بس عشق ہو — کشاف اقبال (حصّہ اوّل)

’’چہل قدمی کے دوران ملکہ کی نظر گلِ وفا پر پڑی جسے پانی نے اپنے گھر سے بے گھر کر دیا تھا۔وہ اپنی شاخ سے ٹوٹ کر پانی میں بہے جارہا تھا۔ ملکہ نے گلِ وفا کو بچانے کی خواہش ظاہر کی تو بادشاہ سلامت دریا میں چھلانگ لگا بیٹھے۔ پانی کا بہاوؑ بہت تیز تھا،تو جیسے ہی بادشاہ نے دریا میں چھلانگ لگائی، گلِ وفا کو تھام لیااور کنارے پر اس نے نیلے پھول کو پھینکتے ہوئے اپنی ملکہ سے کہا “vergiss mein nicht”جس کا انگریزی معنی ہے ’’فارگیٹ می ناٹ‘‘ یعنی مجھے نہ بھولنااور وہ اپنی جان گنوا بیٹھا۔‘‘
یہ واقعہ بتانے کے بعد وہاں ایک لمبی خاموشی چھا گئی۔ اسی خاموشی کے ساتھ ایک زوردار گرج کی آواز سنائی دی اور ممتحنہ ڈر کر اٹھ گئی۔
’’تم ٹھیک تو ہو؟‘‘ برہان اس کو ڈرتا دیکھ کر اس کے پاس گیا۔
’’ہمم!‘‘ وہ سہم گئی تھی۔بادشاہ اور ملکہ کی کہانی میں باقیوں کی طرح وہ بھی کہیں کھو گئی تھی۔
’’میں ٹھیک ہوں۔ ‘‘ بادشاہ اور ملکہ کی کہانی اتنی تلخ بھی نہ تھی۔اسے ہمیشہ سے بادل کے گرجنے کی آواز سے ڈر لگتا تھا۔
’’میرا خیال ہے بہت تیز بارش ہونے کو ہے، آپ لوگو ں کو چلے جانا چاہیے۔لیکچر کسی اور دن بھی لیا جا سکتا ہے۔‘‘ ممتحنہ کی موجود ہ حالت کو دیکھ کر برہان پریشان ہوگیا۔
تمام اسٹوڈنٹس کا لیکچر لینے کو بہت دل تھا، وہ بھی اس رومانی موسم میں۔ لیکن وہ صرف اور صرف برہان کے کہنے سے وہاں سے چلی گئیں۔
ممتحنہ نے انہیں بہت روکنا چاہا لیکن وہ مس فلورسٹ سے زیادہ برہان ندیم کی بات ماننے کی قائل تھیں۔ وہ اتنی بڑی شخصیت جو ٹھہری۔
’’تمہاری یہ حالت بادشاہ اور ملکہ والی کہانی کی وجہ سے ہوئی ہے یا بادل کے گرجنے سے؟‘‘
بادلوں کی گرج بتا رہی تھی کہ بارش کبھی بھی شروع ہو سکتی ہے۔
’’بادل گرجنے کی وجہ سے۔‘‘ وہ اب بھی اس مستقل سنائی دینے والی گرج چمک سے ڈر رہی تھی۔
’’لیکن کیوں؟‘‘اسے اچنبھا ہوا۔





