بس عشق ہو — کشاف اقبال (حصّہ اوّل)

وہ اس کے کیریئر میں مقبولیت کے دن تھے۔ شہرت کو تو صرف اس ہی کے گھر کا راستہ معلوم تھا۔ ترا ملنا ناگزیر، سفر محبت کا، دل ِ ویراں، وہ پہلی نظر جیسے مقبول ترین ڈراموں میں ہیرو کا کردار ادا کرنے کے بعد وہ شہرت کے ساتویں آسمان پر تھا۔ اس میں کشش ہی کچھ ایسی تھی جو اپنی جانب اس طرح متوجہ کرتی کہ دل کرتا نظریں صرف اسی کو دیکھتی رہیں۔اپنی منفرد اداکاری سے ڈراما انڈسٹری میں بہت ہی کم عرصے میں اس نے اپنا نام بنا لیا تھا ۔تین سال کے قلیل عرصے میں بیشتر ڈراموں میں مرکزی کردار ادا کیا اور لگاتار مختلف ایوارڈز اپنے نام کیے۔ پہلے سال ’’بیسٹ ایمرجنگ ٹیلنٹ‘‘ کا ایوارڈ اور اگلے دو سال بیسٹ ایکٹر کے کئی ایوارڈز کا اسے حق دار ٹھہرایا گیا۔
اس نے تو پرانے اداکاروں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا تھا۔قسمت کی دیوی اس پر پوری طرح مہربان ہوچکی تھی۔وہ ابھی صرف چھبیس برس ہی کا ہوا تھا کہ کئی ایوارڈز اس کے گھر کی زینت بن گئے۔ لیکن اب اس کا ذہن کسی اور ہی طرف تھا۔
’’یہ تمہارے اٹھارہویں ڈرامے کا آخری شوٹ ہے،میں اب بھی تم سے یہی کہوں گا کہ ڈراما انڈسٹری کو چھوڑ کر مت جاؤ۔ بہت بے رونق لگے گی یہ چمکتی ہوئی دنیا اگر تم اس سے دامن چھڑا کر چلے گئے۔‘‘ محمود علی، جو پاکستان کا دور حاضر کا نمبر ون ڈائریکٹر تھا، اپنے ڈرامے ’’ میں، درد اور تم ‘‘ کے آخری شوٹ پر برہان ندیم کو ڈراما انڈسٹری چھوڑ کر جانے سے روکنے لگا۔
’’ ڈراموں میں کام کر کے تھک گیا ہوں محمود صاحب، بس تھوڑا سا بریک لینا چاہتا ہوں اور اس بریک کے دوران پاکستانی فلموں میں کام کروں گا۔بہت اچھا محسوس ہوتا ہے یہ دیکھ کر کہ ہماری فلمیں آج کل اچھے معیار کی بن رہی ہیں۔میں بس یہی دیکھنا چاہتا ہوں کہ بڑی اسکرین پر کام کرنا کیسا لگتا ہے۔‘‘ بات انڈسٹری چھوڑ کر جانے کی نہیں بلکہ اپنے ہنر کی ورسٹیلیٹی دکھانے کی تھی۔ برہان اپنے ہنر اپنی اداکاری کی چھاپ ہر جگہ چھوڑ کر جانا چاہتا تھا۔ پہلے ڈراما انڈسٹری اور اب سلور اسکرین۔
اسے خواب دیکھنا پسند تھا اور سونے پہ سہاگا کہ خدا اس کا دیکھا ہوا ہر خواب پورا بھی کر دیتا، چاہے وہ خواب اس نے جاگتی آنکھوں سے ہی کیوں نہ دیکھا ہو۔ اداکار بننے کے خواب کو حقیقت تک پہنچانا برہان کے لیے بہت مشکل ثابت ہوا۔ اس کے پاس کوئی حوالہ نہیں تھا جس کے بل بوتے پر وہ اس انڈسٹری میں اپنا پہلا قدم رکھ سکے۔ وہ پوری طرح سے اپنے میرٹ کے دم پر ہی آیا تھا۔





