بس عشق ہو — کشاف اقبال (حصّہ اوّل)

وہ ہمیشہ کی طرح علی الصبح جاگ گئی۔ اس نے وضو کیا اور سر پر چادر لینے کے بعد نمازِ فجر کی نیت باندھی۔ اسے نماز کے دوران پچھلی رات والا واقعہ یاد آنے لگا۔ وضو کا پانی خشک ہوا نہیں تھا کہ اسے ٹھنڈے پسینے آنا شروع ہو گئے ۔وہ سکتے سے پوری طرح باہر آ گئی تھی مگر جب جب اسے وہ واقعہ یاد آتا، وہ گھبرانے لگتی۔ اس نے بہت چاہا کہ اس کا ذہن،اس کا دل صرف نماز کی طرف لگا رہے مگر نہ چاہتے ہوئے بھی ذہن و دل برہان ندیم کی طرف مائل ہونے لگا۔
’’میرے اللہ! میرے پروردگار! یہ کیا ہوا میرے ساتھ؟ میں تو صرف تیری خوشنودی کے لیے نماز پڑھتی ہوں تو پر ہمارے بیچ آج یہ کون آ گیا جس نے مجھے صحیح طرح تیری خوشنودی بھی حاصل نہ کرنے دی؟‘‘ وہ ہمیشہ فرض نماز کے بعد دعا مانگتی ،نماز میں تو دل نہ لگ سکا، البتہ دعا میں آنسو بہائے جارہے تھے۔
’’میں نے سنا ہے کہ نماز کے دوران دنیا کی بہت سی باتیں ہمارے ذہن و دل کا طواف کر رہی ہوتی ہیں،مگر آج میرے ذہن و دل کا طواف صرف اسی شخص نے کیااور کسی نے نہیں۔ایسا کیوں میرے اللہ؟‘‘ برہان ندیم کے خیالات نے نہ صرف نماز میں اسے تنگ کیا بلکہ وہ اس کی دعاؤں کا حصہ بھی بننے لگا تھا۔
’’یا اللہ ! کہیں مجھے ان سے محبت تو نہیں ہو گئی؟‘‘ وہ تھوڑی دیر کو چپ چاپ آنسو بہاتی رہی پھر گویا ہوئی:
’’شاید ایسا ہی ہے، کیوں میری نظریں ان کے سامنے جھک جاتی ہیں؟کیوں میرے لب ان کے آگے سل جاتے ہیں؟ کیا محبت کی ابتدا ایسے ہوتی ہے؟‘‘وہ فریاد کرنے لگی۔
’’میرے خدا میرے حق میں بہتر کردے۔‘‘اس نے نہ برہان کا ملنا مانگا،نہ اس کا دور جانا ہی مانگا،بس اس نے جو مانگا، اس کا خود کے حق میں بہتر ہونا مانگا۔
’’میں ان سے محبت کرنے لگی ہوں،بہت پہلے سے کرتی تھی مگر اس محبت سے ملاقات میری کل ہوئی،جب انہوں نے میرے لیے اتنے نفیس، اتنے پاک جملے استعمال کیے،مجھے خود پر رشک کرنے کے سو جواز دیے۔‘‘وہ سر پر بندھا دوپٹا اتارنے لگی اور آئینے کے سامنے آ کر کھڑی ہو گئی۔
’’محبت جب دونوں سمت ہو تو اس کی شدتوں میں شگاف نہیں پڑتا،اس کی شدت تو آگ کی طرح پھیلنے لگتی ہے،بڑھنے لگتی ہے اور مجھے اس بات کا ڈر لگ رہا ہے کہ اگر یہ شدت میرے اندر ان سے ملنے سے پہلے ہی اتنی بڑھ گئی تو میرا چہرہ بھی اس کی عکاسی کرنے لگے گا اور اگر ایسا ہو گیا تو انہوں نے مجھے جب بھی دیکھ لیا ،وہ پہچان جائیں گے کہ میں بھی ان…‘‘وہ آئینے میں اپنے چہرے کو انگلیوں کی پوروں سے محسوس کر نے لگی۔
’’ خیر ! اگر انہوں نے پہچان بھی لیا توکیا غلط ہے؟ تم نے تو ان کی محبت کی انتہا دیکھ لی،اب کیا انہیں اتنا بھی حق نہیں دو گی کہ وہ تمہاری محبت کی ابتدا دیکھ سکیں؟تم اتنی سنگ دل نہیں ہو سکتیں ممتحنہ۔‘‘ وہ سر جھٹک کر ایک بار پھر سونے چلی گئی۔
