بس عشق ہو — کشاف اقبال (حصّہ اوّل)

وہ فجر کی نماز ادا کرنے کے بعد دوبارہ سو گئی۔اس کی آنکھ صبح نو بجے کھلی۔وہ ہمیشہ آٹھ بجے تک اُٹھ جایا کرتی تھی مگر اب نو بج چکے تھے۔وہ جلدی سے فریش ہونے چلی گئی پھر تیار ہو کر ناشتے کی میز پر آگئی۔
’’صبح بخیر۔ ماشاء اللہ! میری بیٹی تو آج بہت خوب صورت لگ رہی ہے۔یہ نیلا رنگ کتنا جچ رہا ہے تم پر۔آج کون سے نیلے پھول کا لیکچرہے نرسری میں؟‘‘صبح صبح ممتحنہ کی تعریف کرنے والی وہ خاتون عنایہ بیگم تھیں۔
’’گل ِوفا کا لیکچر ہے،آج تھوڑا لیٹ بھی ہو گئی ہوں۔‘‘وہ چاہے کتنی بھی لیٹ کیوں نہ ہو جائے،ناشتا کبھی نہیں چھوڑتی تھی۔
’’ابو کہاں ہیں؟‘‘اسے ناشتے کی میز پر اپنی امی اور اپنے ابو دونوں چاہیے ہوتے تھے۔
’’وہ فریش ہونے گئے ہیں۔آج تھوڑا لیٹ ہو جائیں گے وہ۔‘‘
’’ہمم‘‘ اس نے اپنا ناشتا جیسے ہی ختم کیا ویسے ہی حارث ناشتے کی میز کی طرف آنے لگے۔
’’گڈ مارننگ گلابو! یہ نیلا رنگ تو بڑا سوٹ کر رہا ہے تم پر۔اللہ میری بیٹی کو بری نظر سے بچائے۔‘‘ بیٹی پر نظر پڑتے ہی وہ اُس کی بلائیں لینے لگے۔
’’ابو، ایک بات پوچھوں؟‘‘ممتحنہ اچانک ہی سنجیدہ ہو گئی۔
’’ایک ہزار پوچھو۔‘‘ حارث ناشتے کی میز پر بیٹھ گئے۔ عنایہ بیگم اپنے شوہر کی پلیٹ میں آملیٹ ڈالنے لگیں۔
’’اگر میں ان سے ملی تو کیا آپ لوگو ں کو واقعی برا نہیں لگے گا؟‘‘ اس کے سوال کرنے پر حارث اسے دیکھ کر مسکرانے لگے۔
’’جب ماں باپ کو اپنی اولاد سے زیادہ اپنی اولا د کی تربیت پر بھروسا ہو، تب انہیں یقین ہو جاتا ہے کہ ان کی اولاد کو ان کی تربیت کا پاس رکھنا بھی آتا ہے۔‘‘وہ ممتحنہ کے سر پر اپنا ہاتھ شفقت سے پھیرنے لگا۔
’’تم اس سے محبت کرتی ہو اور وہ تم سے محبت کرتا ہے شاید سچی۔ اس بات میں برائی کہاں ہے۔ کہیں بھی نہیںہے نا۔ برائی اچھائی کا تعلق نیت سے ہوتا ہے اور جب نیت سچی محبت کی ہو، تو اس میں کوئی برائی نہیں ہوتی۔‘‘عنایہ بیگم اسے محبت کی صداقت سے آشنا کرنے لگیں۔
’’آپ دونوں دنیا کے سب سے اچھے والدین میں ہیں۔ اپنا خیال رکھیے گا، میں چلتی ہوں۔‘‘ وہ عنایہ بیگم اور حارث کو گلے لگنے اور انہیں الوداع کہتے ہی نرسری کے لیے نکل گئی۔
٭…٭…٭