’’چلو یہ بھی اچھا ہے ،اللہ کرے تم فلم کے شعبے میں بھی ایسی ہی، بلکہ اس سے بھی زیادہ شہرت حاصل کر و جتنی کہ تم نے ڈراموں سے کی ہے۔‘‘ ڈراما کے شوٹ کی بریک کے دوران محمود علی نے برہان سے کہا ۔
’’فلموں میں کام کرنے کا فیصلہ بہت اچھاہے برہان، تم یہ ضرور کرنا۔ ان شا اللہ کام یابی ملے گی۔‘‘ حیال بھی برہان کے لیے دعا گو تھی۔وہ اس کے اس نئے فیصلے سے کافی خوش ہوئی تھی۔
حیال طاہر، پاکستانی ڈراموں کی وہ اداکارہ تھی جس کے ساتھ ہر بڑا ڈائریکٹر ،پروڈیوسر اور ہر دوسرا اداکار کام کرنا چاہتا تھا۔ہر رائٹر جب ڈراموں کا اسکرین پلے لکھتے وقت ہیروئن کا سوچتا تو صفحات پر سب سے پہلا چہرہ حیال طاہر کا ہی آتا۔ اداکاری کا ہنر تو جیسے اس کے اندر کوٹ کوٹ کر بھرا تھا اور حسن میں وہ سب سے آگے تھی۔لیکن وہ حسن قدرتی کم اور مصنوعی زیادہ تھا۔ پلاسٹک سرجری،انجیکشنز اور مختلف کریموں کا حسن۔
اگر حیال کو ایک بار کسی شے کی خواہش ہو جاتی تو بس اس شے کو حیال کے نصیب کی زینت بننا ہی ہوتا،چاہے اسے حاصل کرنے کے لیے اسے جائز راستے کا انتخاب کرنا پڑے یا ناجائز اس طریقے سے ہی اس نے کئی بڑے بجٹ ڈراموں کو اپنے نام کیا،کبھی ڈائریکٹر کو قابو میں کر کے تو کبھی پروڈیوسر کو۔
مگر ایک بات تو طے تھی۔حیال نے برہان کو حاصل کرنے کے لیے کسی ناجائز راستے کا انتخاب نہیں کیا۔ وہ صحیح معنوں میں اس سے محبت کرنے لگی تھی،سچی محبت۔ اسے یقین تھا برہان اس کے ساتھ جس طرح گفت گو کرتا ہے ،اس کی بے ساختہ تعریفیں کرتا ہے،اپنی نظروں میں اس کے لیے جس طرح عزت رکھتا ہے شاید وہ بھی اس سے محبت کرتا ہے۔اسی لیے حیال نے صرف انتظار کرنا ہی مناسب سمجھا۔ صحیح وقت کے آنے کا انتظار،اس وقت کاانتظار جب برہان خود اس کے قدموں میں گر کر اس سے اپنی محبت کا اظہار کرے اور اسے یقین ِکامل تھا کہ وہ وقت بہت جلد آنے والا ہے۔
’’چلئے! بہت باتیں ہو گئیں۔ہمیں یہ شوٹ سن سیٹ کے وقت ہی کرنا ہے،ورنہ سمندر پر آنے کا کیا فائدہ؟‘‘ ڈائریکٹر صاحب نے شوٹ دوبارہ شروع کرنے کا کہا تو میک اپ آرٹسٹ تمام کاسٹ کا حلیہ درست کرنے لگا۔
’’لائٹس ،کیمرا، ایکشن‘‘ کے الفاظ بولے گئے اور وہ آخری سین بھی شوٹ ہونا شروع ہو گیا۔
’’ہمارے درمیان جتنی بھی غلط فہمیاں پیدا ہوئیں، وہ سب بھول کر کیا ہم ایک نئی زندگی نہیں شروع کر سکتے؟ میں تمہارے گھر اپنے والدین کو بھیجنا چاہتا ہوں۔ کیا تم مجھ سے محبت کرتی ہو رانیہ؟‘‘ وہ رانیہ کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں تھامے، اپنی آنکھوں کو اس کی آنکھوں کے حوالے چھوڑے اس کے جواب کا منتظر تھا۔
