بس عشق ہو — کشاف اقبال (حصّہ اوّل)

’’عشق تو آگ کا دریاہے،شعر تو سنا ہی ہوگا۔ عشق میں گہرائی جینا سکھاتی ہے لیکن یہ زندگی آگ کے دریا پر سے گزر جانے کے بعد ملتی ہے۔‘‘عشق و محبت کی تمام تر سچائیوں سے واقف ممتحنہ کو زندگی میں پہلی بار محبت ہوئی تھی۔
’’ہماری محبت عشق بن جائے تو ڈوبو گی میرے ساتھ؟آگ کے دریا میں؟‘‘اس نے ممتحنہ کا ہاتھ اور زیادہ مضبوطی سے تھا م لیا۔
’’ڈوبتے ہوئے کو تو تنکے کا سہارا ہی کافی ہوتاہے اور پھر میرے ساتھ تو آپ ہوں گے،ڈوبیں گے بھی اور پار بھی جائیں گے۔‘‘
’ڈوبیں گے بھی ‘ کے الفاظ اس نے برہان کا چہرہ دیکھتے ہوئے کہے اور ’پار بھی جائیں گے‘ کے الفاظ سمندر کو دیکھتے ہوئے۔
’’ہو سکتا ہے کہ ہماری زندگی میں آگے بہت سے طوفان آئیں،وعدہ کرو ساتھ نہیں چھوڑو گی۔‘‘وہ سمندر کنارے بیٹھا اس سے محبت کے وعدے لینے لگا۔
’’محبت میں وعدے نہیں کیے جاتے،قسم کھائی جاتی ہے۔وعدے تو بنتے ہی ٹوٹنے کے لیے ہیں، لیکن محبت میں قسم کھا لینا ایک ذمہ داری ہوتی ہے جسے محبت کرنے والے کو مرتے دم تک نبھانا ہوتا ہے اور میں قسم کھاتی ہوں،ساتھ نہیں چھوڑوں گی۔‘‘پہلے تو وہ وعدے اور قسموں میں فرق کرنے لگی پھر گویا ہوئی۔
’’دھڑکن جب دل کا ساتھ چھوڑتی ہے تو نتیجہ موت ہوتا ہے۔ اب یہ ساتھ اسی وقت چھوٹے گا جب دھڑکن دل سے جدا ہو گی۔‘‘ہر سو خاموشی چھا گئی اور ایک پل بھی نہیں لگا خاموشی کو رومانیت میں تبدیل ہونے کے لیے۔
’’تم باتیں کم پر بہت وزنی کرتی ہو، مگر تم سے زیادہ باتیں تمہاری آنکھیں کرتی ہیں۔‘‘ اس نے ممتحنہ کے بالوں میں لگے تین میں سے ایک گل وفا نکال کر اپنے ہاتھ میں سنبھال لیا۔





’’وہ کیسے؟‘‘جس طرح برہان کو ممتحنہ کو سننا پسند تھا اسی طرح ممتحنہ کو بھی برہان کی گفت گو سے رغبت تھی۔
’’تمہاری زبان کنجوسی کرتی ہے پرتمہاری آنکھیں ہر لمحہ مجھے اس بات کا یقین دلاتی ہیں کہ یہ صرف برہان کے وجود کا طواف کرنا چاہتی ہیں۔‘‘ممتحنہ کا ڈر آہستہ آہستہ ختم ہونے لگا تھا اور اب اسے وہاں پتھر پر بیٹھنا اچھا لگ رہا تھا۔
’’آپ کو آنکھیں بھی پڑھنا آتی ہیں؟‘‘وہ اس کی آنکھوں میں جھانکنے لگی۔
’’آنکھیں تو نظر آتی ہیں اس لیے خیر ہے،تمہارے جیسی کھلی کتاب کا تو میں دل کا حال بھی بتا سکتا ہوں۔‘‘وہ اس کے قریب آ کر اس کی آنکھوں میں دیکھنے لگا۔
’’تو بتائیں پھر میرے دل کا حال؟‘‘برہان کے قریب آنے پر وہ ان کمفرٹیبل ہو گئی۔
