بس عشق ہو — کشاف اقبال (حصّہ اوّل)

وہ گھر پہنچتے ہی اپنے کمرے میں چلا گیا۔وہ گلدستہ ابھی تک اس کے ہاتھ میں تھا۔ اس نے کمرے میں جاتے ہی اپنا لیپ ٹاپ کھولا اور یو ٹیوب اور گوگل پر جا کر سرچ باکس میں carnations لکھا۔ گوگل پر تو بہت سارے لنکس مل گئے،پر وہ کچھ پڑھنے کے موڈ میں بالکل نہیں تھا۔اسکرپٹس پڑھ پڑھ کر وہ ویسے ہی بہت بے زار ہو چکا تھا۔ اس لیے اس نے یو ٹیوب ویڈیوز کا انتخاب کیا اور سب سے پہلا ویڈیو لنک آج ہی کے دن تھا۔اس ویڈیو کا موضوع تھا :
’’ Introduction to carnations By Mumtahna`z‘‘۔ اس نے مزیدکچھ سوچے بغیر اس ویڈیو پر کلک کیا اور ویڈیو چلنا شروع ہو گئی۔
ایک خوب صورت، نازک سی لڑکی، دنیا جہان کی سادگی سمیٹے اس ویڈیو میں آ گئی۔ لمبے گھنے بال،بڑی بڑی آنکھیں اور قدرتی حسن سے مالا مال۔ وہ ایک لمحے کے اندر اندر ہی برہان کے اندر تک رسائی دے چکی تھی۔
’’السلام علیکم دوستو! آج تو بہت مزا آنے والا ہے لیکچر کا، بارش کا موسم جو ہے۔ آج جو پھول ہماری اس محفل کی زینت بننے جا رہا ہے، وہ آپ کے آس پاس سانسیں لے رہا ہے۔ کیا کوئی نام جانتا ہے اس پھول کا جو آپ کو اپنے آس پاس نظر آ رہا ہے؟‘‘وہ اس ویڈیو کو بہت غور سے دیکھنے لگا ۔نہیں! وہ اس ویڈیو کو نہیں ،ویڈیو میں موجود اس لڑکی کو دیکھنے لگا جس کی سادگی نے اس کے دل میں گھر نہیں، تاج محل تعمیر کر لیا تھا۔
’’ میں جانتا ہوں اس پھو ل کا نام، کارنیشنز کہتے ہیں اسے۔ ہے نا؟‘‘ اس نے ایک نظر سامنے پڑے اس گلدستے پر ڈالی ، پھر ویڈیو میں موجود اس لڑکی کے ساتھ گفت گو کرنا شروع ہو گیا جیسے و ہ اس کے سامنے حاضر ہو۔
’’ یہ پھول دیکھے توسب ہی نے ہوں گے؟‘‘
’’تمہارے جیسا پھول میں نے کبھی نہیں دیکھا ۔ ان پھولوں کی محفل میں تم خود قوس ِ قزح کے سارے رنگ اوڑھے ہوئے ہو، تمہیں اندازہ بھی ہے کہ تم کتنی حسین ہو؟ ‘‘ وہ تو اس سے اس طرح بات کر رہا تھا جیسے وہ لڑکی صرف اسی سے مخاطب ہو ۔
’’ سب سے زیادہ عام اور سب سے زیادہ تعدا د میں پایا جانے والا گل ِ لہمی آپ کے ہاتھوں میں ہے، جامنی اس کا اصل رنگ ہے اور جامنی رنگ کا گل لہمی ایک عورت کی محبت کو ظاہر کرتا ہے۔ ‘‘ اس نے ویڈیو کو pause کیا۔ اور اب وہ گلدستے کو دیکھنے لگا جس میں موجود گل لہمی کا رنگ جامنی تھا۔
’’ مطلب وہ لڑکی مجھ سے محبت کرتی ہے جس نے مجھے یہ گلدستہ دیا ؟‘‘ وہ ہنسنے لگا۔ وہ ہر لڑکی کو خود پر فدا ہوتا دیکھ کر تھک چکا تھا۔
اس نے ویڈیو دوبار ہ سے پلے کی ۔ اب وہ لڑکی بھیگنا شروع ہو گئی تھی اور جب برسات کا پانی اس کے رخسار پر پڑا تو وہ اور زیادہ نکھر گئی۔قدرتی خوب صورتی کا سنگار صرف قدرت ہی ہوتی ہے اور اس لڑکی کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی حساب تھا۔قدرت کے اس جیتے جاگتے مجسمے کو بارش کی بوندوں نے اور زیادہ حسین بنا دیا تھا۔
