بس عشق ہو — کشاف اقبال (حصّہ اوّل)

’’تم تو کافی پہلے نکل گئی تھیں پارٹی سے،پھر اتنی دیر کیوں ہو گئی مہرباں آتے آتے؟‘‘سمیہ بیگم نے اس کو گھر کے دروازے پر ہی روک لیا۔
’’ممتحنہ کے گھر چلی گئی تھی۔اس کی طبیعت کچھ ٹھیک نہیں تھی تو پہلے اس کو اس کے گھر تک چھوڑ دیا۔ویسے بھی گاڑی اسی کی تھی،حق بھی اسی کا بنتا ہے۔‘‘وہ دروازے کی چوکھٹ پر کھڑی صفائیاں پیش کرنے لگی۔
’’اس کی نوکر تو بنی رہتی ہو لیکن اس کی نوکری نرسری کی حد تک رکھو تو بہتر ہے۔‘‘ زارا کا ممتحنہ کے لیے اتنی پروا کرنا سمیہ بیگم کو آگ بگولا کر گیا۔وہ کوئی چالاک قسم کی عورت نہیں تھیں، بس ہر ماں کی طرح اپنی بیٹی کا فائدہ دیکھتیں۔
’’کسی کی پروا کرنے سے کوئی نوکر نہیں بن جاتا امی۔‘‘وہ تھکی ہاری ابھی تک اپنی امی کے بنائے گئے کٹہرے میں کھڑی تھی۔
’’مان لیاکہ کوئی کسی کی پروا کرنے سے نوکر نہیں بن جاتا پر تمہیں آج تک بدلے میں کیا ملا؟اس کے ساتھ کام تم کرتی ہولیکن تمام تعریفیں وہ اپنے نام کر لیتی ہے۔تم ہی نے تو کہا تھا جس دن ڈائریکٹر صاحب تمہاری نرسری آئے تھے ،اس نے تو تمہارا ان سے تعارف تک کروانا ضروری نہیں سمجھا۔‘‘امی کے یاد دلانے پر زارا کے اندر چھپا زخم تازہ ہو گیا۔
’’میں سونے جا رہی ہوں۔بھوک نہیں ہے مجھے۔کھانا نہیں کھاؤں گی، شب بخیر۔‘‘ وہ اپنی ماں کے کہے تلخ جملوں کو نظرانداز کرتی اپنے کمرے کی جانب چل پڑی۔
’’امی کچھ غلط تو نہیں کہہ رہیں زارا۔ تم بھی اس کے شانہ بہ شانہ کام کرتی ہو پر سارا کریڈٹ وہ اپنے نام کر لیتی ہے اور آج بھی ایسا ہی ہوا۔محمود صاحب نے فلورل ارینجمنٹ دیکھنے کے بعد صرف اس کی تعریف کی اور میں؟ میرا تو ذکر تک نہیں کیا۔‘‘اسے اپنے ضمیر کی آواز سنائی دینے لگی۔عنایہ بیگم کے جملوں نے اپنا اثر دکھانا شروع کر دیا اور اس کا دل اپنی بچپن کی سہیلی کی طرف سے برا ہونا شروع ہو گیا۔
’’یہ سب اس نے خود تو نہیں کیا۔یہ سب تو قدرت کا کیا ہے۔اس میں ممتحنہ کا کوئی قصور نہیں۔‘‘وہ اپنے ضمیر سے لڑنے لگی ۔پر دل میں بال تو آ چکا تھا اور جب دل میں بال آجائے تو تعلقات پہلے جیسے نہیں رہا کرتے،رویے بدلنا شروع ہو جاتے ہیں۔
٭…٭…٭





’’برہان ندیم کو صحیح معنوں میں محبت ہوگئی،سچی محبت اور کیا آپ لوگ جانتے ہیں کس سے؟‘‘ وہ اپنے بستر پر لیٹی ہوئی تھی۔نیند تو اسے آنے والی نہیں تھی،برہان ندیم نے اس کے ذہن و دل پر دستک جو دے دی تھی۔
’’اس سے جس نے مجھے ان پھولوں سے ملوایا۔مجھے قدرت کی خوب صورتی سے آشنا کیا۔یہ بتایا کہ اصل سادگی کیا ہوتی ہے۔اصل حسن کیا ہوتا ہے اور کیا آپ جانتے ہیں اصل حسن کیا ہوتا ہے؟‘‘سانسیں رکنے لگیں،وہ ماضی جو کچھ ہی گھنٹوں پہلے گزرا،حال بن کر اس کی آنکھوں کے سامنے آنے لگا۔
