بس عشق ہو — کشاف اقبال (حصّہ اوّل)

’’السلام علیکم محمود بھائی! مبارک ہو ،آپ کی فلم نے تو باکس آفس پر دھماکا ہی کر دیا۔ سپر ہٹ!‘‘ محمود علی کی نئی فلم نے پاکستانی باکس آفس پر بہت اچھا بزنس کیا تھا اور اسی خوشی میں اس نے اپنی فلم کی پارٹی میں دعوت دینے کے لیے برہان ندیم کو فون کیا۔ اس کے سلام کرنے سے پہلے ہی برہان نے اسے اس کی نئی فلم کے متعلق مبارک باد دی۔
’’و علیکم السلام ۔ بہت شکریہ برہان اور اسی خوشی میں پرسوں میں نے اس کام یابی کا جشن منانے کے لیے ایک پارٹی رکھی ہے، آنا ضرور۔‘‘ وہ اپنی فلم کی کام یابی کو لے کر کافی برانگیختہ تھا۔
’’ضرور آؤں گا لیکن پارٹی کی تمام تر سجاوٹ پھولوں سے ہونی چاہیے۔ کسی بہترین سی فلورسٹ کمپنی سے سجاوٹ کے انتظامات کروائیے گا۔ بہار کا موسم بھی ہے، پھولوں کی سجاوٹ بہت مناسب اور دل فریب لگے گی۔‘‘ اس نے اپنی پوری زندگی دل چسپی نہ لی لیکن وہ ایک لڑکی اسے گلوں کے قریب لے آئی۔ کچھ اتنا قریب کہ اب اسے ہر سو پھول ہی پھول نظر آنے لگے تھے۔
’’ کہہ تو ٹھیک رہے ہو،پھولوں کی سجاوٹ کافی مناسب لگے گی لیکن پاکستان میں فلورسٹ کہاں سے ڈھونڈ کر لاؤں؟ یہاں کہاں ماہر فلورسٹ ملتے ہیں بھلا۔‘‘برہان کام یاب ہو چکا تھا۔
’’بھائی میں ہوں نا آپ کیوں فکر کر رہے ہیں؟ میری نظر میں ایک فلورسٹ کمپنی ہے۔ ممتحناز کے نام سے۔ میں نے یوٹیوب پر ان کا کام دیکھا، مجھے بہت اچھا لگا۔ ان فیکٹ یہ کمپنی مرتضیٰ حسیب کی فلم کی پارٹی کے لیے بھی فلورل ارینجمنٹ کر چکی ہے، میں آپ کو ای میل آئی ڈی دے دوں گا، آپ ان سے رابطہ کر لیجے گا۔‘‘
’’تم نے تومیرا کام ہی آسان کر دیا۔ تو اس بار پارٹی کی تھیم پھولوں پر مبنی ہو گی۔‘‘
برہان کا ممتحنہ سے ملنا قسمت میں تھا یا نہیں، یہ وہ نہیں جانتا تھا، بس وہ اپنی طرف سے پوری کوشش کر رہاتھا۔
’’اوکے! پرسوں ملاقات ہوتی ہے پارٹی میں، خدا حافظ۔‘‘
٭…٭…٭





’’آخر کیوں بنی پھرتی ہو ممتحنہ کی چمچی ؟کہیں نوکری کیوں نہیں کر لیتیں؟ چمچہ بن کر پندرہ بیس ہزار ملنے سے لاکھ گنا بہتر ہے کہ کہیں عزت کے ساتھ نوکری کر لی جائے۔‘‘ زارا کھانے کی میز پر بیٹھی ہی تھی کہ سمیہ بیگم نے اپنی بیٹی کے نرسری میں کام کر نے پر خفگی ظاہر کی۔
’’نوکری میں کم چمچہ گیری ہوتی ہے؟اور عزت تو بھول ہی جائیں اور ویسے بھی میں چمچی نہیں ہوں اس کی، وہ دوست ہے میری۔ مجھے اچھا لگتا ہے اس کے ساتھ کام کرنا،اس کا ہاتھ بٹانا۔ کم از کم اور نوکریوں سے تو ہزار گنا بہتر یہی ہے کہ نرسری جا کر عزت کے ساتھ کام کر لیا جائے خاص کر لڑکیوں کے لیے۔آپ بھی کیوں نہیں شامل ہو جاتیں ہماری کمپنی میں؟‘‘زارا نے الٹا نرسری میں کام کرنے کا مشورہ اپنی امی کو دے دیا۔