اسے پھولوں میں ذرا دل چسپی نہیں تھی پر وہ پھر بھی اس ویڈیو سے اپنی نگاہیں ہٹا نہیں پا رہا تھا۔ وہ دنیا کی پہلی لڑکی تھی جس نے برہان کو متاثر بلکہ بے حد متاثر کیا تھا کچھ اتنا کہ اپنے حصار میں ہی باندھ لیا ۔





’’اچھا اب مجھے یہ بتائیں کہ اگر آپ نے اپنی محبت کو گل لہمی دینا ہو تو کون سے رنگ کا انتخاب کریں گی؟‘‘ چلتے چلتے ویڈیو اپنے اختتام کو آن پہنچی تھی۔
’’ پھولوں کی جنت میں اگر ہم مزید ایک گلاب کا پھول رکھ بھی دیں تو اس جنت کی خوب صورتی میں اضافہ ہوتا ہے نہ ہی کمی ہوتی ہے۔ تم تو خود ایک پھول ہو، ایک نازک سا پھول جسے کبھی کسی نے توڑنے کی جرأت بھی نہ کی ہو ۔ تمہیں اگر میں سرخ گل لہمی دے بھی دوں تو تمہاری خوب صورتی میں کوئی اضافہ ہوگا اور نہ ہی کوئی کمی واقع ہوگی۔ پھولوں کی جنت کی طرح ہو تم جسے مزید کسی پھول کی ضرورت نہیں ہے۔ ‘‘
’’ مس فلورسٹ ! آپ کو اگر موقع ملے کہ آپ جامنی ، سرخ یا سفید گل لہمی کسی کو دیں، تو وہ کون سا شخص ہوگا جسے آپ اس پھول سے نوازیں گی؟‘‘
’’کیا وہ خوش قسمت انسان میں نہیں ہو سکتا مس فلورسٹ؟ ‘‘ اس نے منہ بسورتے ہو ئے کہا۔ اس کو کیا پتہ تھا کہ کچھ ہی لمحے بعد اسے ’’ہارٹ اٹیک‘‘ ہونے والا ہے۔
’’ ویسے تو کوئی ایسا شخص نہیں جس سے مجھے محبت ہوئی ہو لیکن مجھے پاکستانی اداکار برہان ندیم اچھے لگتے ہیں۔ ان سے کبھی ملاقات ہوئی تو گہرے سرخ رنگ کا گل لہمی انہیں ضرور دوں گی اور اس پھول کا گل دستہ میں خود اپنے ہاتھوں سے سجاؤں گی۔‘‘
برہان کے گمان میں بھی یہ حقیقت نہ تھی کہ وہ فلورسٹ اس کا نام لے گی۔ اس کی سانسیں رکنے ہی والی تھیں کہ اس نے خود کو سنبھالا، پانی پیااور وہ جملے ویڈیو میں ری وائنڈ کرکے دوبارہ سنے۔ ہو سکتا ہے اس نے صرف اپنے دل کی آواز سنی ہو، ویڈیو کی نہیں۔
’’لیکن مجھے پاکستانی اداکار برہان ندیم اچھے لگتے ہیں۔ ان سے کبھی…‘‘ اس نے کچھ غلط نہیں سنا تھا۔ سب کچھ حقیقت تھا۔وہ تو جیسے دیوانہ ہی ہو گیا۔
’’ میں نے آج تک اللہ سے جو بھی مانگا مجھے مل گیالیکن میری قسمت مجھ پر اتنی مہربان ہو جائے گی کہ اس جیسی لڑکی مجھے پسند کر ے گی ،کبھی نہیں سوچاتھا۔I am so blessed‘‘ وہ حواس باختہ ہو کر ان جامنی گل لہمی کو چومنے لگا جو اس گلدستے میں سجے تھے۔
’’ یہ سب صرف تمہاری وجہ سے ممکن ہوا ہے ڈئیر کارنیشنز۔‘‘وہ ان پھولوں سے باتیں کرنے لگا۔ ان کا شکر یہ ادا کرنے لگا۔ اب اگر کچھ باقی تھا، تو اس سے ملنا اور اس سے اپنی محبت کا اظہار کرنا۔
’’اب شروع ہوگی ہماری محبت کی داستان مس فلورسٹ۔‘‘ محبت نے اچانک دستک دے دی تھی۔ دل تو چین کی نیند سو رہا تھالیکن اب اسے چین تو اپنے چین کو بے چین ہوتا دیکھ کر ملنا تھا۔
٭…٭…٭
شام کے وقت جب وہ تھک ہار کر اپنے گھر آئی تو ہمیشہ کی طرح عنایہ بیگم کے منہ پر ایک ہی جملہ تھا۔
