بس عشق ہو — کشاف اقبال (حصّہ اوّل)

اس سے تو انتظار ہی نہیں ہورہا تھا کہ کب وہ ای میل کھولے اور کب اسے محمود علی کی سکسیس پارٹی کی ویڈیو کا لنک ملے۔وہ ہر دس منٹ بعد اپنے موبائل پر جی میل کھول کر دکھے جا رہے تھی۔
بالآخر محمود علی کی ای میل آہی گئی۔وہ دیوانی سی ہو گئی۔اس سے پہلے کہ وہ اپنے گھر والوں کو دکھاتی،وہ اپنے کمرے میں جا کر لیپ ٹاپ کھول کر بیٹھ گئی۔
اس نے لیپ ٹاپ پر جی میل کھولی اور ویڈیو لنک پر کلک کیا۔ لنک کھلتے ہی فیس بک کی ایک پروفائل نمودار ہوئی۔وہ محمود علی کی پروفائل تھی اور ویڈیو وہیں نشر کی گئی تھی۔اس نے پلے(Play) کے آئی کون پر کلک کیا اور ویڈیو چلنا شروع ہو گئی۔
ویڈیو کی ابتدا میں ہی ممتحنہ اور زارا کی ترتیب دی گئی فلورل ارینجمنٹ جلوہ گر ہوئیں۔ ویڈیو کے ایک کونے پر لکھا آیاFloral Arrangements By Mumtahnaz اور اس کے نیچے لکھا آیا بریکٹ میں لکھا تھا(Mumtahna Haris)۔ اس کے پیروں سے زمین کھسک گئی۔ اس کی آنکھیں جیسے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔پہلے تو اس نے صبر کیااور ویڈیو کو چلنے دیا، یہ سوچ کر کہ شاید آگے کہیں اس کا نام لکھا آجائے۔اسی صبر کا دامن تھامے اس نے پوری ویڈیو دیکھ لی پر اس کا نام لکھا ہوا کہیں نہیں آیا۔یہاں تک کے ویڈیو کے آخر میں کریڈٹس میں بھی صرف ممتحنہ حارث کا نام لکھا تھا۔
’’نن…نہیں۔ ایسا نہیں ہو سکتا۔اتنی بڑی غلطی نہیں ہو سکتی۔‘‘وہ بوکھلا گئی،اپنا سر پکڑ کر بیٹھ گئی۔
’’پارٹی کی ارینج منٹس کرنے میں جتنا ہاتھ تمہارا تھا۔ اتنا میرا بھی تھا ممتحنہ پر پھر بھی تم سارے کریڈٹس ،ساری تعریفیں اپنے نام کر گئیں؟میں نے کیوں تمہارا ساتھ دیا؟اتنی بڑی غلطی مجھ سے کیسے ہو سکتی ہے؟‘‘ وہ چیخنے لگی،دھاڑنے لگی اور اس کے دھاڑنے پر سمیہ بیگم اس کے کمرے میں دوڑی چلی آئیں۔
’’میں نے تو تم سے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ وہ تمام تعریفیں اپنے ہی کھاتے میں لے جائے گی،پر تم نے کہاں سننی تھی اپنی ماں کی۔اب بھگتو۔‘‘زارا نے جب تمام روداد سمیہ بیگم کو بیان کی تو سمیہ بیگم نے اپنے دل کی بھڑاس ایک بار پھر نچھاور کر دی۔
’’اس نے ہمیشہ مجھے اپنا نوکر اپنا اسسٹنٹ سمجھااور میں ہی پاگل تھی کہ اس کی اسسٹنٹ بننے پر بھی خو ش تھی،پر اب نہیں۔بہت کر لی اس کی چمچہ گیری،اب مزید برداشت نہیں ہوگا مجھ سے۔‘‘زارا کا غصہ بجا تھا۔ممتحنہ کے ساتھ مل کر اس نے بھی سکسیس پارٹی کی تیاری میں برا بر کی خدمات انجام دیں پر اسے ذرا بھی کریڈٹ نہیں دیا گیا۔
’’چلو نیچے چل کر کھانا کھا لو۔اس چالاک لڑکی کی وجہ سے اپنا دل مت جلاوؑ۔بھاڑ میں ڈالو اسے اور اس کی نرسری کو۔‘‘سمیہ بیگم اپنی بیٹی کا ہاتھ پکڑ کر اسے کھانے کی میز پر لے گئیں۔
٭…٭…٭