’’کرنے دو کام اگر یہ کرنا چاہتی ہے۔ پیسے ملتے ہیں اسے اس کام کے اور لڑکیوں کے لیے اس قسم کی نوکری میں کوئی برائی بھی نہیں۔ بیٹا! تم اپنی امی کی بات کا برا مت ماننا، یہ تو ہے ہی ایسی۔‘‘ زارا کے ابو امجد جو بہت دیر سے ماں بیٹی کی گفت گو سن رہے تھے، لب کشائی کرنا شروع ہوئے۔
’’تھینک یو پاپا! آئی لو یو ۔‘‘وہ اپنے کھانے کی پلیٹ چھوڑ کر اپنے ابو کے گلے لگ گئی۔
’’مجھے تمہاری نوکری پر کوئی اعتراض نہیں لیکن ایک بات یاد رکھنا، وہ ہمیشہ تمہاری باس اور کمپنی کی مالکن رہے گی اور تم اس کی اسسٹنٹ۔‘‘ وہ اپنی بیٹی کو تنبیہ کرنے لگیں۔
’’مجھے فرق نہیں پڑتا اس بات سے کہ میں اس کی اسسٹنٹ ہوں۔ وہ دوست ہے میری،میری بیسٹ فرینڈ۔ ہم میں سے کوئی بھی ایک دوسرے کا باس نہیں اور ظاہر سی بات ہے اس نے اس کمپنی کی بنیاد رکھی ہے، تو وہ باس ہی ہوئی نا!‘‘ اسے پورا بھروسا تھا اپنی بچپن کی سہیلی پر۔ وہ چاہ کر بھی کسی کو ان دونوں کے بیچ دراڑ نہیں ڈالنے دیتی۔
’’وہ وقت بھی آ ئے گا جب تمہیں احساس ہو جائے گا کہ اس کمپنی میں تمہاری کیا اوقات ہے اور یہ دھمکی نہیں ہے، کھرا سچ ہے۔‘‘سمیہ بیگم نے تلخ جملے کہنا بند نہیں کیے۔وہ بھی اب مزید کہاں سننے والی تھی ان کی بات، بس ان کی باتوں کو نظر انداز کرنے لگی۔
٭…٭…٭
اگلی صبح کا سورج ممتحنہ کی چھوٹی سی کمپنی کو مقبولیت کی دوسری سیڑھی پر پہنچانے کے لیے طلوع ہوا تھا۔ پہلی سیڑھی وہ سر کر چکی تھی، مرتضیٰ حسیب کی پارٹی کی ارینجمنٹ کر کے۔
اس کی آنکھ فجر کے وقت کھلی۔ اس نے نمازِ فجر ادا کی، پھر اسے نیند ہی نہیں آئی۔آٹھ بجے اسے نرسری نکلنا تھا۔ابھی اس کے پاس پورے تین گھنٹے باقی تھے۔وہ اپنا لیپ ٹاپ کھول کر بیٹھ گئی اور کمپنی کی ای میل آئی ڈی کھول کر میلز چیک کرنے لگی۔
اس کے اکاؤنٹ میں مشہور زمانہ ہدایت کارکی ای میل آئی ہوئی تھی۔ پہلے تو اسے لگا کہ وہ ابھی تک نیند میں ہے۔ پھر ایک گلاس ٹھنڈا پانی پینے کے بعد اس نے ایک بار پھر اپنے لیپ ٹاپ کی چمکتی اسکرین کی طرف دیکھا۔وہ حیران رہ گئی،وہ خواب نہیں تھا، محمود علی کی ای میل موصول ہونا حقیقت میں شامل تھا۔اس نے کپکپاتے ہاتھوں سے ماؤس پر کلک کیا، تو محمود علی کا پورا پیغام اس کی آنکھوں کے سامنے آگیا۔
