بس عشق ہو — کشاف اقبال (حصّہ اوّل)

آرڈرز تیار ہو چکے تھے۔وہ زارا کے ساتھ انہیں پیک کرنے میں مصروف ہو گئی۔دوپہر کا ایک بج چکا تھا۔سورج کی تپش اپنے عروج پر تھی۔ممتحنہ کی گل پروری کی کلاس کا وقت بھی شروع ہونے والا تھا۔وہ اپنی کلاسز نرسری میں ہی لیا کرتی۔
’’زارا آرڈرز تو سارے پیک ہو چکے ہیں، تم اسے کمپنی کی سوزوکی میں رکھوا دو۔ میں ڈرائیور کو فون کر دیتی ہوں، وہ جب آ جائے تو تم اس کے ساتھ جا کر سب کلائنٹس کے آرڈرز پہنچا دینا۔ اس صفحے پر پتے اور باقی تمام ضروری تفصیلات لکھی ہیں،آج میں تمہارے ساتھ نہیں جا سکوں گی۔ آج میری کلاس ہے،پلیز تم اکیلی چلی جانا۔‘‘ تمام کنٹینرز پیک کرنے کے بعد ممتحنہ نے زارا کے ہاتھ ایک صفحہ تھما دیا جس پر تمام کلائنٹس کے ایڈریس لکھے تھے۔
’’تم فکر مت کرو، میں چلی جاؤں گی۔ تم اپنی کلاس کی تیاری کرو،تمہارے اسٹوڈنٹس بس آتے ہی ہوں گے۔ میں چلتی ہوں، خدا حافظ۔‘‘زارا نے ممتحنہ کی درخواست قبول کر لی اور ڈرائیور کے ہم راہ کلائنٹس کے آرڈرز پہنچانے چلی گئی۔
آج اسے گل ِ لہمی کے متعلق لیکچر دینا تھا، اس نے اپنا کمپیوٹر آن کیا اور انٹرنیٹ پر گل لہمی کے متعلق تھوڑی بہت معلومات حاصل کیں۔ زیادہ باتیں تو وہ جانتی ہی تھی لیکن لیکچر دینے سے پہلے وہ تھوڑی بہت نظرِثانی کر لیا کرتی تھی۔
وہ ایک لیکچر میں ایک ہی پھول کے متعلق معلومات فراہم کرتی اور جس مخصوص پھول کی وہ علمی لیاقت بیان کر تی، اس پھول کے رنگ کے کپڑے زیب تن کر لیا کرتی۔آج گل ِ لہمی کا دن تھا تو اس نے جامنی رنگ کی ٹخنوں تک آتی فراک پہن لی۔فراک کی باڈی کا رنگ پیلا تھا اور اُس پر سلور رنگ کے موتیوں کا کام ہوا تھا۔
اپنے لمبے، گھنے، کمر تک آتے بال اس نے کھول لیے جو قدرتی طور پر بالکل سیدھے لگتے۔ یوں لگتا جیسے اسٹرکنگ کروائی ہو بالوں کی۔ اپنی آنکھوں میں وہ ہمیشہ کاجل لگاتی ،پلکیں اس کی ویسے ہی گھنی تھیں۔ہلکی جامنی لپ اسٹک لگانے کے بعد اس نے بالوں میں ہمیشہ کی طرح پھول لگا لیا۔ آج اس نے گل ِ لہمی کا انتخاب کیا تھا۔
اب وہ نرسری کے اس حصے کی طرف آ گئی جہاں و ہ اپنی کلاسز لیا کرتی۔ جس روز جس مخصوص پھول کی کلاس ہوتی، وہ اس حصے کو پو ری طرح اس پھول کے گملوں سے سجا دیتی۔آج اس نے حصے کو جامنی بنا دیا تھا، گل لہمی سے۔