ان دونوں نے جیسے ہی گھر کے اندر قدم رکھاتو عنایہ بیگم اور حارث کو سامنے صوفے پر بیٹھا پایا۔رات کے ساڑھے آٹھ بج چکے تھے۔حارث کو آفس سے گھر آئے کچھ ہی دیر گزری تھی۔
’’برہان ندیم اور وہ بھی ہمارے گھر؟‘‘ عنایہ بیگم جسے روز ٹی وی پر دیکھ دیکھ کر خوش ہوا کرتیں آج وہ ان کے گھر کی دہلیز پر ان ہی کی صاحبزادی کے ساتھ ان کا ہونے والا داماد بن کر کھڑا تھا۔
’’زیادہ اوور ایکٹنگ مت کرنا، اسے اپنے ہونے والے داماد کی نظر سے دیکھنا،برہان ندیم کی نظر سے نہیں۔‘‘عنایہ بیگم برہان کے پاس بھاگتی ہوئی آ رہی تھیں کہ انہیں حارث کے کہے وہ جملے یاد آنے لگے جو حارث نے ممتحنہ اور برہان کے گھر آنے سے پہلے ان سے کہے تھے۔ عنایہ بیگم کی برق رفتاری کو جیسے بریک لگ گئی۔
’’السلام و علیکم آنٹی،کیسی ہیں آپ؟‘‘ وہ بڑے ادب کے ساتھ ٹیکنیکل داماد والے انداز میں ان کے آگے سر تسلیم ِ خم کیے کھڑا تھا۔
’’وعلیکم السلام۔جیتے رہو۔‘‘وہ اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر اسے دعائیں دینے لگیں۔
’’اندر آوؑ نا تم دونوں۔‘‘وہ ان دونوں کا ہاتھ تھامے لاوؑنج میں لے جانے لگیں۔
’’السلام و علیکم انکل،کیسی طبیعت ہے آپ کی؟‘‘لاوؑنج میں آتے ہی برہان نے سب سے پہلے حارث کو سلا م کیا۔
’’وعلیکم السلام! الحمد للہ۔ آوؑ یہاں بیٹھو۔‘‘حارث سلام کا جواب دیتا اسے صوفے پر بیٹھنے کا کہنے لگا۔
’’عنایہ ذرا چائے وغیرہ کا انتظام دیکھ لو۔ ممتحنہ،تم بھی اپنی امی کا ہاتھ بٹاوؑ۔‘‘حارث کے اشارے سے ماں بیٹی دونوں کو اس حقیقت کا اندازہ ہو گیا کہ وہ برہان سے کچھ ضروری باتیں کرنا چاہتا ہے۔برہان اپنے ہونے والے سسر کے سامنے بت بنا بیٹھا تھا۔اسے پتا تھا کہ جب تک وہ ’ہاں ‘نہیں کہیں گے توبات ’قبول ہے‘ تک نہیں پہنچ سکتی۔وہ بت ضرور بنا تھاپر حارث کے ہر سوال کا جواب دینے کے لیے مستعد تھا۔
’’تو بتاوؑ، کیسی رہی ملاقات؟کچھ سمجھ آیا برہان ندیم کا مزاج؟‘‘عنایہ بیگم چائے بنانے کے لیے کیتلی میں دودھ انڈیلنے لگیں۔
’’ان کی اور میری سوچ ایک دوسرے سے بہت ملتی ہے۔میرے دل میں کیا چلتا ہے،وہ تو اس بات سے بھی واقف ہیں۔‘‘عنایہ بیگم ایک طرف چائے کے انتظامات دیکھ رہی تھیں تو دوسری جانب ممتحنہ کباب فرائی کرنے کے لیے کڑاہی میں تیل گرم کرنے لگی۔
’’اگر تم دونوں ایک دوسرے کے دل کے حال سے اس قدر واقف ہو تو پھر میں اور عنایہ یہی چاہیں گے کہ جلد از جلد تم اپنے گھر والوں کو یہاں لے آوؑ ۔‘‘ایک طرف ماں بیٹی کی گفت گو چل رہی تھی تو دوسری جانب ہونے والے سسر اور داماد کچھ ضروری باتیں کرنے میں مصروف تھے۔
’’تمہیں کیا لگتا ہے،کیا وہ تمہارے لیے کسی بھی قسم کی قربا نی دینے کے لیے تیار ہے؟‘‘وہ چائے میں شکر اور پتی ڈالنے لگیں۔