’’سلام ! میں ڈائریکٹر محمود علی ہوں۔ آپ کی کمپنی کے بارے میں اپنے قریبی دوستوں سے تھوڑا بہت، مگر جو کچھ بھی سنا بہت اچھا سنا۔ دراصل بات یہ ہے کہ مجھے میری نئی فلم کی کام یابی کے حوالے سے ایک پارٹی رکھنی ہے جس کی تھیم صرف اور صرف پھولوں پر مبنی ہو۔ کچھ دن پہلے آپ نے مرتضیٰ حسیب کی پارٹی کی بھی فلورل ارینجمنٹ کی تھی جس کی ویڈیو میں نے یو ٹیوب پر دیکھی اور پھولوں کی تمام سجاوٹ جو آپ نے اپنے ہاتھوں سے کی تھی، میرے دل میں گھر کر گئی اور یہی وجہ ہے کہ میں اپنی پارٹی کی تمام سجاوٹ آپ ہی سے کروانا چاہتا ہوں۔آپ مجھے بتا دیں کہ کیا آپ کل شام فارغ ہوں گی؟ اگر کل آپ کا کوئی خاص اپائنٹمنٹ نہیں ہے تو پلیز کل کا دن ہمارے لیے مختص کر دیں۔آج میں آپ کی نرسری کا چکر لگاؤں گا۔ ایڈوانس وغیرہ اور باقی تمام تفصیلات ہم وہیں طے کر لیں گے۔شکریہ‘‘
ممتحنہ کے وجود کو شاہین کے پر لگ گئے تھے۔ای میل دیکھنے کے بعد تو جیسے وہ ہواؤں میں اڑنے لگی تھی۔ اس کا ہمیشہ سے یہ خواب تھا کہ اپنی مہارت اور تخلیقات کی بنا پر مقبولیت کے آسمانو ں کا سفر کرے اور اب اس کی مقبولیت کے دن شروع ہونے والے تھے۔اس نے اس کمپنی کو لے کر جو خواب دیکھے تھے وہ پورے ہونا شروع ہو گئے۔
’’وعلیکم السلام سر!ہماری فلورل ارینجمنٹ کو پسند کرنے کا بہت شکریہ۔یہ ہمارے لیے خوش نصیبی ہو گی کہ ہم آپ جیسے ہدایت کار کے ساتھ کام کریں۔ ویسے کل تو کوئی خاص اپائنٹمنٹ نہیں ہے اور اگر ہوتا بھی تو ہم اسے ملتوی کر دیتے،آپ جیسے ہدایت کار کے ساتھ کام کرنے کا موقع خوش نصیبوں کو ملا کرتا ہے۔ یہ ہماری کمپنی کا ایڈریس ہے۔ آفس ٹائمنگ ایک سے چھے بجے تک ہیں۔ ہم آپ کا انتظار کریں گے۔خدا حافظ‘‘ اور پھر اس نے محمو د علی کی ای میل کا جواب دے دیا۔
’’یہ خوش خبری تو میں سب سے پہلے زارا کو سناؤں گی۔ وہ تو پاگل ہی ہو جائے گی، لیکن مجھ سے زیادہ نہیں۔‘‘ وہ کمر بستہ تھی۔ اپنا سو فیصد دینے کے لیے مستعد تھی۔
٭…٭…٭
’’کیا بات ہے آج تو بڑی خو ش نظر آ رہی ہیں مس فلورسٹ؟ کہیں رشتہ پکاتو نہیں ہو گیا محترمہ کا؟‘‘ وہ جب نرسری پہنچی تو وہاں زارا پہلے ہی سے موجود تھی۔
’’رشتہ پکا ہوتا تو خوش نظر آتی؟ خیر! خوش خبری تو ہے میرے پاس لیکن پتا نہیں تمہیں کتنا مسرور کر پائے گی۔‘‘ وہ ہمیشہ کی طرح پھولوں کو سلام کر کے آفس میں جانے لگی۔
’’مجھے بتاؤ توسہی میرے پیٹ میں درد ہو رہا ہے۔‘‘ وہ دفتر کی طرف جانے لگی کہ زارا نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے روک لیا۔
’’تم نے میلز چیک کیں صبح؟‘‘اس نے زارا سے پوچھا۔
’’ نہیں! میلز چھوڑو ،مجھے خوش خبری بتاؤ کیا ہے؟‘‘ زارا کے گمان میں بھی نہ تھا کہ خوش خبری ایک میل میں محفوظ میں ہے۔
