بس عشق ہو — کشاف اقبال (حصّہ اوّل)

’’سلام ! کیا حال ہیں بھائی؟‘‘محمود علی کے اسٹوڈیو سے نکلتے ہی وہ اپنے دوست ظہیر کے گھر چلا گیا۔
’’وعلیکم السلام۔بڑے دنوں بعد یاد کیا۔‘‘ظہیر اسے اپنے گھر موجود پا کر خوش ہو گیا۔
’’یار ! جب بھی مجھے وقت ملتا ہے،سب سے پہلے تمہارا نام ہی ذہن میں آتا ہے۔یقین نہیں ہے کیا اپنے بھائی کی بات پر؟‘‘ وہ دونوں باتیں کرتے کرتے ظہیر کے گھر کے لان میں آ گئے اور وہاں بچھی کرسیوں پر بیٹھ گئے۔
’’کیا بات ہے برہان؟ آج بڑے خوش نظر آ رہے ہو۔کہیں اس خوشی کی وجہ محمود علی کی پارٹی میں ملنے والا پراجیکٹ تو نہیں؟‘‘ ممتحنہ کی طرح برہان کی خوشی بھی اس کی آنکھوں سے چھلک رہی تھی۔ظہیر ٹھہرا ایک نام ور انٹرٹینمنٹ اخبار کا ایڈیٹر، اس سے کہاں محمود علی جیسے ڈائریکٹر کی پارٹی کی ہائی لائٹس چھپ سکتی تھیں۔ وہ تو اور بھی بہت کچھ جانتا تھا پر خود برہان کے منہ سے سننا چاہتا تھا۔
’’پراجیکٹ نہیں، اس خوشی کی وجہ محبت ہے جو مجھے آج حاصل ہو گئی ہے۔‘‘چائے ناشتا صرف کیا جا چکا تھا۔
’’زبردست۔مجھے تو یقین ہی نہیں آ رہا کہ برہان ندیم کو محبت نہ صرف ہو گئی ہے بلکہ حاصل بھی ہو گئی۔‘‘اپنے بھائی کو خوش دیکھ کر وہ بھی بہت خوش ہوا۔
’’ـاچھا یہ تو بتاوؑ کہ کیا ویسی ہی لڑکی ملی ہے جس کی تم اس روز کیفے میں تشریح کر رہے تھے؟‘‘ ظہیر نے اس لڑکی کے بارے میں جاننا چاہا جسے برہان چاہنے لگا تھا۔
’’اس سے بھی کہیں زیادہ اچھی ہے وہ اور تمہیں پتا ہے جب اس نے مجھ سے اپنی محبت کا اقرار کیا تو اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔جب میں نے اس سے کہا کہ تمہارے گھر اپنے گھر والوں کو رشتہ مانگنے بھیجوں تو اس نے کہا کہ امی ابو سے پوچھ کر بتاوؑں گی ،اتنی معصوم ہے وہ۔ شاید میرے ماں باپ کی دعاوؑں کا صلہ ہے وہ۔ ‘‘ برہان ممتحنہ کے خیالات میں گم سا ہو گیا۔
’’کہاں کھو گئے میاں؟‘‘ ظہیر ا س کی آنکھوں کے آگے چٹکیاں بجانے لگا۔
’’کھویا نہیں ہوں، ملا ہوں خود سے۔ بس تم دعا کرنا کہ اس کے گھر والے مان جائیں۔‘‘ اس نے گرما گرم چائے کی ایک چسکی لی۔
’’اللہ تمہارے اور اس کے حق میں بہتر کرے لیکن جس طرح سے تم اس لڑکی کا بائیو ڈیٹا بتا رہے ہو، مجھے نہیں لگتا کہ اس کے گھر والے رشتے کے لیے پہلی ملاقات ہی میں مان جائیں۔ اولاد جب جوانی میں بھی اپنی شرافت ،اپنی معصومیت کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑے تو صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ اس کے ماں باپ کی تربیت کا نتیجہ ہے۔ اس کے ماں باپ شاید بہت سخت ہوں۔ Well! best of luck‘‘ ظہیر کی باتوں نے اس کو سوچنے پر مجبور کر دیا لیکن جو یقین اس کے دل میں ممتحنہ کو پالینے کا تھا،جو ایمان اس کے دل میں محبت کا تھا،اس نے اسے ناامید نہ ہونے دیا۔