نیلے امبر پر کالے بادل آنا شروع ہو گئے اور شدید گرمی کی تپش کے بعد موسم نے یوں انگڑائی لی کہ آسمان سے بارش برسنا شروع ہو گئی،تیز بارش۔ کچھ تھا آج کی بارش میں، آج کچھ تو نیا ہونے والا تھا، کچھ بہت بڑا۔
اسٹوڈنٹس آ چکے تھے۔اس اچانک ہونے والی تیز بارش کا کسی کو علم نہیں تھا اس لیے وہ ساتھ چھتریاں نہیں لا سکے تھے۔ممتحنہ نے سب سے پہلے ان کو چھتریاں فراہم کیں۔اس نے اپنا ہینڈی کیم ایسی جگہ سیٹ کیا جہاں بارش کی بوندیں نہ پہنچ سکیں اور وہ مرکزی کرسی پر جا کر بیٹھ گئی۔وہ اپنے تمام لیکچرز یو ٹیوب پر اپ لوڈ کیا کرتی۔اس کے لیکچرز لوگ یوٹیوب پر بھی شوق سے دیکھتے تھے۔
’’السلام علیکم دوستو! آج تو لیکچر کا بہت مزا آنے والا ہے،بارش کا جو موسم ہے ۔آج جو پھول ہماری اس محفل کی زینت بننے جا رہا ہے وہ آپ کے آس پاس سانسیں لے رہا ہے۔ کیا کوئی نام جانتا ہے اس پھول کا جو آپ کو چاروں طرف نظر آ رہا ہے؟‘‘ اپنے لیکچر کی ابتدا اس نے ہمیشہ کی طرح سوال سے کی جو وہ ہر لیکچر میں کیا کرتی تھی۔پھول کے نام کا سوال، مگر وہاں موجود کسی بھی اسٹوڈنٹ کو پھول کا نام نہیں آتا تھا۔
’’چلیں کوئی بات نہیں، میں بتاتی ہو ں۔ اس پھول کا نام ہے گل لہمی،جسے انگریزی میں کارنیشنز (carnations) کہتے ہیں۔‘‘اس نے اپنے بالوں میں لگے گل لہمی کو نکالتے ہوئے کہا۔
’’ یہ پھول دیکھا تو سب نے ہی ہوگا ‘‘ اور اس نے سوال پوچھنے کے بعد تمام اسٹوڈنٹس کو پودوں میں سے ایک ایک گل لہمی توڑنے کا اشارہ کیا۔
’’ یونانی اس پھول کو نعوذ باللہ خدا کا پھول کہتے ہیں۔اس کا بائیولوجیکل نام ڈائنتھس (dianthus) ہے۔ڈائنتھس دو لفظوں کو ملا کر بنا ہے ’ڈائنوز‘ یعنی خدا اور اور’ اینتھوس‘ یعنی پھول۔ مجھے یہ بات نہیں کرنی چاہیے تھی لیکن میں چاہتی تھی کہ آپ کو اس پھول کی تمام معلومات پتا ہو۔‘‘تمام اسٹوڈنٹس ممتحنہ کی مہیا کردہ معلومات کو اپنے اپنے رجسٹر پر لکھنے اور اس پھول کو جو ان کے ہاتھوں میں تھا، متاثر کن نظروں سے دیکھنے لگے۔
’’اس پھول کی بہت اہمیت ہے۔اگر آپ لوگوں کا کبھی باہر کے ملک جانا ہوا ہے تو یہ دیکھا ہوگا کہ وہاں پھولوں کو کتنی عزت دی جاتی ہے،مگر یہاں ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔یہاں تو لوگوں کو پھولوں کے نام تک یاد نہیں ہوتے۔خیر! میں یہ بتا رہی تھی کہ گل لہمی کو اس حساب سے بھی خاص اہمیت حاصل ہے کہ یہ مختلف رنگوں میں نظر آتے ہیں اور ہر رنگ کے گل لہمی کا اپنا مطلب ہے،اپنی پہچان ہے۔‘‘ اسٹوڈنٹس کے اندر تجسس بڑھنے لگا۔