’’ کرتی ہوں تم سے محبت،بہت زیادہ۔ بس اتنا کہنا چاہوں گی کہ ہمارے درمیان چاہے کتنی ہی غلط فہمیاں کیوں نہ پیدا ہوں،ہم جدا نہیں ہوں گے۔ محبت سے عشق تک کا سفر ساتھ مل کر طے کریں گے۔ اگر تم میرے ساتھ ہو ذیشان تو مجھے آگ کا دریا بھی محبت کی برسات لگنے لگتا ہے۔مجھے یہ بن موسم برسات بہت پسند ہے۔میں اس برسات میں سدا بھیگنا چاہتی ہوں۔‘‘اور رانیہ نے بالآخر ذیشان کی اظہارِ محبت کا جواب دے ہی دیا۔
’’کٹ! ‘‘ ڈائریکٹر صاحب نے پرسکون انداز میں کہا ۔ محمود علی کے کٹ کہنے کے انداز سے صاف ظاہر تھا کہ ڈرامے کا آخری سین ان کی امیدوں سے بھی زیادہ اچھا شوٹ ہوا ہے۔
’’بس اب تم اس ڈرامے کی زندگی سے باہر نکل کر اصل زندگی میں بھی مجھے پرپوز کر دو، مجھے زندگی مل جائے گی برہان۔ مجھے سانس دے دو،کرو اظہار اپنی محبت کا، پلیز…‘‘ وہ دل ہی دل میں برہان کو اپنی محبت کی گہرائی سے آشنا کرنے لگی۔
٭…٭…٭
اس نے کبھی ایک ڈرامے کی شوٹنگ کے بعد ایک ہفتے کا بھی بریک نہیں لیا۔ یہاں ایک ڈرامے کی شوٹنگ ختم ہوتی تو وہاں دوسرے ڈرامے کی شوٹنگ شروع ہو جاتی۔ آفرز کون سا تھوڑی تھیں برہان ندیم جیسے قابل اداکار کے لیے، پلکیں بچھائے انتظار کرتیں لیکن ’’ میں ، درد اور تم ‘‘ کے بعد اس نے ایک ماہ کا بریک لینے کا حتمی فیصلہ کیا۔
آج وہ اپنے بہت قریبی دوست ظہیر، جسے وہ صحیح معنوں میں اپنا بھائی تسلیم کرتا تھا، سے ملنے کے لیے چلا گیا۔ پر وہی ہوا جس کا اسے ڈر تھا۔ وہ جیسے ہی کیفے پہنچا، پرستاروں کا ایک ہجوم اس کے سامنے نمودار ہو گیا۔ایک فین کو تو جیسے پتا ہی تھا کہ اس صبح برہان ندیم کیفے گلوریا جینز تشریف لا رہے ہیں۔ وہ پورا گل دستہ تیار کر کے لائی تھی،برہان ندیم کی خدمت میں پیش کرنے کے لیے۔
’’السلام علیکم! کیا حال ہیں جناب کے؟مل گئی فرصت اپنے اس منہ بھولے بھائی سے ملاقات کرنے کی؟‘‘ پرستاروں سے ملنے اور ان کے ساتھ درجنوں سیلفیاں بنوانے کے بعد بالآخر برہان کو موقع مل ہی گیا ظہیر کے پاس آنے کا جو کافی دیر سے ایک ٹیبل پر اس کا منتظر تھا۔
’’منہ بھولے بھائی نہیں ہو تم سمجھے! میرے سگے بھائی کی طرح ہو۔ وہ سگا بھائی جس نے میرا اندھیروں میں بھی ساتھ نہیں چھوڑا۔ سائے کی طرح میرے ساتھ رہا، مجھے آگے بڑھنے کا حوصلہ دیا اور آج جو میں ہوں، اس ناچیز کو برہان ندیم بنانے میں جو تمہاری محنت ہے،وہ کسی اور کی نہیں۔‘‘ اور اس نے وہ گلدستہ بغیر ایک نظر تک ڈالے میز پر رکھ دیا۔