’’بالکل میرے دل کے جیسا ہے بس فرق صرف اتنا ہے کہ یہاں تم دھڑک رہی ہو اور وہاں میں۔‘‘وہ اسے مزید ان کمفرٹیبل کرنے لگا۔
’’اداکاری نے کافی عاشق مزاج بنا دیا ہے آپ کو ۔‘‘وہ اس کی نظروں پر سے اپنی نظریں ہٹا کر اِدھر اُدھر دیکھنے لگی۔
’’عاشق مزاج اداکاری نے نہیں،تمہاری سادگی نے بنایا ہے۔قسم لے لو۔‘‘ممتحنہ کے اِدھر اُدھر دیکھنے پر برہان کو محسوس ہو گیا کہ وہ ان کمفر ٹیبل ہو رہی ہے۔
’’ایسا کیا ہے میری سادگی میں جو آپ کے قصیدے ختم نہیں ہوتے اس سادگی پر؟‘‘وہ یہ سمجھنے سے ہمیشہ قاصر رہی کہ آخر برہان کو اس کی سادگی میں کیا نظر آتا ہے۔
’’انسان کی بنیادی خوبیوں میں سب سے بہترین خوبی وہی ہوتی ہے جس کا اسے خود علم نہ ہو۔ وہ خوبی تمہاری سادگی ہے۔اس کی گہرائی میں تم صرف مجھے جانے دو، تم کنارے پر ہی رہو،تم اس خوبی کی گہرائی نہیں سمجھ سکتی۔‘‘
’’چلیں، مان لیتی ہوں۔‘‘وہ ہوا سے اڑتے بالوں کو کان کے پیچھے اڑسنے لگی۔
’’مجھے تو تمہاری سادگی سب سے زیادہ پسند ہے۔تم بتاوؑ کہ تمہیں میری کون سی خوبی سب سے زیاد ہ اچھی لگتی ہے؟‘‘وہ یہ بھی جاننا چاہتا تھا کہ ممتحنہ کو اس کی کون سی خوبی زیادہ پسند ہے۔
’’مجھے اپنی حفاظت میں رکھنا۔‘‘ممتحنہ کی نظر اس پر ٹھہر سی گئی۔ ہوا کا ایک جھونکا ایسا آیا کہ برہان کے ہاتھوں سے وہ نازک گل وفا پانی میں گر گیا۔
’’ہونہہ… یہ تو پانی میں گر گیا۔‘‘وہ افسردہ ہوگیا۔
’’تو کیا ہوا؟‘‘ممتحنہ پھول کا پانی میں گرنا ذرا بھی خاطر میں نہیں لائی۔
’’یہ تو جرمنی کے بادشاہ اور ملکہ والا سین ہو گیا۔لگتا ہے اب مجھے پانی میں چھلانگ لگا کر اس پھول کو بچا کر اپنی جان گنوانا ہوگی۔‘‘وہ پھول پانی کے ساتھ بہا نہیں تھا بلکہ کنارے پر پڑا تھا،پر اسے اٹھانے کے لیے برہان کو پتھر سے نیچے اترنا تھاجو بہت زیادہ خطرناک تھا۔
’’اللہ نہ کرے۔آپ ایک عام سے پھول کے لیے اپنی جان دیں۔‘‘اس نے برہان کے لبوں پر اپنی چاروں انگلیاں رکھ دیں۔ وہ برہان سے نارا ض ہو چکی تھی۔
’’ار ے میں تو مذاق کر رہا تھا،دل پہ مت لو۔‘‘وہ جواباً خاموش رہی۔
’’تم بہت اچھی ہو ممتحنہ۔کاش میں بتا سکتا کہ تمہیں اچھا کہنے میں کتنی گہرائی ہے۔‘‘وہ اس کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لے کر اس کی تعریف کرنے لگا۔
’’سمندر جتنی؟‘‘ دونوں قہقہے مارنے لگے۔ناراضی دو پل کی تھی اور اب وہ دونوں اس پتھر پر سے اٹھنے لگے۔
’’آپ ادکاری نہیں چھوڑیں گے نا؟‘‘ ممتحنہ نے برہان سے معصومیت بھری آواز میں پوچھا۔