’’سب سے زیادہ عام اور سب سے زیادہ تعداد میں پایا جانے والا گل لہمی آپ کے ہاتھوں میں ہے،جامنی اس کا اصل رنگ ہے اور جامنی رنگ کا گل لہمی ایک عورت کی محبت کو ظاہر کرتا ہے۔ پھر آتے ہیں گلابی رنگ کے گل لہمی پر۔ گلابی رنگ کا گل لہمی ایک ماں کی محبت کی علامت ہے۔ ‘‘ وہ اپنے برابر رکھی چھوٹی سی بالٹی سے گلابی رنگ کا گل لہمی نکالنے لگی۔
’’اب آتا ہے سرخ رنگ کا گل لہمی۔ یہ گہرے سُرخ رنگ کا گل لہمی گہری محبت کو ظاہر کرتا ہے۔آپ لوگوں کے کام کا پھول ہے یہ۔ ‘‘وہ سرخ رنگ کا گل لہمی بالٹی سے نکالتے ہوئے مسکرانے لگی اور سب قہقہے مارنے لگے۔بارش ابھی نہیں تھمی تھی۔اس نے پھول دکھانے کے لیے اپنی چھتری تھوڑی دیر کے لیے ہٹائی ہی تھی کہ اس کے بال گیلے ہونا شروع ہو گئے اور بالوں کے ساتھ ساتھ چہرہ اور کپڑے بھی۔
’’اب آتے ہیں سفید رنگ کے گل لہمی پر اور سفید رنگ کا یہ گل لہمی خالص اور بے غرض محبت کے احساس کی علامت ہے۔ اس سفید رنگ کے گل لہمی کو ہم ’’گُڈ لُک‘‘ کہنے کے لیے بھی استعمال کر سکتے ہیں۔‘‘وہ سفید گل لہمی جتنا سادہ تھا، اتنا ہی حسین بھی تھا، بالکل ممتحنہ کی طرح۔
اتنے میں زارا بھی تھکی ہاری نرسری پہنچ گئی اور تمام اسٹوڈنٹس کے ساتھ آ کر بیٹھ گئی۔پھولوں کے متعلق جو معلومات ممتحنہ دیا کرتی تھی،وہ اسے بہت دل چسپ لگتیں۔
’’ اب باری ہے پیلے رنگ کے گل لہمی کی اور یہ پیلے رنگ کا گل لہمی مایوسی یا پس ماندگی کے احساس کو ظاہر کرتا ہے۔ ‘‘ وہ اس بالٹی سے آخری گل لہمی، جو پیلے رنگ کا تھا، نکالنے لگی۔
’’اب ہم آتے ہیں اس کے شجر زار اور دیکھ بھال کی طرف۔ گل لہمی کو دن میں کم از کم چار سے پانچ گھنٹے سورج کی روشنی چاہیے ہوتی ہے۔انہیں ہمیشہ نم رکھنا ہوتا ہے پر ضرورت سے زیادہ پانی بھی نہیں دینا چاہیے ورنہ اس کے پتے پیلے پڑ جاتے ہیں اور اسے نقصان پہنچتا ہے۔کوشش یہی کی جائے کہ سورج کی روشنی کا گل لہمی کے پتوں کے ساتھ ڈائریکٹ کانٹیکٹ نہ ہو اور جب گل لہمی اپنی پوری جوانی پر آ جائے یعنی پوری طرح کھل جائے تو اس کی پر افشانی کرتے وقت اس کی جڑ سے کچھ فاصلہ چھوڑ کر اس کی شاخ کو توڑیں، یاد رہے فاصلہ جڑ سے تھوڑا زیادہ ہو۔‘‘اس کی باتیں سب ایسے غور سے سننے لگے جیسے اپنے گھر جاتے ہی گل لہمی کا پودا اگانے والے ہوں۔
