بس عشق ہو — کشاف اقبال (حصّہ اوّل)

’’میرا خیال ہے لیکچر ختم ہو چکا۔‘‘وہ اس لڑکی کو گھورتے ہوئے بولی۔
’’وہ تو خود ایک پھول ہیں،آپ ان سے مت ڈریں،آپ مجھے بتائیے کہ پھر کیا ہوا؟‘‘ اس کی بات کاٹنے والا وہ شخص برہان ندیم تھا۔ وہ وہاں سے اٹھ کر کمرا بند کرنے چلی گئی اور سورج مکھی کے گملوں کو وہاں سے ہٹانے لگی۔
’’ان کے سوال کرنے پر الٹا ہم نے ان سے وہی سوال کر دیا اور انہوں نے پتا ہے کیا جواب دیا؟‘‘ وہ اس طالبہ کو غصے سے دیکھنے لگی۔اس کا غصہ بھی ایسا تھا جیسے سادگی کی کوئی انتہا ہو۔اس کا غصہ ایسا تھا جسے محبت کی صفات کی فہرست میں بآسانی شمار کیا جا سکتا ہو۔
’’کیا جوا ب دیا؟‘‘ برہان نے بہت زور سے کہا،کچھ اتنا کہ ممتحنہ کو بآسانی آوا ز جا سکے۔
’’انہوں نے جواب دیا کہ اگر کبھی ان کی آپ سے ملاقات ہوئی تو وہ آپ کو گلِ لہمی ضرور دیں گی، جامنی رنگ کا۔‘‘وہ اس کا جواب سن کر اتنا حیران نہیں ہوا،وہ اس کا جواب پہلے ہی جانتا تھا۔وہ ویڈیو اس نے سو بار تو دیکھ ہی لی ہو گی۔
’’ہمم!‘‘ وہ اسے دیکھ کر مسکرانے لگا جو منہ بسورتی ہوئی پودوں کو ایک طرف رکھ رہی تھی۔
درجنوں سیلفیاں لینے کے بعد لڑکیاں اپنے گھروں کو چل دیں لیکن وہ وہیں کھڑا رہا۔
’’میں مدد کر دیتا ہوں۔‘‘اس نے پوچھا نہیں،بس مدد کرنا شروع کر دی۔
’’آپ یہاں سے چلے جائیں تو بہتر ہے، میں اکیلی لڑکی ہوں یہاں۔‘‘وہ اس کا ساتھ دینے میں مصروف تھا کہ اتنے میں ممتحنہ نے آواز نکالی۔
’’بھیڑ میں بات کرتا ہوں تو آپ یا تو خاموش رہتی ہیں یا بھاگ جاتی ہیں۔ اب تنہائی میں بات کر رہا ہوں تو آپ الٹا مجھے بھاگ جانے کا کہہ رہی ہیں۔آپ مجھ سے بھاگ رہی ہیں یا پھر محبت کے اظہار سے؟‘‘ وہ اس سے تھوڑا فاصلے پر کھڑا تھا اور وہ خود بھی یہ بات جانتی تھی کہ برہان اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔
’’کیا کہنا چاہ رہے ہیں آپ؟‘‘ وہ پودوں کو ترتیب دیتے دیتے رک گئی۔





’’کہہ تو کل ہی دیا تھا۔آج تو اپنے کہے کا اثر دیکھنے آیا تھا۔‘‘وہ مسکرا کر اس کے بالوں میں لگے سورج مکھی کو دیکھنے لگا۔
’’تمہیں پتا ہے جس طرح سورج مکھی کا رخ سورج کی کرنوں کی جانب ہوتا ہے،بالکل اسی طرح تمہارا وجود بھی ہمیشہ اجالوں کی طرف رہتا ہے۔زندگی سے بھرپور،زندگی کو جینے والی ہو تم،پھر کیوں اپنے چہرے پر عیاں اپنی محبت کو حجاب بنانا چاہ رہی ہو؟اسے حجاب تم دنیا والوں کے سامنے بنا سکتی ہو مگر میرے سامنے نہیں۔ سچ بتاؤ، کیا مجھ سے محبت نہیں کرتیں تم؟‘‘ اب وہ اس کے بالکل سامنے کھڑا تھا۔وہ بھلے اپنی نظریں جھکائے ہوئے تھی مگر اس کی نظریں اسی پر تھیں۔