’’خدا کا عطا کردہ حسن جس کو چھیڑے بغیر کوئی یہ ثابت کر دیتا ہے کہ اللہ کی عطا کردہ نعمتوں میں کوئی جھول نہیں ہے۔ they are just perfect‘‘
وہ اپنے وجود کو آئینے کے سامنے لے جانے لگی۔
’’اس کا ہر انداز، چاہے وہ گفت گو کا ہو،نظروں سے آپ بیتی کہنے کا ہو،چلنے پھرنے کا ہو یا نظریں جھکانے کا ہو،بناوٹ سے بالکل پاک ہے۔وہ بالکل پاک ہے،اتنی پاک کہ جیسے کسی نامحرم نے اسے چھونے تک کی جرات بھی نہ کی ہو۔تو کیوں نہ ہو مجھے ایسی لڑکی سے محبت؟‘‘ وہ اپنے رخسار کو آئینے کے سامنے اپنی انگلیوں کی پوروں سے محسوس کرنے لگی۔کبھی اپنے ہونٹوں پر غور کرتی تو کبھی اپنی آنکھوں پر۔
’’مجھے جس سے محبت ہو گی، میں اسے کروڑوں کی بھیڑ میں بھی پہچان لوں گا۔ساری دنیا مصنوعی لگ رہی ہوگی اور وہ۔۔۔۔وہ اپنی تمام تر سادگی،نفاست اور معصومیت لیے چمک رہی ہوگی، جھلملا رہی ہوگی۔‘‘
برہان ندیم کے منہ سے ادا کیے گئے تعریفی کلمات اسے صا ف صاف سنائی دے رہے تھے،اتنے صاف جیسے اسے لگا کہ وہ سب تعریفیں آئینہ اس سے کر رہا ہے۔
’’مجھے تم سے محبت ہو گئی ہے ممتحنہ!I love you‘‘اب وہ سکتے میں نہیں تھی۔وہ سکتے سے باہر آچکی تھی۔اس نے بے ساختہ چیخ ماری، باریک اور نوکیلی چیخ، خوشی کی چیخ۔
’’برہان ندیم اور مجھ سے محبت؟یا اللہ تو بہت بڑا مہربان ہے۔تھینک یو سو ویری مچ۔ میرے تو گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ مجھے میری ان خوبیوں کی وجہ سے پسند کریں گے جو مجھے خود میں کبھی نظر آئی ہی نہیں۔‘‘ وہ خوشی کے مارے جھومنے لگی۔اس نے اپنے خوابوں میں بھی نہیں سوچا تھا کہ جس شخص کی وہ عرصے سے دل دادہ ہے، وہ سرِعام ڈنکے کی چوٹ پر کبھی اس سے اظہار ِمحبت کرے گا۔
’’ممتحنہ کے چیخنے کی آوا ز آ رہی ہے،دیکھو تو سہی کیا ہوا ہے۔‘‘اس کے چیخنے کی آواز حارث صاحب کو کمرے تک چلی گئی تھی۔ وہ پریشان ہوگئے۔
’’اتنے سال بیٹی کے ساتھ رہ لیے پھر بھی اس بات کا اندازہ نہیں لگا سکے کہ وہ اگر چیختی ہے، تو صرف خوشی کے موقع پر۔اس وقت وہ سکتے سے باہر آ چکی ہے۔اس لیے اس خوشی کاجشن منا رہی ہے کہ اسے اس آدمی نے پروپوز کیا جس کی وہ ہمیشہ سے دل دادہ رہی۔‘‘ عنایہ بیگم نے حارث کا غم غلط کر کے اسے یقین دلایا کہ ممتحنہ خوش ہے،تبھی چیخیں مار رہی ہے۔
٭…٭…٭
جہاں ممتحنہ کا سکتہ ختم ہوا، وہیں حیا ل کا صدمہ بھی شروع ہوگیا۔فرق صرف اتنا تھا کہ ممتحنہ کے سکتے کے ختم ہوتے ہی اسے خوشی ملی تھی اور حیال کے صدمے ختم ہوتے ہی اسے غم۔
