بس عشق ہو — کشاف اقبال (حصّہ اوّل)

آج بھی اس کی نرسری میں کلاس تھی۔آج کا پھول سورج مکھی تھا لہٰذا اس نے پیلے رنگ کی ٹخنوں تک آتی فراک زیبِ تن کی جس کے گلے پر کالے رنگ کی کڑھائی ہو ئی تھی۔ بالوں پر اس نے پونی باندھ لی اور بالوں میں سورج مکھی کا ایک پھول لگا لیا۔
’’مجھے بتانے کی ضرورت نہیں ہے مس فلورسٹ۔ آج آپ کی کلاس ہے مجھے علم ہے اس بات کا، اس لیے میں ڈرائیور کے ساتھ آرڈرز پہنچانے چلی جاؤں گی،آ پ ٹینشن نہ لیں۔‘‘وہ اپنے بالوں میں سورج مکھی لگانے میں مصروف تھی کہ پیچھے سے زارا کی آواز سنائی دی۔
’’love you my friend.۔ اللہ تمہیں ہمیشہ خوش رکھے۔‘‘وہ زارا کو دعائیں دینے لگی اور تمام آرڈرز اس کے ہم راہ سوزوکی میں رکھنے میں مصروف ہو گئی۔
وہ دونوں آرڈرز رکھنے میں مصروف تھیں کہ اتنے میں آفس کا فون بجنے لگا۔فون کی آواز بہت تیز تھی۔ممتحنہ نے جان بوجھ کر فون کی آواز تیز رکھوائی تھی تا کہ انہیں فاصلے سے بھی تک فون کی آواز آ سکے۔
’’میں دیکھتی ہوں جب تک تم گاڑی میں سامان رکھو۔ ‘‘ زارا نے فون اُٹھانے کا ارادہ کیا۔
’’السلام علیکم! ممتحناز نرسری اینڈ فلورسٹری؟‘‘ وہ آواز اسے جانی پہچانی لگی۔
’’Yes!، میں آپ کی کیا مدد کر سکتی ہوں؟‘‘ زارا نے جواب دیا ۔
’’میں محمود علی بات کر رہا ہوں۔ آپ ممتحنہ کی سہیلی زہرہ بات کر رہی ہیں؟‘‘ زارا کو عجیب لگا۔وہ اس کا نام تک نہیں جانتا تھا۔
’’جی میرا نام زہرہ نہیں، زارا ہے۔ کہیے کیا کام تھا؟ کل کی ارینجمنٹس آپ کو پسند تو آئی تھیں نا؟‘‘
’’جی بہت آئی تھیں۔مہمانوں نے کافی سراہا آ پ کی مہارت کو ۔میرا تو دل بھی نہیں کر رہا کہ میں ان پھولوں کو ہٹا دوں جو اب سڑ چکے ہیں۔ خیر میں نے یہ بتانے کے لیے فون کیا ہے کہ کل کے ایونٹ کی ویڈیو تین دن میں آ جائے گی اور ہم اسے آپ کی ای میل آئی ڈی پر بھیج دیں گے۔‘‘زارا خوشی سے جیسے پاگل سی ہو گئی۔ان دونوں کا نام اس ویڈیو پر لکھا ہوا آنے والا تھا۔ ان کی کمپنی مقبولیت کی ایک اور سیڑھی چڑھنے والی تھی اور کمپنی کے ساتھ وہ دونوں بھی۔
’’آپ کا بہت شکریہ محمود صاحب۔‘‘اس کا بس نہیں چلا کہ کب وہ فون رکھے اور کب ممتحنہ کو وہ خوش خبری سنادے۔
’’ممتحنہ ! کل والی پارٹی کی ویڈیو اگلے تین دنوں میں منظر عام پر آ جائے گی،محمود علی صاحب کا فون آیا تھا۔ ‘‘وہ بھاگتی ہوئی ممتحنہ کے پاس آئی اور ایک ہی سانس میں اسے دل خوش کن خبر سنا دی۔
’’ یہ تو بہت اچھی بات ہے۔‘‘ ممتحنہ کو خوشی ہوئی مگر اس کی خوشی کی انتہا زارا کی خوشی سے بہت کم تھی۔ اس کی خوشی کی انتہا محبت جو بن چکی تھی۔
’’میں چلتی ہوں،تمہاری کلاس کا بھی وقت ہو گیا ہے۔تم جب تک لان میں اسٹوڈنٹس کے لیے کرسیاں وغیرہ سیٹ کر لو۔میں ایک گھنٹے میں واپس آ تی ہوں۔‘‘وہ ڈرائیور کے ہم راہ آرڈرز پہنچانے چلی گئی۔