٭…٭…٭





’’کیا بات ہے آج بڑی جلدی اٹھ گئے میرے ہیرو۔‘‘ نبیہہ بیگم اپنے بیٹے کو کافی دنوں بعد ناشتے کی میز پر بیٹھا دیکھ کر حیران سی رہ گئیں۔
’’امی جب ہمارا واسطہ خوشبو، سادگی، معصومیت اور پاکیزگی جیسی خوبیوں سے پڑ جائے،تو تھوڑا بہت اثر ہم پر بھی پڑنے لگتا ہے، یہ خوبیاں ہیں ہی ایسی،اپنے رنگ میں رنگ لیتی ہیں۔‘‘وہ اپنے گلاس میں نارنجی شربت ڈالنے لگا۔
’’ کیا پرفارمنس دی ہے، نہ لائٹس کیمرا ایکشن کہنے کی ضرورت پڑی اور نہ کٹ کی۔ کون سے سین کی تیاری کر رہے ہو صاحب زادے؟لگتا ہے کوئی بہت بڑا پراجیکٹ ہاتھ لگاہے۔‘‘بے ساختہ مذاق کرنے والے وہ برہان کے ابو ندیم صاحب تھے۔
’’پراجیکٹ نہیں ابو، نئی زندگی ہاتھ لگی ہے۔ بس آپ لوگوں کی دعاؤں کی ضرورت ہے۔ دعا کیجیے گا کہ یہ زندگی مجھے اپنے گلے سے لگا لے۔‘‘ اس نے شربت کا ایک گھونٹ گلے میں اتارا۔
’’بخار تو نہیں ہے تمہیں؟ ایسی باتیں کیوں کر رہے ہو ؟‘‘ندیم صاحب نے بیٹے کے ماتھے پر ہاتھ رکھا۔
’’بخار جب دل کو ہو تو ماتھا یا جسم گرم نہیں ہوا کرتا۔اس بخار میں تو جسم ٹھنڈا پڑ جاتا ہے۔بس آپ دونوں دعا کیجیے گا کہ آج میرے جسم کے حق میں ہو نہ ہو، میرے دل کے حق میں ضرور بہتر ہو۔‘‘اس نے ابو کے بازو پر اپنا ہاتھ رکھا۔
’’ہماری دعائیں تمہارے ساتھ ہیں۔‘‘ناشتا سر و کیا جا چکا تھا،آج ندیم صاحب اورنبیہہ بیگم کے اکلوتے بیٹے نے ان کے ساتھ بیٹھ کر ناشتا کیا۔
٭…٭…٭
صبح کے آٹھ بچ چکے تھے۔وہ تیار ہو کر نرسری کے لیے نکلنے لگی۔اس کی تیاری بھی صرف نام کی تھی۔منہ پر کریم، سادہ سی لپ اسٹک،آنکھوں میں کاجل اور بالوں میں پونی۔اپنی ناک پر وہ بہت باریک سی،ہیرے کی نتھ،ہمیشہ پہنے رکھتی۔
’’کل رات تمہارے چیخنے کی آواز سنائی دی تھی۔سب خیریت تو ہے نا؟‘‘ حارث صاحب نے صبح صبح اپنی بیٹی کی شکل دیکھتے ہی سوال کیا۔وہ جلد بازی میں سینڈل پہن رہی تھی۔
’’پہلے ٹھیک نہیں تھا لیکن اب سب ٹھیک ہے۔‘‘وہ جو سابقہ رات اتنے سکتے میں تھی،آج بالکل نارمل اور تازہ دم دکھائی دے رہی تھی۔
’’اچھا، اب میں چلتی ہوں، آج تھوڑا لیٹ ہو گئی ہوں۔‘‘ وہ سینڈل پہنتے ہی دروازے کی طرف قدم بڑھانے لگی۔
’’کبھی کبھی تھوڑا لیٹ ہونا بھی باپ بیٹی کے لیے کتنا اچھا ہوتا ہے۔ ہے نا؟ آج میری گلابو میرے ساتھ جائے گی۔ میں ڈراپ کر دوں گا تمہیں۔ کہو تو راستے سے زارا کو بھی پِک کر لوں؟‘‘ حارث جو دفتر جانے کے لیے تیار ہو رہا تھا، اپنی بیٹی کو جاتا دیکھ کر بولا۔
’’یہ اچھا رہے گا۔ جس دن میں آپ کے ساتھ جاتی ہوں اس دن مجھے بہت اطمینان اور ذہنی سکون ملتا ہے۔میں لان میں انتظار کر رہی ہوں آپ کا۔ ‘‘ وہ لان میں آ گئی۔