’’نہیں برہان! تم میرے ساتھ ایسا نہیں کر سکتے۔تم مجھے نہیں ٹھکرا سکتے۔تم نے مجھے اس چیپ، عام سی لڑکی کے لیے ٹھکرایا؟وہ ہے ہی کیا میرے آگے؟میرے پاؤں کی جوتی بھی اس کے کپڑوں سے کئی گنا مہنگی ہے۔اس کے پاس ہے ہی کیا؟ایک پھول سجانے والی تمہیں اتنی پسند کیسے آ سکتی ہے؟‘‘ اپنے کمرے کی وہ تمام چیزیں توڑ چکی تھی، سوائے آئینے کے۔
’’میری آنکھیں، ان آنکھوں پر پوری دنیا مرتی ہے۔میرے وجود کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے دنیا ترستی ہے۔میرے ہو نٹ، میرے بال،میرا سب کچھ اس گھٹیا فلورسٹ سے لاکھ گنا بہتر ہے پھر کیوں تم نے اس کا انتخاب کیا برہان؟ کیوں؟‘‘وہ آئینے کے سامنے کھڑی اپنے وجود کا معائنہ کرنے لگی اور بالآخر اس نے وہ آئینہ بھی توڑ دیا ۔ سارے خواب کرچی کرچی ہو گئے۔برہان کے ساتھ گزارے تمام لمحات کا جنازہ اٹھ رہا تھا۔
’’تم مجھے چاہ نہ سکے برہان،لیکن میں اب بھی یہی چاہوں گی کہ تم صرف مجھے چاہو۔‘‘ آئینے کا ایک بڑا حصہ جو ٹوٹا ہوا زمین پر پڑا تھا،وہ اسے اپنے ہاتھوں میں لے کر اس پر اپنے عکس سے باتیں کرنے لگی۔
’’تم میری خاموش محبت نہ سمجھ سکے برہان۔ اگر سمجھ بھی گئے تو اس کی قدر نہ کر سکے۔ اب میں تمہیں تمہاری اس بے باک محبت کو جس کا اعلان تم سرِعام کرتے پھر رہے ہو،اس طرح سے ختم کردوں گی کہ تم مسجدوں میں اپنی محبت کے اٹھ جانے کا اعلان کیا کرو گے۔‘‘برہان کو حاصل کرنے کا جنون تھا کہ بڑھتا ہی جا رہا تھا۔
وہ جذبات میں آ کر سب کچھ بول تو رہی تھی لیکن اس کے چہرے کا طیش ،و ہ تڑپ صاف ظاہر کر رہی تھی کہ جذبات میں آکر جو سب کچھ وہ کہہ رہی ہے،وہ اس پر پوری طرح مستعد بھی ہے۔
’’میں تمہیں اپنا بنانا چاہتی ہوں مائی لو! جب دل کے در سے پہلی محبت رخصت ہو جائے تو وہ دوسری محبت کے آسرے پر ضرور رہتا ہے،تمہارے ساتھ بھی ایسا ہی ہوگا۔‘‘وہ ماتم کرنے لگی۔ دو سال کے طویل انتظار کا اعمال نامہ جنازے کی صورت جو آ چکا تھا۔ وہ صحیح تھی، جو یک طرفہ محبت کے لاحاصل ہونے پر رو رہی تھی۔ لیکن وہ غلط تھی،جو اس پاکیزہ جذبے کی عزت نہ کر سکی ،انتقام لینے کا ارادہ کرنے لگی۔
ابھی تو اسے یہ تک نہیں پتا تھا کہ آیا ممتحنہ برہان کا اظہار محبت قبول کرے گی بھی یا نہیں، پر وہ تو دو دلوں کو جڑنے سے پہلے ہی چکنا چور کرنے پر آمادہ ہو گئی تھی۔
’’تم مجھے اپنے دل میں جگہ تو نہ دے سکے، لیکن جس دن میں اس دل کا دروازہ توڑ کر داخل ہو گئی،اس دن میں تمہارے دل میں ایک جگہ بھی خالی نہیں چھوڑوں گی،کیوں کہ جب میں اس دل پہ دستک دے دوں گی،اسے تمہارے دل سے رخصت ہونا ہی ہوگا۔‘‘