’’اس خوش خبری کا تعلق میل سے ہے۔میرے ساتھ آفس میں آؤ میں دکھاتی ہوں۔‘‘جب زارا کو کچھ سمجھ نہ آیا کہ ایسی کون سی خوش خبری ہے تو ممتحنہ اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے آفس میں لائی۔
’’ یہ دیکھو! پڑھو اس میل کو۔‘‘ اس نے کسی قسم کی لب کشائی نہ کی، بس لیپ ٹاپ پر محمود علی کا پیغام کھول کر اس کے سامنے پیش کردیا۔
اب زارا اس پیغام کو پڑھنے میں مصروف ہو گئی اور ممتحنہ اس کے چہرے کے تاثرات پڑھنے میں۔
’’م…مم…ممتحنہ…کیا واقعی محمود علی جیسے ڈائریکٹر نے اپنی فلم کی پارٹی کی ارینجمنٹ کے لیے ہماری کمپنی کا انتخاب کیا ہے؟ مجھے یقین نہیں آ رہا یار…‘‘زارا کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ اس کے ہوش ٹھکانے لانے کے لیے ممتحنہ نے اس کے منہ پر پانی کا چھینٹا مارا۔
’’ جی ہاں! انہوں نے ہمارا انتخاب کیا ہے اور ہمیں اپنا بیسٹ دینا ہوگااس تقریب کے لیے۔ اگر انہیں ہماری سجاوٹ پسند آ گئی تو بہت زیادہ امکانات ہیں کہ وہ ہمیں اپنی اگلی فلم کے سیٹ ڈیزائن کے لیے منتخب کرلیں۔ چلو فلم نہ سہی، تو کسی گانے کی شوٹنگ کے لیے ہم سے ڈیزائن تو کروا ہی سکتے ہیں اور ویسے بھی وہاں پر تو اور بھی بہت سی نام ور شخصیات آئی ہوں گی تو ہمیں اپنی پھولوں کی سجاو ٹ سے سب کا دل جیتنا ہی ہوگا، سمجھیں! ‘‘ وہ زارا کا ہاتھ جو کہ پوری طرح ٹھنڈا پڑ چکا تھا، اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے بولی۔
’’وہ سب تو ٹھیک ہے پر یہ ایک بہت بڑی پارٹی ہوگی۔کتنی بڑی بڑی شخصیات آئی ہوں گی۔ دعا کرنا ہمیں بھی وہاں کوئی ایسا مل جائے جو ہم پر مر مٹے۔‘‘ زارا خیالوں کی دنیا میں ایک بار پھر کھو گئی۔
’’باولی! ہم پر مٹے نہ مٹے ہماری ڈیکوریشن پر ضرور مر مٹے۔‘‘ اب کی بار وہ خود بھی خیالوں کی دنیا میں کھو گئی۔ پر دونوں کا خیال یکساں ہرگز نہ تھا۔ ایک نے محبت کا خواب دیکھا، تو دوسری نے کام یابی کا، آگے بڑھنے کا، اڑنے کا خواب دیکھا۔
’’چلو آج کے آرڈرز جلدی سے فائنلائز کردو پھر محمود علی صاحب کسی بھی وقت آ جائیں گے۔ ایک سے چھے بجے کے درمیان۔‘‘وہ زارا کو لے کر ورک شاپ آ گئی اور وہ دونوں آرڈرز تیار کرنا شرو ع ہو گئیں۔
’’کیا برہان ندیم بھی وہاں پارٹی میں آئیں گے؟ ‘‘ اس نے اندر ہی اندر اپنے آپ سے سوال کیا۔ کچھ دیر کو تو وہ واقعی سوچ میں پڑ گئی پھر سر جھٹک کر واپس اپنے کام میں مصروف ہو گئی۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

گھٹن — اعتزاز سلیم وصلی

Read Next

بس عشق ہو — کشاف اقبال (دوسرا اور آخری حصّہ)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!