’’آج تو بڑی کھلکھلا رہی ہو کیا بات ہے؟ لگتا ہے پہلے سے الہام ہو گیا کہ محبوب آنے والا ہے۔‘‘ وہ جب نرسری پہنچی تو زارا وہاں پہلے سے موجود تھی۔
’’کوئی الہام نہیں ہوا۔ آج گلِ وفا کا لیکچر ہے اسی لیے نیلا رنگ پہنا ہوا ہے ۔اب اس میں میرا کیا قصور کہ یہ رنگ سب کو مجھ پر اٹھتا ہوا نظر آ رہا ہے۔‘‘ اب وہ زارا کے ساتھ مل کر پھول چننے لگی۔
’’سب کو تم پر نیلا نہیں، لال رنگ اٹھتا ہوا اچھا لگ رہا ہے۔‘‘ممتحنہ کو اچنبھا ہوا۔
’’تمہارے کھلکھلانے کی وجہ لباس کا نیلا نہیں، محبت کا لال رنگ ہے،سمجھیں؟‘‘زارا نے اسے تنگ کرنا شروع کر دیا۔
’’مذاق کرنا بند کرو اور کام کرنا شروع کرو۔‘‘ممتحنہ نے اسے چپت لگائی۔
’’ہونہہ ! اچھا تو یہ بتاؤ کل فون پر کیا بات ہوئی اپنے ’’اُن‘‘ سے؟‘‘ اس نے ممتحنہ سے کل والی فون کال کے متعلق پوچھا۔
’’بس سلا م دعا ہوئی۔‘‘
’’ محبت میں بات صرف سلام دعا کی حد تک نہیں ہوتی بلکہ محبت میں بات نہیں گفت گو ہوتی ہے مس فلورسٹ ۔سلام دعا سے آ گے کا بتاوؑ۔‘‘وہ بات کھو دنا شروع ہو گئی۔
’’پہلے کام کر لیں؟ پھر گفت گو بھی بتا دوں گی میڈم۔‘‘ ممتحنہ کے خفگی ظاہر کرنے پر وہ کام کرنا شروع ہو گئی۔
٭…٭…٭
اس نے آج گہرے نیلے رنگ کی لان کی قمیص زیب تن کی تھی جس پر پیلے رنگ کا نفیس کام ہوا تھا۔اس نے بالوں کی پونی باندھ لی اور دو سے تین گلِ وفا اپنی پونی میں گھسا لیے۔آنکھوں میں کاجل اور ہونٹوں پر ہلکی سی لپ اسٹک۔
وہ اپنی نرسری کا لان گل وفا کے پودوں سے سجانے لگی جب کہ دوسری جانب زارا آرڈرز پہنچانے ڈرائیور کے ساتھ چلی گئی۔
’’ارے برہان صاحب آپ؟ ‘‘اللہ بخش نرسری کے مرکزی دروازے پر برہان کو دیکھ کر حیران رہ گیا۔اس نے بآوازِ بلند برہان کا نام لیا۔
’’آہستہ بولیں وہ سن لے گی، اسے سرپرائز دینے آیا ہوں۔ ‘‘وہ نرسری کا ادھ کھلا دروازہ دیکھ کر اللہ بخش کو خاموش ہونے کا کہنے لگا۔
’’کون سا رائس؟ رائس تو چاول کو کہتے ہیں نا؟ کون سا رائس دینے آئے ہیں میڈم صاحبہ کو؟‘‘ اللہ بخش ، برہان کے منہ سے نکلا وہ لفظ سمجھ نہ پایا۔برہان بے ساختہ ہنس پڑا۔
’’رائس نہیں اللہ بخش،’’سرپرائز ۔‘‘ برہان اس لفظ کی تشریح کرنے لگا۔
’’اونہہ! ٹھیک ہے پھر،آپ سر پے رائس دیجیے میڈم صاحبہ کو، میں کچھ نہیں کہوں گا ۔‘‘ اس نے برہان کے لیے نرسری کا ادھ کھلا دروازہ پورا کھول دیا۔
وہ لان سیٹ کرنے میں مصروف تھی کہ اتنے میں اس نے دروازے سے داخل ہوتے برہان کو دیکھا۔ وہ اسے دیکھ کر ذرا بھی حیران نہیں ہوئی،شاید اسے الہام ہو چکا تھا۔
’’السلام علیکم! میرا آنا برا تو نہیں لگا؟‘‘ پہلی نظر پڑتے ہی اس نے اپنی نظریں ممتحنہ پر وقف کر دیں۔
