بس عشق ہو — کشاف اقبال (حصّہ اوّل)

ـ’’ہمیں پہلی فرصت میں ہی ممتحنہ کا نکاح کر دینا چاہیے تھا، لیکن ہم نے اس وقت سماجی رسم کو تفریحی رسم پر فوقیت دی اور دیکھو، آج کیا ہو گیاہماری بیٹی کے ساتھ۔اگر اس دن اس کا نکاح ہو گیا ہوتا تو کم از کم یہ نوبت تو ہرگز نہ آتی۔ نکاح میں اللہ کی رضامندی شامل ہوتی ہے اور منگنی میں صرف ہماری۔ ہم نے اللہ کی رضامندی پر اپنی رضامندی کو فوقیت دی اور دیکھو آج ہماری بیٹی کی کیا حالت ہو گئی۔‘‘ ماں کے ساتھ باپ بھی آنسو بہانے لگا۔
’’آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں حارث، لیکن اب کیا فائدہ ان باتوں کا، ہماری بیٹی اس حال تک پہنچ ہی گئی۔‘‘ غم تھا کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا اور آنسو تھے جو تھم نہیں رہے تھے۔
ــ’’آپ لوگ اس طرح مت روئیں۔ وہ ابھی اپنی زندگی سے جنگ میں ہے۔شکست نہیں کھائی اس نے اور جب اپنے جنگ پر جاتے ہیں، تو گھر والے مایوس ہو کر غم نہیں مناتے۔ غازی بن کر ان کے واپس لوٹنے کی دعا کرتے ہیں اور وہ غازی بن کر ہی میدان جنگ سے واپس لوٹے گی۔‘‘ وہ اپنی زندگی کو اپنی زندگی کا کچھ حصہ، اپنا خون دے کر آیا ہی تھا کہ اس نے ممتحنہ کے امی ابو کو غمگین دیکھا ۔ وہ انہیں سوگ مناتا دیکھ کر غصہ کرنے لگا۔
اس کے غصہ کرتے ہی حارث اور عنایہ کو سمجھ آیا کہ غم زدہ ہونے سے بہتر ہے کہ ہوش میں آنے کی دعا کی جائے۔عنایہ بیگم مصلّے پر بیٹھ گئیں اور حارث تسبیح ہاتھ میں لیے اپنی بیٹی کی صحت یابی کے لیے دعائیں کرنے لگااور وہ… اس کا نظریہ تو کچھ اور ہی تھا۔
’’اب یہ بندہ شکرانے کے نفل بھی ادا کرے گا۔
عنایہ بیگم کے سلام پھیرتے ہی ڈاکٹر صاحب آپریشن تھیٹر سے باہر نکل آئے۔
’’کیسی حالت ہے اب اس کی؟‘‘ سوال تینوں کا تھا پر پوچھنے میں پہل برہان نے کی۔
’’ہم نے مریضہ کو خون کی بوتل لگا دی ہے پر حالت پر کچھ خاص فرق نہیں پڑا۔ اگلے پندرہ منٹ تک ان کی ہارٹ بیٹ نارمل نہیں ہوئی تو آئی ایم سوری۔‘‘ڈاکٹر صاحب جواب دے چکے تھے۔ وہ ممتحنہ سے کچھ سوالات کرنے اندر چلا گیا۔
’’میں نے اپنا لہو تمہیں دیا ہے۔تم اس کے ساتھ بے وفائی نہیں کر سکتیں ممتحنہ۔ ‘‘وہ اس کا منگنی کی انگوٹھی والا ہاتھ اپنے دل پر رکھنے لگا، وہ انگوٹھی اتر نہ سکی تھی۔
’’میری جان! دیکھو میرا دل تمہارے بغیر بھی دھڑک رہا ہے اور یہ تو ممکن ہی نہیں کہ میں تمہارے بغیر سانس لوں۔ اس کا مطلب یہی ہوا کہ تم مجھے سن رہی ہو۔ اگر سن رہی ہو تو ایک بار دیکھ بھی لو۔ پلیز…‘‘ وہ اس کے ہاتھوں کو چومنے لگا لیکن اس نے کچھ رسپانس نہیں دیا۔
’’تم ہو تو میں ہوں۔ تم نہیں ہو تو میں کون ہوں؟‘‘ برہان کو یقین تھا کہ اس کی باتیں اس کے دل تک ضرور جائیں گی اور اسے دھڑکنے پر مجبور کردیں گی۔ اس کی شہادت کی انگلی میں حرکت ہونے لگی۔
