امربیل — قسط نمبر ۱۱

علیزہ نے کہا اس سے پہلے کہ وہ اس سے کچھ اور کہتی اس نے ریسیور میں دور سے عمر کی آواز سنی۔
”تم میرے ساتھ چلو گے یا میں خود چلا جاؤں؟”
وہ چونک گئی۔
”اچھا علیزہ ! مجھے کچھ کام ہے، خدا حافظ۔”
عباس نے خاصی عجلت میں فون بند کر دیا۔
”عمر وہاں کیسے ہے، وہ تو واپس اپنے شہر چلا گیا تھا۔” وہ کچھ اور الجھ گئی۔
رات کے کھانے کے بعد وہ اپنے کمرے میں چلی آئی، کافی دیر تک اسے نیند نہیں آئی۔ وہ ایک کتاب پڑھتی رہی مگر اس کا ذہن بری طرح الجھا ہوا تھا۔ جب بہت دیر تک وہ سو نہیں پائی تو اس نے نیند کی ایک گولی لے لی۔
٭٭٭
اگلی صبح وہ نو بجے کے قریب بیدار ہوئی۔ ناشتہ کی میز پر نانو نے اس کا استقبال کیا، علیزہ کو خلاف معمول میز پر کوئی بھی نیو ز پیپرز نظر نہیں آیا۔
”نانو! نیوز پیپر کہاں ہیں؟” علیزہ نے اپنے لئے چائے کا کپ تیار کرتے ہوئے پوچھا۔
”یہیں تھے۔” نانو نے کہا۔ ”تم ناشتہ کرو، بعد میں دیکھ لینا۔”
اسی وقت فون کی گھنٹی بجی، نانو اٹھ کر فون کی طرف بڑھ گئیں۔ دوسری طرف شہلا تھی۔ نانو نے علیزہ کو بلایا۔
”تم نے آج کے اخبار دیکھے ہیں؟” شہلا نے اس کے لائن پر آتے ہی کہا۔
”نہیں۔ کیوں؟”
”تم فوراً دیکھو… فرنٹ پیج۔” علیزہ نے ریسیور رکھ دیا۔
”نانو! نیوز پیپر دکھائیں مجھے… کہاں ہیں؟” وہ نانو کے پاس آگئی۔
”تم ناشتہ۔۔۔” علیزہ نے ان کی بات کاٹ دی۔
”پلیز دکھائیں… آپ چھپا کیوں رہی ہیں؟”
”میرے بیڈ روم میں ہیں۔” نانو نے مدھم آواز میں کہا۔
وہ ان کا چہرہ دیکھتی ہوئی ان کے بیڈ روم میں چلی گئی۔




اس نے ایک اردو اخبار اٹھایا اور اس کا فرنٹ پیج کھول کر اس پر نظر دوڑانے لگی۔ شہلا اسے کیا بتانا چاہتی تھی۔ اسے دیر نہیں لگی۔ فرنٹ پیچ کے بائیں کونے میں ایک چار کالمی باکس کے اوپر چار تصویروں کے نیچے ایک پولیس مقابلے کی ہیڈ لائن لگی ہوئی تھی اور اس کے نیچے اس پولیس مقابلے کے بارے میں کچھ مزید خبریں تھیں۔ علیزہ کے ہاتھ کانپنے لگے، بلیک اینڈ وائٹ خون میں لت پت چار چہروں کی وہ تصویریں شاید وہ اس خبر کے بغیر کبھی نہ پہچان پاتی۔
“ماڈل ٹاؤن میں ڈکیتی کے بعد فرار ہونے والے چاروں ڈاکو پولیس مقابلے میں ہلاک۔”
وہ نانو کے بیڈ پر بیٹھ گئی۔ اس کے پیر بے جان ہو رہے تھے۔
”لاہور (نامہ نگار، پی پی آئی) اتوار کی رات ماڈل ٹاؤن ڈی بلاک میں ڈکیتی کی ایک ناکام واردات کے بعد فرار کی کوشش کرنے والے چاروں ڈاکوؤں کو پولیس نے تعاقب کے بعد ایک سخت مقابلے کے بعد ہلاک کر دیا۔ ملزمان کی فائرنگ سے دو پولیس کانسٹیبل بھی زخمی ہوئے۔ پولیس کی جوابی فائرنگ سے چاروں ملزمان ہلاک ہو گئے۔ تفصیلات کے مطابق اتوار کی رات کو رانا مظفر علی خان کے گھر چار ڈاکوؤں نے ڈاکہ ڈالنے کی کوشش کی۔ چوکیدار کو رسیوں سے باندھنے کے بعد ان ڈاکوؤں نے نچلی منزل میں موجود گھر کے تمام افراد کو گن پوائنٹ پر ایک کمرے میں بند کر دیا مگر اسی دوران صا حب خانہ کے ایک بیٹے نے جو دوسری منزل پر تھا موبائل پر پولیس کو اطلاع دے دی۔ جس پر ایس پی عباس حیدر کی فوری ہدایات پر انسپکٹر اختر کی قیادت میں ایک پولیس پارٹی نے موقع واردات پر پہنچنے کی کوشش کی پولیس کی گاڑیوں کے سائرن کی آواز سننے پر ملزمان نے پولیس کی گاڑی پر سیون ایم ایم کے ذریعے زبردست فائرنگ کی جس کے نتیجہ میں دو پولیس کانسٹیبل بری طرح زخمی ہوگئے، جن کی حالت نازک بتائی جاتی ہے۔ پولیس پارٹی کی طرف سے دفاع میں فائرنگ کرنے کی کوشش میں چاروں ملزمان شدید زخمی ہو گئے۔ جن میں سے دو موقع پر ہی ہلاک ہو گئے۔ جب کہ دو ہاسپٹل لے جاتے ہوئے زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جان بحق ہوئے۔
چاروں ملزمان تعلیم یافتہ اور با اثر خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ جن میں سے ایک ہائی کورٹ کے ایک جج کا بیٹا بتایا جاتا ہے۔ جب کہ ایک اور ملزم لاہور چیمبر آف کامرس کے ایک اہم عہدے دار کا بیٹا تھا۔ ایس پی عباس حیدر نے پولیس آپریشن میں شامل تمام پولیس والوں کی کارکردگی کو سراہتے ہوئے انہیں نقد انعامات اور محکمانہ ترقی دینے کا اعلان کیا ہے، ملزمان کی کار سے بھاری تعداد میں خود کار اسلحہ برآمد کیا گیا ہے۔ گاڑی کی نمبر پلیٹ بھی نقلی تھی۔ پولیس کے ذرائع کے مطابق ملزمان پہلے بھی اس علاقے میں ہونے والی کئی ڈکیتیوں میں ملوث رہے ہیں۔ مگر ہر بار فرار ہونے میں کامیاب ہو جاتے۔ اس علاقے میں ہونے والی کئی ڈکیتیوں میں واردات پر پائے جانے والے فنگر پرنٹس ملزمان کے فنگر پرنٹس سے مل گئے ہیں۔ پولیس نے گاڑی سے برآمد ہونے والا تمام مسروقہ مال اپنی تحویل میں لے لیا ہے جسے ضروری کارروائی کے بعد اصل مالکان کے حوالے کر دیا جائے گا۔”
اس ہیڈ لائن کے نیچے اس خبر کی تفصیلات کے بعد ایک اور دو کالمی ہیڈ لائن تھی۔ ”پولیس نے میرے بے گناہ بیٹے کو گھر سے اٹھا کر مار ڈالا۔” جسٹس نیاز نے پولیس مقابلے میں اپنے بیٹے کے مارے جانے پر شدید غم و غصے کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے اپنے ایک بیان میں ایس پی عباس حیدر کو اپنے معصوم بیٹے اور اس کے دوستوں کا قاتل قرار دیتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس پولیس مقابلہ کی انکوائری کروائیں۔ اور ایس پی عباس حیدر کو معطل کیا جائے۔ جسٹس نیاز کے بیان کے مطابق اتوار کو ان کا بیٹا گھر پر اپنے بیڈ روم میں سو رہا تھا۔ جب سادہ کپڑوں میں ملبوس کچھ پولیس والے ان کے گھر میں گھس آئے۔ انہوں نے انہیں ایک کمرے میں بند کر دیا اور ان کے بیٹے کو گن پوائنٹ پر باہر لے گئے۔ اہل خانہ کے شور مچانے پر کالونی کے چند دوسرے چوکیدار ان کے گھر آئے اور انہوں نے ان کے گھر پر موجود دونوں گارڈز کو رسیوں سے آزاد کیا اور پھر اہل خانہ کو بھی دروازہ کھول کر آزادی دلوائی۔ جسٹس نیاز کے مطابق انہوں نے اسی وقت لاہور کے ایس ایس پی امتنان صدیقی کو فون کے ذریعے اپنے بیٹے کے اغوا کی اطلاع دی، جس پر انہوں نے انہیں یقین دلایا کہ اسے بہت جلد برآمد کر لیا جائے گا۔ مگر چند گھنٹوں کے بعد انہیں ایک پولیس مقابلے میں ان کے بیٹے کی موت کی اطلاع دی گئی۔ جب ایس ایس پی امتنان صدیقی سے اس بار ے میں معلومات حاصل کرنے کے لئے رابطہ قائم کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ جسٹس نیاز کے فون کرنے سے پہلے ہی ان کا بیٹا ایک پولیس مقابلے میں مارا جا چکا تھا۔ مگر ابھی اس کی شناخت ہونا باقی تھی اس لئے انہوں نے جسٹس نیاز کو اطلاع نہیں دی۔ انہوں نے اخباری نمائندوں کو یہ بھی بتایا کہ جسٹس نیاز کے گھر پر تعینات گارڈز کے بیانات کے مطابق مقتول جلال اس وقت تک ابھی گھر پر نہیں آیا تھا اور نہ ہی انہوں نے ان لوگوں کو جلال کو لے جاتے دیکھا۔ جسٹس نیاز کے گھر پہنچنے والے گارڈز کا بیان تھا کہ اگرچہ جسٹس نیاز کے گھر کا بیرونی دروازہ کھلا ہوا تھا لیکن جس کمرے میں وہ سب تھے اس کمرے کا دروازہ لاکڈ نہیں تھا اور نہ ہی گھر میں کسی کوزبردستی لے جانے کے آثار نظر آرہے تھے۔ تاہم ایس ایس پی نے یقین دلایا کہ وہ جسٹس نیاز کی شکایت پر مکمل تحقیقات کروائیں گے۔
جسٹس نیاز کے علاوہ تینوں ملزمان کے لواحقین نے پولیس پر یہی الزام لگایا ہے کہ ان کے بیٹوں کو زبردستی گھر سے اٹھا کر جعلی پولیس مقابلہ میں مار دیا گیا، لیکن جس علاقے میں ڈکیتی کی کوشش کی گئی تھی، اس علاقے کے لوگوں اور گھر کے افراد نے پولیس کے بیانات کی تصدیق کرتے ہوئے پولیس کی بروقت کارروائی کو سراہا ہے۔ گھر کے مالک اور دوسرے افراد خانہ نے ان چاروں ملزمان کو شناخت کر لیا ہے۔
ایک اور یک کالمی خبر چاروں ملزمان کے پوسٹ مارٹم رپورٹ کے بارے میں تھی، جس میں ڈاکٹرز جو موت کا وقت بتایا تھا، وہ اس وقت سے پہلے تھا، جب جسٹس نیاز نے ایس ایس پی امتنان صدیقی کو فون کیا تھا۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق ملزمان کے جسم پر تشدد کے کوئی نشانات نہیں تھے اور ان کی موت بہت دور سے چلائی جانے والی رائفلز کی گولیوں سے ہوئی تھی۔ اخبار کی رپورٹ کے مطابق پنجاب کے چیف منسٹر نے جسٹس نیاز کی شکایت پر اس واقعہ کی تحقیقات کا حکم دے دیا ہے۔
