹ کرتے دیکھنے لگا۔وہ پہلی ہی نظر میں اس پر اپنا دل ہار بیٹھا تھا۔سفید رنگ کی پوشاک پہنے وہ خود ایک پری لگ رہی تھی۔ پھولوں کے ساتھ الجھتی ہوئی وہ پری ایک پھول لگ رہی تھی۔نازک،سادہ اور قدرتی حسن سے مالا لا۔
پہلے تو وہ اس کے بالکل سامنے تھوڑے فاصلے پر کھڑا ہو گیا۔ پر وہ اس قدر مصروف تھی کہ اپنی نظریں پھولوں سے اس نے ہٹائی ہی نہیں۔پھر وہ اس کے عقب میں کھڑا ہو گیا۔
اس نے اپنے لمبے گھنے بالوں کا بہت رف سا جوڑا باندھا ہوا تھا۔اس کے بالوں کے جوڑے کو صرف ایک گل لہمی نے سہارا دیا ہواتھا، جامنی گل لہمی۔
’’اف زارا! یہ کیا کر دیا تم نے،اتنے کم سورج مکھی ڈالے ہیں۔اب مجھے ہی صحیح کرنا ہوں گے۔کہاں رکھ دی پھولوں کی بالٹی۔‘‘وہ سیڑھی پر کھڑی ہو کر دائیں بائیں دیکھنے لگی پر ابھی تک اس نے پیچھے مڑ کر نہ دیکھا۔
’’ یہ لیں آ پ کی پھولوں کی بالٹی۔‘‘ وہ اپنے ہاتھ آگے بڑھائے پھولوں کی کم وزن بالٹی اس کے حوالے کرنے لگا ۔ ابھی تک ممتحنہ نے پیچھے مڑ کر نہ دیکھا۔
’’شکریہ!‘‘ وہ اس قدر مصروف تھی کہ اسے یہ بھی نہ پتا چلا کہ اس کے ہاتھوں میں وہ بالٹی کس نے تھمائی۔
وہ ایک ہاتھ سے بالٹی پکڑے دوسرے ہاتھ سے پھولوں کو ترتیب دینے لگی، پھر وہ ایک لمحے کے لیے رک گئی۔سوچنے لگی کہ وہ مردانہ آواز تھی کس کی ؟کچھ ہی لمحوں پہلے وہ بالٹی کس نے اس کے حوالے کی؟
جب و ہ پھول ترتیب دیتے دیتے ٹھہر گئی تو برہان کو بھی اس بات کا اندازہ ہو گیا کہ اب وہ اپنے پھولوں سے رخصت لے کر اس کی جانب منہ دکھائی کرنے والی ہے،آنکھیں چار ہونے کا وقت آ گیاہے۔
’’پیچھے مت دیکھیے گا،ورنہ آپ گر جائیں گی۔سنبھال نہیں پائیں گی خود کو۔‘‘ وہ اپنا سر گھمانے ہی لگی تھی کہ برہان نے اسے ٹوک دیا اور اس کے ہاتھوں سے وہ بالٹی لے لی۔
’’یہ آواز تو جانی پہچانی لگ رہی ہے۔‘‘ممتحنہ نے دل ہی دل میں سوچا۔ وہ اس وقت مجسمہ بنی کھڑی تھی۔اس کا ایک ہاتھ ابھی تک کنٹینر میں تھا اور دوسرے ہاتھ میں جو بالٹی تھی وہ برہان نے کھینچ لی تھی۔ شاید وہ جانتا تھا کہ کچھ ہی پل بعدصورت حال تشویش ناک ہونے والی ہے۔




Loading

Read Previous

گھٹن — اعتزاز سلیم وصلی

Read Next

بس عشق ہو — کشاف اقبال (دوسرا اور آخری حصّہ)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!