’’ممتحنہ! اپنی آنکھیں کھولو پلیز۔ ورنہ میں مزید اپنی آنکھوں کو کھلا رکھنے کا گناہ نہیں کر پاؤں گا۔ ‘‘ وہ رونے لگا۔ روتے روتے اس کی آنکھیں بند ہونے لگیں۔
٭…٭…٭





وہ بہار کے دن تھے، گلوں کے کھلنے کے دن، خوشبوؤں کے دن، شجر پر نئی شاخوں کے اگنے کے دن اور خزاں کے پتے جھڑنے کے دن۔
آج اس کے اسکول میں سالانہ بہار فیسٹول تھا۔ اسے ہمیشہ اس تقریب کا انتظار رہتا۔ پھولوں سے اتنی مانوس جو تھی۔ اس کے دن کا آغاز ہوتا بھی تو صرف پھولوں سے اور اپنے ہر دن کا اختتام بھی وہ پھولوں پر کرتی۔ہر صبح اپنے لان سے ایک پھول توڑ کر اپنے بالوں میں سجا لیا کرتی۔ کبھی گلاب تو کبھی چنبیلی،کبھی سوسن تو کبھی گل ِ لہمی۔ بچپن ہی سے پھولوں سے اتنی واقفیت اتنی شناسائی تھی کہ پھولوں کا حسن بھی اس کے چہرے پر نمودار ہونے لگا تھا۔ وہ گلوں کا ہر رنگ اوڑھے ہوئے تھی ۔ کبھی کھلتا ہوا گلاب لگتی تو کبھی سورج مکھی کا پھول۔ ایسی بات نہیں تھی کہ اس میں موجود تمام خوب صورتی، تمام نزاکت ان پھولوں کے ساتھ رہنے، ان سے باتیں کرنے کی بنا پر آئی تھی۔ وہ تو خود ہی ایک پھول تھی۔ قدرتی حسن سے مالا مال ممتحنہ پھولوں کے مانند تھی۔ہر پھول کے کھلنے کا کوئی نہ کوئی موسم ضرور ہوتا ہے، لیکن وہ سدا بہا ر تھی جسے کھلنے کے لیے بہار کا انتظار نہیں کرنا پڑتا تھا۔
’’ماما میں بہت لیٹ ہو گئی ہوں پلیز تھوڑا جلدی کر دیں۔‘‘ عنایہ بیگم اپنی بیٹی کے لمبے گھنے بالوں میں کنگھی کر رہی تھیں کہ ممتحنہ نے جلد بازی دکھانا شروع کر دی۔
’’کوئی دیر نہیں ہوئی میری گلابو۔ فیسٹول آٹھ بجے شروع ہو گا، ابھی صرف سات ہی بجے ہیں اور خبردار جو ورکنگ وومن کی طرح ناشتا کیے بغیر نکل گئیں تو۔ ‘‘ عنایہ بیگم اس بارہ سالہ بچی، جو سوچ اور اندازِ گفت گو سے ورکنگ وومن لگتی تھی، کو فیسٹول کے اوقات سے آگاہ کرنے لگیں۔
’’میری گلابو تو بہت پیاری بچی ہے۔ناشتے سے انکار نہیں کرتی اور آج تو اس کی دادی اسے اپنے ہاتھوں سے ناشتا کروائیں گی۔ ‘‘ ممتحنہ کے بالوں میں جیسے ہی پونی بندھی، دادی نے اسے اپنی طرف کھینچ لیا۔
’’آپ سب تو مجھے ایسے ٹریٹ کرتے ہیں جیسے میں دودھ پیتی بچی ہوں۔ کر لوں گی ناشتا، دادی آپ زحمت نہ کریں اور میں لیٹ نہیں ہونا چاہتی۔آپ تو جانتی ہی ہیں کہ آج کے دن کا انتظار میں پورا سال کرتی ہوں۔‘‘وہ اپنی دادی کے رخسار پر اپنی گول مٹول گلابی ہتھیلی پھیرتے ہوئے بولی۔ اس کے اس رویے کو دیکھ کر دادی نے اس کا ماتھا چوم لیا۔
’’دادی کی پوتی بڑی ہو کر کیا بنے گی؟‘‘ اور روزکی طرح دادی نے وہ سوال ایک بار پھر اپنی پوتی سے پوچھ لیا ، یہ سوچ کر کہ شاید اس بار اس کا جواب ڈاکٹر یا انجینئر ہوگا۔پر وہ بارہ سالہ ممتحنہ ایک بار پھر اپنے گھر والوں کو چونکا گئی۔
’’گل کار، یعنی فلورسٹ(Florist) ‘‘ وہ جھلملاتی ہوئی آنکھوں کے ساتھ بولی اور اپنے دادا کے پاس چلی گئی جو کمرے میں موجود اپنی پوتی کو نوعمری ہی میں بڑا ہوتا دیکھ رہے تھے ۔