’’جتنی خوشی مجھے بارش کے برسنے پر ہوتی ہے، اس سے کہیں زیادہ ڈر مجھے بارش سے پہلے سنائی دینے والی گرج چمک سے لگتا ہے۔‘‘و ہ آسمان کی جانب سر اٹھا کر دیکھنے لگی جو پوری طرح کالے بادلوں سے ڈھک چکا تھا۔
’’پتا نہیں مجھے ایسا لگتا ہے کہ یہ آواز محبت میں جدائی کی علامت ہے۔‘‘ اب وہ اس آواز پر غور کرنے لگی۔
’’ محبت میں جدائی کی علامت تو برسات بھی ہو سکتی ہے۔یہ ہمارے اوپر منحصر ہے کہ ہم کس چیز کو کس نظریے سے دیکھنا چاہتے ہیں۔ میں نے تو برسات میں بھی لوگوں کو محبت میں تڑپتا دیکھا ہے۔‘‘وہ اسے یہ سمجھانے کی کوشش کرنے لگا کہ وہ جو سوچ رہی ہے، وہ غلط ہے۔
’’ہمم! آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ ہم نے ہی اپنے ذہن اور دل کو محدود کر لیا ہے۔‘‘ جب شدید گرج چمک کے بعد بارش برسنے لگی، تب ممتحنہ کا یہ وہم بھی دور ہو گیا۔
بارش گرج چمک کے بنا ادھوری ہے، کچھ اس طرح جس طرح خوشی غم کے بنا ادھوری ہے۔ہمیں خوشی غم سے گزر جانے کے بعد ہی ملا کرتی ہے اور کوئی بھی غم برا نہیں ہوتا، یہ تو ذریعہ ہوتا ہے خوشی تک پہنچنے کا۔
’’اگر تمہاری اجازت ہو تو کیا میں تمہارے گھر والوں سے فون پر بات کر سکتا ہوں؟ ان سے اجازت بھی تو لینی ہے۔‘‘ اب تو قدرت بھی برسات میں محبت کا ساتھ دے رہی تھی۔شاید قدرت بھی یہی چاہتی تھی کہ یہ برسات کا موسم دو محبت کرنے والوں کے لیے یادگار بن جائے۔
’’السلام علیکم آنٹی! کیسی طبیعت ہے آپ کی؟میں برہان بات کر رہا ہوں۔ممتحنہ نے میرے بارے میں بتایا ہوگا آپ کو۔‘‘ برہان کے کہنے پر ممتحنہ نے گھر کے نمبر پر فون ملا کر برہان کے حوالے کر دیا۔ وہ حارث سے بات کرنا چاہتا تھا لیکن ممتحنہ نے یہ سوچ کر فون گھر پر ملا دیا کہ کہیں اس کے ابو آفس کی میٹنگ میں مصروف نہ ہوں۔
’’اسے مجھے تمہارے بارے میں بتانے کی کیا ضرورت؟تمہیں کون نہیں جانتا برہان۔ تمہارے سارے ڈرامے دیکھے ہیں میں نے،کیاکمال کی اداکاری…‘‘
برہان ندیم کی آواز سنتے ہی عنایہ بیگم ایک پل کیے لیے فراموش کر بیٹھیں کہ وہ اپنے ہونے والے داماد سے بات کر رہی ہیں۔
’’بہت شکریہ!بس آپ کی محبت ہے۔آنٹی میں نے یہ پوچھنے کے لیے فون کیا تھا کہ کیامیں ممتحنہ کو لے کر کہیں گھومنے جا سکتا ہوں؟ اگر آپ کی اور انکل کی اجازت ہو تو؟ ‘‘
’’ضرور ! کیوں نہیں۔ آج تو موسم بھی بہت خوش گوار ہے، ضرور جاوؑ تم دونوں۔‘‘برہان کے پوچھتے ہی عنایہ بیگم نے فوراً حامی بھرلی۔
’’آپ کا بہت شکریہ! ممتحنہ سے بات کیجیے۔‘‘عنایہ بیگم کا شکریہ ادا کرتے ہی برہان نے فون ممتحنہ کے حوالے کر دیا۔
’’خوب انجوائے کرنا۔ ایک دوسرے کو سمجھنے کی پوری کوشش کرنا کیوں کہ یہ تمہاری زندگی کا سوال ہے۔‘‘عنایہ بیگم اپنی سادہ سی بیٹی کو محبت کے قواعد و ضوابط سمجھانے لگیں۔
’’جی!… میں جلدی آجاوؑں گی گھر۔ اپنا اور ابو کا خیال رکھیے گا ،میں چلتی ہوں، خدا حافظ۔‘‘ اس نے فون بند کردیا۔
’’چلیں؟‘‘ اس نے جیسے ہی فون رکھ کر اپنا سر گھما کر دیکھا تو برہان نرسری کا دروازہ کھولے اسے چلنے کا اشارہ کر رہاتھا۔وہ بھیگ رہا تھا۔اس سے برہان کا اس طرح بھیگنا دیکھا نہ گیا اور وہ آفس سے چھتری لے کر باہر آ گئی۔اس نے صرف ایک ہی چھتری اٹھائی۔وہ سادہ ضرور تھی لیکن بے وقوف ہر گز نہیں۔ وہ دونوں ایک ہی چھتری کے نیچے تھے۔