ممتحنہ کو ٹھنڈے پسینے آنے لگے۔آنکھوں سے آنسو بہنا شروع ہو گئے۔لب سل گئے،اس نے اپنی زبان ہلانے کی بہت کوشش کی مگر وہ نہ ہل سکی۔ لہٰذا اس نے اشاروں کی زبان کا استعمال کیااور آنکھوں میں آنسو لیے اس نے اپنا سر اثبات میں ہلا دیا۔
اس کا اثبات میں سر ہلانا برہان کو نہال کر گیا۔برہان کو اس کی آنکھوں میں آنسو اور ٹھنڈے پسینے دیکھ کر اس کی پاکیزہ محبت اور سادگی پر بہت پیار آیا۔
’’تمہارے جیسی سادگی میں نے کہیں نہیں دیکھی ممتحنہ۔ اللہ کی دی ہوئی ایسی حسین نعمت سے اس طرح آج میں پہلی بار آشنا ہوا ہوں جو شاید مجھے کروڑوں میں نہ ملتی۔ وہ سادگی کل چند لوگوں کی بھیڑ میں مل گئی۔‘‘محبت کی تازہ ہوا دونوں سمت چل چکی تھی۔برہان کی خوشی کا کوئی ٹھکانا نہ تھا ۔
اس محبت کے حصول کے لیے اس کو مزاروں پر بھی جانے کی ضرورت نہ پڑی۔جو محبت ہمارے نصیب کا حصہ بنی ہو،اس کے حصول کے لیے ہمیں درگاہوں پر دستک دینے کی زحمت نہیں کرنا پڑتی۔ درگاہوں اور مزاروں پر حاضری تو ڈرپوک لوگ دیا کرتے ہیں جنہیں یا تو محبت کو ملنے سے پہلے یا محبت کے ملنے کے بعد اسی محبت کو کھو دینے کا ڈر ہو ۔ممتحنہ کے حصول نے برہان کا ایمان مضبوط کیا تھا، کم زور نہیں اور محبت کی ان گنت صفات میں سے ایک عظیم صفت یہ بھی ہے کہ یہ ایمان کو مضبوط بناتی ہے۔جن کا ایمان مضبوط ہو، ان کی محبت طاقت بن جاتی ہے اور جن کا ایمان ہی کم زور ہو ان کی محبت بیماری بن جاتی ہے۔
وہ چپ رہی۔شاید وہ اس وقت صرف یہی سننا چاہتی تھی یااس کے جذبات کو جو وہ اپنے دل میں اس کے لیے رکھتا تھا۔
’’شکر ادا اس خدا کا کرو جس نے اس نایاب نعمت سے تمہیں نوازا یا پھر اس کے ساتھ ساتھ تمہارا بھی جس نے اس نعمت کا پاس رکھا۔‘‘وہ اس کی سادگی کا عاشق ہو گیا تھا۔سورج مکھی کو ایمان کی علامت سمجھا جاتا ہے اور آج واقعی اس سورج مکھی نے خدا اور محبت پر اس کا ایمان اور پختہ کر دیا تھا۔
’’جو سادگی بناوٹ سے نہیں، بنیاد ہی سے آپ کا زیور،آپ کا لباس بنی ہو ،وہ سادگی اتنی آسانی سے نہیں ملا کرتی۔نہ جانے کون سی نیکی کا صلہ آج مجھے اس خدا نے تمہارے حصول کی شکل میں دیا ہے۔‘‘ وہ جو ابھی تک اپنی نظریں جھکائے ہوئے تھی، اس نے اپنی نظریں اٹھاہی لیں۔
’’مجھے محبت ہے آپ سے برہان، بہت محبت۔‘‘ اشاروں کی زبان کی جگہ لبوں نے لے لی تھی۔وہ ٹھیک سے بول نہ پائی، رو جو اتنا رہی تھی۔
