بس عشق ہو — کشاف اقبال (حصّہ اوّل)

’’ممتحنہ آئی ایم رئیلی سوری! میں نے انہیں بہت روکنا چاہا مگر وہ سب تو جیسے دیوانے ہو گئے تھے۔‘‘و ہ اس ہجوم سے بھاگتا ہوا اپنی محبت کے پاس آ گیا۔
’’سوری کہنے کی کیا ضرورت؟مجھے برا نہیں لگا۔‘‘و ہ اپنے آنسو اس سے چھپانے کی ناکام کوشش کرنے لگی۔
’’تم رو رہی تھیں؟‘‘اس نے ممتحنہ کو ،جو اپنا سر دوسری طرف کیے ہوئے تھی، اپنی جانب کرتے ہوئے بولا۔
’’نن…نہیں،میں کیوں رووؑں گی؟‘‘اس کا چہرہ اس کے دل کی زبان تھا۔ وہ لاکھ کوششیں کرتی،لیکن اپنے دل کا حال نہیں چھپا سکتی تھی،وہ بھی اس سے جو اس کے دل میں رہتا تھا۔
’’میں نہیں چاہتا کہ تم میں سو دریاوؑں کو اپنے اندر اتارنے کا فن آ جائے۔ تم اپنی آنکھیں خالی کر کے اس دریا کو میرے حوالے کر دو۔ یہ جب میری آنکھوں کی زینت بنے گا تو یہ آنسو خود بہ خود خوشی کے بن جائیں گے کیوں کہ یہ میں محبت سے ادھار لوں گا اور خوشی تمہارا سود ہو گی مجھ پر۔ سود حرام ہے،تم اس سود کو محبت سمجھ کر اپنے پاس رکھ لینا۔‘‘وہ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے،اس کی آنکھوں کے کونوں میں ٹھہر ے آنسو پونچھتا ہوا اسے اپنی وفاوؑں کی شدتوں سے آشنا کرنے لگا۔
جس طرح ممتحنہ کا چہرہ برہان کے لیے دل کی زبان تھا، اسی طرح برہان کا چہرہ بھی ممتحنہ کے لیے اس کے دل کی زبان تھا۔وہ اس کے جملوں کے ساتھ ساتھ اس کی آنکھوں میں بھی اس کا دھڑکتا ہوا دل دیکھ رہی تھی۔
’’اپنے سارے آنسو آپ کے حوالے کر دوں تو میری آنکھوں کا کیا اثاثہ بچے گا؟محبت میں کبھی کبھار آنسو بہانا اچھا شگن ثابت ہوتا ہے۔اس لیے تھوڑا رحم میری ان آنکھوں پر بھی کر دیجیے گا۔‘‘ اب وہ دونوں چلتے چلتے ریستوران کے صوفے پر جا کر بیٹھ گئے۔وہاں سے سمندر صاف نظر آ رہا تھا اور پانی کی پتھروں سے ٹکرانے کی آواز بھی صاف سنائی دے رہی تھی۔
مدھم آواز میں چلتی دھن نے ماحول کو رومانی بنایا ہوا تھا۔وہ دونوں ایک دوسرے کے مقابل بیٹھے تھے۔وہ جو تین گلِ وفا کے پھول اس روز کے لیکچر کے وقت بالوں میں لگائے ہوئے تھی، وہ ابھی تک پوری ترو تازگی کے ساتھ اس کے بالوں کا حصہ بنے ہوئے تھے۔