وہ اخبار ہاتھ میں لئے بہت دیر تک بے حس و حرکت وہیں بیٹھی رہی۔
”ابھی ان چاروں کا کیا کریں گے؟” اسے اس رات عمر سے پوچھا جانے والا اپنا سوال یاد آیا۔
”کچھ نہیں…پولیس اسٹیشن لے جائے گا۔ ایف آئی آر کاٹے گا اور پھر بند کر دے گا۔”
”اس کے بعد کورٹ میں کیس چلے گا۔ سزا وغیرہ ہو جائے گی۔”
وہ بے یقینی سے اس رات ان دونوں کی گفتگو کے بارے میں سوچتی رہی۔
”تم علیزہ کو گھر لے جاؤ، علیزہ ! تم گھر جا کر آرام سے سو جاؤ۔ گھبرانے کی کوئی بات نہیں ہے۔” اسے عباس کی باتیں یاد آئیں۔ میں نے کیوں یہ نہیں جانا کہ وہ دونوں نہیں، وہ دونوں نہیں صرف عباس… ان چاروں کو اس وقت مارنے کے لئے اکٹھا کر رہا تھا ورنہ وہ مجھے فوری شناخت کے لئے ساتھ لئے لئے نہ پھرتا، اگلے دن کا انتظار کرتا پولیس مقابلہ… پولیس مقابلہ۔۔۔”
اس کا چہرہ پسینے میں بھیگنے لگا۔ وہ ان چاروں کے خون میں لتھڑے ہوئے چہروں پر دوبارہ نظر ڈالنے کی جرات نہیں کر سکی۔ غم و غصے اور بے یقینی کا ایک آتش فشاں جیسے اس کے اندر ابل پڑا تھا۔
”اتنی بے رحمی سے کوئی کسی کو کیسے مار سکتا ہے۔ اور اس طرح… اس طرح… عباس کو کوئی خوف نہیں آیا اس نے مجھے اور عمر دونوں کو اندھیرے میں رکھا۔” اس کا دماغ جیسے پھٹنے لگا تھا۔اخبار لئے وہ غصے کے عالم میں باہر لاؤنج میں آئی، اس نے شہلا سے بات کرنے کی بجائے لائن ڈس کنیکٹ کردی اور عباس کا نمبر ملانے لگی۔
”صاحب میٹنگ میں گئے ہوئے ہیں۔” دوسری طرف سے اسے اطلاع دی گئی۔ اس نے فون پٹخ دیا۔
نانو نے اس کے ہاتھ میں پکڑے ہوئے اخبار اور اس کے چہرے کے تاثرات سے اندازہ لگا لیا تھا کہ وہ عباس سے بات کیوں کرنا چاہتی تھی، لیکن اس کے باوجود انہوں نے علیزہ کو مخاطب کیا۔
”کیا ہوا علیزہ…؟ عباس سے کیا بات کرنی ہے؟”
علیزہ نے وہ اخبار ٹیبل پر پٹخ دیا۔ He is a murderer” آپ دیکھیں نانو! اس نے کس طرح ان چاروں کو قتل کروایا ہے۔ چار لوگوں کو… میرے خدا …میرے سامنے اس نے ان میں سے دو کو ان کے گھروں سے اٹھوایا تھا… اور وہ چاروں پولیس کسٹڈی میں زندہ تھے اور وہ کہتا ہے پولیس مقابلے میں مر گئے۔” ا س کا چہرہ غصے سے سرخ ہو رہا تھا۔
نانو اس کی بات کے جواب میں کچھ کہنے کے بجائے صرف خاموشی سے اسے دیکھتی رہیں۔ وہ اب دونوں ہاتھوں سے اپنا سر پکڑے صوفہ پر بیٹھی ہوئی تھی۔ اس کے چہرے پر غصہ اور بے بسی نمایاں تھی۔
”مرید بابا! پانی لے کر آئیں۔” نانو نے بلند آواز میں خانساماں کو پکارا۔
”مجھے پانی کی ضرورت نہیں ہے نانو۔” علیزہ نے یک دم سر اٹھا کر انہیں دیکھا ، اس کا چہرہ اب بھی سرخ تھا۔ وہ اٹھ کر کھڑی ہو گئی تھی۔
”نہ انکل ایاز کے نزدیک انسانی زندگی کی کوئی اہمیت تھی نہ ان کے بیٹے کے نزدیک۔” وہ بے چینی سے لاؤنج میں ٹہل رہی تھی۔
