امربیل — قسط نمبر ۱۱

”آپ مجھے کہہ رہے ہیں کہ میں بات سنوں… میں صبر و تحمل کا مظاہرہ کروں۔ ” جسٹس نیاز ان کی بات پر اور مشتعل ہوئے۔ ”میرا جو ان اور معصوم بیٹا اس نے مار دیا ہے اور آپ کہہ رہے ہیں کہ میں چلاؤں بھی نہ ۔ ” جسٹس نیاز نے عباس کو گالی دیتے ہوئے کہا۔ چند لمحوں کے لئے عباس کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔
”سر! گالی نہ دیں… گالی کے بغیر بات کریں، میں آپ کی بہت عزت کرتا ہوں لیکن گالیاں کھانے کے لئے ہم لوگ یہاں نہیں آئے ہیں۔” ایاز حیدر نے یک دم جسٹس نیاز کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔
”تم میرے پورے خاندان کو پریس کے ذریعے اسکینڈلائز کر رہے ہو… میرے بیٹے کو گھر سے اٹھا کر تمہارے بیٹے نے جعلی پولیس مقابلے میں مار دیا اور میں تمہارے بیٹے کو گالی تک نہیں دے سکتا۔”
”جو کچھ ہوا مجھے اور عباس کو اس پر افسوس ہے… مگر جو کچھ آپ کے بیٹے نے کیا وہ بھی۔۔۔”
جسٹس نیاز نے غصے کے عالم میں ایاز حیدر کی بات کاٹ دی۔ ”کیا کیا میرے بیٹے نے… بولو کیا کیا تھا میرے بیٹے نے؟”
”میں آپ کو بتا چکا ہوں، آپ کے بیٹے نے کیا کیا تھا۔”
”تم بکواس کرتے ہو… جھوٹ بولتے ہو۔”
”مجھے نہ بکواس کرنے کی ضرورت ہے نہ جھوٹ بولنے کی… جب انسان کے پاس ثبوت اور حقائق ہوں تو اسے یہ دونوں کام نہیں کرنا پڑتے۔”
”تم اور تمہارے ثبوت اور حقائق … میں بے وقوف نہیں ہوں۔”
”آپ کی اس چیخ و پکار سے تو آپ کی کوئی عقلمندی نہیں جھلک رہی۔” ایاز حیدر نے دو بدو کہا۔
”میرے بیٹے نے گھر آنے کے بعد مجھے سب کچھ بتایا تھا۔ اس نے مجھے کہا تھا اس نے ایک لڑکی کا صرف تعاقب کیا تھا اپنے چند دوستوں کے ساتھ… جسٹ فار انجوائے منٹ… اور اس نے اسے کوئی نقصان نہیں پہنچایا۔”
”آپ کے بیٹے نے آپ سے جھوٹ بولا تھا۔” ایاز حیدر نے پر سکون انداز میں کہا۔
”نہیں… اس نے مجھ سے کوئی جھوٹ نہیں بولا۔ مجھے اس کے ایک ایک لفظ پر اعتبار ہے۔” جسٹس نیاز نے اپنی پر زور دیتے ہوئے کہا۔
”بہتر ہے، آپ اس کے لفظوں کے بجائے حقائق پر اعتبار کرنا سیکھیں۔ ” ایاز حیدر نے اسی پر سکون انداز میں کہا۔
”آپ کا بیٹا جس کردار کا مالک تھا… آپ وہ۔۔۔”