’’آج کا جو لیکچر ادھورا رہ گیا تھا،اسے پورا نہیں کرو گی؟‘‘ جب دونوں جانب خاموشی کا راج رہا تو برہان نے بات سے بات نکالنے کی کوشش کی۔
’’ یہ نرسری نہیں ہے برہان۔‘‘وہ ہنسنے لگی۔
’’پھر سے کہنا۔‘‘برہان نے اس کی زبان سے کچھ انوکھا سن لیا تھا۔
’’کیا؟‘‘ اسے حیرت ہوئی۔
’’وہی جو ابھی تم نے کہا۔‘‘
’’کیوں؟‘‘وہ بوکھلا سی گئی۔
’’تمہیں نہیں پتا کیوں؟تم نے میرے سامنے پہلی بار مجھے میرے نام سے پکارا ہے۔تمہاری زبان سے اپنا نام بہت نیا نیا سا لگا،پلیز ایک بار پھر میرا نام لے لو۔‘‘وہ اس کے آگے منتیں کرنے لگا۔
اپنا نام محبوب کی زبان سے سننا کسے اچھا نہیں لگتا؟یہاں تلفظ پر دھیان نہیں دیا جاتا،سنتے وقت پکارنے والے کی محبت کی گہرائی کا جائزہ لیا جاتا ہے۔جب محبو ب کے منہ سے اپنا نام،خواہ وہ ہزار با ر ہی کیوں نہ پکارے،نیا نیا لگے تو سمجھ لیجیے گا کہ محبت جاوداں ہے اور جب آپ کو اپنے محبوب کے منہ سے اپنا نام،خواہ وہ پہلی بار ہی کیوں نہ پکارے،اوروں کے پکارنے جیسا لگے تو اپنے آپ سے یہ سوال ضرور کیجیے گا کہ کمی آپ کی محبت میں آئی ہے یا پکارنے والے کی۔
’’برہان!‘‘ اس نے ایک بار پھر اپنی زبان سے اس کا نام لیا۔
’’واہ! سکون مل گیا۔ آئندہ سے مجھے آپ کہہ کر نہیں،میرا نام لے کر پکارنا،مجھے زیادہ خوشی ہوگی۔‘‘ اپنا نام اپنے محبوب کی زبان سے سننے کے بعد برہان کا دل جیسے باغ باغ ہو گیا۔ویٹر آرڈر لینے آ چکا تھا۔
’’تمہیں اچھا نہیں لگتا لڑکیوں کا اس طرح میرے پاس آنا جس طرح سے وہ دو لڑکیاں آ رہی تھیں؟‘‘برہان نے بڑی سنجیدگی کے ساتھ اس سے یہ سوال پوچھا۔
’’نہ پہلے اچھا لگتا تھا جب ٹی وی پر آ پ کو دوسری اداکاراوؑں کے ساتھ رومانس کرتا دیکھتی تھی اور نہ اب اچھا لگ رہا ہے جب اپنی آنکھوں کے سامنے بہ راہِ راست درجنوں لڑکیوں کو آپ کے ساتھ دیکھ رہی ہوں۔‘‘برہان نے تھوڑی ہی دیر پہلے اس سے کہا تھا کہ اس دریا کو اپنے اندر مت اتارو،اس کے حوالے کردو۔ بس وہ وہی کر رہی تھی،اپنی محبت کی پیروی۔
ـ’’possessive ہو جاتی ہو؟‘‘ اس نے مزید پوچھا۔ اسے اچھا لگ رہا تھا ممتحنہ کا پوزیسسو ہونا۔
’’محبت میں پوزیسسو ہونا عام سی بات ہے برہان۔جولوگ پوزیسسو نہیں ہوتے،وہ محبت نہیں کرتے۔‘‘وہ اس سے نظریں ملائے ہوئے تھی۔وہ عدالت نہیں تھی جہاں سچ بلوانے کے لیے قرآن یا بھگوت گیتا پر ہاتھ رکھوایا جاتا،وہاں ابتدا سے ہی سب کچھ سچ تھا۔
’’ میں اپنے پہلے گناہ کی طرح ہر وہ چیز فراموش کر دوں گا جو تمہیں نا پسند ہو ۔‘‘آنکھوں کو آنکھوں سے آزاد ہونے کی ضرورت کہاں تھی۔ دونوں کی چاروں آنکھوں کو ان کا پسندیدہ منظر جو مل گیا تھا،وہ قید انہیں سب سے زیادہ عزیز تھی۔
’’کیا مطلب ہے آ پ کا ؟‘‘ممتحنہ کو تجسس سا ہوا۔
’’میں اداکاری چھوڑ دو ں گا، بلکہ سمجھو چھوڑ چکا۔‘‘ممتحنہ کے زندگی میں آنے سے پہلے اس کی زندگی اداکاری ہوا کرتی تھی،اب وہ اسے چھوڑنے کی بات کر رہا تھا۔