’’بارش میں بھیگنے کا مزا ہی کچھ اور ہے،کیوں؟‘‘وہ دونوں برہان کی مرسڈیز کی جانب بڑھنے لگے۔
’’اس سے بھی کہیں زیادہ مزا، ایک ہی چھتری کے نیچے جب دو محبت کرنے والے سڑک پر چل رہے ہوں،تب آتاہے اور جو ٹپ ٹپ کی آواز چھتری پر پڑتی ہے تو وہ ماحول کو اور زیادہ رومانی بنادیتی ہے، ہے نا؟‘‘ اسے اپنے کہے جملے کہنے کے بعد اندازہ ہوا کہ اس نے غلط وقت پر وہ جملے استعمال کر لیے۔
’’ویسے وہ چھتری والی بات تم نے بجا کہی تھی۔کاش ہم سڑک پر اسی طرح چلتے رہتے۔‘‘ وہ دونوں گاڑی میں بیٹھے ہی تھے کہ برہان نے چھتری والی بات کو جاری رکھنے کی کوشش کی۔
’’ہم کہاں جا رہے ہیں؟‘‘ممتحنہ نے موضوع بدلنے کی کوشش کی۔
’’جب ذکر محبت کا شروع ہو جائے تو موضوع بدل کر اس احساس کی بے حرمتی نہیں کیا کرتے۔ خیر! ہم پہلے اچھے سے ریستوران پر کچھ اچھا سا کھائیں پئیں گے، پھر وہاں سمند ر کنارے رکھے پتھروں پر بیٹھ کر بہت ساری باتیں کریں گے۔ ایک دوسرے کو سمجھنے کی کوشش کریں گے۔ سنا ہے سمندر کنارے بیٹھ کر ہمارے لبوں کی زبان دل کی زبان بولنے لگتی ہے۔‘‘ برہان پہلے سے سب کچھ پلان کر کے آیا تھا۔
’’لگتا ہے پہلے سے سوچ کر آئے ہیں کہ کہاں کہاں لے کر جانا ہے مجھے۔‘‘وہ اپنے برابر ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے برہان کو دیکھنے لگی جو گاڑی اسٹارٹ کر چکا تھا۔
’’آج شاید تم نے پہلی مرتبہ بغیر ڈرے، بغیر سہمے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈالی ہیں۔محبت انسان کو طاقت دے دیتی ہے۔پہلے صرف سنا تھا ،تمہارا یہ رویہ دیکھنے کے بعد آج اس حقیقت کو خوشی خوشی قبول بھی کرلیا۔‘‘وہ بھی اس کی آنکھوں میں جھانکنے لگا۔
سڑک بھیگی تھی، بھیگے ان کے دل بھی تھے۔محبت کا سب سے اہم کام دلوں کا بھیگنا ہوتا ہے۔کبھی یہ آنسووؑں سے بھیگتی ہے اور کبھی محبت کی پہلی بارش کی طرح دل کو سیلا کر دیتی ہے۔
وہ دونوں دو دریا پر پہنچنے ہی والے تھے کہ خیابانِ اتحاد پر ایک نوعمر لڑکی ان کی گاڑی کے پاس آکر برہان کی طرف کھڑی ہو گئی۔اس کے ہاتھ میں تین سے چار چنبیلی کے گلدستے تھے۔
’’تیری جوڑی ہمیشہ سلامت رہے، خدا تجھے پیارے پیارے بچے نصیب کرے،تم دونوں کا دامن خوشیوں سے بھر دے۔بھائی یہ پھول لے کر اس غریب کی تھوڑی مدد کردے۔‘‘ وہ بھلے رٹے رٹائے جملے بول رہی تھی، اس کی معصومیت نے ممتحنہ کا دل جیت لیا۔اس سے پہلے کہ وہ اسے اپنے پاس سے کچھ پیسے دیتی، برہان اس نوعمر لڑکی سے گویا ہوا۔
’’یہ رکھ لو!‘‘اس کا اس غریب سے پھول لینے کا بالکل دل نہیں تھا، وہی پھول اس کی کمائی کا ذریعہ تھے لیکن اس نے ممتحنہ کو بھی پھول دینا تھا اور آگے جا کر شاید اسے راستے میں کہیں کوئی پھول کی دکان نہ ملتی۔ اس لیے اس نے ہزار روپے اس نوعمر لڑکی کے حوالے کر کے اس سے چنبیلی کا گلدستہ لے لیا اور اس کے سر پر شفقت سے ہاتھ رکھا۔ وہ نوعمر لڑکی ہزار روپے لے کر خوشی خوشی اپنی ماں کے پاس دوڑ گئی۔
’’تمہارے لیے ان پھولوں کی شاید اہمیت نہ ہوخود ایک فلورسٹ جو ہو۔ لیکن میری محبت سمجھ کر قبول کر لو۔’’وہ اسے چنبیلی کا گلدستہ پیش کرنے لگاجس کی سوندھی سوندھی خوشبو پوری گاڑی کو مہکا رہی تھی۔