جسٹس نیاز نے بلند آواز میں ایاز حیدر کی باٹ کاٹ دی۔ ”میرے بیٹے کے کردار کے بارے میں بکواس کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں اسے اچھی طرح جانتا ہوں۔ LUMSمیں پڑھ رہا تھا میرا بیٹا… اپنے Batch کا سب سے آؤٹ اسٹینڈنگ اسٹوڈنٹ تھا اور تم اس پر اس طرح کے تھرڈ کلاس الزامات لگا رہے ہو۔” ان کی آواز غصے سے جیسے پھٹ رہی تھی۔
LUMS “کی ڈگری آپ کے بیٹے کا کریکٹر سر ٹیفکیٹ نہیں ہے۔ وہ اگر ہسٹری شیٹر نہیں بنا تو اس کی وجہ آپ کا عہدہ تھا۔ ورنہ لاہور کی ساری پولیس کو اس کے اور اس کے دوستوں کے بارے میں بہت کچھ پتا ہے۔” اس بار ایاز حیدر کی آواز بھی بلند تھی۔
”آپ کو اپنے بیٹے کی موت کی بہت تکلیف ہے اور مجھے اپنی بھانجی کی بے عزتی کا کوئی دکھ نہیں ہونا چاہئے۔”
”میرے بیٹے نے تمہاری بھانجی کی کوئی بے عزتی نہیں کی اس نے صرف اس کا تعاقب کیا۔”
”Your son raped my niece.” ایاز حیدر نے اس بار سرخ چہرے کے ساتھ کہا۔
٭٭٭
”علیزہ! بھوربن چلو گی میرے ساتھ؟” اس شام سجیلہ آنٹی نے ڈنر ٹیبل پر اچانک اس سے کہا۔
ایاز حیدر کسی ڈنرپر انوائیٹڈ تھے اور کافی دنوں کے بعد خلافِ معمول سجیلہ آنٹی اس کے ساتھ گھر پر ہی ڈنر کر رہی تھیں۔
”بھوربن کس لئے؟” علیزہ کو حیرت ہوئی۔
”دو میوزیکل ایوننگز ہیں وہاں پر… اسد امانت علی خان اور طاہرہ سید کے ساتھ۔”
”کس لیے؟”
”فنڈ ریزنگ کر رہے ہیں ہم ایس او ایس ویلج کے لئے ۔” انہوں نے کباب کے ٹکڑے کرتے ہوئے کہا۔
”تو یہاں اسلام آباد میں ہی کر لیتے۔ وہاں بھوربن جانے کی کیا ضرورت ہے۔” علیزہ نے کہا۔
”جسٹ فار اے چینج… آج کل وہاں کا موسم بہت خوشگوار ہے۔ ویمن کلب کے ممبرز کا اصرار تھا کہ یہ فنکشن وہیں ارینج کیا جائے۔” انہوں نے تفصیل بتاتے ہوئے کہا۔ دو دن کے لئے اچھی آؤٹنگ رہے گی۔ تمہیں تو ویسے بھی میوزک سے خاصی دلچسپی ہے۔” انہوں نے کہا۔
”انکل بھی جا رہے ہیں؟” علیزہ نے پوچھا۔
”ایاز؟ نہیں وہ کہاں جا رہا ہے… ایک دن کی ہوتی تو شاید اس کا موڈ بن بھی جاتا مگر دو دن کے لئے وہاں رکنا تو خاصا مشکل ہو جائے گا، اس کے لئے۔”
”ٹھیک ہے، میں چلوں گی۔” علیزہ نے کچھ سوچتے ہوئے ۔ ” جانا کب ہے؟”
”اگلے ویک اینڈ پر۔” انہوں نے گلاس میں پانی انڈیلتے ہوئے کہا۔
”اگلے ویک اینڈ پر تو میں واپس جانا چاہتی ہوں۔”
”کیوں؟”سجیلہ نے کچھ چونک کر کہا۔ ”ایاز نے تو تمہارے واپس جانے کے بارے میں کوئی بات نہیں کی۔ نہ ہی عباس نے اس سلسلے میں کچھ کہا ہے۔”
”تم بور ہو رہی ہو یہاں پر؟” سجیلہ نے اچانک پوچھا۔
”نہیں، بور تو نہیں ہو رہی… مگر میں اب واپس جا کر کچھ کرنا چاہتی ہوں… رزلٹ کا انتظار تھا مجھے اور اب تو وہ بھی آچکا ہے… ویسے بھی میں نانو کو خاصا مس کر رہی ہوں۔”
”کیا کرنا چاہتی ہو تم واپس جا کر؟” سجیلہ نے دلچسپی لیتے ہوئے پوچھا۔
”کسی نیوز پیپر کو جوائن کروں گی یا پھر… کسی این جی او کو… ان ہی دو چیزوں میں دلچسپی ہے مجھے۔” اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”ایک تیسری چیز بھی تو ہے۔ اس میں بھی دلچسپی لے سکتی ہو تم۔” انہوں نے اپنی پلیٹ میں چاول نکالتے ہوئے کہا۔