’’گل کار گل کار…بس یہی رٹ لگائے رکھتی ہے یہ چھٹکی۔بھئی کسی تعلیم سے منسلک شعبے میں جائے تو بات بھی ہو پر یہ تو وہی مرغی کی ایک ٹانگ۔‘‘ اپنی پوتی کو اپنے پاس سے جاتا دیکھ کر دادی نے طنزاً کہا۔
’’بننے دو میری پوتی کو جو وہ بننا چاہتی ہے۔ مجھے اپنی گلابو پر پورا بھروسا ہے، یہ جو بھی شعبہ اختیار کرے گی، کام یابیاں اور تعریفیں ہی سمیٹے گی۔‘‘ وہ دادا کے پاس بھاگتی ہوئی آ رہی تھی کہ دادا نے اسے اپنے سینے لگا لیا۔
’’دیکھا آپ نے دادی، دادا بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں اور انسان کو بڑے ہو کر وہی کام کرنا چاہیے جس میں اس کا بچپن سے انٹرسٹ ہو اور آپ سب لوگ تو جانتے ہی ہیں کہ پھولوں کے ساتھ میرا تعلق کتنا گہرا ہے۔ تو پلیز جب میں بڑی ہو جاؤں تو مجھے ان پھولوں سے دور مت کیجیے گا۔‘‘ وہ بارہ سالہ بچی جو اپنے دادا کی گود میں تھی، کھڑکی سے نظر آنے والے لان کو دیکھنے لگی۔
اس کا اندازِ گفت گو گھر کے تمام افراد کے لیے کسی فرحت بخش جام کی طرح تھا۔ سب کی جان اس بارہ سالہ بچی کے ساتھ جڑی ہوئی تھی۔
ناشتا کرنے کے بعد وہ اپنے دادا کے ہم راہ اسکول جانے لگی لیکن ہمیشہ کی طرح گھر کے دروازے سے قدم باہر نکالنے سے پہلے وہ لان میں جانانہیں بھولی۔
’’آ ج کون سے پھول کا انتخاب کرے گی میری گلابو؟ آج وہ کون سا خوش قسمت پھول ہو گا جو میری گلابو کے بالوں کی زینت بنے گا؟‘‘اور ہمیشہ کی طرح ممتحنہ کے جواب نے انہیں لاجواب کر دیا۔ وہ ایسے ایسے پھولوں کے نام بتاتی جن کا دادا کو پتا تک نہ ہوتا۔ یہ سب معلومات اسے انٹرنیٹ سے ملا کرتی تھیں۔
’’آج میں گلِ وفا کا انتخاب کروں گی۔ گل وفا جسے انگریزی میں فار گیٹ می ناٹ(Forget Me Not) کہتے ہیں۔ ‘‘ اور پھر اس نے نیلا پھول توڑکر اپنی پونی کے ساتھ لگا لیا۔
’’او ر اسے گل ِ وفا کیوں کہتے ہیں کیا یہ بتانا پسند کریں گی مس فلورسٹ؟‘‘ اس پھول کا نام سن کر دادا کے اندر بھی تجسس کی آگ بھڑک اٹھی۔
’’یہ میں آپ کو گھر آ کر بتاؤں گی۔ابھی ہم لیٹ ہو رہے ہیں۔پلیز جلدی جلدی چلیں۔‘‘ ممتحنہ کو اِس وقت صرف فیسٹیول پر پہنچنے کی جلدی تھی، لہٰذا وہ جلدی سے گاڑی میں جا کر بیٹھ گئی۔
٭…٭…٭
’’آ گئیں مس فلورسٹ؟ آج تو آپ ہی کا دن ہے۔‘‘ وہ جیسے ہی اسکول کے مرکزی دروازے پر گاڑی سے اتری، اس کی سہیلی زارا بھاگ کر اس کے پاس آ گئی۔
’’ہاں! یہ تو ہے۔‘‘ وہ جان بوجھ کر اپنی پونی آگے پیچھے کرنے لگی تاکہ زارہ کو بھی پتا چلے کہ آج وہ کون سا پھول اپنے بالوں میں لگاکر آئی ہے۔
’’واہ! یہ پھو ل تو کافی یونیک لگ رہا ہے۔میں نے آج سے پہلے اسے کہیں نہیں دیکھا، کیا نام ہے اس کا؟ بہت پیارا لگ رہا ہے یہ۔‘‘ زارا اس کے بالوں میں گل ِ وفا کو محسوس کرنے لگی۔