’’اب باری آتی ہے گل لہمی کو ترتیب دینے کی کہ جب ہم اسے سجاوٹ میں استعمال کر رہے ہوں یا کنٹینر میں یا پھر گل دستے میں لگا رہے ہوں تو کس طرح لگائیں گے۔ کن پھولوں کے ساتھ لگائیں گے، کیا کنٹراسٹ رکھیں گے، تو میں یہ بتاتی چلوں کہ فلورل ارینجمنٹ کی باقاعدہ الگ سے کلاسز ہوا کریں گی کیوں کہ یہ ایک بالکل الگ موضوع ہے۔‘‘یہ وہی موضوع تھا جسے پڑھنے میں اس نے دو سال لگا دیے، تو دو گھنٹوں میں کیسے سمجھا دیتی سب کو اور وہ بھی ایسے اسٹوڈنٹس کو جنہیں کچھ ہی دیر پہلے علم ہوا تھا کہ گل لہمی بھی کوئی پھول ہے اور جس پھول کی احساسات کے ساتھ اس حد تک وابستگی ہے۔
’’اچھا اب مجھے یہ بتائیں کہ اگر آپ نے اپنی محبت کو گل لہمی دینا ہو تو کون سے رنگ کا انتخاب کریں گی؟‘‘ لیکچر ختم ہو چکا تھا، وہ چیک کرنے لگی کہ اسٹوڈنٹس نے کیا کچھ سیکھا۔
’’جامنی،سرخ یا سفید گل لہمی۔‘‘ سب ایک لہر میں بولے۔
’’مس فلورسٹ! اگر آپ کو موقع ملے کہ آپ جامنی،سرخ یا سفید گل لہمی کسی کو دیں، تو وہ کون سا شخص ہو گا جسے آپ اس پھول سے نوازیں گی؟ـ‘‘ ایک اسٹوڈنٹ نے دوستانہ لب و لہجے میں ممتحنہ سے سوال کیا۔
’’ویسے تو کوئی ایسا شخص نہیں جس سے مجھے محبت ہوئی ہو پر مجھے پاکستانی اداکار برہان ندیم اچھے لگتے ہیں ۔ ان سے کبھی ملاقات ہوئی تو گہرے سرخ رنگ کا گل لہمی انہیں ضرور دوں گی اور اس پھول کا گلدستہ میں خود اپنے ہاتھوں سے سجاؤں گی۔‘‘ بارش ختم ہو چکی تھی اور اس کے ساتھ ساتھ لیکچر بھی۔ممتحنہ نے زارا سے ہینڈی کیم میں ریکارڈ کی گئی ویڈیو یو ٹیوب پر اپ لوڈ کرنے کا کہا اور کچن میں کچھ کھانے پینے کے انتظامات دیکھنے چلی گئی۔
’’تمہاری ویڈیو میں نے یو ٹیوب چینل پر ا پ لوڈ کر دی ہے۔‘‘ زارا نے اسے آ کر بتایا،وہ دونوں آفس میں کھانا کھانے بیٹھ گئیں۔
’’شام ہو گئی ہے۔ میلز چیک کر لو، پھر گھر چلیں گے۔‘‘ممتحنہ نے اپنے بالوں کا جوڑا باندھتے ہوئے کہا جو اب سوکھ گئے تھے۔
’’ممتحنہ! ہم نے جو کل مرتضیٰ حسیب کی فلم کی پارٹی کی ارینجمنٹ کی تھی اور اس ارینجمنٹ کی جو ویڈیو یو ٹیوب پر اپ لوڈ کی تھی، اسے ایک ہی دن میں پندرہ ہزار ویوز مل چکے ہیں۔ اور تو اور خود مرتضیٰ حسیب نے کل یہ ویڈیو فیس بک پر شیئر کی۔ہم مشہور ہو گئے ہیں ممتحنہ۔‘‘زارا کمپنی کے یو ٹیوب چینل پر اب تک کی تمام اپ لوڈ ڈ ویڈیوز کے ویوز اور شیئرز دیکھ کر حیران رہ گئی۔
’’ ابھی کہاں مشہور ہوئے ہیں؟ ابھی تو مجھے بہت کچھ کرنا ہے۔ یہ تو صرف ابتدا ہے، مجھے اس شعبے میں بہت آگے جانا ہے۔‘‘ وہ اپنے خواب کو لے کر ایک بار پھر سنجیدہ ہو گئی۔