”آپ کو شہباز منیر یاد ہے نا… انکل ایاز نے اسے بھی اسی طرح ختم کروا دیا تھا، عمر ٹھیک کہتا تھا وہ بالکل ٹھیک کہتا تھا۔” اس کا اشتعال اب بڑھتا جا رہا تھا، مجھے… مجھے سمجھ لینا چاہئے تھا کہ وہ … آپ نے کیوں عباس کو مدد کے لئے بلوایا؟” وہ یک دم چلائی۔
”تو اور کس کو بلاتی؟ فوری طور پر اور کون آسکتا تھا؟” نانو نے کچھ روکھے انداز میں کہا۔
”یہ سب میری وجہ سے ہوا ہے… سب میری وجہ سے۔” وہ ایک بار پھر کمرے کے چکر کاٹنے لگی۔
”اس طرح کمرے میں پھرنے سے کیا ہو گا؟” نانو نے اسے ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی۔ ”تم آرام سے بیٹھ جاؤ۔”
”نانو! میں… میں آرام سے کیسے بیٹھ جاؤں؟… چار انسانوں کا خون اپنے سر لے کر میں آرام سے بیٹھ جاؤں… آپ کیسی باتیں کرتی ہیں؟”
”تم نے ان چار انسانوں کو قتل نہیں کیا، اس لئے تمہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔”
”ہاں، میں نے قتل نہیں کیا، مگر وہ میری وجہ سے قتل ہوئے ہیں۔”
”وہ تمہاری وجہ سے قتل نہیں ہوئے۔ اپنی حرکتوں کی وجہ سے ہوئے ہیں۔ نہ وہ اس طرح کی حرکت کرتے نہ یوں مارے جاتے۔” نانو نے سنجیدگی سے کہا۔
وہ چلتے چلتے رک گئی۔ ”نانو ! یہ آپ کہہ رہی ہیں؟”
”ہاں، میں کہہ رہی ہوں۔ عباس نے جو کیا ٹھیک کیا۔”
وہ بے یقینی سے ان کا چہرہ دیکھتی رہ گئی۔
”مجھے یقین نہیں آرہا نانو! کہ میں یہ سب کچھ آپ کے منہ سے سن رہی ہوں۔”
”تمہیں اس بارے میں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے، یہ گھر کے مردوں کے ہینڈل کرنے کے معاملات ہوتے ہیں اور انہوں نے جس طرح بہتر سمجھا اس معاملے کو ہینڈل کیا۔” نانو نے سپاٹ لہجے میں کہا۔
”اور مردوں کی اس ہینڈلنگ نے چار انسانوں کو زندگی سے محروم کر دیا۔ آپ تو بہت سوشل ورک کرتی رہی ہیں نانو! کیا آپ یہ چھوٹی سی بات نہیں سمجھ سکتیں کہ۔۔۔”
نانو نے اس بار کچھ غصے کے عالم میں اس کی بات کاٹ دی۔
”تم جو چاہے کہو۔ مجھے مرنے والوں سے کوئی ہمدردی نہیں ہے وہ چند گھنٹے جو میں نے پرسوں رات تمہارے انتظار میں گزارے تھے۔ ان کی تکلیف بھی کسی قتل سے کم نہیں تھی… یہ چاروں بے گناہ تو نہیں مارے گئے۔”
”مگر ان کے جرم کی سزا کم از کم میرے نزدیک موت نہیں تھی… اور پھر اس طرح کی مو ت کہ چار انسانوں کو کسی ٹرائل کے بغیر اٹھا کر مار دیا جائے۔” وہ نانو کی جذباتیت سے متاثر ہوئے بغیر بولی۔ ”یہ پولیس اسٹیٹ تو نہیں ہے جہاں کسی کو بھی پکڑ کر اس کے جرم کی سنگینی اور نوعیت کا اندازہ کئے بغیر شوٹ کر دیا جائے۔”




Loading

Read Previous

امربیل — قسط نمبر ۹

Read Next

امربیل — قسط نمبر ۱۲

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!