دوپہر کے تین بچ چکے تھے۔اس نے نمازِ ظہر لان میں ادا کی اور اُس کے بعد کرسیاں ترتیب دینے لگی۔کرسیوں کے اطراف میں اس نے سورج مکھی کے گملے رکھ دیے۔اس پیلے ماحول میں ممتحنہ سورج مکھی کے پھولوں کے ساتھ خود ایک سورج مکھی لگ رہی تھی۔وہ پھولوں کے ہر رنگ میں بآسانی ڈھل جاتی۔اس کی شخصیت ہی کچھ ایسی تھی۔
اسٹوڈنٹس آ نا شروع ہو گئے تھے۔ممتحنہ سے پھولوں کی کلاس لینے کبھی کوئی منہ بسورتا ہوا نہیں آیا۔سب اپنے شوق سے آیا کرتے۔
’’السلام علیکم میرے پیارے اسٹوڈنٹس۔ کیسے ہیں آپ سب؟‘‘ وہ سب سے پہلے اپنے اسٹوڈنٹس کی خیریت دریافت کرنے لگی۔
’’تو بتائیے کہ وہ کون ساپھول ہے جو ہماری آج کی محفل کا حصہ بنے گا؟آپ کے آس پاس یہ پیلے رنگ کے خوب صورت پھول ہیں ،کیا کوئی جانتا ہے اس کا نام؟‘‘ آج کے پھول کا نام آسان تھا اس لیے سب یکجا ہو کر بولے۔
’’سن فلاور۔‘‘
’’بہت خوب! کیا کوئی یہ جانتا ہے کہ اسے اردو میں کیا کہتے ہیں؟‘‘ کمرا سیٹ ہو چکا تھا ،لیکچر شروع کیا جا چکا تھا۔
’’سورج مکھی!‘‘اس کی کلاس میں صرف لڑکیاں آتی تھیں،پھر یہ مردانہ آواز،جو جانی پہچانی سی لگ رہی تھی،کس کی تھی؟
سب نے ایک دم سے گردن گھما کر دیکھا۔وہ کوئی اور نہیں بلکہ برہان ندیم تھا۔ پاکستانی میڈیا انڈسٹری کے دور ِ حاضر کا سب سے بڑا نام۔
’’برہان ندیم…آپ؟‘‘ سب لڑکیاں تو جیسے دیوانی ہو گئیں۔سب کی سب برہان ندیم کی جانب لپک پڑیں۔ مگر وہ وہیں بیٹھی تھی،ساکت۔
’’نہیں! اب اور سکتے کی حالت میں نہیں رہ سکتی۔ محبت جب خود دروازہ کھٹ کھٹا کر آپ کے گھر آئے تو خاموش نہیں رہا کرتے، دروازہ کھول کر اسے گلے سے لگا لیا کرتے ہیں۔ نہیں ! اب میں نہیں رہ سکتی مزید سکتے میں۔‘‘اس نے صرف ایک ہی نظر برہان کو دیکھا تھا، پھر اپنی نظریں جھکا لیں اور اب، اب اسے یہ بھی نہیں پتا تھا کہ برہان کی نظر اس پیلے جوڑے والے سادگی کے جیتے جاگتے مجسمے پر ہے۔
وہ بھیڑ میں گھرا تھا۔ لیکن یہ بھیڑ تو اس کے آگے کچھ بھی نہ تھی۔وہ تو کروڑوں میں بھی اسے پہچان سکتا تھا۔ پھر یہاں تو صرف بیس لوگ تھے۔
’’آج سے میں بھی اس فلورسٹری کی کلاس کا اسٹوڈنٹ ہوں۔بالکل آپ لوگوں کی طرح، مجھے اہمیت دینی ہی ہے، تو اسٹوڈنٹ سمجھ کر دیجیے گا،برہان ندیم سمجھ کر نہیں۔‘‘ اس کی نظریں صرف اس پر تھیں جس کی نظریں کافی دیر سے اس پر سے ہٹی ہوئی تھیں۔
’’اگر آپ کی اجازت ہو تو کیا میں آ پ کی اس کلاس کا اسٹوڈنٹ بن سکتا ہوں مس فلورسٹ؟‘‘ اس کی نظریں ابھی تک جھکی ہوئی تھیں،اسے پتا ہی نہیں چلا کہ وہ کب اس کے اتنے قریب آ گیا۔
وہ نظروں کے ساتھ ساتھ اپنا چہرہ بھی جھکائے ہوئے تھی۔اسے ڈر لگ رہا تھا کہ اگر کہیں برہان ندیم نے اس کا چہرہ دیکھ لیا، تو بآسانی پہچان جائے گا کہ وہ بھی…وہ یہ ہرگز نہیں چاہتی تھی کہ اسے پتا نہ چلے،بس تھوڑا شرما رہی تھی۔ بے غرض اور بے لوث محبت کی ابتدا عورت کی نظروں کے جھکنے اور شرمانے سے ہی ہوتی ہے اور اس میں فی الحال وہ دونوں خوبیا ں پائی جا رہی تھیں۔