نرسری کی طرح اس نے اپنے لان کو بھی کھلا کھلا اور ہرا بھرا رکھا تھا۔ اس کی نظر لان میں لگے گلِ لہمی کے پودے پر پڑی۔اس نے ایک نظر اس پودے کو نیم مسکراہٹ کے ساتھ دیکھا اور کہا:
’’تمہیں تو کبھی نہیں بھولوں گی میں مس گلِ لہمی۔‘‘
’’کسے نہ بھولنے کی باتیں ہو رہی ہیں؟‘‘ اس کے بالکل عقب میں حارث کھڑا تھا۔
’’کسی کو بھی نہیں۔ چلیں؟‘‘ حارث کے سوال کرنے پر وہ ڈری نہ ہچکچائی۔وہ جانتی تھی کہ اس کے ابو اس کی ہر صورتِ حال سے اچھی طرح واقف ہیں۔ بس وہ صحیح وقت کا انتظار کر رہی تھی جب وہ سکون سے بیٹھ کر اپنے ماں باپ کو یہ بات بتائے گی کہ نہ صرف برہان ندیم بلکہ وہ بھی اس سے محبت کرتی ہے۔
’’میں تم سے یہ بات کہنا تو نہیں چاہ رہا لیکن تمہیں اپنا دوست سمجھ کر کہہ رہا ہوں، چاہے کوئی بھی بات ہو،اپنے ماں باپ سے مت چھپانا ۔تمہارے ماں باپ تمہاری ہر بات میں تمہارا ساتھ دیں گے کیوں کہ میں اور عنایہ جانتے ہیں کہ ہماری بیٹی کتنی سمجھ د ا ر ہے۔‘‘ گاڑی زارا کے گھر کے باہر رکی تھی جب حارث نے اپنی بیٹی کو ایک دوست کی حیثیت سے یہ بتانا چاہا کہ اس کے ماں باپ ہمیشہ اس کے ساتھ ہیں۔
’’میں اچھی طرح جانتی ہوں کہ آپ دونوں میری موجودہ صورت حال سے واقف ہیں اور شاید کل رات چیخنے والی وجہ سے بھی۔ بس جیسے ہی مجھے صحیح وقت ملے گا، میں بھی آپ دونوں کو یہ بات بتا دوں گی جو میں صبح سے چھپا رہی ہوں۔ ‘‘ اس کی گفت گو میں اخلاق کے ساتھ ساتھ سادگی بھی تھی۔وہ سادگی جو سچائی میں ہوا کرتی ہے۔اس کے اندازِ گفت گو میں بناوٹ کا پہلو تھا ہی نہیں۔اس کی اسی سادگی کو دیکھ کر حار ث نے اس کے ماتھے کو چوما۔
’’وہ تو اپنے وقت پر ہی نرسری چلی گئی۔ فارمیلٹی پوری کرنے کا شکریہ۔‘‘سمیہ بیگم نے دروازہ کھول کر باپ بیٹی کے منہ پر دو جملے مار کر دروازہ بند کر دیا۔
’’اوہ! میں تو بھول ہی گئی کہ آج صرف میں لیٹ ہوئی ہوں،وہ تھوڑی۔‘‘ وہ سر جھٹک کر حارث کو گاڑی چلانے کا کہنے لگی۔
’’یہ سمیہ بیگم تم سے اتنی اکھڑی اکھڑی کیوں رہتی ہیں؟‘‘ حارث نے اگنیشن میں چابی گھماتے ہوئے کہا۔
’’اس بارے میں مجھے اتنا نہیں پتا مگر اتنا ضرور کہہ سکتی ہوں کہ معاملہ زارا سے متعلق ہے۔‘‘
٭…٭…٭
’’کیا سوچا کل کے واقعے کے بارے میں؟‘‘وہ نرسری پہنچی تو زارا وہاں پہلے سے ہی اس کی منتظر تھی۔وہ ممتحنہ کے آنے سے پہلے ہی آرڈرز تیار کرنے کے لیے پھول چننے لگی۔
’’بہت کچھ سوچا، بس یہ سمجھ لو کہ جب سے وہاں سے بھاگی ہوں،وہیں کے بارے میں سوچ رہی ہوں۔‘‘وہ زارا کا ہاتھ بٹانا شروع ہوگئی۔