’’تم کہتی ہو تو نہیں چھوڑتا ورنہ میرا یہی دل ہے کہ میں جلد از جلد تم سے شادی کر کے ایک خوب صورت زندگی گزاروں۔ایک ایسی زندگی جس میں لوگوں کا نہیں،تمہارے کھلائے گئے پھولوں کا ہجوم ہو،میں ہوں اور تم ہو۔‘‘وہ اپنے دل کا حال اس کے سامنے رکھتا اس کا ہاتھ تھامے وہاں سے جانے لگا۔
وہ دونوں گاڑی میں بیٹھنے ہی والے تھے کہ برہان کی نظر ایک نو بیاہتا جوڑے پر پڑی۔بیوی کی گود میں چند ما ہ کا بچہ تھا اور شوہر اپنی بیگم کو سفید پھولوں کا گلدستہ دے رہا تھا۔گلدستے میں پانچ سے چھے لمبے لمبے سفید پھول تھے جن کی پنکھڑیاں ایک ساتھ جڑ کر اس پھول کو بڑی خوب صورت شکل دے کر رہی تھیں۔
’’ممتحنہ،ا ن پھولوں کی شکل دیکھ رہی ہو؟They are so elegant،کتنے سادہ اور خوب صورت ہیں۔ ان کا نام کیا ہے؟‘‘برہان نے چاہا کہ ممتحنہ بھی ایک نظر ان پھولوں کی طرف دیکھے جن کی سادگی نے اسے متاثر کیا تھا۔
’’اونہہ۔ آج کل کے لوگ بھی نا!‘‘ ممتحنہ نے ان پھولوں کو دیکھتے ہی منہ بسو ر لیا،شاید ایک بار پھر وہ اپنا انسائیکلوپیڈیا کھولنے والی تھی۔
’’اب کیا ہوا؟دیکھو تو سہی کتنے حسین ہیں۔ مجھے جس دن یہ پھول کہیں بھی ملیں گے،میں تمہارے لیے ضرور خریدوں گا۔
’’They will suit with your personality ‘‘ برہان کی نظر اب بھی ان پھولوں پر تھی۔
’’ایسا کبھی کیجیے گا بھی نہیں۔‘‘ممتحنہ گاڑی میں جا کر بیٹھ گئی۔گاڑی چنبیلی کی خوشبو سے پوری طرح مہک رہی تھی۔ وہ چنبیلی کا گلدستہ گاڑی کے اندر رکھ گئی تھی اور جب واپس آئی تو اس کی سوندھی سوندھی خوشبو ممتحنہ کا استقبال کر رہی تھی۔
’’پر کیوں نہ کروں ایسا؟بتا وؑ تو سہی۔‘‘برہان گاڑی میں آ کر بیٹھاپر وہ اب بھی گاڑی کے شیشے اتار کر ان پھولوں کو ہی دیکھ رہا تھا۔
’’یہ فیونرل فلاور(Funeral Flower)ہے،کسی اپنے کی موت پر دیا جاتا ہے۔اس کے بارے میں تو یہ بات بھی مشہور ہے کہ اگر کوئی اپنا انتقال کر گیا ہوتواس پھول کی خوشبو اپنے آس پاس محسوس ہوتی ہے جو اس بات کی علامت ہے کہ آپ کا اپنا کسی پرسکون جگہ منتقل ہوگیا ہے اور اب کبھی وہاں سے واپس نہیں آئے گا۔‘‘برہان چونک سا گیا،اس خوب صورت پھول کی تاثیر اتنی گہری اور دردناک ہوگی، وہ یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔
’’اس پھول کا نام کیلہ للی ( Calla Lilly) ہے،للی یعنی سوسن کی ایک بہت ہی مقبول قسم ہے۔ اسے سفید سوسن یا وائٹ للی بھی کہتے ہیں اور یہ ایک مقبول فیونرل فلاور ہے۔یہ پھول سادگی اور بے گناہی کی بھی علامت ہے پر میرا نہیں خیال ایک شوہرکو اپنی بیوی کو ایسا پھول دینا چاہیے جس کی علامات میں سے ایک علامت اتنی پراسرار ہو۔‘‘ اب وہ بھی ان پھولوں کی طرف دیکھنے لگی۔