’’بالکل بھی نہیں۔‘‘وہ گلِ وفا کے گملے اٹھانے لگی۔
’’تم بیٹھو ادھر۔ یہ کام تمہارا نہیں ہے۔اتنے بھاری گملے اتنے نازک ہاتھوں سے اٹھا کر خود کو تو دیتی ہی ہو ،مگر اپنے چاہنے والے کو بھی تکلیف دے رہی ہو۔اپنی نہیں تو کم از کم میری ہی تکلیف کا خیال کر لو۔‘‘ وہ اپنی برگنڈی شرٹ کی آستینیں اوپر چڑھاتا اسے بیٹھنے کا اشارہ کرنے لگا۔
’’ یہ کہاں بھاری ہیں؟‘‘ وہ ایک لمحے کو رُکی۔
’’اوروں کے لیے بھاری نہیں ہیں لیکن تمہارے لیے ضرور ہیں۔تم یہاں بیٹھو،یہ میں کر لوں گا۔‘‘ اس نے بالآخر ممتحنہ کو بٹھا ہی دیا۔
’’ یہ رنگ آ پ پر بہت جچ رہا ہے۔‘‘برگنڈی رنگ ممتحنہ کو برہان پر بہت اٹھتا ہوا نظر آرہا تھا۔ ٹھیک اسی طرح جس طرح سب کو اس پر نیلا رنگ اٹھتا ہوا نظر آ رہا تھا۔ وہ اس کی تعریف کرنے سے خود کو نہ روک پائی۔
’’تمہاری تعریف سننے سے زیادہ تمہارا میرے سامنے کھل کر بولنا اچھا لگا۔ ‘‘ وہ گملے بھی ترتیب دے رہا تھا ،ساتھ ساتھ اس سے باتیں بھی کر رہا تھا۔
’’آج ہم تمہارا فلورل لیکچر ختم ہوتے ہی کہیں گھومنے چلیں گے۔پریشان مت ہو، میں خود تمہارے ابو کو فون کر کے ان سے اجازت طلب کر لوں گا او ر اجازت لیے بغیر نہیں لے جاوؑں گا۔‘‘ گملے ترتیب دیے جا چکے تھے۔
’’ہمم۔ ‘‘وہ برہان کی بات پر بس اتنا کہہ سکی۔
لیکچر کے شروع ہونے کا وقت ہو چکا تھا۔لڑکیاں نرسری آئیں تو برہان کو وہاں موجود پا کر ایک بار پھر حیران رہ گئیں۔ سب کی سب برہان کے پاس آگئیں اور وہی حرکتیں شروع کردیں جو ایک دن پہلے کی تھیں۔برہان ان کا دل توڑنا نہیں چاہتا تھا اس لیے ان سے ہنس کر باتیں کرنے لگا اور سیلفیاں لینے لگا۔
اس نے جب لڑکیوں کے ہجوم سے نظریں ہٹا کر ممتحنہ کی طرف دیکھا تو حیرا ن رہ گیا۔وہ اسے ان لڑکیوں کے ساتھ ہنس کر باتیں کرتا دیکھ کر uncomfortable ہو رہی تھی۔ وہ اپنے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو مسل رہی تھی۔اسے یقین آگیا تھا کہ ممتحنہ کو اس کا لڑکیوں کے ساتھ گھلنا ملنا کچھ خاص پسند نہیں آیا۔
’’میرا خیال ہے کہ ہم اب کلاس لے لیتے ہیں،بہت باتیں ہو گئیں۔‘‘برہان نے لڑکیوں کو کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔
’’ہمیشہ ایسی رہنا۔‘‘وہ اس کے کان میں تین لفظ کہہ کر کرسی پر براجمان ہو گیا۔ ممتحنہ نے سر جھٹک کر لیکچر کا آغاز کیا۔ آج اس نے اپنا کمرا سیٹ نہیں کیا تھا۔
’’السلام علیکم دوستو! کیا حال ہیں آپ سب کے؟ لگتا ہے مس فلورسٹ سے زیادہ آپ لوگوں کو برہان کے لیکچر لینے کی عادت ہو گئی ہے۔‘‘
اور اس نے اپنے الفاظ سے یہ ظاہر کر دیا کہ وہ واقعی برہان کے معاملے میں possessive ہے۔وہ اسے دیکھ کر مسکرانے لگا۔
