بس عشق ہو — کشاف اقبال (حصّہ اوّل)

وہ ساری رات نہیں سو سکی تھی۔اس نے رات کا ایک ایک پہر اس سوچ میں گزار دیا کہ آخر وہ برہان سے کس طرح پوچھے کہ کیا وہ اس سے محبت کرتا ہے کہ نہیں۔برہان سے یک طرفہ محبت کرنے کی خواہش بھی اس کو پوری طرح بھگو چکی تھی۔وہ چاہ کر بھی اس بارش کے آسیب سے آزاد نہیں ہونا چاہتی تھی۔یہ بارش اس کی روح تک کو بھگو چکی تھی۔
اس نے نیند سے جاگتے ہی اپنی یک طرفہ محبت کو فون کیا۔
’’گڈ مارننگ ہینڈ سم! ابھی تک سو رہے ہو؟‘‘ کافی دیر بعد جا کر برہان نے فون ریسیو کیا تو حیال کو یہی لگا کہ وہ ابھی تک نیند میں ہے۔
’’ہمم…تم سناوؑ اتنی صبح صبح فون کیا۔خیریت؟‘‘وہ ابھی تک بستر سے اٹھا نہیں تھا۔ غنودگی کی کیفیت میں اس سے بات کرنے لگا۔
’’ہاں سب خیریت ہے،تم سناوؑ آج کا کیا پروگرام ہے؟اگر تم آج فری ہو تو کیا ہم کسی اچھے سے ریستوران میں مل سکتے ہیں شام کو؟‘‘ اس نے برہان سے ملنے کی خواہش ظاہر کی اور اسے معلوم تھا کہ وہ اسے کبھی انکار نہیں کرے گا ۔
’’آج کل تو فرصت ہی فرصت ہے، ضرور ملوں گا۔ لیکن مجھے بتاؤ تو سہی کہ کیا کوئی خاص بات کرنی ہے تمہیں مجھ سے جو صبح صبح فون کرنے کی زحمت کی۔‘‘اب وہ بستر سے اٹھ چکا تھا اور سائیڈ ٹیبل پر رکھی پانی کی بوتل سے منہ لگا کر پانی پی رہا تھا۔
’’کیا ہم ہمیشہ ضروری بات کرنے کے لیے ہی ملاقات کرتے ہیں؟ کیا ہو گیا ہے تمہیں برہان؟آر یو اوکے؟‘‘ وہ اسے یاد دلانے لگی کہ ان کی ہر ملاقات صرف کام کے بارے میں باتیں کرنے کے لیے نہیں ہوا کرتی۔
’’ہونہہ!کچھ تو ہو گیا ہے مجھے،you are right‘‘ وہ ان پھولوں کو دیکھ کر مسکرانے لگاجنہوں نے اسے اس فلورسٹ سے ملوانے میں مدد کی تھی۔ رات کے پچھلے پہر اس نے ان پھولوں کو گل دان میں سجا دیا تھا۔
برہان کے اس جواب نے حیال کو مسرور کر دیا۔ اس کا مسکرا کر جواب دینا حیال کے اندر موجود احساسات کو تازہ دم کر گیا، محبت کی بارش میں اسے ایک بار پھر بھگو کر چھوڑ گیا۔
’’ہمم تو ٹھیک ہے پھر، آج شام کولاچی ریستوران میں چھے بجے ملتے ہیں۔take care‘‘اس نے برہان کو کوملاقات کر نے کے لیے بلا ہی لیا۔
آج اس کے لیے ایک بہت بڑا دن تھا۔برہان کے منہ سے اظہارِ محبت سننے کا دن اور وہ کوئی ڈراما نہیں تھا، سب کچھ حقیقت تھی۔
اس نے صبح سے ہی شام میں ہونے والی ملاقات کے لیے تیاریاں شروع کر دیں۔آج وہ سب سے زیادہ حسین لگنا چاہتی تھی۔ویسے تو وہ خوب صورتی میں اپنے آپ ہی کو سب سے برتر سمجھتی لیکن آج وہ خوب صورتی میں خود کو بھی مات دینا چاہتی تھی۔
’’تزین تم غلط تھیں، سرے سے غلط۔ پہلے اس کا میری حفاظت کرنا اور اب مسکرا کر مجھ سے یہ کہنا کہ اسے کچھ ہو گیا ہے ، یہ سب علامات اس یونیورسل فیکٹ کی طرف نشاندہی کرتی ہیں کہ ہاں! وہ مجھ سے محبت کرتا ہے۔آرہی ہوں تم سے ملنے۔میرا انتظار کرنا۔‘‘ اور وہ مصنوعی انداز میں شرما کر فریش ہونے چلی گئی۔