’’امی،وہ تو میرے لیے اداکاری تک چھوڑنے کو تیار ہیں۔‘‘ممتحنہ کے منہ سے برہان کی اتنی بڑی قربانی کا سن کر عنایہ بیگم کے ہونٹ کھلے کے کھلے رہ گئے۔
’’میں نے تو اس سے کہا بھی تھا کہ میں اداکاری چھو ڑ رہا ہوں پر وہ ناراض ہو گئی اور اس نے صاف صاف کہہ دیا کہ اداکاری کبھی مت چھوڑئیے گا۔‘‘حارث کو اپنی اکلوتی بیٹی کی بہت فکر تھی،اسی لیے اس نے برہان سے پوچھا کہ کیا وہ اداکاری جاری رکھے گا؟
’’باوؑلی ہو گئی ہو؟ کیوں کہا کہ ادکاری مت چھوڑئیے گا؟ جب وہ دوسری اداکاراوؑں کے ساتھ اپنی منگنی کے بعد شوٹنگز پر رومانس کی اداکاری کر رہا ہوگا نا تب پتا چلے گا کہ تم نے اسے اجازت دے کر کتنی بڑی غلطی کی۔‘‘کباب فرائی ہو چکے اور چائے بھی تیار تھی۔
’’میں نہیں چاہتی کہ وہ میرے لیے اپنی سب سے قیمتی چیز قربان کر دیں،نہیں چاہتی کہ میں انہیں اتنی بڑی قربانی دینے کے بعد حاصل ہوں،ہرگز نہیں! اورویسے بھی مجھے ان کے اداکاری کرنے سے کوئی مسئلہ نہیں۔ میں نے کوئی غلطی نہیں کی انہیں اجازت دے کر۔‘‘وہ فریج سے گلاب جامن نکالنے لگی۔
’’غلطی کی ہے اس کی بات مان کر ،وہ تو ہے ہی معصوم سی ،پھول جیسی۔خیر! ممتحنہ کی مرضی کے آگے سر تسلیم خم ہے۔تو پھر بتاوؑ کب لے کر آ رہے ہو اپنے گھر والوں کو؟‘‘حارث کو برہان پسند آ گیا تھا۔وہ اپنی ممتحنہ کا ہاتھ اس کے ہاتھوں میں دینے کے لیے تیار تھا۔
’’ہاں برہان! بتاوؑ کب لے کر آ رہے ہو اپنے والدین کو ؟‘‘عنایہ بیگم ممتحنہ کے ہمراہ ناشتا لے کر لاوؑنج میں آ گئیں۔
’’آپ بے فکر رہیں انکل،میں اسے بہت خوش رکھوں گا، خدا نہ کرے کے ہمارے بیچ میری اداکاری کے باعث کسی بھی قسم کی غلط فہمیاں پیدا ہوں،لیکن جس دن ایسا ہوا، میں پہلی فرصت ہی میں اداکاری کو اپنی زندگی سے رخصت کر دوں گا، میں قسم کھاتا ہوں۔‘‘عنایہ بیگم کو جواب دینے سے پہلے برہان نے آہستہ آواز میں حارث کو ممتحنہ کے حوالے سے تسلی دی۔
’’بس آپ سمجھیے کہ میرے گھر والے بھی اس رشتے سے راضی ہیں۔ انہیں میری پسند پر پورا یقین ہے،میں سوچ رہا ہوں کہ کل ہی اپنے گھر والوں کو یہاں لے آوؑں۔کل اگر منگنی کی چھوٹی سی رسم ہوجائے تو۔‘‘وہ بتا نہیں رہا تھا ،پوچھ رہا تھا۔
’’تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔ویسے بھی تم تو اتنے بڑے ایکٹر ہو، نہ جانے ہماری پھول جیسی بیٹی کے بارے میں کون کون سی خبریں اخبارات اور سوشل میڈیا کا حصہ بننے لگیں،اس لیے سب سے بہتر یہی ہے کہ کل منگنی کی چھوٹی سی رسم کر لی جائے۔‘‘عنایہ بیگم جانتی تھیں کہ میڈیا والے کس کس طرح سے اداکاروں کی خبریں اچھالتے پھرتے ہیں اور اوپر سے انٹرٹینمنٹ اخبار والے،ان کا تو کام ہی لوگوں کی صبح کی چائے کو مزے دار بنانا ہوتا ہے،چاہے خبر کتنی ہی عام کیوں نہ ہو، اس پر ہر قسم کا مسالا لگا کر اسے سرخیوں کا حصہ بنانا ہوتا ہے۔