’’اجازت ہے!‘‘نہ جانے اسے یہ دو الفاظ جمع کرنے میں کتنی ہمت لگی مگر اس نے ہمت جمع کر ہی لی۔
اس نے اپنا رخسار برہان ندیم کی جانب کر لیا۔ آنکھیں چار ہو گئیں۔ایک جانب تو معاملہ آئینے کی طرح صاف تھا،ممتحنہ کو برہان کے دل کا حال پتا تھا مگر دوسری جانب آئینے پر لگا جو دھندلا پن تھا، وہ دور ہونے لگا۔ کل تک برہان اس گمان میں تھا کہ وہ بھی اس سے محبت کرتی ہے مگراس کی آنکھوں میں جھانکنے کے بعد ،اُس کا چہرہ پڑھنے کے بعد وہی گمان یقین میں بدلنے لگا۔
محبت میں گمان کو یقین میں بدلنے کی دیر نہیں لگتی۔ یہ احساس آئینے کی طرح صاف ہوتا ہے،بس دھند کو ہٹانے کی ضرورت ہوتی ہے اور دھند ہٹائی جا چکی تھی۔اسے ممتحنہ کی آنکھوں میں محبت نظر آ تو گئی تھی مگر فی الحال وہ چپ چاپ اپنی نشست پر جا کر براجمان ہو گیا۔لڑکیاں تھیں کہ برہان ندیم پر سے نظریں ہٹانے کا نام ہی نہیں لے رہی تھیں۔
’’پہلے ہم کلاس لے لیں؟ یہ سب کام تو بعد میں بھی ہو جائیں گے۔میں بھاگ نہیں رہا یہاں سے۔‘‘ برہان ندیم نے ان لڑکیوں کے جذبات کو قابو میں لانے کی بھرپور کوشش کی۔
’’میں چاہتی ہوں کہ ایک ایک کر کے سب اپنے آس پاس لگے سورج مکھی کے پودوں میں سے ایک پھول توڑ لیں۔‘‘جب سب لڑکیاں برہان کے کہنے پر خاموش ہو گئیں تو ممتحنہ نے اپنا لیکچر دوبارہ سے شروع کیا۔ اس کے بالکل روبرو۔ وہ اس سے نظریں بچانے کی ہر ممکن کوشش کر رہی تھی۔
سب نے ان پودوں میں سے ایک ایک سورج مکھی تو ڑ لیا۔ ان میں برہان بھی شامل تھا۔
’’اگر آپ اس سورج مکھی کو دیکھیں تو آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ یہ وہ پھول ہے جو اپنا چہرہ اس طرف کرتا ہے جہاں سورج کی شعاعیں سب سے زیادہ ہوں یا جس طرف سورج ہو۔ یہی وجہ ہے کہ اس پھول کو سن فلاور یا سورج مکھی کہنے کی۔‘‘ اس نے اپنے لیکچر کی شروعات سورج مکھی کی سب سے اہم صفت سے کی۔
’’اب آتے ہیں اس کے سمبل یعنی اس کی علامت پر۔‘‘برہان کی نظریں تو اس پر سے ہٹ ہی نہیں رہی تھیں۔
’’اس پھول کا یونانی سمبل یونانیوں کے خدا سے جا ملتا ہے۔ اس لیے ہم اس کے یونانی سمبل کی طرف نہیں جائیں گے۔چین میں اسے لمبی عمر اور خوش بختی کی علامت سمجھا جاتا ہے جب کہ عیسائی اسے خدا کی محبت کی علامت سمجھتے ہیں۔‘‘اس کی گفت گو اسٹوڈنٹس کو پھولو ں کے متعلق پورا بائیو ڈیٹا معلوم کرنے پر مجبور کر دیا کرتی ۔وہ سب اس پھول کو اپنے ہاتھوں میں اس طرح محسوس کرتے تھے گویا وہ کوئی بہت ہی قیمتی شے ہو۔
’’عالمی سطح پر سورج مکھی کو beliefیعنی یقین، طویل عمر،روحانیت،سکون اور غذا کی علامت سمجھا جاتا ہے۔‘‘اس نے کہتے کہتے ایک نظر برہان کی طرف دیکھا۔وہ سوچ رہی تھی کہ کہیں وہ اس کی گفت گو سے بور تو نہیں ہو رہااس لیے اس نے ایک نظر دیکھا،توحیران رہ گئی کیوں کہ وہ بڑے شوق سے اس کی تمام باتیں سن رہا تھا ۔وہ لمحہ بھر کے لیے خاموش ہو گئی پھر سر جھٹک کر گویا ہوئی۔