دونوں نے ان پھولوں کی طرف اس طرح دیکھا کہ بے چاری بیگم کے ہاتھوں سے وہ گلدستہ گر گیا۔وہ اس گلدستے کو اٹھانے لگی کہ اس کے شوہر نے گرا ہوا گلدستہ اٹھانے سے منع کر دیا۔
’’چلو اچھا ہوا، گر گیا۔ خیر! میں نے طے کر لیا ہے،اب جو بھی پھول لوں گا، تم سے پوچھ کر ہی لوں گا۔ جانے کس پھول کا کیا مطلب ہو۔‘‘برہان نے سر جھٹک کر گاڑی چلانا شروع کر دی۔اس کا ذہن اب بھی اس پراسرار اور خوب صورت پھول کی طرف تھا۔
’’اس طرح تو لال گلاب بھی فیونرل فلاور ہوا۔ ہم اسے اپنوں کی قبرپر نچھاور جو کرتے ہیں۔‘‘برہان پھولوں کے متعلق اپنے تمام قیاس درست کرنا چاہتا تھا،اس نے فیونرل فلاور کی گفت گو کو جاری رکھا۔
’’لال گلاب بھی فیونرل فلاور ہے لیکن یہ انہیں دیا جاتا ہے جن سے آپ محبت کرتے ہیں،خواہ وہ زندہ ہوں یا مردہ جب کہ للی محبت کی علامت نہیں ہے،بے گناہی اور سکون کی علامت ہے۔ اپنے آپ کو مطمئن کرنے کی علامت ہے کہ ہمارا جو اپنا اس دنیا سے رخصت ہو گیا ،وہ کسی پرسکون اور محفوظ جگہ پر ہے۔‘‘
گفت گو طویل ہو جانی تھی،برہان نے زیادہ دماغ لگانے کی کوشش نہیں کی اور فیونرل فلاور کی گفت گو کو وہیں ختم کر دیا۔
گھر پہنچتے پہنچتے ممتحنہ بہت تھک گئی تھی۔ اسے احساس ہوا کہ جب وہ اتنا تھک گئی تو ڈرائیونگ کرنے والا کتنا تھک گیا ہوگا۔
’’آج میری زندگی کا ایک عام سا دن تھا،اسے یادگار بنانے کا شکریہ۔‘‘گاڑی ممتحنہ کے گھر تک رسائی دے چکی تھی۔
’’میں عام سی ممتحنہ بن کر نرسری سے نکلی تھی،اپنی محبت کی برسات میں بھگو کر مجھے دنیا کی سب سے خوش قسمت لڑکی بنانے کا شکریہ۔‘‘محبت میں شکر گزاری دونوں جانب تھی۔
’’میر ے امی ابو سے مل لیں،وہ بہت خوش ہوں گے آپ کو دیکھ کر۔‘‘وہ گاڑی سے اترنے ہی لگی تھی کہ اس نے برہان سے اپنے والدین سے ملاقات کرنے کی خواہش ظاہر کی۔
’’ویسے آپ اگر یہ بات نہ بھی کہتیں ،میں تب بھی آپ کے ساتھ ہی اندر جانے والا تھا۔‘‘وہ گاڑی کا دروازہ کھولتے ہوئے مسکرانے لگا۔چنبیلی کا گلدستہ جو گاڑی میں رکھا تھا،ممتحنہ نے اپنے ساتھ لے لیا۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

گھٹن — اعتزاز سلیم وصلی

Read Next

بس عشق ہو — کشاف اقبال (دوسرا اور آخری حصّہ)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!