’’میرا خیال ہے کہ منگنی کی چھوٹی سی رسم ہے، تو صرف ہمارے اور تمہارے گھر والے ہی اس رسم کا حصہ بن جائیں تو…‘‘حارث کو لگا کہ برہان ایک بہت بڑا اداکار ہے،وہ تو بڑی دھوم دھام سے اپنا ہر فنکشن کرے گا،پر وہ تو اس کا جواب سن کر حیران رہ گیا۔
’’جیسا آپ لوگ کہیں گے،ویسا ہی ہوگا۔‘‘ وہ کن انکھیوں سے اپنی ہونے والی منگیتر کو دیکھنے لگا۔
’’تو پھر اسی بات پر منہ میٹھا ہو جائے؟‘‘چائے اور کباب کے ساتھ گلاب جامن بھی پیش کیے گئے، لہٰذا منگنی کی بات چلتے ہی عنایہ بیگم نے حارث اور برہان کو گلاب جامن پیش کیے۔
٭…٭…٭
’’پاکستان کے مشہور و معروف اداکار اور کروڑوں دلوں کی دھڑکن برہان ندیم اپنی محبت ممتحنہ حارث کے ساتھ کوالٹی ٹائم گزارتے ہوئے۔ممتحنہ حارث ،جو پیشے کے لحاظ سے ایک گل کار ہیں۔ سننے میں آیا ہے کہ بہت جلد برہان ندیم ممتحنہ کے ساتھ ازدواجی رشتے میں بندھنے والے ہیں۔جیسا کہ وہ ممتحنہ حارث سے ڈنکے کی چوٹ پر محمود علی کی حالیہ سکسیس پارٹی میں اظہار ِ محبت بھی کر چکے ہیں۔‘‘
وہ اتوار کا دن تھا۔حیال کو صبح اٹھتے ہی ڈان اخبار کے انٹرٹینمنٹ کے صفحات پڑھنے کی عادت تھی ،پر اس خبر نے اس کی صبح کی چائے کو زہر بنانے میں دیر نہ کی۔اس خبر کے ساتھ ساتھ برہان اور ممتحنہ کے پچھلے روز کی تصویر بھی لگی تھی جس میں دونوں ریستوران میں بیٹھے کھانا کھا رہے اور ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے ہوئے تھے۔
’’What nonsense is this‘‘ اس نے وہ خبر پڑھتے ہی اخبار پھینک دیا۔
’’برہان کو فلم سے نکلوانے کا کوئی فائدہ نہ ہوسکا۔ حیال یہ تم نے کیا کیا؟ اگر وہ تمہارے ساتھ اس فلم میں ہوتا، تو تم شوٹنگ کے وقت اس کے قریب ہو کر ممتحنہ کو جلا سکتی تھی،یہ تم نے کیا کر دیا۔‘‘وہ اپنے آپ کو کوسنے لگی،جذبات میں کیے گئے فیصلے پر رونے لگی۔اس کا بس نہیں چلا کہ وہ محمود علی کو فون کرے اور اس سے کہہ دے کہ کسی بھی قیمت پر برہان کو فلم کا حصہ بنائے۔
قسمت حیال طاہر پر مہربان ہو گئی اور ’محمود علی کالنگ‘کے الفاظ اس کے موبائل کی چمکتی اسکرین پر جگمگانے لگے۔
’’سلام حیال صاحبہ،کیا حال ہیں آپ کے؟‘‘حیال نے اسے کہا تھا کہ وہ برہان کے ساتھ کام نہیں کرے گی اور وہ پورے ایک دن بعد اسے فون کر کے یہ بتانے والا تھا کہ اسے صرف برہان کے ساتھ ہی کام کرنا ہوگا۔ وہ ڈرنے لگا کہ آگے سے اسے کیا جواب سننے کو ملنے والا ہے۔
’’میں بالکل ٹھیک ہوں،خیریت؟ اتنی صبح فون کیا؟‘‘ وہ کسی معجزے کے انتظار میں تھی۔
’’مم…میں نے یہ بتانے کے لیے فون کیا ہے کہ فلم کا میل(Male) اداکار فائنلائز نہیں ہو سکا۔ دو تین بڑے اداکاروں کے ساتھ بات ہوئی پر سب کی ڈیٹس کا مسئلہ تھا اور مجھے اگلے ہفتے ہی سے شوٹنگ شروع کرنی ہے۔ تو…‘‘وہ کہتے کہتے خاموش ہو گیا اور اسے یقین آگیا کہ فون کی دوسری طرف سے بہت تلخ جواب موصول ہونے والا ہے جو ایک زوردار تھپڑ کی طرح اس کے گال کو جالگے گا۔