’’آپ کا بھاگنا بجا تھا مگر کچھ تو جواب دے دیتیں۔ بے چارے برہان صاحب کو جو آپ کے آگے گھٹنوں کے بل بیٹھے آپ کے جواب کے منتظر تھے۔‘‘ زارا نے ممتحنہ کے دل کا حال کھودنا شروع کر دیا۔
’’ویسے کل تک تو تم سکتے میں تھی اور آج خوش باش۔ آپ کی صبح بتا رہی ہے کہ آپ نے رات میں بہت بڑا فیصلہ کیا ہے مس فلورسٹ۔‘‘ اس کے سوال کرنے پر ممتحنہ چپ رہی تو اس نے اس کی ٹانگیں کھینچنا شروع کردیں۔
’’نہیں ! فیصلہ بڑا نہیں تھا میرے لیے۔بس اس سکتے سے نکلنا انتہائی مشکل تھا۔فیصلہ تو کر لیا میں نے۔‘‘ وہ مسکرانے لگی۔
’’ہمم!مسکراہٹیں چیک کرو مس فلورسٹ کی۔تمہارا فیصلہ کیا ہے ،یہ توتمہاری مسکراہٹ دیکھ کر پتا چل گیا۔اب کچھ اس سے آگے کا بتاؤ۔‘‘ وہ اس کی بہت گہری دوست تھی،اپنی دوست کی خوشی میں خوش تھی۔
’’آگے کا معاملہ اپنی قسمت پر چھوڑ دیا۔اب دیکھوکہاں لے کر جاتا ہے مجھے میرا نصیب۔‘‘اس سے پہلے کہ زارا کچھ اور کہتی، ممتحنہ بول ا ٹھی۔
’’بس بہت باتیں ہو گئیں اب چلو اندر،آرڈرز تیار کرنا ہیں۔‘‘
’’تمہیں برہان ندیم ملا ہے ممتحنہ،کچھ سمجھ آئی تمہیں؟ برہان ندیم۔ یہ تمہارا نصیب ہی ہے جو تمہیں یہاں تک لایا ہے اور دیکھنا یہی نصیب تم دونوں کو ملوائے گا بھی۔‘‘وہ بڑبڑاتی گئی ۔ اب اس کی حالت ایسی نہیں رہی تھی کہ وہ برہان ندیم جیسے الفاظ کو نظر انداز کر سکے جو شخص اسے اب ہر انداز میں قبول تھا،اسے وہ کیسے نظر انداز کر دیتی۔
٭…٭…٭
’’سلام محمود علی صاحب! کیا حال ہیں آ پ کے؟‘‘ حیال نے صبح اٹھتے ہی محمود علی کو فون کیا۔وہ کانچ جو رات کے پچھلے پہر زمین پر بکھرا پڑا تھا، اب بھی ویسا ہی تھا۔
’’وعلیکم السلام حیال صاحبہ! میں بالکل فٹ،آپ سنائیں کل کی پارٹی میں انجوائے کیا؟ کوئی کمی تو نہیں رہ گئی ہماری طرف سے؟‘‘محمود علی کو لگا کہ اس نے کچھ غلط پوچھ لیا ۔اسے کل کے بارے میں نہیں پوچھنا چاہیے تھا۔
میں نے آپ کو کچھ بتانے کے لیے فون کیا ہے۔‘‘ اس کی آنکھوں میں رنج و الم تھا۔ اس نے کل رات سے منہ پر پانی تک نہیں ڈالا تھا۔
’’جج…جی کہیے۔ میں سن رہا ہوں۔‘‘محمود علی کو اچنبھا ہوا۔
’’مجھے آپ کو یہ بتانا تھا کہ کل جس فلم کے لیے آپ نے مجھے اور برہان کو مرکزی کردار کے لیے منتخب کیا تھا، وہ فلم میں نہیں کر سکتی۔‘‘برہان کے ساتھ ساتھ حیال کو بھی محمود علی نے فلم کے مرکزی کردار کے لیے منتخب کیا تھا۔ وہ عرصے سے اپنے ہر پراجیکٹ کے لیے حیال کا انتخاب کرتا رہا مگر اس نے اس بار صاف انکار کر دیا۔ شاید حیال کی کام یابی کا پہلا قدم برہان کی ناکامی تھا۔ اسے پتا تھا کہ برہان نے اپنا آدھے سے زیاد کام اسی کے ساتھ کیا ہے اور صرف اسی کے ساتھ کرنا چاہتا ہے اور اگر وہ ہی نہ ہوگی تو برہان کے کیریئر پر کچھ تو فرق پڑے گا۔