’’ میں کو ن ساپہلی ملاقات میں ہی اس کا رشتہ مانگ رہا ہوں۔ بس اس کے ماں باپ سے ملنا چاہتا ہوں، ان سے تعلقات بنانا چاہتا ہوں۔ اس مضبوط چیز کو دیکھنا چاہتا ہوں جس نے دنیا کا سب سے خوب صورت پھول کھلایا ہے۔‘‘





’’ہمم! خیر، نام تو بتا دو اس کا ۔اب مجھ سے بھی چھپاوؑ گے؟‘‘
’’ ممتحنہ۔ ‘‘ ظہیر کو اس کا نام بہت اچھا لگا۔
’’ویسے تم نے حیال کا دل توڑ دیا، کیوں؟‘‘ ظہیر قہقہے مارنے لگا۔
’’دل اسی کا توڑا جاتا ہے جس کے ساتھ دل کا رشتہ ہو، لیکن میرا رشتہ حیال کے ساتھ صرف کام اور دوستی کا ہے، بس۔‘‘ پوری دنیا برہان کو حیال کا بوائے فرینڈ سمجھتی تھی، ماسوائے برہان کے۔
٭…٭…٭
رات کے آٹھ بج چکے تھے۔ عنایہ بیگم روزمرہ کی طرح ٹی وی پر آٹھ بجے کا ڈراما لگائے بیٹھی تھیں مگر وہ ڈراما برہان ندیم کا نہیں تھا۔
’’کیا روز آٹھ بجے ٹی وی کے سامنے بیٹھ جاتی ہیں؟ابو آپ کی اس عادت سے بہت چڑتے ہیں۔‘‘ وہ لیپ ٹاپ پر بیٹھی گل کاری کے نئے نئے آئیڈیاز دیکھنے میں مصروف تھی کہ اس نے اپنی امی کو چھیڑنا شروع کر دیا ۔
’’ہمم! آج برہان ندیم کا ڈراما جو نہیں آنا۔ تمہارا منہ بنانا واجب ہے بی بی۔‘‘عنایہ بیگم بھی پھر اس کی ماں تھیں۔
دونوں ماں بیٹی ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے میں مصروف تھیں کہ اتنے میں حارث بھی آ گئے۔
’’السلام علیکم ابو! کیسا دن گزرا آ پ کا؟ میں پانی لاتی ہوں آ پ کے لیے۔‘‘ ممتحنہ اپنے ابو کی شکل دیکھتے ہی ان کے گلے لگ گئی اور ان کا بیگ کندھے سے اتار کر صوفے پر رکھنے کے بعد ٹھنڈے پانی کا گلاس لانے چلی گئی۔
’’اس سے پہلے کہ آپ فریش ہونے جائیں، میں چاہتی ہوں کہ آپ یہیں بیٹھے رہیں۔ آپ کی گلابو کوئی بہت بڑی خبر سنانے والی ہے ۔تین گھنٹے سے مجھے بھی انتظار کی سولی پر چڑھا رکھا ہے، کہہ رہی تھی کہ جب آپ آئیں گے تب دونوں کو ساتھ بتائے گی۔ا ب آپ یہیں بیٹھ جائیں کیوں کہ مجھ سے اب اور انتظار نہیں ہوگا۔ ‘‘ عنایہ بیگم شوہر سے اپنے پاس بیٹھنے کی ضد کرنے لگیں۔
’’یہ لیجیے پانی!‘‘ وہ جھٹ سے پانی کا گلاس لے آئی۔