وہ دونوں ایک دوسرے کو دیکھنے میں محو تھے کہ اتنے میں زارا کی واپسی بھی ہو گئی۔ وہ جیسے ہی نرسری کے اندر داخل ہوئی،برہان ندیم کو دیکھ کر حیران رہ گئی۔وہ برہان ندیم کو دیکھ کر چیخنے ہی والی تھی کہ اتنے میں اس نے ان دونوں کو ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے دیکھا۔ اس نے اپنے لب سی لیے۔
’’اچھا اب رو تو مت۔ اس خوب صورت رشتے کی ابتدا روتے ہوئے کرو گی تو یہ رشتہ آگے کیسے بڑھے گا؟ ویسے روتے ہوئے تم اور بھی زیادہ معصوم لگتی ہو،دل نہیں کر رہا کہ تمہیں چپ ہونے کا کہوں۔‘‘ وہ اس کی آنکھوں سے گرتے موتیوں کو انگلیوں کی پوروں پر سمیٹنے لگا۔
’’شاید میں غلط وقت پر آ گئی ہوں۔ ‘‘زارا نے اپنی موجودگی کا احساس دلانا چاہا۔اگر وہ یہ نہ کرتی تو شاید وہ دونوں ایسے ہی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے دنیا سے بے خبر کھڑے رہتے۔
’’تم کب آئیں زارا؟‘‘ وہ جو اب تک برہان کے سامنے کھڑی اپنی محبت کا اظہار کر رہی تھی۔ اب اپنی سہیلی کے پاس دوڑی چلی آئی۔
’’بس ابھی آئی۔ برہان ندیم آپ؟ آپ کا یہاں اس غریب خانے میں کیسے آنا ہوا؟‘‘ اس کے سامنے برہان ندیم کھڑا تھا،لہٰذا وہ ممتحنہ کو نظر انداز کرتی ہوئی اس کے پاس دوڑی۔
’’آپ کی سہیلی کی سادگی کھینچ کر لے آئی یہاں تک۔ ‘‘ ممتحنہ کے اقرار کی خوشی ابھی تک اس کے چہرے سے چھلک رہی تھی۔
’’تو کیا بات بن گئی؟‘‘ زارا کا انداز برہان کے ساتھ دوستانہ ہو گیا۔
’’یہ تو آپ ان سے پوچھیے جو محبت کا اقرار کرنے کے بعد بھی آنکھ سے موتی گرا رہی ہیں۔‘‘برہان اس کے منہ سے بار بار اظہار سننے کے موڈ میں تھا۔
’’ارے! یہ کیا بات ہوئی؟ محبت کا اقرار کرتے ہوئے بھلا کسی کی آنکھوں میں آنسو آتے ہیں؟تم سے محبت ہوئی ہے،گناہِ کبیرہ نہیں۔ پھر یہ کفارہ،یہ آنسو کس لیے میڈم؟‘‘زارا کھڑی برہان کے ساتھ تھی پر سوال ممتحنہ سے کر رہی تھی۔
’’آتے ہیں آنسو زارا صاحبہ ،جن کا زیور سادگی ہو،جن کا لباس معصومیت ہو،ایسے پھول جیسے لوگوں کی آنکھوں میں اقرارِ محبت کے وقت آنسو آ جاتے ہیں۔‘‘وہ زارا سے اس کے آنسوؤں کی تشریح کرنے لگا۔
’’بڑی عجیب سی بات ہے۔خیر آپ کھڑے کیوں ہیں؟ اند ر اآئیے ناں۔ میں بہت اچھی چائے بناتی ہوں۔ ناشتا ضرور کر کے جائیے گا۔ ‘‘ وہ برہان کو چائے ناشتہ کی آفر دینے لگی۔
’’شکریہ اس تکلف کی کوئی ضرورت نہیں، میں چلتا ہوں۔ ‘‘وہ زارا کا شکریہ ادا کرنے کے بعد نرسری کے مرکز ی دروازے کی جانب بڑھنے لگا مگر نرسری سے رخصت ہونے سے پہلے وہ ممتحنہ کے روبرو ہوا۔
’’اگر تمہاری اجازت ہو تو کیا میں کل اپنے گھر والوں کو ہمارے رشتے کی بات کرنے لے آؤں؟‘‘ وہ سوالی بنا اس کے سامنے کھڑا تھا۔