’’تمہارے اندر ہنر بہت ہے ممتحنہ، تم ضرور آگے جاؤ گی اور جب میرے جیسی دوست تمہارے ساتھ ہو پھر تو تمہارا آگے جانا بنتا ہی ہے،کیوں؟ ‘‘ زارا کا ہنسی مذاق پھر شروع ہو گیا ۔ کھانا کھانے کے بعد دونوں نے میلز چیک کیں اور پھرنرسری بند کرنے کے بعد اپنے اپنے گھر چلی گئیں۔
٭…٭…٭
حیال اپنی کولیگ سے ملنے اس کے گھر آئی ہوئی تھی۔ وہ اپنی ہر ذاتی بات، اپنا ہر مسئلہ اس کے ساتھ ڈسکس کیا کرتی تھی۔ اس بار وہ اپنا ایک اہم مسئلہ اس کے پاس لے کر آئی تھی۔
’’تزین! تمہیں کیا لگتا ہے کہ کیا وہ وقت آئے گا جب وہ مجھے پرپوز کرے گا؟ تمہیں پتا ہے جب ہم’’ میں درد اور تم‘‘ کا آخری سین شوٹ کر رہے تھے تب وہ مجھے پرپوز کر رہا تھا اور کچھ لمحے کے لیے مجھے ایسا لگا کہ وہ واقعی مجھے پرپوز کر رہا ہے، مگروہ صرف اداکاری تھی۔ ڈائریکٹر نے’کٹ‘ بولا اور سب کچھ پل بھر میں ختم ہو گیا۔ پھر میں حقیقت کی دنیا میں آگئی۔ تم بتاؤ نا مجھے،کیا وہ مجھے کبھی پرپوز کرے گا؟ دل سے؟ ‘‘ برہان کے لیے اس کے دل میں جو محبت تھی، وہ بڑھے جا رہی تھی اور جیسے جیسے محبت کی شدت بڑھتی جا رہی تھی، ویسے ویسے انتظار کی تڑپ بھی بڑھتی جار ہی تھی۔وہ مزید انتظار کرنا نہیں چاہتی تھی لیکن اظہار کرنے میں پہل بھی نہیں کرنا چاہتی تھی۔
’’پہلے تم مجھے یہ بتاؤ کہ کیا وہ تم سے محبت کرتا ہے؟ تم کتنی شیور ہو کہ وہ تم سے صحیح معنوں میں محبت کرتا ہے؟ ‘‘ تزین نے اس سوال کے جواب میں ایک اور سوال پوچھ لیا۔
’’میں نائنٹی نائن پرسنٹ شیور ہوں کہ وہ مجھ سے محبت کرتا ہے۔ وہ میری بہت تعریفیں کرتا ہے، جب میں اس کے ساتھ ہوتی ہوں تو وہ مجھے بہت محفوظ کرتا ہے۔ مجھے مہنگے مہنگے تحفے تحائف دیتا ہے اور میرا حد سے زیادہ خیال کرتا ہے۔‘‘ جیسے جیسے وہ برہان کے بارے میں بتا رہی تھی، ویسے ویسے اس کی آنکھوں کے سامنے ان تمام لمحات کی تصاویر بننا شروع ہو گئیں جو اس نے برہان کے ساتھ گزارے تھے۔
’’تم پرانی ایکٹرس ہو، حد سے زیادہ مقبول ہو،تمہاری تعریف کرنا تو پھر اس پر فرض ہو گیا اور رہی بات خیا ل کرنے کی، تحفے تحائف دینے کی تو یہ سب وہ صرف اپنے لیے کرتا ہے تا کہ تم اس کے ساتھ کام کرتی رہو اور اس طرح وہ اپنا ڈراما بلاک بسٹر بنا لے …سمجھیں؟‘‘