‘‘ تو بتاوؑ۔ کیا بتانے والی تھیں ہمیں؟ ہم سننے کے لیے تیار ہیں۔‘‘پانی کا ایک بڑا گھونٹ پینے کے بعد حارث نے اپنی گلابو کو اپنے ساتھ بٹھا لیا۔
’’اور پھر اس نے مجھ سے پوچھا ہے کہ کیا وہ کل میرے گھر ،اپنے گھر والوں کو لے کر آ جائے؟‘‘تمام واقعہ بتانے کے بعد اس نے آخر میں وہ بات بتائی جو برہان نے اس سے آخر میں کہی تھی۔
‘‘یہ تو بہت اچھی بات ہے۔ مگر ابھی تو تمہاری زبان اس کے آگے پوری طرح کھلتی بھی نہیں اور کل وہ تمہارا رشتہ مانگنے آ رہا ہے،ایسا کیسے ہو سکتا ہے بیٹا؟‘‘ عنایہ بیگم کو جھٹ پٹ رشتے والی بات کچھ ٹھیک نہ لگی۔
’’میں تمہاری بات سے متفق ہوں عنایہ، پر تم یہ بھی دیکھو لڑکا سنسیئر(Sincene) ہے اور شاید ممتحنہ کی خوبیوں سے اچھی طرح واقف بھی،تبھی اس نے اس کے سامنے رشتے کی بات کی۔‘‘ میاں بیوی اپنی بیٹی کے معاملات پر ایک دوسرے کے ساتھ مباحثہ کرنے لگے۔
’’ہمم! یہ بھی ٹھیک ہے۔‘‘
’’ممتحنہ! وہ اپنے گھر والوں کو ایک کیا ہزار بارہمارے گھر لے آئے۔ ہمیں کوئی اعتراض نہیں، لیکن رشتے کی بات کرنے سے پہلے میں اور تمہاری ماں یہی چاہیں گے کہ تم دونوں ایک دوسرے سے ملاقاتیں کرو، ایک دوسرے کو جاننے کی کوشش کرواور پھر مجھ سے آ کر کہنا کہ ابو میں شادی کے لیے تیار ہوں اور پھر تم تو اپنے ابو کو جانتی ہو، تمہارا کوئی کہا نہیں ٹالتے۔ کیوں؟‘‘ اسے اپنے ابو کے بات بالکل درست لگی۔وہ بے ساختہ حارث صاحب کے گلے لگ گئی۔بہت پیار کرتے تھے حارث اپنی گلا بوسے۔
’’تو ہونے والی مسز برہان! کب ہو رہی ہے آپ کی ان سے ملاقات؟‘‘ عنایہ بیگم نے ایک بار پھر اپنی بیٹی کو چھیڑنا شروع کر دیا ہے۔وہ شرما کر اپنے کمرے کی طرف چلی گئی۔
’’بہت فرماں بردار ہے ہماری بیٹی، ہم سے ایک بات بھی نہیں چھپاتی۔‘‘ عنایہ بیگم نے ممتحنہ کے جاتے ہی حارث سے کہا۔
’’آخر بیٹی کسی کی ہے مسز حارث ؟‘‘ ماں نے بیٹی کو تنگ کرنا بند کیا، تو شوہرنے اپنی بیگم کو چھیڑنا شروع کر دیا۔
’’اچھا اب آپ شروع مت ہوں، فریش ہونے جائیں۔ میں ڈنر کی تیاری کرتی ہوں۔‘‘
٭…٭…٭
’’السلام علیکم! خبردار جو لائن کاٹنے کی کوشش کی۔ میں برہان کو لائن پر لے رہی ہوں ۔ وہ تم سے بات کرنا چاہتا ہے اور چاہو تو کسی کی بھی قسم لے لو، میں تم دونوں کی ایک بات بھی نہیں سنوں گی۔‘‘ ممتحنہ اپنے کمرے میں آئی ہی تھی کہ اس کے موبائل پر زارا کا فون آ گیا۔ سلام کر کے نہ ہی اپنے کہے سلام کا جواب سنا، بس بولتی گئی۔