’’ہر گز نہیں! میں یہ نہیں چاہتی کہ آپ اداکاری چھوڑ دیں۔‘‘وہ بوکھلا سی گئی۔ اسے برہان کا اداکاری چھوڑنے کا فیصلہ بہت برا لگا۔
’’اگر میں اداکاری کرتا رہوں گا،تو لڑکیاں ساری زندگی اسی طرح میرے پاس آتی رہیں گی اور تم پوزیسسو ہوتی رہو گی اور میں سب کچھ چاہ سکتا ہوں مگر یہ کبھی نہیں چاہوں گا کہ میرے کسی فعل سے ہماری چاہت میں کمی آئے۔‘‘وہ اداکاری چھوڑنے کے بارے میں کافی سنجیدہ ہو گیا۔
’’چاہتوں میں کمی پوزیسسو ہونے سے نہیں ، جیلس ہونے سے آتی ہے۔ پوزیسسو ہونا محبت کے لیے اچھا شگن ہوتا ہے۔‘‘وہ اسے جیلس اور پوزیسسو کا فرق سمجھانے لگی۔
’’تمہیں مجھ سے محبت کب ہوئی؟‘‘اداکاری کے موضوع کو برہان نے بدل دیا، اسے ممتحنہ کے رویے کو دیکھ کر یہ صاف پتا لگ گیاتھا کہ وہ کبھی نہیں مانے گی۔
’’بہت پہلے۔ جب آپ کو ڈراموں میں پہلی بار دیکھا ۔‘‘برہان کے ساتھ ساتھ وہ بھی چاوؑمِن کھانا شروع ہو گئی۔
’’ہونہہ۔ اور محبت کا احساس کب ہوا؟‘‘ وہ بات کی گہرائی میں جانے لگا۔
’’جب آپ نے میرا تعارف ان خوبیوں سے کروایا جن کے بارے میں، میں خود بھی لاعلم تھی۔‘‘ پانی کا ایک گھونٹ اس نے اپنے گلے سے اتارا۔
’’ہمم!‘‘ وہ اسے دیکھ کر مسکرانے لگا۔
’’آپ کو مجھ سے محبت کب ہوئی؟‘‘ اب باری تھی برہان کے جواب دینے کی۔
’’جب تمہیں پہلی بار دیکھا تھا، یو ٹیوب پر۔‘‘اس کا یہ جواب سن کر وہ قہقہے مارنے لگی۔
’’اور محبت کا احساس کب ہوا؟‘‘اس نے اپنی ہنسی کو قابو میں کرنے کی کوشش کی۔
’’جب تمہیں قدرت نے سیڑھیوں سے گرا کر میری جھولی میں ڈال دیا تھا۔‘‘ اس بات پر وہ اور زیادہ کھل کر ہنسنے لگی۔اسے محمود علی کی پارٹی والی رات یاد آنے لگی۔
’’محبت کا احساس محبت ہوتے وقت ہی ہوجاتا ہے،بس اسے محسوس کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔‘‘برہان اسے محبت اور محبت کے احساس سے آشنا کرنے لگا۔
’’تو بتائیں،مجھے سمجھنے میں آپ کو کتنا وقت درکار ہوگا؟‘‘اس نے بے ساختہ پوچھا۔
’’ہو گا؟ مجھے تمہیں سمجھنے میں صرف ایک پل لگا۔‘‘ شاید وہ اسے پہلی نظر میں ہی سمجھ چکا تھا۔
’’اور تمہیں مجھے سمجھنے میں کتنا وقت لگے گا؟‘‘وہ اپنا چہرہ اس کے چہرے کے قریب لے جا کر پوچھنے لگا۔
’’لگے گا؟ میر ا حا ل بھی آپ ہی کے جیسا ہے مسٹر برہان۔‘‘ دونوں مسکرانے لگے۔
’’کچھ اور کھانا پسند کرو گی؟یا پھر ہم سمندر کنارے چلیں؟‘‘ وہ ویٹر کو بل پے کرنے کے لیے بلانے لگا۔
’’نہیں، بہت کھا لیا۔‘‘ وہ پانی کا گھونٹ گلے میں اتار کر اپنے دائیں طرف بہتے سمندر کو دیکھنے لگی۔
اب وہ دونوں دو دریا پر بنی پتھریلی جگہ پر آ گئے تھے۔ وہاں صرف اور صرف سمند ر تھا جو پتھروں سے ٹکرا رہا تھا۔