’’سگا بھائی مان ہی لیا تھا تو بھائی ہونے کا فرض ادا کرنا ہی تھا۔ ویسے تم یہ گلدستہ دیکھ رہے ہو؟ جانتے ہو اس میں کون سے پھول ہیں؟ ‘‘ وہ گلدستہ جس پر برہان نے سرسری سی نگاہ تک ڈالے بغیر اسے میز پر رکھ دیا تھا۔ وہ ظہیر نے اٹھا لیا اور اُس میں موجود پھولوں کو سونگھنے لگا۔
’’مجھے کہاں دل چسپی ہے پھولوں سے؟مجھے تو پھولوں میں صرف گلاب اور دو چار اور پھولوں کے نام یاد ہیں لیکن پھول تو ان میں سے کوئی بھی نہیں، کون سے پھول ہیں یہ؟‘‘ برہان نے ایک نظر ان پھولوں پر ڈال ہی دی۔
’’ یہ گل لہمی ہے، مطلب کارنیشنز فرصت ملے تو انٹرنیٹ پر دیکھ لینا اس پھول کے بارے میں، کافی اہمیت ہے ان پھولوں کی احساسات کے اعتبار سے۔ ‘‘ جامنی رنگ کے گل لہمی کو ایک مرتبہ پھر سونگھنے کے بعد ظہیر نے بھی اس گلدستے کو میز پر رکھ دیا۔
’’اوکے…I’ll see۔ اور سناؤ کیسی گزر رہی ہے زندگی؟‘‘ وہ دونوں باتیں کرنے میں مصروف ہو گئے۔
’’ کافی مصروف گزر رہی ہے۔آپ کے بھائی کا شوبز میگزین مقبولیت کی انتہاؤں کو چھو رہا ہے۔‘‘ ان پھولوں میں کوئی نہ کوئی مقناطیس ضرور تھا ، برہان ہر دو منٹ بعد ان کودیکھنے لگتا۔
’’ مبار ک ہو بہت، خوشی ہوئی سن کر، اللہ مزید کام یابیاں دے۔‘‘ ظہیر کو مبارک باد دینے کے بعد برہان نے ویٹر کو بلا کر چائے ناشتے کا آرڈر دیا۔
’’ تم جانتے ہو میرے کس حد تک تعلقات ہیں میڈیا والوں سے اور تم اتنے مقبول بھی ہو بلکہ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ تم ان دنوں پاکستان کے نمبر ون اداکار ہو، اس لیے تمہارے بارے میں ہر ایک سے کچھ نہ کچھ سننے کو ضرور ملتا ہے، مگر جو آج کل تمہارے بارے میں سننے کو مل رہا ہے، کیا وہ سچ ہے؟‘‘ظہیر نے پوچھا۔ ’’ ایسا کیا مل گیا میرے بارے میں سننے کو؟‘‘ وہ ہنسنے لگا۔
’’یہی کہ تمہارا حیال طاہر کے ساتھ چکر چل رہا ہے۔ سوری! میں نے یہی الفاظ سنے تھے اس لیے اسی انداز میں کہہ گیا۔ بس یہی سننے کو ملا کہ تم اور حیال طاہر ایک دوسرے میں انٹرسٹڈ ہو۔Is that true?‘‘ ناشتا آ چکا تھا۔ ظہیر نے گرم چائے کا ایک سپ لیتے ہوئے برہان سے جواب طلب کیا۔
’’What nonsense، میں اور حیال؟Hillarious۔‘‘ وہ بے ساختہ قہقہے لگانے لگا۔
’’تم جانتے ہو ظہیر ، مجھے مصنوعی خوب صورتی اپنی طرف ذرا مائل نہیں کرتی اور وقتی محبت مجھ سے ہوتی نہیں۔حیال کی تعریف اس کے منہ پر کر دیتا ہوں کیوں کہ ایسا کرنا بہت ضروری ہے، نمبرون اداکارہ ہے وہ۔اس کے ساتھ کام کرتے رہنے کے لیے ایسے جملے کہنا پڑتے ہیں، پر ایسا ہرگز نہیں ہے کہ میں اسے پسند کرتا ہوں۔مجھے مصنوعی خوب صورتی اٹریکٹ نہیں کرتی۔ ‘‘برہان سنجیدہ ہو گیا تھا۔اس نے تو کبھی حیال کے بارے میں ایسا سوچا بھی نہیں تھا۔