٭…٭…٭





’’السلام علیکم! مجھے تو یقین ہی نہیں آ رہا کہ پاکستان کے مشہور ہدایت کار ہماری نرسری تشریف لائے ہیں۔‘‘ زارا نرسری کی انٹرنس پر کھڑے محمود علی کا استقبال کرنے لگی۔
’’وعلیکم السلام! آپ کی باس سے اگر بات ہو جاتی تو…‘‘ اس کا زارا کو اس طرح نظر انداز کرنا زارا کو افسردہ کر گیا، مگر اس نے سر جھٹک کر اپنی افسردگی کو ایک ہی لمحے میں فراموش کر دیا۔
’’آپ اندر تو آئیں پلیز۔‘‘ وہ اسے نرسری کے اندر لے آئی۔ اس کا حال بھی وہی ہوا تھا جو باقیوں کا وہاں آنے کے بعد ہوا کرتا تھا۔ محمود علی کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔وہاں صرف پھول ہی نہیں تھے بلکہ ممتحنہ کی تیارکردہ تمام فلورل ارینجمنٹس کے نمونے بھی تھے۔ممتحنہ کی مہارت نے محمود علی کو اپنے سحر میں جکڑ لیا۔
’’السلام علیکم! پلیز بیٹھیے نا!‘‘ وہ نرسری کے دفتر پہنچے تو وہاں پہلے ہی سے ریوالونگ چیئر پر ممتحنہ حارث بیٹھی تھی۔ اپنے آپ کو پوری طرح کمپوز کر کے تاکہ محمود علی کو لگے کہ واقعی اس کی ایک پیشہ ور پرسنیلٹی ہے۔
’’وعلیکم السلام۔آپ کی فلورل ارینجمنٹس نے تو مجھے واقعی بہت متاثر کر دیا۔پاکستان میں اس شعبے کو بالکل بھی اہمیت نہیں دی جاتی لیکن آپ نے تو کمال ہی کر دیا۔خیر میں نے آپ کا اپنی پارٹی کے انتظامات کے لیے انتخاب کر لیا ہے۔بس یہاں تو میں کچھ فارمیلٹی پوری کرنے آیا ہوں،تھیم ڈسکس کرنے اور ایڈوانس دینے۔ ‘‘ممتحنہ کے تیار کردہ نمونے جو نرسری میں مختلف طرز،مختلف امتیاز کے ساتھ رکھے تھے، محمود علی کو متاثر کرنے میں کام یاب ہو گئے تھے۔
’’بس آپ ہمیں اپنا تھیم بتا دیں اور باقی کا کام آپ ہم پر چھوڑ دیں۔ہماری پوری کوشش ہو گی کہ ہم اپنا بیسٹ دے سکیں۔‘‘وہ اس سے بات کرتے ہوئے اندر ہی اندر کپکپا رہی تھی لیکن باہر سے اس نے پوری طرح خود کو کمپوز کیا ہوا تھا۔زارا بھی اس کے ساتھ بیٹھی تھی۔
’’کمینی کب سے ہم ہم کر کے بات کر رہی ہو یہ نہیں کہ کم از کم میرا تعارف ہی کروا دو۔‘‘ وہ دل ہی میں دل میں ممتحنہ سے کہنے لگی۔
’’ میں نے اپنی پارٹی کا تھیم آپ پر چھوڑ دیا ۔مجھے پھولوں سے متعلق اتنی معلومات نہیں اس لیے یہ کام میں آپ کے سپرد کرتا ہوں۔ بس ایک بات یاد رکھیے گا ، تھیم پارٹی کے حساب سے ہو، شادی ولیمے کے حساب سے نہ ہو۔‘‘وہ ہنسنے لگا اور اس کے ساتھ ساتھ زارا بھی۔ممتحنہ نے اس کے پاؤں پر اپنا پاؤں مار کر اسے خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔
’’بس آپ بے فکر رہیں، یہ ہماری ذمے داری ہے اور ہمارا تیار کردہ تھیم سب کو ضرور پسند آئے گا۔ ‘‘ڈیل فائنل ہونے اور پچاس ہزار کا چیک مل جانے کے بعد جب ممتحنہ اور زارا نے محمود علی کو کچھ کھانے پینے کا کہا تو اس نے صاف انکار کر دیا اور یہ کہہ کر وہاں سے روانہ ہو گیا:
’’آپ کو جس وقت مناسب لگے، آپ میرے گھر آ کر انتظامات کر دیجیے گا۔ بس مجھے شام سات بجے تک تمام تیاریاں مکمل چاہئیں۔ کل ملاقات ہوتی ہے،خدا حافظ۔‘‘
’’ کتنی کمینی ہو تم، میرا تعارف بھی نہیں کروایا ان سے۔وہ تو مجھے نرسری کا مالی سمجھ رہے تھے انٹرنس پر۔‘‘ اس نے منہ بسورتے ہوئے کہا۔
’’ارے میں سمجھی کہ تم کروا چکی ہو گی اپنا تعارف۔آئی ایم سوری یار لیکن میں بھی کیا کرتی۔میں تو خود اند سے اتنی گھبرائی ہوئی تھی،بہت مشکل سے خود کو ان کے سامنے کمپوز رکھا تھا۔‘‘ اس کے ہاتھوں میں پچاس ہزار کا وہ چیک تھا جو محمود علی اسے دے کر گیا تھا۔
’’خیر …کوئی بات نہیں، معاف کیا۔ ابھی ہمارے پاس پورے پچاس ہزار روپے ہیں،مجھے تو یقین ہی نہیں آ رہا ممتحنہ،ہم نے ایک ہی دن میں پچاس ہزار کما لیے۔‘‘ زارا اس کے ہاتھوں سے چیک لیتے ہوئے اسے محسوس کرنے لگی۔
’’ہاں! لیکن ابھی ہم اس کا استعمال نہیں کریں گے۔ پہلے پارٹی کی تمام تیاریاں مکمل ہو جائیں پھر دیکھیں گے کہ اس کا کیا کرنا ہے،اوکے؟‘‘ وہ ڈر رہی تھی کہ کہیں اتنی بڑی شوبز پارٹی میں کوئی گڑبڑ نہ ہو جائے۔ اس لیے ابھی اس چیک کو استعمال کرنے کے بارے میں اس نے کچھ سوچنا ضروری نہیں سمجھا۔
’’ہاں ہاں! ٹھیک ہے ڈیئر۔‘‘
وہ دونوں نرسری بند کرکے ممتحنہ کے گھر چلی گئیں تاکہ اگلے روز کے تمام انتظامات کا ایک بجٹ بنا سکیں کہ کتنے پھول چاہیے ہوں گے، کتنے فلورل ٹیپ اور فلورل اسپرے درکار ہوں گے اور کنٹینرز وغیرہ وغیرہ۔ بجٹ بنانے کے بعد ان دونوں کو پارٹی کے لیے سامان لینے بھی نکلنا تھا۔
٭…٭…٭
آ ج اس نے اپنے آپ کو سر تاپا برہان کے رنگوں سے سجا لیا تھا۔ کپڑوں کے رنگ سے لے کر اس کی لپ اسٹک کا رنگ، پرفیوم کی خوش بو سے لے کر ہاتھوں کی چوڑیوں تک، سب کچھ برہان کی پسند کے مطابق تھا۔ اسے لال رنگ سے سخت نفرت تھی لیکن وہ برہان کو پسند تھا، اس نے خوشی خوشی اس رنگ کو اس شام کی ملاقات کے لیے اپنا لیا۔
منہ پر پین کیک، فیس پاؤڈر،سرخ لپ اسٹک،آنکھوں میں کانٹکٹ لینز لگا کر اور اپنے اسٹرکنگ کروائے ہوئے بال کھول کر وہ برہان سے ملنے پوری طرح مستعد نظر آ رہی تھی۔
’’کیا بات ہے! آج تو سراپا محبت لگ رہی ہو۔‘‘ریستوران پہنچتے ہی جب برہان کی نظر اس پر پڑی تو وہ مصنوعی تعریفی جملے کہے بغیر رہ نہ سکا۔
’’اور زیادہ مصنوعی بن جاتیں۔ پتا نہیں تمہاری مصنوعی خوب صورتی ناظرین کو کس طرح اپنی طرف مائل کر تی ہے۔‘‘ وہ دل ہی دل میں حیال کی اصل تعریف کرنے لگا۔
’’تھینک یو! آج میں نے سب کچھ تمہاری پسند کا پہنا ہے۔تمہیں لال رنگ پسند ہے نا؟ دیکھو آج میں نے بالآخرلال رنگ پہن ہی لیا۔کیسی لگ رہی ہوں میں؟‘‘ وہ اپنے رخسار پر بکھری زلفوں کو انگلیوں کی پوروں سے کان کے پیچھے لاتے ہوئے پوچھنے لگی۔