’’ارے کیوں فون کر رہی ہو انہیں زارا۔‘‘ اس نے ممتحنہ کی ایک نہ سنی، ٹھک سے برہان کو لائن پر لیا۔
’’السلام علیکم ممتحنہ۔ کیسی ہو تم؟‘‘اس کی آواز سنتے ہی و ہ تھوڑی دیر کو خاموش ہو گئی۔
’’ٹھیک ہوں۔ آپ کیسے ہیں؟‘‘برہان سے بات کرنے کی ہمت گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ بڑھ ہی رہی تھی،کمی کا شکار ہرگز نہیں ہو رہی تھی۔
’’الحمدللہ۔ کیا کر رہی تھیں؟‘‘
’’بس! ایسے بیٹھی ہوئی تھی۔ آپ بتائیں ، آپ تو مصروف ہوں گے شوٹنگ میں؟‘‘ برہان کی آواز سنتے ہی اس کا دل کرنے لگا کہ وہ اسے سنتی رہے اور اپنی سناتی رہے۔
’’نہیں! شوٹنگ سے تو بریک لیا ہے میں نے۔ فی الحال بالکل فارغ ہوں۔ تم سناوؑ ،تم نے بات کی اپنے گھر والوں سے؟کوئی مسئلہ تو نہیں ہوا؟‘‘وہ بات جو شاید ممتحنہ اسے کب سے بتانا چاہ رہی تھی،وہی بات برہان اس سے کب سے پوچھنا چاہ رہا تھا۔
’’جی میں نے کر لی۔‘‘
’’کیا کہا انہوں نے پھر؟‘‘ برہان کا دل تیزی سے دھڑکنے لگا۔
’’بس؟ یہی کہا؟‘‘ ممتحنہ کے والدین نے اس سے جو کچھ بھی کہا،اس نے سب برہان کو بتا دیا، دبے لفظوں میں۔
’’ویسے بالکل ٹھیک کہا ہے انہوں نے، تمہاری زبان میرے آگے ٹھیک طرح کھلتی نہیں اور فوراً سے رشتے کی بات؟‘‘وہ قہقہے مارنے لگا۔ اس کے ہنسنے پر ممتحنہ کو غصہ آ گیا۔
’’اب ایسی بات بھی نہیں ہے۔اگر ایسا ہوتا تو شاید میں ابھی آپ سے فون پر بات نہ کر رہی ہوتی۔‘‘
’’تو جب تمہارے سامنے آتا ہوں تو کیا ہو جاتا ہے تمہیں؟‘‘ وہ اسے نروس کرنے لگا۔
’’ڈرلگنے لگتا ہے۔‘‘ممتحنہ کی آواز کا لیول ڈاوؑن ہونے لگا۔
’’کس سے ڈر لگتاہے؟‘‘برہان کو اچنبھا ہوا۔
’’اپنے آپ سے۔‘‘
’’وہ کیوں؟‘‘
’’کبھی مل کر بتاؤں گی،ابھی مجھے جانا ہے۔امی بلا رہی ہیں، خدا حافظ۔‘‘ اس نے فون رکھ دیا اور ایک لمبی سانس بھری۔
’’آپ کو کیسے بتاوؑں کہ آپ میرے سامنے آ کر میرا کتنا بڑا امتحان لیتے ہیں۔‘‘وہ گہری سانس بھر کر اپنا حلیہ درست کرنے کے بعد کھانے کی میز پر چلی گئی۔
’’تمہارا بہت شکریہ زارا۔تم بہت اچھی سالی ثابت ہو گی میری۔‘‘ ممتحنہ سے بات کروانے پر برہان دل سے زارا کا شکریہ ادا کرنے لگا۔
’’اب تو عادت ڈال لیں شکریہ کہنے کی اور شکریہ سے کام نہیں چلنے والا بہنوئی صاحب بہت بھاری بھاری ٹریٹ لوں گی آپ سے، سمجھے؟‘‘
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

گھٹن — اعتزاز سلیم وصلی

Read Next

بس عشق ہو — کشاف اقبال (دوسرا اور آخری حصّہ)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!