’’مگر کیوں حیال؟ ہم سے کوئی خطا ہو گئی؟‘‘ محمود علی رفتہ رفتہ حیال کی حالت کو سمجھنے لگا تھا۔ اسے اس کی آواز بھی ایسی لگ رہی تھی جیسے وہ گھنٹوں روئی ہو۔
’’آپ سے کوئی خطا نہیں ہوئی محمود صاحب۔بس میری datesکا مسئلہ ہے، اس لیے میں یہ فلم نہیں کر سکوں گی۔‘‘
’’ہم شوٹنگ کی تاریخ منسوخ کر دیں گے مگر میں یہی چاہتا ہوں کہ میری فلم میں آپ ہی مرکزی کردار ادا کریں۔ہم آپ کی ساری ڈیمانڈز پوری کرنے کو تیار ہیں،بس آپ انکار مت کریں۔‘‘
محمود علی منتیں کرنے لگا۔ اسے پتا تھا کہ حیال طاہر پاکستانی میڈیا انڈسٹری میں سب سے بڑا نام ہے اور دورِ حاضر کا چمکتا ستارہ بھی۔ اسی لیے اپنی اس فلم کو سپرہٹ کرنے کے لیے اسے حیال کی شدید ضرورت تھی۔
’’تو پھر میری صرف ایک ڈیمانڈ پوری کردیں۔‘‘شاید حیال کو اسی لمحے کا انتظار تھا جب محمود علی اس کے آگے گڑگڑانے لگے۔
’’آپ کہہ کر تو دیکھیے۔‘‘ محمود علی اس وقت حیال کی ہر ڈیمانڈ پوری کرنے کے لیے تیار تھا۔
’’میں تھک گئی ہوں برہان ندیم کے ساتھ کام کر کر کے،مجھے کسی اور کو بھی موقع دینا چاہیے اپنے ساتھ کام کرنے کا، and i believe،کہ اب ناظرین بھی ہم دونوں کو ساتھ دیکھ دیکھ کر بے زار ہو چکے ہوں گے۔‘‘و ہ اپنے آس پاس پڑے شیشے کے ٹکڑوں کو گھورنے لگی۔
’’آپ تو ہمیشہ سے برہان ندیم کے ساتھ کام کرنے کی خواہش مند رہی ہیں، پھر یہ فلم کیوں نہیں حیال صاحبہ؟‘‘ محمود علی کو اچنبھا ہوا ۔اسے دھیرے دھیرے سمجھ آنے لگا کہ حیال کا رویہ کل رات والے سانحے کے باعث اکھڑا ہوا ہے۔
’’ابھی تو بتایا میں تھک گئی ہوں برہان ندیم کے ساتھ کام کر کر کے،میں خود بھی چاہتی ہوں کہ کوئی دوسرا اداکار میرے ساتھ کام کرے۔اٹس مائی چوائس اور اگر ایسا نہیں ہو سکتا، تو پلیز مجھے اس پراجیکٹ سے الگ کر دیں،شکریہ۔‘‘وہ فون رکھنے ہی لگی تھی کہ محمود علی نے ہامی بھرلی۔
’’میری فلم میںحیال طاہر نہیں ہوگی تو یہ فلم بھی نہیں ہو گی۔میں دیکھتا ہوں کوئی دوسرا اداکار۔‘‘محمود علی کی بات پر کوئی زبانی رد عمل ظاہر کیے بغیر اس نے فون بند کر دیا ۔محمود علی جتنا برہان ندیم کو پسند کرتا ،اس سے کہیں زیادہ حیال طاہر کو کرتا تھا۔ وہ حیال کو اپنے پراجیکٹ میں کاسٹ کرنے کے لیے برہان کو بھی نا کہہ سکتا تھا مگر یہ اس کے لیے تھوڑا مشکل تھا۔ کیا برہان کو وہ اس فلم سے نکال کر ممتحنہ سے الگ کر سکتی تھی؟یا یہ صرف ایک جذبات میں کیا گیا فیصلہ تھا؟ یا برہان پر خفگی ظاہر کرنے کا عمل؟یہ اسے بعد میں ہی پتا چلنا تھا۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

گھٹن — اعتزاز سلیم وصلی

Read Next

بس عشق ہو — کشاف اقبال (دوسرا اور آخری حصّہ)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!