محبت انسان کو اندھا بنا دیتی ہے،درست سنا تھا،لیکن یہی محبت انسان کو شیطان بنا دیتی ہے،اس حقیقت کی تخلیق حیال نے کی۔
٭…٭…٭
’’تم نے میرے دل پر دستک دے دی ،میری سانسیں اب مجھ سے بے وفائی کر بھی جائیں تو کوئی غم نہیں،سنا ہے جو زخم محبت نے دیا ہووہ کبھی بے وفائی نہیں کرتا،ہمیشہ ہمارے ساتھ رہتا ہے۔‘‘وہ اپنے بستر پر بیڈ کراؤن سے ٹیک لگا کر بیٹھا اس جامنی گل لہمی کو دیکھنے لگا جو ممتحنہ کے بالوں سے گرا تھا۔جسے پھولوں سے ذرا دل چسپی نہیں تھی،وہ اس گرے ہوئے پھول کو اتنی عزت دے رہا تھا جیسے وہ اس کی کل کائنات ہو۔ یہ عزت صرف اس لیے تھی کیوں کہ وہ پھول ممتحنہ کی اترن تھا اور شاید یہ وہی پھول تھا جس نے اسے ممتحنہ سے ملایا۔
’’غم تو تم نے مجھے دے دیا ہے،میری سانسیں جو اپنے ساتھ لے گئی،پر میں یہی چاہتا ہوں کہ یہ غم ہمیشہ میرے ساتھ رہے،کیوں کہ جس دن یہ غم میرے دل سے رخصت ہو گیا،تو میں تمہیں بھی کھو دوں گا، ویسے بھی پہلی محبت کو پا لینے کی خوشی سے زیادہ پہلی محبت کو کھو دینے کا غم یادگار ہوتا ہے۔‘‘ وہ گل لہمی کو اپنے ناک کے قریب لا کر اسے سونگھنے لگا، اپنے ہاتھوں سے اسے محسوس کرنے لگا،کچھ اس طرح کہ جیسے وہ پھول نہیں،اس پھول کی مالکن کو محسوس کرر ہا ہو۔
’’مجھے کہاں ملتی تمہاری جیسی سادگی؟تم تو خوب صورت پھولوں کا مجسمہ ہو ممتحنہ… پھولوں میں گھرا ہوا ایک پھول۔ تمہیں تو پھول سے بھی نہیں ملا سکتا کہ اگر میں نے ایسا کر دیا تو گناہ ہو جائے گا۔کسی عظیم رائٹر نے کہا ہے کہ شرک نہ بندگی میں مانتا ہوں نہ محبت میں ،تو میں کیسے یہ شرک کر دوں؟میں یہ مانتا ہوں کہ پھول بھی جان دار ہوتے ہیں،سانس لیتے ہیں، لیکن میں تمہیں ان سے کمپیئر نہیں کر سکتا۔یہ میرے لیے غلط ہوگا۔ ‘‘ اور پھر اس نے وہ گل لہمی بھی سائیڈ ٹیبل پر رکھے گل دان میں ڈال دیا۔
’’بس انکار مت کرنا۔ تمہارا چپ رہنا میری سانسیں اپنے ساتھ لے گیا لیکن زندگی دے گیا مگر تمہارا انکار مجھے میری سانسیں واپس کر دے گا اور اگر اب مجھے میری سانسیں واپس مل گئیں تب میں زندہ نہیں رہ پاؤں گا۔اب یہ سانسیں مجھے اس دن ہی واپس ملیں گی جب میں تمہیں کھو دوں گا۔ ‘‘ سونے سے پہلے اس نے جی بھر کر اس گل لہمی کو دیکھا جو اب سڑنا شروع ہو گیا تھا۔
’’کل ملاقات ہو گی مس فلورسٹ۔‘‘ اس نے اپنے لبوں سے اس پھول کو چوم لیا اور آنکھوں میں ہزاروں نہیں صرف ایک خواب سجائے سو گیا۔
’’بس انکار مت کرنا۔‘‘
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

گھٹن — اعتزاز سلیم وصلی

Read Next

بس عشق ہو — کشاف اقبال (دوسرا اور آخری حصّہ)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!