’’ پھر کیسی لڑکی پسند ہے تمہیں یہ بھی بتا دو۔ ‘‘ دل میں جو اصل سوال دفن تھا ،ظہیر نے اس پر سے مٹی ہٹا ہی دی۔
’’مجھے تو قدرت کی عطا کی ہوئی خوب صورتی پسند ہے، نیچرل بیوٹی۔‘‘ برہان نے ان پھولوں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا جو اس گلدستے کے پلاسٹک کے باہر تک نمایاں ہو رہے تھے۔
’’اگر تمہیں نیچرل بیوٹی پسند ہے تو پھر تمہیں پھول کیوں نہیں پسند؟‘‘ برہان کی بات پوری ہونے سے پہلے ہی ظہیر نے اس سے ایک اور سوال پوچھ لیا۔
’’میں نے کہا تھا دل چسپی نہیں ہے اور ہوتی بھی کیسے؟میں کبھی پھولوں کے ساتھ رہا ہی نہیں، لیکن ابھی جب میں نے ان جامنی پھولوں کو دیکھا تو واقعی خدا کی قدرت پر میرا یقین اور زیادہ مضبوط ہو گیا۔these flowers are simply beautiful۔ مجھے ایسی لڑکی پسند ہے جس کا تمام تر حسن اس کی سادگی ہو، اس میں ایسی نیچرل بیوٹی ہو جیسی پھولوں میں ہوتی ہے۔ نفیس اور نازک اور اگر کوئی ایسی لڑکی مجھے مل جائے تو میں اسے کروڑوں کی بھیڑ میں بھی پہچان لوں گا ۔ساری دنیا مصنوعی لگ رہی ہو گی اور اس کی سادگی سب سے الگ،سب سے جدا۔ وہ کروڑوں میں بھی اپنی تمام تر سادگی اور قدرتی حسن لیے چمک رہی ہو گی، جھلملا رہی ہوگی۔بس ایسی ہی ہوگی وہ لڑکی جس سے مجھے محبت ہو گی۔‘‘ کچھ پل کے لیے ظہیر بھی خاموش ہو گیا۔ یہ جاننے کے بعد کہ اس کا بھائی سادگی کا کس قدر گرویدہ ہے۔
’’کہاں کھو گئے ظہیر صاحب؟ میری سادگی کی تعریف اتنی بھی بور نہیں تھی۔ ‘‘ برہان نے ظہیر کی کھلی آنکھوں کے آگے اپنا ہاتھ ہلایا تو ظہیر بھی اپنے حال پرآگیا۔
’’بہت مشکل ہے آج کے دور میں سادگی کے مجسمے کا ملنا لیکن تم کوشش جاری رکھنا، ان شا اللہ ضرور ملے گی وہ تمہیں۔‘‘ چائے ختم ہو چکی تھی پر ان کی گفت گو تو ابھی شروع ہو ئی تھی۔
’’یہ ملاقات بہت اچھی تھی اب میں چلتا ہوں، پھر ملیں گے۔ گھر والوں کو میرا سلام کہنا۔ خدا حافظ۔‘‘ اور برہان ندیم اپنے بھائی کو خیر باد کہہ کر اپنے گھر چلا گیا ۔ وہ اس گلدستے کو ساتھ لانا نہیں بھولا تھا۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

گھٹن — اعتزاز سلیم وصلی

Read Next

بس عشق ہو — کشاف اقبال (دوسرا اور آخری حصّہ)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!