”ایسی کون سی چیز ہے؟” علیزہ کو اچانک دلچسپی محسوس ہونے لگی۔
”شادی!”
علیزہ جواب میں کچھ کہنے کے بجائے ہولے سے مسکرائی اور اپنی پلیٹ میں سویٹ ڈش نکالنے لگی۔
”کیوں تمہیں دلچسپی محسوس نہیں ہوئی؟” سجیلہ نے اس کے چہرے کو غور سے دیکھتے ہوئے کہا۔
”نہیں۔” اس نے یک لفظی جواب دیا۔
”حالانکہ ہونی چاہئے۔” سجیلہ نے دو ٹوک انداز میں کہا۔ علیزہ نے اس بار بھی کچھ نہیں کہا۔ وہ ایک بار پھر صرف مسکرا کر رہ گئی۔
”علیزہ! اگر تم اسے بہت پرسنل نہ سمجھو تو ایک پوچھوں؟” سجیلہ نے اچانک اس سے کہا۔
”ضرور۔۔۔” علیزہ نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا۔
”تم کسی میں انٹرسٹڈ ہو؟”
علیزہ کی سمجھ میں نہیں آیا وہ اس سوال کا کیا جواب دے ، سامنے پڑی ہوئی سویٹ ڈش یک دم اپنی مٹھاس کھونے لگی۔
”میرا مطلب ہے، کسی کے لئے کوئی پسندیدگی … جس کے ساتھ شادی وادی کرنا چاہ رہی ہو تم؟” علیزہ کی آنکھوں کے سامنے ایک ہی چہرہ جھما کے کے ساتھ ابھرا۔ ایک گہرا سانس لے کر اس نے سجیلہ کو دیکھا۔
”نہیں… مجھے کسی میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔” اس نے ہاتھ میں پکڑا ہوا چمچہ آہستگی سے واپس پلیٹ میں رکھ دیا۔
”کیوں؟” سجیلہ کی مسکراہٹ کچھ گہری ہو گئی۔
”پتا نہیں۔” علیزہ اس بار مسکرا نہیں سکی۔
”بڑی حیرت کی بات ہے… مجھے لگتا ہے… ممی نے تمہیں ضرورت سے کچھ زیادہ ہی دباؤ میں رکھا ہوا ہے۔” ان کا اشارہ نانو کی طرف تھا۔
”نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے… نانو نے مجھ پر ایسی کوئی پابندی نہیں لگائی۔ وہ بہت لبرل ہیں۔” علیزہ نے نانو کا دفاع کرنے کی کوشش کی۔
”اسی لئے تو مجھے حیرت ہو رہی ہے… بہرحال تم نے اس بارے میں سوچا کیا ہے۔ تعلیم تو مکمل ہو ہی گئی ہے تمہاری۔” وہ اب سویٹ ڈش نکال رہی تھیں۔ علیزہ سویٹ ڈش کھانا بند کر چکی تھی۔
”نہیں، میں فی الحال شادی نہیں کرنا چاہتی… مجھے کسی نہ کسی فیلڈ میں اپنا کیرئیر بنا نا ہے۔”
”کیریئر کا کیا ہے، وہ تو ساتھ ساتھ چل سکتا ہے… جرنلزم ہو یا سوشل ورک دونوں اتنے Time Consuming (وقت طلب) تو نہیں ہیں کہ بندہ ان کے ساتھ ساتھ شادی کا سوچ ہی نہ سکے۔ تمہارا کیا خیال ہے؟”
”میں کیا کہہ سکتی ہوں۔” وہ بمشکل مسکرائی۔
”یہ تمہاری زندگی کا معاملہ ہے، تمہارے علاوہ کوئی اور اس کے بارے میں کیا کہہ سکتا ہے۔ بہرحال اس مسئلے پر دوبارہ کبھی بات کریں گے… ابھی تو میں تمہیں یہ کہنا چاہ رہی ہوں کہ تم ایک دو ہفتے کے لئے اپنا قیام یہاں بڑھاؤ… اگلے ویک اینڈ پر میرے ساتھ بھوربن چلو… تم یقیناً انجوائے کرو گی۔” وہ اب نیپکن سے اپنا منہ پونچھتے ہوئے کہہ رہی تھی۔
”وہاں پر بہت سی این جی اوز کے لوگ بھی ہوں گے۔ جرنلسٹ بھی ہوں گے۔ تمہارے لئے انٹر ایکشن کا خاصا اچھا موقع ہے۔” وہ کہہ رہی تھیں۔ علیزہ صرف سر ہلا کر رہ گئی۔