پہلے تو برہان کو شک تھا کہ وہ اس میں دل چسپی لیتی ہے۔لیکن اب،یہ دیکھنے کے بعد کہ اس نے اس کے سامنے لال رنگ پہلی بار پہنا ہے،اسے یقین ہو گیا کہ وہ اسے پسند کرتی ہے۔
’’very beautiful!‘‘ اب و ہ چائے کا آرڈر دینے لگا۔برہان کو تو جیسے عادت ہو گئی تھی نہ چاہتے ہوئے بھی اسے ’’بیوٹی فل‘‘ کہنے کی۔
’’برہان! مجھے تم سے کچھ بات کرنی ہے۔کافی دنوں سے نوٹ کر رہی ہوں۔ سوچ رہی ہوں کہ آج پوچھ ہی لوں۔May I?‘‘ تھوڑا ڈر کر ،تھوڑا سنبھل کر اس نے برہان سے وہ سوال کیا جو اس نے کافی پہلے سے تیار کر رکھا تھا۔
’’ہاں پوچھو۔ You are free to ask anything‘‘
چائے پیش کی جا چکی تھی جو اس وقت اتنی گرم تھی کہ اگرچسکی لی جائے تو منہ جل جائے۔
’’کیا تمہیں کسی سے محبت ہو گئی ہے؟‘‘ اس نے سوال پوچھتے ہی نظریں جھکا لیں۔وہ نیم مسکراہٹ لیے اس کے جواب کی شدت سے منتظر تھی۔
’’ہاں ہو تو گئی ہے۔ پر اس محبت کا اعلان میں کل محمود علی کی پارٹی میں کروں گا۔ کل آنا ضرور۔‘‘ برہان نے کچھ اس لہجے میں کہا کہ حیال کا یقین اور زیادہ پختہ ہو گیا۔
وہ پوری طرح سے حیال کے ساتھ کھیلنے کے موڈ میں تھا کہ حیال سے زیادہ اس کے جذبات کے ساتھ۔ وہ یہ بات جان چکا تھا کہ حیال اس سے محبت کرنے لگی ہے لیکن اگلے روز وہ پارٹی میں ڈنکے کی چوٹ پر اس فلورسٹ سے اظہارِ محبت کر کے یہ ثابت کر دے گا کہ اس کی پسند کیا ہے، خوب صورتی کی تعریف اس کی نظرمیں کیا ہے۔
’’مجھے معاف کر دینا! میں تمہارا شیشے جیسا دل نہیں توڑنا چاہتا۔لیکن اگر تم مجھ سے یک طرفہ محبت کرتی ہو تو کل اس شیشے کو ٹوٹنا ہی ہوگا،مگر اس میں میرا کوئی قصور نہیں ہو گا حیال۔محبت تم نے مجھ سے کی ہے، میں نے نہیں۔ میں نے تمہیں ابھی تک جو عزت دی،وہ سب اس لیے تھی کہ تم ایک لڑکی ہو اور میری سینئر بھی۔ لیکن اس عزت کو، ان سب تعریفوں کو سمیٹ کر خوابوں کا محل سجا لینا، یہ تمہاری غلطی ہے۔‘‘وہ آنکھوں آنکھوں میں اسے اس کی یک طرفہ محبت کرنے کے جرم میں ملنے والی سزا کے تفصیلات سے آگاہ کرنے لگا۔
’’ہمم… میں کل ضرور آؤں گی۔ مجھے بلاوا آیا تھا محمود صاحب کا، کل میرا شوٹ بھی ہے۔ پہلے سوچ رہی تھی کہ پارٹی میں نہیں جاؤں گی لیکن میں نے ارادہ بدل لیا ہے،ضرور آؤں گی تمہارا جواب سننے۔‘‘ وہ مسکرانے لگی۔اگلے روز ہونے والی پارٹی میں جانے کے لیے وہ اس قدر گرم جوش ہوگئی جتنی میز پر رکھی چائے بھی نہ تھی۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

گھٹن — اعتزاز سلیم وصلی

Read Next

بس عشق ہو — کشاف اقبال (دوسرا اور آخری حصّہ)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!