’’شٹ اپ! ایسا ہرگز نہیں ہے۔تم وہاں ہمارے ساتھ تھوڑی ہوتی ہو تب ہی اس طرح کہہ رہی ہو۔ٹرسٹ می! اگر تم وہاں میرے ساتھ ہوتیں تب تم بھی یہی کہتیں کہ ہاں حیال! وہ تم میں واقعی دل چسپی لیتا ہے، تم سے محبت کرتا ہے ۔‘‘اس نے برہان کے متعلق تزین کے منہ سے جیسے ہی یہ سب سنا، وہ رہ نہ پائی۔
’’اگر محبت کرتا نا، تو اب تک اظہار بھی کر دیتا۔ نو ڈرامے تمہارے ساتھ کر چکا ہے اور دسویں ڈرامے کا شوٹ بھی مکمل ہو گیا ہے۔اتنا عرصہ تم دونوں نے ساتھ گزار لیا اور ابھی تک اظہار ہی نہیں ہوا؟ یہ بات کچھ انوکھی سی لگتی ہے۔ پلیز ڈونٹ مائنڈ۔‘‘ تزین ٹھہری بے لاگ، اس نے کھرے الفاظ میں وہ سب کچھ کہہ دیا جو اسے نظر آ رہا تھا۔
تزین کی باتوں نے اسے مایوس کردیا تھا۔ لیکن اگر اس کو یہ وہم تھا کہ وہ اس سے محبت کرتا ہے تو کوئی نہ کوئی تو وجہ ہو گی اس وہم کے پیچھے، کچھ تو سچ ہو گا۔
’’اُداس مت ہو، ہو سکتا ہے میں غلط ہوں۔ تمہیں زیادہ علم ہوگا اس بارے میں لیکن مجھے تو تمہاری باتوں سے ایسا ہی لگا کہ وہ صرف تمہیں کام یابی کی طرف جانے والی سیڑھی سمجھ رہا ہے۔‘‘ کوئی فائدہ نہیں تھا تزین کے ساتھ اپنا ذاتی معاملہ شیئر کرنے کا۔وہ وہاں سے اٹھ کر جانے ہی لگی کہ تزین نے اسے روک لیا۔
’’میں تمہارے احساسات کی عزت کرتی ہوں ڈئیر! اس لیے تمہیں ایک مشورہ دیتی ہوں۔ اگر تم واقعی اس مرحلے پر آگئی ہوکہ تم اس کا اظہار سنے بغیر نہیں رہ سکتیں تو تمہارے پاس صرف ایک ہی راستہ ہے، تم اس سے اپنی محبت کا اظہار کر دو یا اس سے خود یہ پوچھ لو کہ کیا وہ تم سے محبت کرتا ہے؟تمہیں تمہارا جواب مل جائے گااور یقین مانو انتظار کرنے سے بہت بہتر ہے یہ حل جو میں نے تمہیں بتایا ہے۔‘‘
’’ہمم !‘‘ وہ سوچ میں پڑ گئی۔اس کو لگا کہ تزین ٹھیک کہہ رہی ہے۔ وہ خود برہان سے اظہار محبت کرنے سے رہی۔ یہ اس کی انا کے جو خلاف ہے۔ لیکن اس سے پوچھ ضرور سکتی ہے کہ آیا وہ اس سے محبت کرتا ہے یا نہیں؟
’’تمہارا بہت شکریہ! میں تمہارے بتائے ہوئے مشورے کے بارے میں ضرور سوچوں گی۔ اب میں چلتی ہوں، خدا حافظ!‘‘ ایک عرصہ گزر گیا تھا اس کا برہان کے ساتھ لیکن ابھی تک اس کے حق میں کچھ بہتر نہ ہوا۔ تزین کے دیے گئے مشورے پر عمل کرنے کے علاوہ اب اس کے پاس کوئی اور چارہ نہیں تھا۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

گھٹن — اعتزاز سلیم وصلی

Read Next

بس عشق ہو — کشاف اقبال (دوسرا اور آخری حصّہ)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!