’’اب ہم آتے ہیں سورج مکھی کے تحفے پر کہ یہ کس کو دیا جا سکتا ہے؟یہ آپ اپنے loved Ones کو ضرور دے سکتے ہیں، لیکن اسے دیجیے گا جس سے آپ یہ کہنا چاہیں کہ آپ کو اس کی محبت پر اندھا یقین بلکہ ایمان ہے۔کسی راہ چلتے لڑکے یا لڑکی کے حوالے یہ پھول کر کے اس کی عزت نہ روند دیجیے گا۔ اس کی تاثیر بہت گہری ہے،روحانیت سے جا ملتی ہے،اس لیے خیال رکھیے گا۔‘‘سورج مکھی کے متعلق معلومات فراہم کرنے والی اس لڑکی نے برہان کو اس کی سادگی پر ایمان لانے پر مجبور کر دیا۔
’’اس کے علاوہ یہ گُڈ لَک کہنے کے لیے بھی دیا جاتا ہے۔خیر! اب ہم آتے ہیں اس کی فلورل ارینجمنٹ پر کہ کس طرح سے یہ گل دستے یعنی bouquetکا حصہ بن سکتا ہے۔یاد رہے کہ جب بھی سورج مکھی کا گلدستہ بنانا ہو تو کبھی بھی اس کی تعداد زیادہ نہ رکھیے گا۔ ایک گلدستے میں بہت زیادہ پانچ سے چھے سورج مکھی کافی ہیں۔ وہ اس لیے کیوں کہ یہ خود بہت برائٹ، بہت ہیوی ہوتے ہیں اپنے رنگ کی وجہ سے۔‘‘یہ ممتحنہ کے لیکچر کا وہ حصہ تھا جسے سب بہت شوق سے اپنی کاپی پر نوٹ کیا کرتے۔
’’سورج مکھی کو ہم کن پھولوں کے ساتھ گلدستے میں استعمال کر سکتے ہیں؟ اس بات کا جواب آپ کو اس کے کلر کنٹراسٹ سے ملے گا۔پیلے رنگ کا کنٹراسٹ ہم جامنی،لال ،نیلے اور کالے رنگ کے پھولوں کے ساتھ کر سکتے ہیں۔مثال کے طور پر سورج مکھی کا گلدستہ لال رنگ کے گلاب کے ساتھ بھی بنایا جا سکتا ہے یا نیلے رنگ کے گلِ وفا کے سا تھ بھی۔ اور ہاں! سفید رنگ کے پھول بھی سورج مکھی کے ساتھ استعمال کیے جا سکتے ہیں۔‘‘اس سے پہلے کہ وہ اپنی بات جاری رکھتی ،برہان بولا:
‘‘یہ گلِ وفا کون سا پھول ہے؟نام سے کافی حسین لگ رہا ہے۔‘‘برہان کے منہ سے اس نے وہی الفاظ سنے جو بچپن میں اپنے دادا سے سنے تھے،اسے ایک لمحے کے لیے اپنا بچپن یاد آ گیا۔
’’گلِ وفا کو انگریزی میں فار گیٹ می ناٹ(forget me not) کہتے ہیں اور اگلی کلاس اس پھول کے متعلق ہو گی۔‘‘ممتحنہ نے برہان کی باتوں کا جواب اس سے نظریں چراتے ہوئے دیا۔
’’پھر تو مجھے اگلی کلاس بھی ضرور لینا ہوگی۔‘‘وہ اپنے آپ سے کہنے لگا۔
’’مس ممتحنہ!آج آپ نے وہ سوال نہیں پوچھا جو آپ ہر لیکچر کے اختتام پر ہم سب سے پوچھا کرتی ہیں؟‘‘ایک طالبہ کی پیچھے سے آواز آئی۔
’’ج…جج…جی…وہ…‘‘ وہ ہچکچانے لگی۔ منہ سے آواز نکلنا بند ہو گئی۔
’’کیسا سوال؟ مجھے بھی بتائیں۔‘‘برہان نے اسی طالبہ سے جاننے کی کوشش کی۔
’’مس ممتحنہ ہم سے ہر لیکچر کے اختتام پر پوچھتی ہیں کہ اگر آپ کے بس میں ہوا تو یہ پھول آپ کس کو دیں گی اور آخری لیکچر میں انہوں نے ہم سے پوچھا کہ آپ گلِ لہمی کس کو دیں گی اور پتا ہے کیا ہوا؟‘‘بڑی مشکلوں سے اس نے اپنی نظریں اٹھائی تھیں،وہ دوبارہ گر گئیں۔




Loading

Read Previous

گھٹن — اعتزاز سلیم وصلی

Read Next

بس عشق ہو — کشاف اقبال (دوسرا اور آخری حصّہ)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!