’’فار گیٹ می ناٹ مطلب گلِ وفا۔‘‘ اور وہ ایک بار پھر اپنے دادا کو دیکھ کر مسکرانے لگی۔دادا کے اندر ابھی تک اس پھول کے نام کا مطلب جاننے کا تجسس بھرا تھا۔
’’واؤ! Sounds Beautiful‘‘ زارا ایک لمحے کے لیے اسے دیکھتی ہی رہ گئی۔
’’ویسے میری یہ فلور ل ہیٹ دیکھ رہی ہو؟ بڑی مشکل سے تیار کی ہے میں نے۔ تم نہیں پہن کر آئیں فلورل ہیٹ؟میں نے کہا تھا سب نے پہن کرآنی ہے۔‘‘ زارا اپنی فلورل ہیٹ دکھا کر اسے جلانے لگی۔
’’ہونہہ! فلورل ہیٹ۔ وہ تو آج میں سب کو بنانا سکھاؤں گی۔تمہاری فلورل ہیٹ میں لگائے گئے پھولوں کا کنٹراسٹ غلط ہے۔آج میں سکھاؤں گی ،تم بھی سیکھ لینا۔ آج میں نے فلورل ہیٹ ہی کا تو اسٹال لگانا ہے۔‘‘اس کے انداز میں غرور نہیں تھا بالکل بھی نہیں۔ بس جب کوئی پھولوں سے متعلق کوئی بھی بات کرتا تو وہ اپنا پورا انسائیکلو پیڈیا کھول لیتی۔ یہ کہہ کر وہ گاڑی سے پھولوں کا ڈول نکالنے لگی جس میں طرح طرح کے پھول موجود تھے۔
’’اچھا بیٹا اب میں چلتا ہوں، خوب انجوائے کرنا اور ہاں! میں، تمہاری دادی ،ماما پاپا سب آئیں گے آج تمہاری پھولوں کی دکان دیکھنے۔‘‘دادا نے جاتے جاتے اسے کہا تھا۔
’’ویسے ایک بات تو بتاؤ ممتحنہ، تمہیں پھول اتنے زیادہ کیوں پسند ہیں؟‘‘ اب وہ دونوں سہیلیاں ممتحنہ کا اسٹال لگانے میں مصروف ہو گئیں۔
’’تم بتاؤ۔ ہمیں چاکلیٹ کیوں پسند ہے؟ نئے نئے کپڑے کیوں پسند ہیں؟ بارش کیوں پسند ہے؟‘‘ زارا کے ایک سوال پوچھنے پر ممتحنہ نے تین اور سوالات پوچھ لیے۔ اس کے سوالوں کا جواب ان تینوں سوالات کے جوابات میں ہی مخفی تھا۔
’’وہ…وہ اس لیے کیوں کہ چاکلیٹ ہمیں اچھی لگتی ہے، بارش اچھی لگتی ہے،کپڑے اچھے لگتے ہیں۔ اس لیے پسند ہے یہ سب۔‘‘ زارا کو اس کا جواب مل چکا تھا۔
’’ بس ؟مل گیا جواب؟ پھول مجھے اچھے لگتے ہیں اسی لیے پسند بھی ہیں۔ دادا کہتے ہیں کہ کسی چیز کو پسند کرنے کے لیے وجوہات نہیں ڈھونڈی جاتیں، بس اگر وہ ہمیں اچھی لگتی ہے تو اپنے آپ ہی پسند آجاتی ہے اور اگر کوئی چیز ایک بار ہمیں پسند آ گئی تو پھر ہم اس شے کا پوسٹ مارٹم کر کے اس کی تہ میں جا کر اس کی خامیاں تلاش کرنے نہیں بیٹھ جاتے۔‘‘ اور وہ ٹھہری چھوٹی عورت ، دادا کی ہر نصیحت کو اپنے ڈیڑھ فٹ کے دامن کے ساتھ کس کر باندھنے والی۔
’’تمہاری باتیں مجھے سمجھ نہیں آتیں۔ پر بہت اچھی بھی لگتی ہیں۔‘‘ زارا اس کی تعریف کیے بنا نہ رہ سکی۔
’’ تو بچو! کیا آپ تیار ہیں؟ فیسٹول شروع ہونے میں صرف پندرہ منٹ باقی ہیں۔ اپنے اپنے اسٹالز تیار رکھیں۔ آپ سب کے گھر والے بھی آنے ہی والے ہوں گے۔‘‘ وہ دونوں باتیں کرنے میں مصروف تھیں کہ اتنے میں ٹیچر نے آکر فائنل اناؤنسمنٹ کی۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

گھٹن — اعتزاز سلیم وصلی

Read Next

بس عشق ہو — کشاف اقبال (دوسرا اور آخری حصّہ)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!