’’نہیں میم! ایسانہیں ہے۔‘‘پانچ چھے لڑکیوں نے نفی میں سر ہلایا۔
’’ خیر! یہ باتیں تو چلتی رہیں گی،کیا آپ لوگ بتا سکتے ہیں کہ آج کون سا پھول ہماری محفل کا حصہ بننے جا رہا ہے؟‘‘ تمام اسٹوڈنٹس نے اپنے آس پاس لگے پھولوں کو دیکھنا شروع کر دیا۔
’’آپ نے کل بتایا تو تھا کہ اگلا لیکچر گلِ وفا پر ہو گا، تو یہ گلِ وفا ہی ہے،ہے نا؟‘‘ مس فلورسٹ کی کہی ایک ایک بات یاد رکھنے والاوہ شخص برہان ندیم تھا۔
’’لڑکیوں کو تو آپ کو دیکھنے سے فرصت نہیں ملتی۔ انہیں کہاں یاد رہتا ہے کہ آج گلِ وفا کا لیکچر ہے۔‘‘ مس فلورسٹ نے اپنی اسٹوڈنٹس پر طنز کرنا شروع کر دیا ۔
’’آپ نے بالکل ٹھیک کہا ۔آج گلِ وفا یعنی Forget Me Notہماری محفل کا حصہ بنا ہے۔‘‘
’’میری محفل کا حصہ تو صرف تم ہو۔ تم نے تو میری تنہائیوں کو بھی انجمن بنا دیا ممتحنہ۔‘‘وہ اس کی معصوم آنکھوں میں دیکھتا اپنے دل میں کہنے لگا۔
’’پہلے تو آپ لوگ اٹھ کر اپنے آس پاس لگے پودوں میں سے دو تین گلِ وفا توڑ لیں۔‘‘ممتحنہ کے کہنے پر سب نے گل وفا کے دو تین پھول توڑ لیے۔
’’ویسے تو اس پھول کی کئی اقسام ہیں لیکن عام طور پراورسب سے زیادہ تعداد میں نیلے اور سفید رنگ کے گلِ وفا پائے جاتے ہیں۔‘‘ہر سو خاموشی چھا گئی ۔تمام اسٹوڈنٹس اور برہان کا دھیان اس نیلے گل ِوفا کی جانب چلا گیا۔
’’ان میں پانچ پنکھڑیاں یعنی petals ہوتی ہیں اور یہ پانچ پنکھڑیاں مل کر اسے ایک ستارے کی شکل دیتی ہیں۔‘‘ وہ ان اسٹوڈنٹس کو گل وفا سونگھتا ہوا دیکھنے لگی۔
’’اس کو زیادہ دیر تک اور کھل کر مت سونگھیے گا،انہیں اسکورپین گراس یعنی بچھو کی گھاس بھی کہتے ہیں اور اگر ہم نے اسے زیادہ دیر تک inhale کر لیا تو لیور کینسر ہونے کا باعث بھی بن سکتا ہے۔‘‘ وہ جو اب تک اس نیلے پھول کو سونگھے جا رہے تھے ،ایک دم سے سٹپٹا گئے۔
’’یہ بہار کے موسم میں کھلا کرتے ہیں۔‘‘ممتحنہ کے لبوں سے بہار کا لفظ نکلا ہی تھا کہ آسمان پر کالے بادل چھانے لگے۔موسم خوش گوار ہونے لگا۔
’’اب آتے ہیں اس کے سمبل یعنی علامت پر۔گل وفا علامت ہے سچی محبت کی۔اس پھول کا تعلق رومانیت کے ساتھ صدیوں پرانا ہے۔یہ کہانی ہے جرمنی کے ایک بادشاہ اور اس کی حسین ملکہ کی۔وہ دونوں دریائے ڈینوب کے آس پاس چہل قدمی کر تے ہوئے۔ محبت کی گفت گو کر رہے تھے۔وہ ایک خوش گوار دن تھا،بالکل اسی طرح جس طرح آج کا دن ہے۔‘‘ سننے کی حس سب کی اور زیادہ تیز ہو گئی۔بارش کے آنے سے پہلے کی خاموشی رومانیت برسا رہی تھی۔




Loading

Read Previous

گھٹن — اعتزاز سلیم وصلی

Read Next

بس عشق ہو — کشاف اقبال (دوسرا اور آخری حصّہ)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!