’’ آ گئیں پودوں کے ساتھ اپنا وقت برباد کر کے؟ تمہارے ابو کو تمہیں امریکا جا کر گل کاری کا کورس کرنے کی اجازت ہی نہیں دینی چاہیے تھی۔تم نے تو اپنی زندگی کو بس ان پھولوں تک ہی محدود کر لیا ہے۔ پتا نہیں کون سا نرالا شوق پال لیا ہے۔ ‘‘ وہ اپنی امی کے جملوں کو نظر انداز کرنے لگی۔اسے عادت ہو گئی تھی روز ان کے منہ سے اپنے شوق کے خلاف باتیں سننے کی۔
’’حارث سے کہہ کر تمہاری شادی کروانی پڑے گی، تب جا کر کہیں تمہارا یہ شوق ختم ہو گا۔ خود کو پوری طرح سے ہلکان کر لیا ہے تم ۔ جب زندگی میں شوہر آ جائے گا ، تب اس شوق کو تمہاری زندگی سے الوادع ہو نا ہو گا ۔ سمجھیں مس فلورسٹ؟ ‘‘ اپنے جملوں کو نظرانداز ہوتا ان سے دیکھا نہیں گیا جو عنایہ بیگم نے شادی کا موضوع چھیڑ دیا۔
’’چھوڑ دوں گی ایسے شوہر کو جو مجھے اپنی سوکن کے ساتھ قبول نہیں کرے گا۔ ‘‘وہ سیڑھیوں کی جانب بڑھنے لگی۔
’’کون سوکن؟ ‘‘ و ہ جواب تک باورچی خانے میں رات کے کھانے کا بندوبست کر رہی تھیں، باورچی خانے سے باہر آ کر بولیں۔
’’میرے شوہر کی سوکن میرے پھول ہوں گے اور کون؟‘‘ اپنی امی کو تنگ کرتی وہ سیڑھیاں چڑھ کر اپنے کمرے میں جانے لگی۔
’’عجیب لڑکی ہے یہ … ‘‘ اپنے سر پر ہاتھ مار تیں عنایہ بیگم نیم مسکراہٹ لیے باورچی خانے میں واپس آ گئیں۔
نہانے کے بعد جب وہ لاؤنج میں آئی تو عنایہ بیگم نے اس کے لیے ہمیشہ کی طرح شام کا ناشتہ تیار کر رکھا تھا۔آٹھ بجنے میں صرف پانچ منٹ باقی تھے۔ اس کے ابو بھی آفس سے گھر تشریف لانے ہی والے تھے۔وہ ٹی وی آن کرکے پلیٹ میں سے ایک سموسہ اٹھا کر ریمولٹ لیے بیٹھ گئی۔
’’آج کون سا ڈراما آنے والا ہے آپ کے پسندیدہ اداکار برہان ندیم کا؟‘‘ عنایہ بیگم کو کچن سے فرصت ملی تو وہ بھی اپنی بیٹی کے ہم راہ بیٹھ کر ٹی وی دیکھنے لگیں۔
’’آپ کو پتا تو ہے ،جمعرات کے دن ’تم میرے ہو کے رہو‘ آتا ہے برہان ندیم اور حیال طاہر کا۔‘‘
’’یہ حیال بڑی ہی کوئی چالاک اداکارہ معلوم ہوتی ہے۔مجھے تو لگتا ہے کہ اس کا اور برہان ندیم کا کوئی نہ کوئی چکر ضرور چل رہا ہے۔ہر ڈراما وہ برہان ندیم کے ساتھ کرتی ہے۔اب خود بتاؤ برہان اتنا کوئی مقبول نہیں ہوا کہ حیال جیسی کلاسک اداکارہ اس کے ساتھ ہر ڈرامے میں کام کرے ۔ ‘‘وہ بھی بیٹی کی طرح ڈراموں کی شوقین تھیں لیکن ان کی بیٹی صرف برہان ندیم کے ڈرامے دیکھا کرتی۔
’’کیا فرق پڑتا ہے؟ شوبز میں تو ایسا ہی ہوتا ہے۔کسی ایک کے ساتھ چکر تھوڑی چلتا ہے ان ستاروں کا اور ویسے بھی برہان ندیم خود کون سا دودھ کے دھلے ہیں،ہو سکتا ہے حیال کے علاوہ اور بھی اداکاراوؑں کے ساتھ ان کے پوشیدہ تعلقات ہوں۔ خیر، ہمیں کیا۔‘‘ عنایہ بیگم اپنی بیٹی،اپنے خون کا امتحان لے رہی تھیں۔ممتحنہ کا صرف برہان ندیم کے ڈرامے دیکھنا ان کو اس شک میں مبتلا کر گیا تھا کہ کہیں وہ برہان ندیم کو پسند…اور بیٹی کے منہ سے تلخ اور بے لاگ جواب سن کر ان کا تازہ تازہ شک یقین میں بدلنے لگا۔