’’وہ…وہ…مم…میں اپنے گھر والوں سے پوچھ کر آپ کو بتا دوں گی۔‘‘ اس نے اپنی نظریں جھکائی ہوئی تھیں مگر اب اس کی آنکھوں میں آنسو نہیں تھے۔
’’ٹھیک ہے! جیسے تمہاری مرضی۔میں تمہارے گھر والوں کے جواب کا منتظر رہوں گا۔اپنا خیال رکھنا۔‘‘ وہ چلا گیا۔ممتحنہ کے دل سے نہیں،اس کی نرسری سے۔
’’ارے واہ! بات تو رشتے تک جا پہنچی ہے اور مجھے بھنک بھی نہ پڑی۔‘‘ زارا کے اس رویے پر ممتحنہ اسے بہت زور سے مارنے والی تھی کہ زارا یہ کہتے کہتے نرسری کے دروازے کی طرف بھاگ گئی:
’’بعد میں مار دینا، پہلے مجھے میرے ہونے والے بہنوئی کو الوداع تو کہہ لینے دو۔‘‘زارا کا ایک اور مذاق ممتحنہ کو مزید غصہ دلا گیا۔
’’اگر تم برا نہ مانو تو کیا تم مجھے اپنا فون نمبر دے سکتی ہو؟وہ ٹھہر ی سادگی کا مجسمہ، فی الحال اس سے یہ امید نہیں رکھی جا سکتی کہ وہ مجھے اپنا فون نمبر دے۔اس لیے اس کے گھر والوں نے کیا جواب دیا ،یہ میں تم ہی سے پوچھ لوں گا۔ ‘‘زارا نرسری کے دروازے پر آئی ہی تھی کہ برہان نے اس سے اس کا فون نمبر مانگ لیا۔
’’جی ضرور!کیوں نہیں! اور آپ فکر نہ کریں برہان صاحب،یہ سپورٹنگ کریکٹر ہمیشہ آپ دونوں کے کام آئے گا۔ ‘‘ یہ کہہ کر اس نے اپنا فون نمبر برہان کے حوالے کر دیا اور وہ اپنی عالی شان مرسڈیز میں روانہ ہو گیا۔
’’یہ برہان ندیم صاحب ہیں نا جو ٹی وی ڈراموں میں آتے ہیں؟ مجھ سے آتے ہوئے ملے بھی تھے،سلام دعا بھی کی تھی۔‘‘برہان وہاں سے نکلا ہی تھا کہ نرسری کے سکیورٹی گارڈ اللہ بخش نے زارا سے برہان کے متعلق پوچھا۔
اللہ بخش ان کی نرسری کا گارڈ تھا جس کی چوکی داری صبح دس بجے سے شروع ہوا کرتی ،ممتحنہ اور زارا کے پہنچنے کے تقریباً دو گھنٹے بعد۔ وہ سکیورٹی گارڈ سے زیادہ ان دونوں کا دوست تھا۔ہر بات چاہے وہ ذاتی ہو یا اپنی نوکری کی،وہ ان دونوں سے ضرور شیئر کرتا۔
’’آپ کو کیسے پتا کہ یہ ٹی وی پر آتے ہیں؟‘‘ زارا دروازے پر کھڑی اس سے باتیں کرنا شروع ہو گئی۔اسے اللہ بخش سے باتیں کرنا اچھا لگتا۔
’’میری بیگم کو بہت پسند ہیں یہ۔ ٹی وی پر ان کا ہر ڈراما بڑے شوق سے دیکھتی ہے۔‘‘وہ بڑے مزے سے اپنی بیگم کی بات اسے بتا رہا تھا۔
’’شش!آہستہ بولیں، ممتحنہ نے سن لیا نا پھر آپ کی بیگم کی تو خیر نہیں،کیوں کہ بہت زیادہ چانسز ہیں کہ ممتحنہ برہان ندیم کی بیگم بن جائے،آج اظہارِ محبت اور اقرارِ محبت دونوں جو ہو چکا ہے۔‘‘
وہ دونوں قہقہے مارنے لگے۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

گھٹن — اعتزاز سلیم وصلی

Read Next

بس عشق ہو — کشاف اقبال (دوسرا اور آخری حصّہ)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!