’’میرا ہاتھ تھامو اور آ جاوؑ۔‘‘اسے پتھر پر بیٹھنے سے ڈر لگ رہا تھا۔وہ سمجھ رہی تھی کہ وہاں جتنے بھی پتھر رکھے ہیں ،سب کے سب پانی میں ڈوب جائیں گے۔برہان نے اسے ہمت دی اور یقین دلایا کہ ایسا نہیں ہوتا۔
’’یہ تو بہت خطرناک ہے برہان۔‘‘ڈر ڈر کر سہی،بالآخر وہ برہان کا ہاتھ تھامے پتھروں پر آکر بیٹھ ہی گئی۔
’’شروع شروع میں تھوڑاڈر لگے گا، پھر عادت ہو جائے گی۔اب تو یہاں ہم آتے ہی رہیں گے،یہ میری پسندیدہ جگہ ہے۔‘‘وہ دونوں ایک بڑے اور بھاری بھر کم پتھر پر بیٹھ چکے تھے اور ان کی آنکھوں کے سامنے گہرا سمندر تھا،ہلکی ہلکی بارش تھی اور محبت تھی۔
’’تم نے مجھے بتایا نہیں کل فون پر۔‘‘برہان کو اچانک کچھ یاد آیا۔
’’کیا؟‘‘ممتحنہ بھی فراموش کر بیٹھی۔
’’یہی کہ تمہیں ڈر کس بات کا لگ رہا تھا اقرار کرتے وقت؟‘‘اب وہ سمندر کو نہیں،اسے دیکھ رہا تھا۔ہوا سے اڑتی اس کی زلفیں جو برہان کے چہرے کو چھو رہی تھیں،انہیں محسوس کر رہا تھا۔
’’ڈر اس بات کا لگ رہا تھا کہ کہیں بات اقرار سے کہیں آگے نہ چلی جائے۔‘‘اس نے اپنی نظریں جھکا لیں۔
’’تو چلی جانے دیتیں۔‘‘وہ اس کی جھکی ہوئی نظروں کو دیکھنے لگا۔
’’دل کی بات ایک ساتھ ایک ہی وقت میں زبان پر نہیں لاتے۔یہ باتیں بہت پاک ہوتی ہیں،ان کی تاثیر بہت گہری ہوتی ہے۔اسی لیے دل کی باتوں کو تھوڑا تھوڑا کرکے زبان پر لایا جاتا ہے۔ ایسا کرنے سے دل اور زبان دونوں خوش رہتے ہیں،ایک دوسرے کا بوجھ جو بانٹ لیتے ہیں۔‘‘اس کی باتیں سامنے بہتے سمندر جتنی گہری تھیں۔وہ ان میں ڈوب سا گیا تھا۔
’’اگر دل اپنا سارا بوجھ زبان کے حوالے کر دے، تو یہ زبان کے ساتھ زیادتی ہے اور اگر زبان اپنا سارا کا سارا بوجھ دل کے حوالے کر دے، تو یہ دل کے ساتھ زیادتی ہے،اسراف ہے اورا سراف تو ویسے بھی جائز نہیں۔ جو میانہ روی سے کام لیتے ہیں۔ فائدے میں رہتے ہیں۔‘‘وہ ڈر ڈر کرخود کو اس پتھر پر سنبھالے ہوئے تھی۔
اس کا ڈر دیکھ کر برہان نے اس کا ہاتھ مضبوطی سے تھام لیا۔
’’سمندر کتنا گہرا ہوتا ہے نا؟‘‘اب وہ اپنے آس پاس سمندر کو محسوس کرنے لگی۔
’’ہمم! محبت جتنا۔تب ہی تو ہر شاعر محبت کو دریاوؑں کناروں سے تشبیہ دیتا ہے۔‘‘
وہ بھی ممتحنہ کی طرح سمندر پر غورکرنے لگا۔ممتحنہ کا ہاتھ اب بھی برہان کی حفاظت میں تھا۔
’’فرق ہوتا ہے، سمندر اور محبت میں فرق ہوتا ہے۔ کچھ اتنا جتنا کہ جینے اور مرنے میں ہوتا ہے۔سمندر میں گہرائی مار دیتی ہے اور محبت میں گہرائی جینا سکھاتی ہے۔‘‘سمندر اور محبت میں فرق کرنے والی وہ ممتحنہ تھی۔
’’اور جب محبت عشق بن جائے تب کیا ہوتا ہے؟‘‘وہ اسے سننا چاہتا تھا، چاہتا تھا کہ وہ بولتی رہے اور وہ اسے دیکھنے کے ساتھ ساتھ اسے سنتا بھی رہے۔




Loading

Read Previous

گھٹن — اعتزاز سلیم وصلی

Read Next

بس عشق ہو — کشاف اقبال (دوسرا اور آخری حصّہ)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!