’’بیٹا! ایک بات تو بتاؤ۔ تم کہیں برہان ندیم کو پسند تو نہیں کرتیں؟‘‘ ہچکچاہٹ کے ساتھ عنایہ بیگم نے یہ سوال بھی بالآخر پوچھ ہی لیا۔
’’پسند تو کرتی ہوں لیکن اب اس طرح بھی نہیں کہ ان سے یک طرفہ محبت کر بیٹھوں۔‘‘ وہ اپنی امی کے ساتھ کوئی بھی بات شیئر کرنے سے نہیں ہچکچاتی تھی، کیوں کہ وہ جانتی تھی کہ اس میں کچھ غلط نہیں ہے۔
’’ہونہہ! اور اگر وہ تمہیں ایک دن مل جائے اور تم سے اظہارِ محبت کر بیٹھے پھر تمہارا جواب کیا ہوگا؟‘‘ وہ ممتحنہ کو خوابوں کی دنیا کی سیر کرانے میں مصروف ہو گئیں۔ وہ مذاق کرنے کے موڈ میں تھیں۔
’’امی آپ بھی نا! مت دکھایا کریں ایسے خواب جو خوابوں میں بھی پورے نہ ہو سکیں۔ میں کہاں وہ کہاں۔ وہ ایک نام ور شخصیت ہیں، پاکستان کے مقبول ترین اداکاروں میں ان کا شمار ہوتا ہے اور آپ؟ آپ مجھے کیوں سنہرے خواب دکھا رہی ہیں؟‘‘ اس کو اندھا یقین تھا کہ وہ برہان سے مل بھی نہیں پائے گی۔ پھر محبت کا اظہار، وہ بھی خود برہان ندیم کے منہ سے سننا صرف اور صر ف بے وقوفی کی بات تھی۔
اتنے میں حارث بھی گھر آگئے ۔اس نے ہمیشہ کی طرح ابو کو سلام کیا اور انہیں گلے ملی۔
’’کیسا ہے میرا بچہ؟ کیسا دن گزرا نرسری میں میری گلابو کا؟‘‘ وہ ان کی اکلوتی اولاد تھی،بے لوث محبت کرتے تھے وہ اپنی گلوں کی مماثل بیٹی سے۔
’’بالکل ٹھیک ہوں اور دن بھی بہت اچھا گزرا کیوں کہ بہت مصروفیت تھی آج۔ آج گل کاری کی کلاس بھی تھی اور آج میں نے اپنے تمام اسٹوڈنٹس کی ملاقات گل لہمی سے کروائی۔ یو ٹیوب پر لیکچر اپ لوڈ کر دیا ہے۔ جب بھی وقت ملے ، دیکھ لیجیے گا۔‘‘حارث کو جب بھی فرصت ملتی ،و ہ اپنی بیٹی کا لیکچر یوٹیوب پر ضرور دیکھتا۔ کبھی دل سے تو کبھی صرف دل رکھنے کے لیے۔
’’ارے واہ! ضرور دیکھوں گا۔ میں فریش ہو کر آتا ہوں، تب تک آپ دونوں ماں بیٹی ڈراما دیکھیے۔ وہ پانی کا گلاس سائیڈ ٹیبل پر رکھ کر کمرے میں چلا گیا۔
’’کیا خیال ہے تمہارا؟ بات کروں تمہارے ابو سے؟ ‘‘ حارث جیسے ہی اپنے کمرے میں گیا، عنایہ بیگم کے سوال نے ممتحنہ کے دل میں تجسس پیدا کرناشروع کر دیا۔
’’کیسی بات؟‘‘ ممتحنہ کو اچنبھا ہوا۔
’’تمہارے اور برہان ندیم کے رشتے کی بات اور کیا۔‘‘ وہ قہقہے مارنے لگیں۔
یہ بات ایک یونیورسل فیکٹ بن چکی تھی ممتحنہ کی حقیقی دنیا میں رہنے والے تمام لوگوں کے لیے کہ برہان ندیم جیسے شہزادے صرف خوابوں میں ہی ملا کرتے ہیں اور اس فیکٹ سے پوری طرح آشنا ممتحنہ خود بھی تھی۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

گھٹن — اعتزاز سلیم وصلی

Read Next

بس عشق ہو — کشاف اقبال (دوسرا اور آخری حصّہ)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!