سجیلہ ایاز کھانا ختم کرکے ٹیبل سے اٹھ گئیں لیکن علیزہ وہیں بیٹھی رہی… بہت دنوں کے بعد اسے ایک بار پھر عمر یاد آرہا تھا۔ اسے علیزہ سے رابطہ کئے بہت دن ہو گئے تھے۔ وہ جانتی تھی وہ واپس اپنے شہر چلا گیاہو گا اورشاید اپنے کاموں میں بری طرح پھنسا ہو گا… یا پھر شاید اس کے پاس کچھ اور ”مصروفیات ” ہوں گی۔
اس کی چند لمحے پہلے کی بے فکری اچانک ختم ہو گئی۔ وہ بہت عجیب سے احساس سے دوچار ہورہی تھی۔ ڈنر ٹیبل سے اٹھتے ہوئے وہ جانتی تھی کہ وہ آج رات پر سکون نیند نہیں سوئے گی۔
لاؤنج سے نکلتے ہوئے اس کی نظر اچانک فون پر پڑی۔ لاشعوری طور پر وہ اپنے کمرے کی طرف جاتے جاتے واپس پلٹ آئی۔ فون کے پاس آکر ریسیور اٹھاتے ہوئے اس نے میکانکی انداز میں عمر کے موبائل کا نمبرڈائل کیا۔ موبائل خلافِ معمول آف نہیں تھا۔ پہلی بیپ کے ساتھ ہی اسے دوسری طرف عمر کی آواز سنائی دی۔
”ہیلو” اس نے کچھ کہنے کے لئے منہ کھولا لیکن کچھ کہنے سے پہلے ہی اس کی آواز حلق میں دم توڑ گئی۔ اس نے ریسیور میں عمر کی آواز کے علاوہ ایک اور آواز بھی سنی تھی۔ شستہ انگلش میں اس نسوانی آواز نے عمر سے صرف ایک جملہ کہا تھا۔ دوبارہ وہ آواز سنائی نہیں دی… وہ ایک جملے کے بجائے ایک لفظ بھی بولتی تو علیزہ کو اس آواز کو شناخت کرنے میں کوئی دقت نہ ہوتی۔
”ہیلو کون بول رہا ہے؟” عمر اب ایک بار پھر کہہ رہا تھا۔ علیزہ نے کچھ کہے بغیر ریسیور نیچے رکھ دیا۔
اس سے پہلے کہ وہ صوفہ سے اٹھتی، فون کی گھنٹی بجنے لگی، CLIپر موجود نمبر عمر کا تھا۔ علیزہ نے بے اختیار آنکھیں بند کرلیں۔
عمر کی ہر حرکت ریفلیکس ایکشن کی طرح بے اختیار اور تیز تھی… وہ کبھی بھی اس سے چھپ نہیں سکتی تھی۔
”اس نے یقیناً اپنے موبائل پر ایاز حیدر کا نمبر پہچان لیا ہو گا اور اسے توقع ہو گی کہ یہ کال میں نے ہی کی تھی۔”
علیزہ نے ریسیور اٹھا کر کریڈل سے نیچے رکھ دیا۔ وہ اس ذہنی کیفیت کے ساتھ عمر سے بات نہیں کرنا چاہتی تھی۔ چند منٹ وہیں بیٹھے رہنے کے بعد اس نے ریسیور واپس کریڈل پر رکھ دیا۔
لاؤنج سے نکلتے ہوئے اس نے ملازم کو ہدایت دی۔ ”ظہیر ! اگر عمر کا فون ہو تو ان سے کہہ دینا کہ میں بہت دیر پہلے سو گئی تھی… میری ان سے بات مت کروانا۔”
اس نے ملازم کی حیرت کو نظر اندا زکرتے ہوئے کہا۔
اپنے کمرے میں پہنچ کر وہ سیدھا بیڈ کی طرف جانے کے بجائے کھڑکی کی طرف بڑھ گئی۔ کھڑکی کے پردے ہٹا کر وہ باہر لان میں دیکھنے لگی۔ جہاں اکا دکا جلنے والی روشنیاں اسے مکمل تاریکی سے بچا رہی تھیں۔
”Umer! I’ll be back in a minute.”
ریسیور پر سنی جانے والی آواز ایک بار پھر اس کی سماعتوں میں گونج رہی تھی۔ اسے باہر موجود ساری تاریکی اپنے اندر اترتی محسوس ہونے لگی۔
”عمر کے بارے میں میرا ہر اندازہ ہمیشہ غلط کیوں ہوتا ہے؟… کیا میں ہمیشہ اتنی ہی بے وقوف رہوں گی یا پھر شاید۔۔۔” وہ مایوسی سے اپنے ہونٹ کاٹنے لگی۔
”میرا خیال تھا جوڈتھ اس کی زندگی سے نکل چکی ہے… مگر وہ ایک بار پھر آگئی ہے یا پھر وہ شاید کبھی کہیں گئی ہی نہیں۔” اس کی آنکھوں میں نمی اترنے لگی۔
٭٭٭




Loading

Read Previous

امربیل — قسط نمبر ۹

Read Next

امربیل — قسط نمبر ۱۲

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!