’’محبت میں اہمیت پھولوں کی نہیں ہوتی،پھول دینے والے کی ہوتی ہے۔ آپ کی دی ہوئی محبت قبول ہے تو آپ کا دیا ہوا پھول کیوں نہیں؟‘‘ اپنی وفا کا یقین دلاتے ہوئے اس نے برہان کے محبت میں دیے گئے پھولوں کو قبول کر لیا۔
’’مجھے یہ پھول بہت پسند ہیں،جانتے ہیں اس کا نام؟‘‘ وہ گل دستے میں موجود ان پھولوں کو محسوس کرنے لگی جو اس کی نرسری کے پھولوں کی طرح تروتازہ تھے۔
’’چنبیلی، I guess۔پاکستا ن کا قومی پھول۔‘‘ برہان اس پھول کا نام جانتا تھا۔
’’جی بالکل! گلاب کے بعد سب سے اچھی خوشبووؑں والے پھولوں کی فہرست میں اس کا نام آتا ہے۔ اگر گلا ب کو کوئین آف ایسنس (queen of essence) کہا جاتا ہے تو اسے کنگ آف ایسنس(king of essence) کہا جاتا ہے۔‘‘وہ چند لمحوں کے وقفے سے چنبیلی کو سونگھے جا رہی تھی،بارش کے ساتھ ساتھ اسے بھی محسوس کر رہی تھی۔
’’اور کیا خاص بات ہے اس پھول میں؟‘‘ وہ اسے سننا چاہ رہا تھا۔ وہ اسے بولتی ہوئی بہت اچھی لگتی تھی۔
’’اس کی مہک سب سے زیادہ مقبول ہے،ادب میں بھی اور پرفیومز میں بھی۔ بھلے اسے کنگ آف ایسنس کہا جاتا ہے، مگر بناوٹ اور سادگی کی بنا پر اسے صنف ِ نازک سے بھی تشبیہ دی جاتی ہے۔‘‘بس اسے ہوا دینے کی دیر ہوتی،وہ پھولوں کے متعلق اپنا انسائیکلو پیڈیا کھولے ہمیشہ تیار ہو تی۔
’’ہمم! پھر تو یہ تمہیں دینے کے لیے بیسٹ ہیں۔سادہ اور خوب صورت،ویسے no doubt اس کی مہک بہت زبردست ہے۔‘‘وہ دونوں دو دریا پہنچ چکے تھے۔ سڑک کے ایک طرف سمندر کے ساتھ ساتھ قطار میں عالی شان اور خوب صورت ریستورانس بنے تھے۔ برہان اسے دو دریا کے سب سے مقبول ترین ریستوران کولاچی لے گیا۔
اور پھر وہی ہوا جس کا برہان کو ڈر تھا۔وہ گاڑی سے جیسے ہی اترا،برہان کے جاں نثاروں کا ایک بہت بڑا ہجوم اس کے پاس دوڑ کر آنے لگا۔
’’پھر سے حملہ ہو گیا۔کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ اپنے ساتھ ایک باڈی گارڈ رکھ لوں۔‘‘ وہ قہقہے مارنے لگا۔لوگو ں کا ہجوم اس کے قریب آنے لگا۔جیسے جیسے لوگ برہان کے قریب آنے لگے،ویسے ویسے ممتحنہ برہان سے دور جانے لگی۔
اس کی ایک عادت بہت اچھی تھی۔وہ لوگو ں کا دل کبھی نہیں دکھاتا۔فینز چاہے کتنی ہی سیلفیاں ،کتنے ہی آٹوگراف کیوں نہ لے لیں،وہ چاہ کر بھی انہیں منع نہیں کرپاتا۔
جیسے ہی ہجوم اس کے بالکل قریب آگیا،اس نے ممتحنہ کو خود سے تھوڑا دور پایا۔وہ دور کھڑی ہو کر اس کو دیکھ رہی تھی۔برہان نے بہت چاہا کہ وہ ممتحنہ کے پاس چلا جائے لیکن ہجوم ہی اتنا تھا۔اس کے آگے اس کے فینز کا گول دائرہ بن چکا تھا۔دو لڑکیاں تو ایسی تھیں کہ برہان کے ساتھ چپک چپک کر سیلفیاں لینے لگیں۔اب سے کچھ دیر پہلے تک ممتحنہ مطمئن تھی مگر جیسے ہی وہ دو لڑکیاں برہان سے چپکیں، اس کی آنکھوں سے دو بوند آنسو بے ساختہ بہ نکلے۔برہان کو بھی ان دو لڑکیوں کا اپنے آپ سے چپکنا کچھ اچھا نہیں لگا۔
’’آئی تھنک اب بہت سیلفیاں ہو گئیں، now please let me go!‘‘ اس نے ممتحنہ کو آنکھوں سے آنسو پونچھتا دیکھ لیا تھا۔




Loading

Read Previous

گھٹن — اعتزاز سلیم وصلی

Read Next

بس عشق ہو — کشاف اقبال (دوسرا اور آخری حصّہ)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!