’’کوئی بات نہیں۔اگر کوئی دوسرا اداکار نہیں مل رہا تو میں برہان ندیم کے ساتھ ہی کام کر لوں گی۔ آپ مجھے اسکرپٹ اور بقیہ تمام ڈی ٹیلز (Details)میرے گھر پہنچادیجیے گا۔‘‘ اس کے ساتھ تو جیسے کوئی معجزہ ہو گیا تھا۔معجزہ تو محمود علی کے ساتھ بھی ہوا تھا،اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ حیال طاہر اپنی بات سے پیچھے ہٹ جائے گی۔
’’اب دیکھنا مس فلورسٹ،محبت میں تمہیں اتناپوزیسسو کر دو ں گی کہ برہان کو چھوڑنا تمہاری مجبوری نہیں ،تمہارا فرض بن جائے گا۔جب محبو ب کا درجہ فرض سے گرکر قضا تک جا پہنچے گا ،تو محبت خود بہ خود کھوکھلی ہوتی چلی جائے گی اور پھر، وہ محبت دکھائی ہی نہیں دے گی،بے وفائی جو بن جائے گی۔‘‘وہ چائے جو اسے کچھ دیر پہلے تک زہر لگ رہی تھی،اب امرت بن کر اس کے گلے سے اترنے لگی۔
٭…٭…٭
’’کل رات سے تمہیں فون کر رہی ہوں، جواب کیوں نہیں دے رہی تھیں؟‘‘بار بار فون کرنے پر جب زارا نے ممتحنہ کے فون کا جواب دیا، تو ممتحنہ اس سے گلہ کرنے لگی۔
’’کیا فرق پڑتا ہے؟میں فون اُٹھاوؑں یا نا اُٹھاوؑں؟تم سناوؑ کیوں فون کیا؟اور ہاں آج میں نرسری نہیں آسکتی۔‘‘وہ بے زاری سے کہنے لگی۔
’’کوئی ناراضی ہے مجھ سے؟گلہ کر سکتی ہو،آج میں تمہارے ہر سوال کا جواب او ر تمہارے ہر گلے شکوے کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہوں اور ہاں نرسری آج میں بھی نہیں جار ہی۔ آج میری منگنی ہے، برہان کے ساتھ۔‘‘ممتحنہ کی منگنی کی خبر نے زارا کو چونکا دیا۔اس نے شاید خیالوں میں بھی نہیں سوچا تھا کہ بات اتنی جلدی منگنی تک جاپہنچے گی۔
’’کیا ہوا چپ کیوں ہو گئی ہو؟تمہیں فون کر کے اپنی منگنی کی خبر دینا چاہی پر تم فون اٹھاتی تو صحیح۔‘‘ممتحنہ کی ہر بات پر وہ خاموش رہی۔
’’مبارک ہو بہت۔مجھے امی آواز دے رہی ہیں میں بعد میں بات کرتی ہوں۔‘‘وہ فون رکھنے ہی لگی تھی کہ ممتحنہ نے اسے روک لیا۔
’’ناراض تو تم ہو کسی نہ کسی بات پر۔تمہاری ناراضی بھی ختم کر دوں گی پر یہ بتاوؑ آج کون سے رنگ کا سوٹ پہن کر آ رہی ہو؟‘‘اسے زارا کو دعوت دینے کی ضرورت نہیں تھی،وہ اس کے گھر کی بن بلائی مہمان تھی۔
’’میں نہیں آ سکوں گی،آج میرے خاندان میں کسی کے یہاں دعوت ہے۔اچھا میں بعد میں بات کرتی ہوں،امی چیخ رہی ہیں۔‘‘نہ اس کی امی آواز دے رہی تھیں اور نہ اس کے خاندان میں کوئی دعوت ہی تھی۔
’’عجیب لڑکی ہے۔‘‘وہ سر جھٹک کر اپنی امی کے ساتھ مہندی لگوانے پارلر چلی گئی۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

گھٹن — اعتزاز سلیم وصلی

Read Next

بس عشق ہو — کشاف اقبال (دوسرا اور آخری حصّہ)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!